بنت حوا ہوں میں عورت ہے مرا اسم شریف
ہے یہ پہچان مری اور یہی ہے تعریف
مجھ کو ہے فخر کہ اس قوم سے نسبت ہے مری
فاطمہؓ مریم و سیتا سی ہیں رہبر جس کی
میں بھی اشرف ہوں نگاہوں میں خدا کی میرے
میری تو گود میں کھیلے ہیں مسیحا کتنے
کتنے ولیوں نے مرے ہاتھ کی روٹی کھائی
کتنے شاہوں نے مرے پاؤں میں جنت پائی
میں ہی پتھر کے مکانوں کو بناتی گھر ہوں
میں ہی دنیائے محبت کا حسیں محور ہوں
میرے اوصاف گنانے کو یہ کاغذ کم ہیں
صنف نازک ہوں مگر روح مری رستم ہے
میں نے جذبوں کا تصدق و بھرم رکھا ہے
میری ہی ذات سے منسوب ہر اک رشتہ ہے
ماں بہن ہوں کبھی بیوی تو کبھی بیٹی ہوں
کوئی کردار ہو مردوں سے وفا کرتی ہوں
ہاں مگر شرط وفا یہ ہے کہ پاؤں بھی وفا
میں بھی انسان ہوں کمتر نہیں رتبہ میرا
اور رشتوں سے الگ بھی ہے مری اک ہستی
جو فقط گھر میں ہی محدود نہیں رہ سکتی
غنچہ و گل سے بھی کب چاہیے تشبیہ مجھے
حسن سیرت سے مرے دیجیے ترجیح مجھے
میری زلفوں مرے کاجل کی نہ باتیں کریے
کچھ مرے ذوق و ذہانت کو بھی اچھا کہیے
حیثیت ہو نہیں سکتی نظر انداز مری
روک سکتا نہیں اب کوئی بھی پرواز مری
آسماں کیا ہے خلا تک ہے رسائی میری
عزم دے سکتا ہے خود بڑھ کے گواہی میری
بے نظیر اندرا اور کلپنا اور ہیر ہوں میں
اپنے ہر خواب کی اب جاگتی تعبیر ہوں میں
میرا ہرگز نہیں کہنا مجھے برتر سمجھیں
مرد حضرات مجھے صرف برابر سمجھیں
میں چلوں شانہ بہ شانہ تو برا مت مانیں
میری حرمت میری عظمت کو ذرا پہچانیں
بنت حوا ہوں حناؔ بات بڑی ہے میری
نام عورت ہے مرا ذات بڑی ہے میری