اسلام سے پہلے دنیا نے جتنی بھی ترقی کی ہے اس میں صرف مرد کا حصہ ہے عورت کا کہیں بھی کوئی کردار نہیں لیکن اسلام آیا تو اس نے دونوں صنفوں کی کوششوں کو وسائل ترقی میں شامل کر لیا۔ اسلام نے جو عزت اور مقام عورت کو عطا کیا ہے اُس کی مثال نہ تو قومی تاریخ میں ملتی ہے اور نہ ہی دنیا کی مذہبی تاریخ میں۔ اسلام نے صرف عورت کے حقوق ہی نہیں مقرر کئے بلکہ ان کو مردوں کے برابر درجہ دے کر مکمل انسانیت قرار دیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ عورت چاہے ماں، بہن، بیوی اور بیٹی ہر روپ میں قدرت کا قیمتی تحفہ ہے جس کے بغیر کائناتِ انسانی کی ہرشے پھیکی اور ماند ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مرد کو اس کا محافظ اور سائبان بنایا ہے ۔ عورت اپنی ذات میں ایک تناوردرخت کی ما نند ہے جو ہر قسم کے سردوگرم حالات کا دلیری سے مقابلہ کرتی ہے۔ ا سی عزم وہمت، حوصلہ اور استقامت کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ نے جنت کو اس کے قدموں تلے بچھا دیا۔ عورت ہی وہ ذات ہے جس کے وجود سے کم و بیش ایک لا کھ 24 ہزار انبیائے کرام علیھم السلام نے جنم لیا اور انسانیت کے لئے رشد وہدایت کا پیغام لے کر آئے ۔ حضرت حوا علیہا السلام سے اسلام کے ظہور تک کئی نامور خواتین کا ذکر قرآن و حدیث اور تاریخ اسلامی میں موجود ہے جن میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ازواج حضرت سارہؑ، حضرت ہاجرہؑ، فرعون کی بیوی آسیہ، حضرت ام موسیٰ، حضرت مریم، ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبریؓ، ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ، ام المومنین حضرت ام سلمہؓ، سیدۂ کائنات حضرت فاطمہؓ، حضرت سمیہؓ، اور دیگر کئی خواتین ہیں جن کے کارناموں سے تاریخ کے اوراق بھرے پڑے ہیں۔
تاریخ اسلام خواتین کی قربانیوں اور خدمات کا ذکر کئے بغیر نا مکمل رہتی ہے۔ اسلام کی دعوت وتبلیغ میں مردوں کے ساتھ عورتوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اسلام کی ابتدائی تاریخ میں مسلم خواتین کا جو کردا ر رہا وہ آج ساری دنیا کی خواتین کے لئے ایک واضح سبق بھی ہے۔ اسلام کو سب سے پہلے قبول کرنے کی سعادت حاصل کرنیوالی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی راز دار، ہمسفر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی ذات گرامی ہے۔ حضرت خدیجہؓ نے نہ صرف سب سے پہلے اسلام قبول کیا بلکہ سب سے پہلے عمل کیا اور اپنی پوری زندگی جان و مال سب کچھ دین اسلام کے لئے وقف کر دیا۔ حضرت خدیجہؓ نے 3 سال شعب ابی طالب میں محصوررہ کر تکالیف اور مصائب برداشت کئے اور جب 3 سال کے بعد مقاطعہ ختم ہوا تو آپؓ اس قدر بیمار اور کمزور ہو گئیں کہ اسی بیماری کے عالم میں خالق حقیقی سے جا ملیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج میں ایک ایسی خاتون بھی ہیں جن کو یہ شرف حاصل ہے کہ ان سے صحابیات تو درکنار صحابہ کرام نے بھی علم حدیث حاصل کیا۔ وہ خوش نصیب حضرت عائشہؓ ہیں۔ حضرت عائشہؓ کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج میں منفرد مقام حاصل ہے۔ آپؓ اپنے ہم عصرصحابہ کرام اور صحابیاتِ عظامؓ میں سب سے زیادہ ذہین تھیں ۔ اسی ذہانت و فطانت اورو سعتِ علمی کی بنیادپر منفرد مقام رکھتی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میرا آدھا دین عائشہؓ کی وجہ سے محفوظ ہو گا۔ 8 ہزار صحابہ کرام رضوان علیہم اجمعین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے شاگرد ہیں۔
خاتون جنت، سردارانِ جنت کی ماں اور دونوں عالم کے سردار کی بیٹی حضرت فاطمہؓ کی زندگی بھی بے مثال ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چہیتی بیٹی حضرت فاطمہ ؓ ایک عظیم اور ہمہ گیر کردار کی مالکہ تھیں جو ایک بیٹی کے روپ میں، ایک ماں کی شکل میں اور ایک بیوی کے کردار میں قیامت تک آنے والی خواتین کیلئے نمونۂ حیا ت ہیں جنہوں نے اپنے عظیم باپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کا حق ادا کرتے ہوئے بچپن میں سرداران قریش کے ظلم و ستم کا بڑی جرأت مندی، شجاعت، ہمت اور متانت سے سامنا کیا۔ حضرت فاطمہؓ چھوٹی تھیں۔ ایک دن جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحن کعبہ میں عبادت الٰہی میں مشغول تھے کہ ابوجہل کے اشارہ پر عقبہ بن ابی معیط نے مذبوحہ اونٹ کی اوجھڑی کو سجدہ کے دوران آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گردن پر رکھ دیا، حضرت فاطمہؓ دوڑتی ہوئی پہنچیں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اذیت وتکلیف کو دور کیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا نہایت بہادر اور نڈر خاتون تھیں۔ آپ دوران جنگ بے خوف وخطر ہوکر زخمیوں کو میدان جنگ سے باہر لاتیں اور ان کی مرہم پٹی کرتی تھیں ۔ انہوں نے غزوہ خندق کے موقع پر نہایت بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے جب دوران جنگ ایک یہودی مسلمان خواتین پر حملہ آور ہوا تو آپؓ نے اس پرزوردار وار کیا جس سے اس کا کام تمام ہو گیا۔
حضرت ام عمارہؓ مشہور صحابیہ تھیں۔ انہوں نے غزوہ احد میں جبکہ کفار مکہ نے یہ افواہ پھیلا دی کہ نعوذ باللہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شہید ہو گئے ہیں ایسی انتہائی نازک حالت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دفاع کیا اور شمشیر زنی کا ناقابل فراموش مظاہرہ کیا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زوجہ محترمہ حضرت حاجرہؑ کا تذکرہ کرنا نہایت ہی اہم ہوگا ۔ حضرت ابراہیم ؑ نے جب مکہ کی بے آب وگیاہ بنجر زمین میں حضرت حاجرہ کو چھوڑ دیا تو حضرت ہاجرہ ہی ہیں جو اللہ تعالیٰ اور اپنے خاوند کے حکم کی تعمیل میں حضرت اسماعیل ؑ کے لئے پانی کی تلاش میں دیوانہ وار صفا اور مروہ کے درمیان دوڑیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس عمل کی تقلید قیامت تک کیلئے تمام مردوں اور عورتوں پر لازم کر دی۔ ان پاکیزہ خواتین کے تذکرے کا مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ آج کی خواتین اِن محترم ہستیوں کی زندگی کو اپنا آئیڈیل بنائیں اور اپنے اندر خود اعتمادی پیدا کریں۔
معاشرے کی بلندی اور زوال میں سب سے نمایاں کردار ایک عورت کا ہوتا ہے۔ کسی مفکر نے کیا ہی بہترین عکاسی کی ہے کہ ’’ایک پڑھے لکھے معاشرے کی بنیاد تعلیم یافتہ اور بااخلاق عورت ہوتی ہے۔‘‘ صحابیاتؓ اس کی اعلیٰ مثال ہیں۔ آپؓ کی جرأت، بہادری اور ایمان بے مثال ہے۔ آج معاشرے کی تبدیلی تبھی ممکن ہے جب ہم ان صحابیاتؓ کے نقش قدم پر چلیں ان جیسی خصوصیات اپنے اندر پیدا کرنے کی حتی الامکان کوشش کریں۔
یہ کہاوت عام ہے کہ مرد اگر دیندار ہو تو دین گھر تک پہنچ جاتا ہے اور اگر عورت دیندار ہو تو دین نسلوں تک پہنچ جاتا ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ایک عورت ایک پایۂ دار معاشرے کو تشکیل دے سکتی ہے اور اس کے لئے سب سے اہم اور ضروری حصہ ہے اولاد کی صحیح تربیت ہے
معاشرے کی فلاح و بہبود میں خواتین کا کردار بنیادی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ معاشرہ افراد سے بنتا ہے اور فرد کی اصلاح ایک مسلسل عمل کی متقاضی ہے، کیونکہ افراد کا تشکیل پذیر معاشرہ بھی افراد ہی کی طرح ہمیشہ اصلاح کا طلبگار رہتا ہے، بالخصوص موجودہ دور میں معاشرے میں اعلیٰ اقدار زوال پذیر ہوتی جا رہی ہیں۔ اچھائیوں کا تناسب روز بہ روز کم اور برائیاں بڑھ رہی ہیں، لہٰذا معاشرے میں اصلاح کی ضرورت پہلے کے مقابلے آج کچھ زیادہ ہی ہے۔ معاشرے کی بنیادی اکائی گھر اور خاندان ہے۔ گھروں کا ماحول پاکیزہ اور اعلیٰ اقدار کا حامل ہو گا تو معاشرے کی ہر اکائی خود بخود بہتر ہو جائے گی، اس طرح ایک مثالی معاشرہ وجود میں آئے گا۔ اصلاحِ معاشرہ میں خواتین کے کردار پر قلم اٹھانے سے پہلے یہ حقیقت ہمارے سامنے آنا ضروری ہے کہ خواتین تعداد کے اعتبار سے معاشرے میں مردوں پر سبقت رکھتی ہیں، اس حوالے سے خواتین کی ذمہ داریاں بھی بڑھ جاتی ہیں۔ دوسرا معاشرے کی بنیادی اکائی گھر، چونکہ خواتین کے دائرہ کار کا محور ہوتا ہے اس لئے معاشرے کے بگاڑ کی اصلاح کے لئے گھر کو معاشرے کی بنیادی اکائی بنا کر اسے بہتری کی طرف لانا خواتین کی ذمہ داریوں میں شامل ہے، اسے بہتر طریقے سے منظم کر کے معاشرے کو فلاح کی طرف لانا بہت ضروری ہے۔ یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ خانگی زندگی کا دار و مدار صنف ِ نازک پر ہی ہوتا ہے۔
عورت معاشرے کی بنیادی اکائی ہے۔ معاشرے میں خواتین کا اہم کردار ہوتا ہے لیکن اپنے حصے کی کارکردگی انجام دیتے ہوئے معاشرے کو جوڑے رکھنا اور اس میں پیدا ہونے والے مسائل کا سامنا کرنا یا ان مسائل کو حل کرتے ہوئے کامیاب ہونا یہ بہت ضروری اور بڑی ذمہ داری ہے۔ یہ سب آسان کام نہیں ہے۔ اس لئے خواتین کو اپنی جواب دہی طے کرکے بڑے پیمانے پر صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ اگر معاشرتی نظام میں اپنے آپ کو ہرفن مولا کے کردار میں پیش کریں تو اپنے کام، اپنی سوچ اور غور و فکر کی صلاحیتوں کے جوہرات سے معاشرے کو کامیاب بنانے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔ خواتین صحیح کا ساتھ دے کر اور غلط کی مخالفت کرکے معاشرےکو اہم تعاون دے سکتی ہیں۔ دولت، شہرت اور وقتی چمک دمک کے بنا بھی خواتین اپنی بہتر کارکردگی کے ذریعے معاشرے کو کامیاب بنا سکتی ہیں۔
انسانی معاشرہ مرد و عورت سے تشکیل پاتا ہے اور دونوں ہی اس کی تعمیر و ترقی اور اس کی اصلاح و سدھار میں برابر کے ساجھے دار ہیں۔ لیکن یہ بھی ایک سچائی ہے کہ اگر ایک عورت مضبوط کردار کی مالک، اپنے ارادوں کی دھنی اور لگن کی پکی ہے تو اپنے گھر کیا، سماج و معاشرے کو بھی کامیاب بنانے میں نمایاں کردار نبھا سکتی ہے۔ مولانا مختار احمد ندویؒ فرمایا کرتے تھے ’’ایک مرد کی تعلیم، ایک فرد کی تعلیم ہے جبکہ ایک عورت کی تعلیم، پورے خاندان اور سماج کی تعلیم ہے۔ ‘‘ اور حقیقت بھی یہی ہے کیونکہ عورت وہ مضبوط چٹان ہے جو اگر ٹھان لے تو کچھ بھی کر سکتی ہے اور یہ بھی سچائی ہے کہ معاشرے کی اصلاح میں خاتون خانہ کا رول نہایت اہمیت کا حامل ہوتا ہے لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ عورت تعلیمی میدان میں آگے بڑھے اور اسلامی حدود و قیود کی پابندی رہے۔ یقیناً وہ اپنے معاشرے کیلئے مفید ثابت ہوگی۔
عورت میں یہ فطری صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ ہر بگاڑ کو درست کرسکتی ہے۔ معاشرے کی اصلاح و کامیابی کے ضمن میں خواتین کی فعال کار کردگی بےحد اہم ہے۔ اگر خواتین کی دُنیا صرف اپنے گھر اپنے خاندان، اپنے بچوں اور ذاتی مفادات تک ہی محدود نہ ہو تو خاتونِ خانہ یا ملازمت پیشہ دونوں قسم کی خواتین اپنی خانگی ذمہ داریوں کو پُورا کرنے کے ساتھ ساتھ معاشرے کی بہتری اور اصلاح کے لئے بھی حسب ِ استطاعت کچھ نہ کچھ شراکت کر سکتی ہیں۔ اس فہرست میں سب سے اوّل اپنے بچوں کی بہتریں پرورش وتربیت کرنا اوراہل ِ خانہ کیلئے گھرمیں صحتمند ومہذب ماحول فراہم کرنا ہے۔ معاشرے کیلئے کار آمد اور نافع افراد بہترین گھروں اورخواتین کی اعلیٰ بہترین تربیت و انتظام کا عکس ہوتے ہیں۔ عورت میں قُدرت نے یہ فطری صلاحیت رکھی ہے کہ وہ ہر بگاڑ کو دُرست بھی کر سکتی ہے اور کامیابی کی منزلوں تک معاشرے کی مکمّل اور بہترین رہنمائی بھی کر سکتی ہے۔ معاشرے میں پھیلی برائیوں کی بیخ کنی اور سد باب کے لئے خواتین کو کہیں دُور جانے کی ضرورت نہیں، اپنےخاندان گھروں اور بستیوں سے بھی اصلاح معاشرے کے اس کارِ خیر کی ابتدا ممکن ہے۔ ہمارے تعاون سے اگر سماج کی ایک بُرائی بھی دور ہو سکے تو یہ ایک خوش آئند قدم ہوگا۔
جس طرح گھر کو جنت بنانے میں خواتین اہم کردار ادا کرتی ہیں اسی طرح معاشرے کی کامیابی کا انحصار بھی کچھ حد تک خواتین پر ہوتا ہے۔ ایک معاشرہ تبھی کامیاب ہوگا جب معاشرے میں رہنے والے افراد خصوصاً نوجوان اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی نبھائیں گے۔ معاشرے میں رہنے والے افراد کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس خود بخود نہیں ہوتا ہے بلکہ یہ ان کی تربیت پر منحصر کرتا ہے۔ گھر کا ماحول اور طرز زندگی افراد کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس دلاتی ہیں۔
معاشرے کی بلندی اور زوال میں سب سے نمایاں کردار ایک عورت کا ہوتا ہے۔ کسی مفکر نے کیا ہی بہترین عکاسی کی ہے کہ’’ ایک پڑھے لکھے معاشرے کی بنیاد تعلیم یافتہ اور بااخلاق عورت ہوتی ہے۔ ‘‘صحابیاتؓ اس کی اعلیٰ مثال ہیں۔ آپؓ کی جرأت، بہادری اور ایمان بے مثال ہے۔ آج معاشرے کی تبدیلی تبھی ممکن ہے جب ہم ان صحابیاتؓ کے نقش قدم پر چلیں ان جیسی خصوصیات اپنے اندر پیدا کرنے کی حتی الامکان کوشش کریں
بچوں کی جیسی تربیت کی جائے وہ بڑے ہو کر ویسے ہی بنتے ہیں۔ ان کا برتاؤ اچھی بری تربیت کی عکاسی کرتا ہے۔ بچوں کی پرورش ایک ماں ہی بہتر طریقے سے کر سکتی ہیں کیونکہ وہ والد کی بہ نسبت زیادہ وقت بچوں کے ساتھ گزارتی ہیں اور عموماً بچے ماں ہی سے زیادہ قریب ہوتے ہیں۔ ماں کے ذریعے بچوں کی بہترین تربیت ہی ہے جو بچوں کو معاشرے میں غلط کاموں سے روکتی ہے، عورتوں اور بزرگوں کی عزت کرنا سکھاتی ہے، اپنے معاشرے اور ملک کے لئے کچھ کر گزرنے کی ترغیب دیتی ہیں۔ لہٰذا معاشرے کو کامیاب بنانے میں خواتین کی کارکردگی نہایت اہم ہے۔
افراد سے مل کر ہی معاشرہ جنم لیتا ہے اور معاشرے میں مرد اور خواتین دونوں ہی اپنے اپنے حساب سے تعاون کرتے ہیں۔ ایک کامیاب معاشرہ وہی ہوسکتا ہے جس میں امن، چین، سکون ہو، انصاف ہو، باہمی رواداری ہو، مطلب پرستی سے پاک ہو، کسی بھی قسم کی زور زبردستی نہ ہو اور ہر معاملے میں مثبت رویہ ہو۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ شروع ہی سے اچھی تعلیم و تربیت کا نظام قائم کیا جائے۔ کہا جاتا ہے کہ ماں کی گود بچے کیلئے پہلا مدرسہ ہوتا ہے۔ اسلئے معاشرے کی کامیابی میں تعلیم یافتہ خواتین کا زبردست رول ہے۔ تعلیم یافتہ اور تہذیب یافتہ خواتین ہی اچھے برے کی تمیز سکھا سکتی ہیں، قدم قدم پر اصلاح کر سکتی ہیں، حوصلہ افزاء کلمات سے ان کی صلاحیت میں نکھار لا سکتی ہیں۔ وہ اپنے بچوں کو بہت عمدہ طریقے سے پروان چڑھائیں گی اور بہترین معاشرہ وجود میں آئے گا۔ معاشرے کو کامیاب بنانے کے لئے خواتین کا رول بہت ہی اہم ہے۔ اس کو کسی بھی طرح نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ اچھی صحبت میں پرورش پائی ہوئی نا خواندہ خواتین بھی اپنے بچوں کو بہت عمدہ طریقے سے لے کر چلتی ہیں اور بہترین انسان بناتی ہیں۔ اس لئے خواتین کا تہذیب یافتہ ہونا اشد ضروری ہے۔
یہ کہاوت عام ہے کہ مرد اگر دیندار ہو تو دین گھر تک پہنچ جاتا ہے اور اگر عورت دیندار ہو تو دین نسلوں تک پہنچ جاتا ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ایک عورت ایک پایۂ دار معاشرے کو تشکیل دے سکتی ہے اور اس کے لئے سب سے اہم اور ضروری حصہ ہے اولاد کی صحیح تربیت ہے۔ کیونکہ ایک معاشرہ انسانوں ہی سے بنتا ہے اور جب اس میں رہنے والے اچھی تربیت کے زیر اثر ہوں گے تو مضبوط کردار کے بھی حامل ہوں گے تو اس طریقے سے عورت معاشرے کو کامیاب بنانے میں تعاون کر سکتی ہے کہ وہ اپنی اولاد کی خاص طور پر لڑکیوں کی نیک تربیت کرے کیونکہ پہلے کی عورتوں نے تو پوری قوم کی نمائندگی کی ہے اور یہاں تو بات بہرحال معاشرے کی ہے۔ اس کے علاوہ لڑکیوں کا تعلیم یافتہ ہونا بے حد ضروری ہے کیونکہ تعلیم کے ذریعے انسان کو صحیح اور غلط کا فرق معلوم ہوتا ہے۔ لڑکیاں تعلیم یافتہ ہوں گی تو مستقبل میں ایک بہتر ماں کا کردار ادا کرسکے گی۔ اسی کے ساتھ وہ اپنے امور خانہ داری کو بہتر انداز میں چلا سکے گی۔ جب وہ اپنے گھر کو جنت کا نمونہ پیش کرے گی تو ایک اچھا معاشرہ بھی تشکیل پائے گا۔