اللہ رب العالمین نے جب نبی رحمت احمدمجتبیٰ محمد مصطفی ﷺ پر وحی کا نزول شروع کیا تو لفظ ’’اقراء‘‘ یعنی پڑھیئے سے کیا۔ اس سے پہلے جب اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو تخلیق فرمایا تو تب فرشتوں کے سامنے بھی آدم علیہ السلام کی برتری علم کے ذریعے سے اجاگر فرمائی۔
اللہ کریم نے جتنے بھی انبیاء مبعوث فرمائے سب ہی اپنے وقت اور علاقے کے لوگوں سے زیادہ علم و فضل میں سب سے بڑھ کر ہوتے تھے۔ انسان کو فضیلت تقویٰ کی بنیاد پر ملتی ہے تقویٰ علم کے مطابق عمل کو مکمل کرنے سے ملتا ہے۔
تاریخ بھی شاہد ہے کہ صرف وہی ملک و ملت ترقی کی منزل طے کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں جو اپنے اندر علم و ہنر کو پروان چڑھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ عرب قبل از اسلام نہ صرف جہالت کے اندھیرے کنوؤں میں گرے ہوئے تھے بلکہ تعلیم و شعور رکھنے والے کو بھی حقارت سے دیکھتے تھے لیکن جب رسول کریم ﷺ نور علم و حکمت کے ساتھ مبعوث ہوئے تو ہر سو اجالا پھیل گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم ومسلمة.
علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے۔
پھر ارشاد فرمایا:
فقیۃ واحد انشد علی الشیطان من الف عابد.
ایک فقیہ، شیطان پر ہزار عابدوں سے زیادہ بھاری ہے۔
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ علم حاصل کرنا کس قدر ضروری ہے۔علم کی فضیلت سے انکار ناممکن ہے پھر چاہے وہ علم، علم دینی ہو یا عصری دنیا میں سر بلند وہی ہے جو علم سے حقیقی لگاؤ رکھے گا اور آخرت میں بھی وہی سربلند رہے گا جو علم کے مطابق عمل کرے گا۔ اسلام نے عورت و مرد دونوں کو بحیثیت انسان برابر قرار دیا ہے۔ ان کے حقوق و فرائض بھی ایک جیسے ہیں برتری کا معیار تقویٰ کو ٹھہرایا گیا مرد یا عورت جو بھی جس قدر متقی ہوگا اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہتر ہوگا۔
اسلام نے جس قدر عورت کو عزت ، احترام اور حقوق عطا کیے ہیں دنیا میں کبھی بھی کسی بھی مذہب نے عورت کو نہیں دیئے۔ اسلام نے عورت کو ایک شہزادی یا ملکہ کی طرح بلکہ ان سے بھی بڑھ کر مقام و مرتبہ سے نوازا ہے۔ جہاں ہر طرح کے حقوق کا خیال رکھا گیا ہے وہاں پر تعلیم کے معاملے میں بھی اسلام نے اسے عالی شان رتبے سے نوازا ہے۔ اسلام نے عورت پر بھی تعلیم حاصل کرنا فرض قرار دیا ہے۔
عورتوں پر دینی تعلیم حاصل کرنا اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ مردوں پر۔ اسلام نے خواتین کو جاہلیت کی خرابیوں سے بچا کر زیور تعلیم سے آراستہ ہونے کا حکم دیا۔ حضرت عمر فاروقؓ فرماتے ہیں کہ سرداری دی جانے سے پہلے دین کی سمجھ حاصل کرو یعنی ذمہ داری لینے سے پہلے اس کام کے بارے میں سیکھو تاکہ احسن طریقے سے اس کو انجام دے سکو تو پھر ایسے کیسے ہوسکتا ہے کہ جس کو اگلی نسل کی تربیت کی ذمہ داری دی جانے والی ہو وہ دین کو ناسمجھنے والی ہو۔ اس لیے آقا علیہ السلام نے مردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں کی تعلیم کی طرف بھی بھرپور توجہ دی۔ ازواج مطہرات و صحابیات کے لیے مسجد نبوی میں الگ سے تبلیغ دین کی اشاعت کا انتظام ہوتا تھا۔ عورتوں کو مکمل آزادی تھی کہ وہ سوال پوچھتیں ان کو جواب دیاجاتا۔ حلال ، حرام، فرض، واجبات، پاکی، ناپاکی، حسن معاشرت، غرض یہ کہ ہر طرح کے معاملات و عبادات کے بارے میں ان کو سکھایا جاتا کیونکہ انہی کی گود نے کل کو کسی کی پہلی درسگاہ بننا ہے۔
ابتدائے اسلام سے لے کر آج تک عورت نے تعلیم کے ذریعے دینی، سماجی، معاشرتی، سیاسی اور انتظامی میدانوں میں بہت اہم کردار ادا کیے ہیں جن کی مثال دنیا کی تاریخ میں ملنا بہت ہی مشکل ہے۔ اسلام کی تاریخ میں خواتین نے دین کی اشاعت اور دفاع میں بھی بہت اہم کردار رہا ہے۔ ایسی خواتین کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے جنت کی خوشخبری بھی دی۔ ان میں سے سب سے پہلا نام سیدہ ام المومنین خدیجۃ الکبریٰؓ کا ہے۔ حدیث مبارک ہے سیدہ خدیجہؓ کو جنت میں ایک ایسے گھر کی بشارت ہے جو خولدار موتی کا بنا ہے جس میں نہ شور ہے اور نہ ہی کوئی تھکن۔
یہ پہلی مسلمان خاتون ہیں انھوں نے اسلام کی خاطر سب سے زیادہ تکالیف کا سامنا کیا سب سے زیادہ قربانیاں دیں۔ وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ رہتیں ہر وقت ہر طرح کی خدمات کو انجام دیتیں۔ صحابیات کی رہنمائی فرماتیں۔ ان کے علاوہ سیدہ فاطمۃ الزہراؓ رسول اللہ ﷺ کی سب سے چھوٹی بیٹی ہیں یہ جنتی عورتوں کی سردار ہیں۔
اور بھی کئی صحابیات ہیں جن کو جنت کی بشارت دی گئی۔ ان کے علم و فضل کی وجہ سے جیسے سیدہ ام المومنین عائشہ صدیقہؓ آپ کی بہن اسماء بنت صدیقہؓ اور حضرت ام المومنین سیدہ حفصہؓ حضرت انس بن مالکؓ کی والدہ ام سلیمؓ جن کا اصل نام غمیصاء بنت ملحان ہے بھی شامل ہیں۔ یہ رسول اللہ ﷺ کا پسینہ مبارک اپنے پاس شیشی میں جمع فرمالیتی تھیں اور بطور خوشبو خود اور دوسرے لوگوں کو بھی ہدیہ دیا کرتی تھیں۔
اسلام نے خواتین کو معاشرے کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کرنے کا حکم دیا۔خواتین کو گھروں کی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ دینی، سماجی، معاشرتی اورملکی امورمیں بھی حصہ لینا سکھایا۔ اپنے اہل و عیال کی تربیت اور اصلاح میں مدد کرنا سکھایا۔ اپنی رائے کا اظہار کرنے کی آزادی دی اپنے حقوق کا تحفظ کرنا بتایا۔
ابتدائے اسلام سے لے کر آج تک زندگی کے ہر شعبے میں خواتین نے اپنا حصہ ڈالا پھر چاہے وہ خاندانی معاملات ہوں۔ سیاسی ہوں سماجی ہوں، امن ہو یا جنگ ہر میدان میں خواتین نے مردوں کے شانہ بشانہ نہ صرف ذمہ داریوں کو نبھایا بلکہ اپنی عقل و لگن سے ہر میدان میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ ان میں سے بہت سی خواتین عالمہ، محدثہ، فقیہ،مفسرہ، شاعرہ، مصنفہ اور داعیہ بنیں۔
دینی علوم اور خواتین جب بھی قرآن کی تفسیر یا احادیث مبارکہ کی ترویج و اشاعت کے بارے میں بات کی جاتی ہے سب سے پہلا نام سیدہ عائشہ صدیقہؓ کا آتا ہے وہ اس کی اتنی بڑی محدثہ تھیں کہ بڑے بڑے کبائر صحابہ ان کے سامنے زانوئے تلمذ طے کیا کرتے تھے جب بھی کوئی مسئلہ درپیش ہوتا تو انہی کی طرف رجوع کیا جاتا وہ احادیث روایت کرتیں اور ان کی شرح بھی فرماتیں ان سے روایت کردہ احادیث مبارکہ کی تعداد دو ہزار سے بھی زائد ہے۔وہ نہ صرف محدثہ بلکہ مفسرہ اور فقیہ بھی تھیں۔ بے شمار رحمتیں ہوں ان پر اللہ تعالیٰ کی۔
دوسرا نام رسول اللہ ﷺ کی دوسری زوجہ محترمہ حضرت ام المومنین سیدہ حفصہ بنت عمرؓ کا ہے۔ یہ بڑی متقی عبادت گزار تھیں ان سے روایت کردہ چالیس احادیث مبارکہ ایسی ہیں جو براہ راست رسول اللہ ﷺ اور ان کے والد سیدنا عمر ابن الخطابؓ سے روایت ہیں۔ یہ بہت فصیح و بلیغ تھیں ان کے پاس قرآن مجید کا وہ نسخہ موجود تھا جو سب سے پہلے جمع کیا گیا۔ صدیق اکبرؓ کے زمانہ خلافت کے بعد حضرت عثمان غنیؓ نے ان سے وہ نسخہ لے کر ان کی نقل تیار کرواکر مختلف علاقوں میں بھیجی۔
سیدہ ام سلمہؓ جو کہ زوجہ رسول ﷺ ہیں یہ محدثہ ہونے کے ساتھ ساتھ سیاسی امور پر بہت گہری نظر رکھتی تھیں۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو خلافت کی بھاری ذمہ داری اٹھانے کے لیے مشورہ دیا۔
ان کے علاوہ حضرت ام المومنین ام حبیبہؓ، حضرت ام عطیہؓ یہ مسند ام عطیہ کی مصنفہ بھی ہیں۔ یہ فقیہ بھی ہیں۔ اسی طرح ام الدرداءؓ ہیں ان کی بھی مسند ام الدرداء مشہور کتاب ہے۔ اسی طرح ام فراس، ام عبداللہ، ام الفضل،ام معبد اور دیگر بے شمار خواتین نے بھی علوم دینیہ میں اپنا کردار ادا کیا۔
جس طرح ظاہری دینی علوم کی ترویج میں خواتین کا حصہ ہے اسی طرح باطنی یعنی روحانی علوم میں بھی خواتین مردوں سے پیچھے نہیں ہیں۔ ان علم تصوف کے ارتقا میں بہت اہم کردار ہے۔ اگرچہ صوفیاء خواتین کی تعداد کم ہے لیکن پھر بھی وہ مینارہ نور ہیں۔ راستہ تلاش کرنے والوں کو روشنی مہیا کرتی ہیں۔ مختلف ادوار میں مختلف ممالک اور علاقوں میں تصوف کی تدریس میں اپنے علم و فہم کا مظاہرہ کیا ان سے چند ایک کے نام یہ ہیں:
حضرت رابعہ بصریؒ وہ مشہور صوفیاء اور عارفہ تھیں ان کی تعلیمات میں محبت الہٰی، اخلاص، صبر، شکر، توکل کا زبردست سبق ملتا ہے ساری زندگی انھوں نے لوگوں کو عشق الہٰی کا سبق پڑھایا۔ حضرت نفیسہؒ یہ مصر کی مشہور عالمہ اور صوفیہ ہیں جن کا تعلق دوسری صدی ہجری سے ہے۔ حضرت لبابہ المتعبدہ یہ بیت المقدس کے حوالے میں رہتی تھیں بہت پرہیزگار متقی تھیں۔ حضرت رابعہ بصری کی ہم عمر مریم البصریہ بھی صوفیا گزری ہیں وہ اس قدر محبت الہٰی میں مگن رہتی تھیں ایک دفعہ ایک واعظ محبت الہٰی کے بارے میں بتا رہا تھا ان پر اس قدر اثر ہوا کہ ان کا پتہ پھٹ گیا اور وہ خالق حقیقی سے جاملیں۔
ان کے علاوہ دیگر بے شمار صوفیا خواتین گزری ہیں جو کہ فقر جیسی نعمت سے مالا مال تھیں جو رب تعالیٰ کی خوشنودی کے سوا کچھ نہیں چاہتی تھیں۔جیسے کہ حضرت ربیعہ عدوبہؒ یہ چوتھی صدی میں عراق میں رہتی تھیں یہ صوفیہ عالمہ اور شاعرہ بھی تھیں۔
عصری علوم میں خواتین کا کردار
اسلام چونکہ دین فطرت ہے اور وہ فطرت کے تقاضوں کو پورا بھی کرتا ہے۔ اسی لیے دینی علوم کے ساتھ عصری علوم میں بھی خواتین کو بھرپور صلاحیتیں دکھانے کا اور دوسروں کے کام آنے اور ان کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کی ترغیب بھی دیتا ہے۔
مسلمان خواتین مختلف شعبوں طب، سائنس، ٹیکنالوجی، تحقیقات، ایجادات، تدریس، تصنیف اور دیگر بے شمار علوم میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا ہے۔
بہت سی صحابیات طب، حساب، ادب وغیرہ میں بہت ماہر تھیں۔ وہ جنگوں میں حصہ لیتیں زخمیوں کا علاج کرتیں شعر کہتیں۔ حضرت ام المومنین سیدہ زینب بنت جحشؓ علم طب میں بے حد مہارت رکھتی تھیں۔ وہ چمڑے کا کام بھی جانتی تھیں وہ ایک ہنر مند خاتون تھیں جو بھی معاوضہ ملتا غریبوں، بیواؤں میں تقسیم کردیتیں۔ جیسے جیسے زمانہ گزرتا جارہا ہے ٹیکنالوجی کا استعمال بڑھتا جارہا ہے۔ ان علوم میں بھی مسلم خواتین کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ اب خواتین زندگی کے سارے مرحلوں میں بھرپور حصہ لے رہی ہیں کیونکہ جو محنت نہیں کرتا علم جدید میں مٹادیا جاتا ہے۔ دنیا کی پہلی یونیورسٹی کی بنیاد بھی ایک مسلم خاتون فاطمہ الفہری نے رکھی جس کا نام ام القرویین ہے۔
اسی طرح علم فلکیات میں مہارت رکھنے والی ایک خاتون مریم الاسترلابی ہیں انھوں نے کئی کتب کے تراجم کیے اور کتب تصنیف کیں۔
پاکستان میں بھی بے شمار خواتین ہیں جو طب، آئی ٹی، فلکیات، سیاست، بنک کاری، تدریسی، عسکری،میڈیا اور دیگر بے شمار شعبہ جات میں اپنی ذمہ داریاں ادا کررہی ہیں۔
ہمیں مزید علوم عصری پر اپنی دسترس بڑھانے کی ضرورت ہے کیونکہ دنیا بہت تیزی سے بدل رہی ہے۔ ہمیں ہر شعبہ زندگی میں اپنے قدم نہ صرف بڑھانے بلکہ مضبوطی سے ڈٹے رہنے کی بھی ضرورت ہے۔ اللہ کریم ملک پاکستان اور ملت محمدیہ ﷺ کی خواتین کو علم سے محبت کرنے والی بنائے تاکہ ہم اپنے ملک و قوم کے کام آسکیں۔