’عورت ‘ بلا شبہ خداکا سب سے حسین ترین کرشمہ ہے، جو صرف حسین و جمیل ہی نہیں بلکہ خدا نے اس میں جذبات و احساسات، محبت و شفقت،صبر و نرمی، غمگساری، ایثار و قربانی، نازک خیالی، امور خانہ داری، نزاکت و نفاست و سلیقہ مندی جیسے اوصاف ِجوہر سے مالامال کر کہ اس دنیا میں بھیجا ہے۔ اللہ نے عورت کو جو مرتبہ عنایت کیا ہے، وہ کسی اور کو حاصل نہیں، تاکہ عورت اپنی ازواجی زندگی کے ساتھ ساتھ سماجی زندگی کے طور پر بھی ایک بہترین معاشرے کی تعمیر و تشکیل کر سکے۔
جدید اردو شاعری میں حالیؔ اور اقبالؔ ایسے شاعر ہیں، جن کی شاعری میں عورت کو خاص مقام حاصل رہا ہے۔ ان کے کلام میں عورت کو ادب و احترام اورباعث عزت واہمیت کے پیش کیا گیا ۔جب کہ اردو شاعری کی تاریخ گواہ رہی ہے کہ پوری اردو شاعری خصوصاً غزلوں میں صنفی آلودگی اور سطحیت کی بھرمار ہے۔
اقبال نے عورت کی مدح سرائی نہیں کی، بلکہ اس موضوع پر غور و فکر کیا ہے۔ اقبال کو ایسے تمام فنکاروں سے شکایت تھی، جو عورت کے نام کو غلط استعمال کر کے ادب کی پاکیزگی اور اس کے اصل مقصد کو ٹھیس پہنچا تے ہیں۔ ایسی صورت حال کو اقبال نے قریب سے محسوس کیا اور کہا:
چشم آدم سے چھپاتے ہیں مقامات بلند
کرتے ہیں روح کو خوابیدہ بدن کو بیدار
ہند کے شاعر و صورت گرو افسانہ نویس
آہ بیچاروں کے اعصاب پہ عورت ہے سوار
علامہ اقبال نے عورت کو اسلام کے احکامات کے مطابق اپنی شاعری میں پیش کیا۔ عورت کے پردے سے متعلق اظہار خیال کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
بہت رنگ بدلے سپہر بریں نے
خدایا یہ دنیا جہاں تھی، وہیں ہے
تفاوت نہ دیکھا زن و شو میں میں نے
وہ خلوت نشیں ہے، یہ خلوت نشیں ہے
ابھی تک ہے پردے میں اولاد آدم
کسی کی خودی آشکارا نہیں ہے
اقبال نے عورت کے تصور اس سے متعلق اپنے خیالات کے اظہار میں عورت کی حفاظت سے متعلق بھی اشعار لکھے، ملاحظہ فرمائیں:
اک زندہ حقیقت مرے سینے میں ہے مستور
کیا سمجھے گا وہ جس کی رگوں میں ہے لہو سرد
نے پردہ نہ تعلیم، نئی ہو کہ پرانی
نسوانیت زن کا نگہباں ہے فقط مرد
جس قوم نے اس زندہ حقیقت کو نہ پایا
اس قوم کا خورشید بہت جلد ہوا زرد
اقبال کے ہاں فکرونظر اور جذبہ و احساس کی ایسی رنگارنگی اور تنوع موجود ہے کہ ہرشخص اقبال کو اپنی نگاہ اوراپنے زاویے سے دیکھتا ہے۔ پھر جہاں مسائل کو انفرادی احساس و تاثر سے قطع نظر مذہبی اورسیاسی وسماجی نظریات اوراجتماعی و قومی محسوسات کی سطح سے دیکھنے اور برتنے کارجحان کارفرماہو، وہاں اقبال جیسے کثیرالجہات شاعر کی گوناگوں تعبیریں فطری ہیں
علامہ اقبال کے خیال میں عورت کی سلامتی اور تحفظ مرد کی نگہبانی کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ مزید عورت اور تعلیم کے ضمن میں اقبال نے یہ بھی تو کہا ہے کہ:
جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازن
کہتے ہیں اسی علم کو ارباب نظر موت
یہ ایک اہم مسئلہ ہے یعنی اقبال کو تعلیم نسواں کی اہمیت سے انکار نہیں البتہ ایسی تعلیم جو زن کو نازن بناتی ہے اور اس کے تشخص کو خراب کرے ان کی نگاہ میں لائق مذمت ہے۔
اقبال اپنے زمانے کے تقاضوں سے بخوبی آگاہ تھے اور تعلیم نسواں کے دور رس نتائج بھی ان کی نگاہ رمز شناس سے اوجھل نہیں تھے۔ چنانچہ انھوں نے نہ صرف عورتوں کی تعلیم و تربیت پر خاطرخواہ زور دیا بلکہ علم کو عورت کا بیش بہازیور قراردیا۔ اپنے ایک مضمون بعنوان ’قومی زندگی‘ میں جو ماہنامہ ’مخزن‘ (لاہور) کے 1904کی فائل میں شامل ہے تحریرفرمایاتھا:
’’پس ہمارے لئے یہ ضروری ہے کہ عورتوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کریں۔ مرد کی تعلیم ایک فرد واحد کی تعلیم ہے مگر عورت کو تعلیم دینا حقیقت میں تمام خاندان کو تعلیم دیناہے۔‘‘
اقبال کے نزدیک عورت ایک ایسی مقدس اور پاکیزہ، ہستی کے مترادف ہے جسے بوالہوسوں کی نظر بد سے بچائے رکھنے کی ضرورت ہے اسی لئے وہ بھی اکبر الہ آبادی اوراس عہد کے دیگر کئی دانشوروں کی طرح اسے شمع محفل کی بجائے ’چراغ خانہ‘ کی حیثیت سے زیادہ قابل قدر سمجھتے تھے۔ مغربی تہذیب کی رو میں بہہ کر مشرقی عورت کا جلوت پسند ہوجانا اقبال کو ناپسند تھا۔ عورتوں کی تعلیم و ترقی کے دوش بدوش ان کی اخلاقی تربیت کو بھی اقبال اتنا ہی ضروری سمجھتے تھے۔ فرماتے ہیں:
رسوا کیا اس دور کو جلوت کی ہوس نے
روشن ہے نگہہ آئینۂ دل ہے مکدر
بڑھ جاتاہے جب ذوق نظر اپنی حدوں سے
ہوجاتے ہیں افکار پر اگندہ و ابتر
مغر ب پرست پردے کو عورت کی ترقی کے راستے کا سب سے بڑا روڑا سمجھتے ہیں لیکن اقبال کا خیال ہے کہ:
’’عورت فاطرالسمٰوات والارض کی مقدس ترین مخلوق ہے اوراس کا جنسی وجود اس امرکا متقاضی ہے کہ اجنبی نگاہوں سے بہر نوع محفوظ رکھاجائے۔‘‘ (لیورپول پوسٹ، مطبوعہ1933)
اقبال کے نزدیک بے پردگی عورتوں میں اخلاقی زوال کا سبب بنتی ہے اور وہ ترقی ترقی نہیں جس سے عورت کی تقدیس خطرے میں پڑجائے، اسی احساس کے تحت آپ نے فرمایاتھا:
دیار مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زر کم عیار ہوگا
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائدار ہوگا
الغرض پردے سے متعلق علامہ اقبال کے نظریات و تصورات میں کوئی تضاد نہیں ہے اور وہ ان خیالات کا اظہار بڑی بیباکی اور جرأت کے ساتھ کرتے رہے۔ یہ خوف یا مصلحت ان کے آڑے کبھی نہیں آئی کہ یوروپ میں رہنے اور مغربی تعلیم سے آراستہ ہونے کے باوصف ان کے ایسے اشعار سے زمانہ انہیں کو تنگ نظریا قدامت پسند قرار دے گا۔
علامہ اپنی نظم ’’آزادی نسواں‘‘ میں کہتے ہیں۔
اس بحث کا کچھ فیصلہ میں کرنہیں سکتا
گوخوب سمجھتاہوں کہ یہ زہر ہے وہ قند
کیا فائدہ کچھ کہہ کے بنوں اور بھی معتوب
پہلے ہی خفا مجھ سے ہیں تہذیب کے فرزند
اس راز کو عورت کی بصیرت ہی کرے فاش
مجبور ہیں معذور ہیں مردان خرد مند
کیا چیز ہے آرائش و قیمت میں زیادہ
آزادی نسواں کہ زمرد کا گلوبند
بے شک اقبال کے زمانے میں تو کیا ہمارے عہد تک میں ایسی خواتین بھی مل جائیں گی جنہیں آزادی نسواں کے مقابلے میں زیورات سے زیادہ دلچسپی ہوتی ہے اگر تاویل کرنی ہوتو کہہ سکتے ہیں کہ علامہ اقبال نے ایسی ہی خواتین کو طنز ملیح کا نشانہ بنایاہے لیکن عورت اور مرد کی مساوات سے متعلق مغربی نظریات کو رد کرتے ہوئے اقبال نے ایک لکچر میں واضح طورپر کہاتھا۔
’’میں مرداور عورت کی مساوات مطلق کا حامی نہیں ہوں۔ قدرت نے ان کو جداجدا خدمتیں تفویض کی ہیں۔‘‘ (روح اقبال، یوسف حسین خاں، ص 334)
اقبال کے ہاں فکرونظر اور جذبہ و احساس کی ایسی رنگارنگی اور تنوع موجود ہے کہ ہرشخص اقبال کو اپنی نگاہ اوراپنے زاویے سے دیکھتا ہے۔ پھر جہاں مسائل کو انفرادی احساس و تاثر سے قطع نظر مذہبی اورسیاسی وسماجی نظریات اوراجتماعی و قومی محسوسات کی سطح سے دیکھنے اور برتنے کارجحان کارفرماہو، وہاں اقبال جیسے کثیرالجہات شاعر کی گوناگوں تعبیریں فطری ہیں۔
شاعرِ مشرق نے مقامِ نسواں کی سربلندی کے لئے لافانی نظم کہی:
وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ
اس کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِ دروں
شرف میں بڑھ کے ثریا سے مشتِ خاک اس کی
کہ ہر شرف ہے اسی درج کا درِ مکنوں
مکالماتِ فلاطوں نہ لکھ سکی، لیکن
اس کے شعلے سے ٹوٹا، شرارِ افلاطوں
اقبال نے ان اشعار میں وجودِ زن کی عظمت کا راگ اتنی بلند آواز میں الاپا ہے کہ اس دنیا ہی کو نہیں، پوری کائنات کو اس میں شامل کر لیا ہے۔ اس کائنات (Universe) میں وہ ساری دنیائیں شامل ہیں کہ جن کو انسان اب تک دریافت کر چکا ہے یا مستقبل میں دریافت کرے گا ان سب میں عورت کے ساز سے ہی زندگی کا سوز دروں پیدا ہے اور ہو گا۔ یہ سوز و سازِ زندگی صرف اور صرف عورت ہی کی بدولت ہے۔
عورت وہ ہستی ہے کہ اس کی خاک ثریا اور مہ و پرویں سے بھی اونچی ہے کہ کائنات کا ہر شرف اور ہر گوہر اسی خاک سے جگمگا رہا ہے۔ اور آخری شعر میں کہا گیا ہے کہ عورت نے اگرچہ مکالمات جیسی لازوال تصنیف تخلیق نہیں کی لیکن مکالمات لکھنے والا اسی عورت کے بطن سے ہی پیدا ہوا۔ یاد رہے مکالمات (ڈائیلاگ) افلاطون کی سب سے معروف تصنیف ہے۔
’عورت ‘ بلا شبہ خداکا سب سے حسین ترین کرشمہ ہے،جو صرف حسین و جمیل ہی نہیں بلکہ خدا نے اس میں جذبات و احساسات، محبت و شفقت،صبر و نرمی، غمگساری، ایثار و قربانی، نازک خیالی، امور خانہ داری، نزاکت و نفاست و سلیقہ مندی جیسے اوصاف ِجوہر سے مالامال کر کہ اس دنیا میں بھیجا ہے۔ اللہ نے عورت کو جو مرتبہ عنایت کیا ہے، وہ کسی اور کو حاصل نہیں، تاکہ عورت اپنی ازواجی زندگی کے ساتھ ساتھ سماجی زندگی کے طور پر بھی ایک بہترین معاشرے کی تعمیر و تشکیل کر سکے
لیکن اقبال نے کہا ہے کہ عورت ”مکالمات“ تو نہ لکھ سکی تاہم مکالمات لکھنے والا اسی ہستی نے پیدا کیا۔ اور وہ جملہ تو گویا ایک مقولہ بن چکا ہے کہ: ”عورت پیغمبر تو نہ بن سکی لیکن ہر پیغمبر اور رسول کی ماں، عورت ہی ہے!
مقام و احترامِ نسواں کے موضوع پر علامہ کے کئی اور فارسی اشعار بھی نوکِ زبان بن رہے ہیں لیکن میں قارئین کی توجہ اس موضوع پر ان کے اردو اشعار کی طرف کروانہ چاہتی ہوں۔ ضربِ کلیم میں عورت کے موضوع پر ایک مختصر اردو نظم یہ ہے:
ہزار بار حکیموں نے اس کو سلجھایا
مگر یہ مسئلہء زن رہا وہیں کا وہیں
قصور زن کا نہیں ہے کچھ اس خرابی میں
گواہ اس کی شرافت پہ ہیں مہ و پرویں
فساد کا ہے فرنگی معاشرت میں ظہور
کہ مرد سادہ ہے، بے چارہ زن شناس نہیں
جہاں تک عورت کے مقام کا تعلق ہے تو علامہ کہتے ہیں کہ عورت ایک ایسی محترم ہستی ہے کہ جس کی شرافت کی گواہی چاند اور ستارے بھی دیتے ہیں۔ لیکن افسوس یہ حقیقت حکیمانِ فرنگ (مغربی فلاسفروں) کی سمجھ میں نہیں آسکی کہ عورت کا باوقار مقام متعین کر دیں۔ یہی وجہ ہے کہ افرنگی سماج میں مسئلہء زن کی تفہیم کی ناسمجھی سے فساد پیدا ہو رہا ہے۔
ایک دوسری نظم (”ایک سوال“) سے صرف دو اشعار کا زکر کرونگی جو درج ذیل ہیں:
کوئی پوچھے حکیمِ یورپ سے
ہندو یوناں ہیں جس کے حلقہ بگوش
کیا یہی ہے معاشرت کا کمال؟
مرد بے کار و زن تہی آغوش
علامہ کی بصیرت کا اندازہ کیجئے کہ انہوں نے تقریباً ایک صدی پہلے اس دور میں عورت کے مقام کے بارے میں یہ راز فاش کر دیا تھا جبکہ اس وقت کوئی مغربی فلاسفر مقامِ نسواں کا تعین نہیں کر سکا۔ یہ صرف اسلام اور قرآن تھا (اور ہے)کہ جس نے عورت کے مقام کے ایک ایک پہلو کو اجاگر کرکے دکھایا۔تفسیر کی تفصیل میں بے شک نہ جایئے صرف کسی بھی اچھے مترجم کا قرانی ترجمہ اردو (یا انگریزی میں) پڑھ لیجئے۔آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ مغرب کی عورت تہی آغوش کیوں ہے اور مرد بیکار کیوں ہے۔ اس شعر میں بیکار کا مطلب بے روزگار نہیں، بلکہ ناکردہ کار، بے عقل، ناسمجھ اور نااہل ہے۔ ہم مغرب کو ایجادات کا امام مانتے ہیں لیکن اس امام نے کوئی ایسی ایجاد اب تک ہمارے سامنے نہیں رکھی جو مقامِ نسواں کا تعین کر سکتی۔