اخلاقِ عالیہ کے مدارج

مومنہ ملک

مہربانی، نرمی، اخلاق، برداشت، رواداری، محبت، حسن سلوک ان تمام صفات کا ایک پائیدار مجموعہ ہے اور جو شخص ان صفات کا حامل ہوتا ہے وہ یقیناً اخلاق کے اعلیٰ درجے پر فائز ہوتا ہے۔ کسی سے نرمی سے بات کرنا، خود شکل میں رہتے ہوئے اچھے اخلاق کا مظاہرہ کرنا، سخت اور مشکل حالات میں برداشت کا مظاہرہ کرنا، حسن سلوک اور رواداری سے پیش آنا کسی بھی بشر کی مزاجِ مہربانی کا مظاہرہ کرتا ہے اور ایسے افراد پر مشتمل معاشرہ یقیناً ایک بہترین، مثبت ترقی یافتہ ایک اعلیٰ قوم کی نمائندگی کرتا ہے اور دین اسلام تو دین ہی نرمی، محبت، شفقت، رواداری، حسن سلوک، ایثار و قربانی کا نام ہے۔ دین اسلام ایک مومن کی صفات میں ان تمام صفات کو شامل کرتا ہے جو ایک مومن کے مہربان ہونے کی دلیل ہے۔

جیسا اس کا عملی نمونہ ہم دور موسیٰ علیہ السلام میں کچھ یوں دیکھتے ہیں کہ جب آخری مرتبہ اللہ رب العزت نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرعون کے پاس اللہ کی وحدانیت پر قائل کرکے روئے زمین پر اللہ کے نظام کو نافذ کرنے کا حکم دینے کے لیے بھیجا تو تب بھی ولیتلطف یعنی نرمی سے بات کریں۔ اپنے مہربان ہونے کا اشارہ بھی دیا جبکہ یہ مکالمہ آخری مرتبہ پیغام ربانی تھا کیونکہ اس سے پہلے فرعون کئی مرتبہ اللہ کا حکم نہ مان کر اپنی سرکشی کا ثبوت دے چکا تھا لیکن پھر بھی آخری مر تبہ میں بھی رب کائنات نے اپنی نرمی، اپنی مہربانی کا ثبوت ولیتلطف کہہ کردیا کہ شاید نرمی اور مہربانی سے بات کرنا اس کو راہ حق کی طرف موڑ سکے اور اسی طرح نبی آخرالزمان حضور علیہ السلام کو اللہ نے شفقت و مہربانی اور رحمت کا عملی نمونہ بناکر بھیجا اور اللہ تعالیٰ نے نبی آخرالزمان حضور مکرم ﷺ کو خلق عظیم دے کر بھیجا۔ اللہ رب العزت کی مخلوق اور نبی مکرم علیہ السلام کا امتی ہونے کی حیثیت سے ہم پر فرض ہوجاتا ہے کہ ہم مہربانی کو اپنا شعار بنالیں۔

انسان کو اشرف المخلوقات کے رتبے پر فائز کردیا گیا اور اس کو اس میں تمام جذبات اور حسیات ڈال کر، اچھے اور صحیح راستے کا فرق بتا کر جو چاہے چن لے کا اختیار دیدیا گیا اس کو جنت اور دوزخ کے راستے سمجھا کر ہدایت کی طلب بھی دے دی گئی۔ اب انسان کو اختیار دیا گیا کہ روئے زمین پر تم مہربان بنتے ہو یا نامہربان۔

انسان چونکہ اشرف المخلوقات ہے لیکن ساتھ ہی انسان جذبات کا ایک مرقع ہے جن میں غصہ، حسد جیسے جذبات بھی شامل ہیں زندگی کے اس مختصر اور طویل دوراہے میں انسان مختلف قسم کے حالات و واقعات سے گزرتا ہے وہ حالات اور واقعات انسان کے مزاج پر مثبت یا منفی اثرات ڈالتے ہیں۔ اب انسان ان حالات و واقعات پر اپنے مزاج کے مطا بق کیا ردعمل دیتا ہے وہ اس کے مزاج کی بناوٹ پر منحصر ہے اس کا مزاج جس صبروتحمل و برداشت، رواداری اور مہربانی کا حامل ہوگا وہ اتنا ہی صبر اور مثبت ردعمل کا مظاہرہ کرے گا۔

اب موجودہ دور میں ہم اپنی سوسائٹی میں نظر ڈالیں تو ہمیں ہر طرف نفسانفسی کا عالم نظر آتا ہے۔ ہر انسان اپنے لیے اپنے آپ کو بچانے کے لیے،ا پنے آپ کو اعلیٰ مقام تک پہنچانے کی تگ و دو میں مصروف ہے۔ ایسے میں کجا کہ اوائل ادوار جیسا تحمل و مہربانی نظر آئے۔ آج کے دور میں رشتے بھی آپس میں مطلب کے لیے رکھے جانے لگے ہیں یا یوں کہہ لیں رشتوں کو نمبرنگ میں تقسیم کردیا گیا کہ جو رشتہ زیادہ مرتبہ والا ہے وہ زیادہ عزت کا حقدارہے اور جو کم مرتبہ کا حامل ہے وہ اس سے کم عزت و اہمیت کا حقدارہے۔ نفسا نفسی کا عالم اس قدر بڑھ چکا ہے کہ ہر انسان میں نفس کی صدائے لگائے بیٹھا ہے۔

بے یقینی کی کیفیت، ناانصافی کی ہوا، ظلم و بربریت کا ماحول اس قدر گرم ہوچکا ہے کہ اگر روڈ پر کوئی کراہ بھی رہا ہو تو لوگ مدد کو آگے بڑھنے سے رک جاتے ہیں کہ کہیں بھی مشکل کی لپیٹ میں نہ آجائیں۔ نامہربانی اس قدر عام ہوچکی ہے کہ بندہ بشر اب کسی کو چند سکے دینے سے پہلے بھی یہ سوچتاہے کہ وہ حقدار ہے یا نہیں؟

لوگ بھوک و افلاس سے اس قدرمرنے لگے ہیں کہ روٹی کی خاطر اب سربازار نامہربان بن کر ایک دوسرے کے قتل کرنے لگے ہیں۔ نامہربانی اس قدر پھیل چکی ہے کہ خونی رشتے بھی آپس میں منہ موڑے بیٹھے ہیں۔ پریشانی اور شک کا یہ عالم ہے کہ کوئی ہمارے ساتھ مہربان ہونے بھی لگے تو خود اپنے اندر ہی تحفظات کی کمی محسوس ہوتی ہے کہ کوئی ہم سے آگے ہے تو کیوں ہے؟

مہربانی کا وہ درس جو کبھی امت مسلمہ کا خاصہ ہوا کرتا تھا مائیں بچوں کو مہربان بننے اورمہربان رہنے کی تلقین کیا کرتی تھیں۔ وہ سبق فقط آج کتابوں کی زینت بنا رہ گیا۔ وہ مہربانی کا سبق ہی تھا جس نے عبدالستار ایدھی جیسی ایک عظیم المرتبت شخصیت کو جنم دیا۔ وہ شخصیت جو اوائل بچپن میں ہی اس قدر مہربانی تھی کہ ایک آنہ ہمیشہ اپنے لیے ہوتا اور دوسرا آنہ سکول میں موجود کسی ضرورت مند بچے کے لیے جس انسان کا بچپن اس قدر مہربانی کے جذبے سے بھرپور ہو تو یقیناً پورے ملک میں ان کی مہربانی کا عالم ہی الگ ہوگا کہ ان کی وفات کے بعد بھی وہ بچے جو بے یارومددگار ہوتے ہیں وہ ایدھی کے بچے کہلاتے ہیں۔

کیا یہاں یہ سوچنے کی ضرورت نہیں ہے کہ والدین اپنے مزاج پر کام کریں خود کے مزاج کو مہربان بنائیں، مہربانی کو اپنے عمل کا خاصہ بنائیں تاکہ اولاد بھی مہربان رہے۔ ہر گھر جب مہربانی کی شمع روشن کرے گا تو یقیناً معاشرے میں مہربانی کا چراغ روشن ہوگا۔ کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ ہم معاشرے کی مفلسی و ناداری دیکھتے ہوئے کسی کی مدد کرنے سے پہلے یہ سوچنا چھوڑ دیں کہ وہ کتنا حقدار ہے؟ خودکے پاس کپڑو ں کا ڈھیر موجود ہوتے ہوئے بھی مزید کی طلب چھوڑ کر ان کو ڈھانپ دیں جو بے لباس ہیں۔ خود تین وقت کی روٹی کھاکر مزید کھانوں کی طلب کے بجائے ان کو ڈھونڈ کر بھی کھانا کھلائیں جو ایک وقت کی روٹی کو ترستے ہوں۔

کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ خود اتنی اعلیٰ ڈگریاں رکھ کر ان لوگوں کو تعلیم کی روشنی دیں جوکبھی اس روشنی کو دیکھ ہی نہ سکے ہوں۔ کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ خودکی چھت موجود ہوتے ہوئے کسی کو اس چھت کا حصہ دیں جو بے گھر ہو۔ جب معاشرہ اس قدر مہربان ہوگا تو ناانصافی، ظلم و بربریت، نفرت و غصہ، حسد و انتشار کے جذبات کیونکر ہوں گے؟ کیا ہم مہربان نہیں ہوسکتے؟