اسلامی معاشرے میں مرد و زن کے لئے میدان کھلا ہوا ہے۔ اس کا ثبوت اور دلیل وہ اسلامی تعلیمات ہیں جو اس سلسلے میں موجود ہیں اور وہ اسلامی احکامات ہیں جو مرد اور عورت دونوں کے لئے یکساں طور پر سماجی ذمہ داریوں کا تعین کرتے ہیں۔ یہ تو پیغمبر اسلام کا ارشاد گرامی ہے کہ من اصبح و لا یھتم بامور المسلمین فلیس بمسلم ( جو شخص شب و روز گزارے اور مسلمانوں کے امور کی فکر میں نہ رہے وہ مسلمان نہیں ہے) یہ صرف مردوں سے مخصوص نہیں ہے، عورتوں کے لئے بھی ضروری ہے کہ مسلمانوں کے امور، اسلامی معاشرے کے مسائل اور عالم اسلامی کے معاملات بلکہ پوری دنیا میں پیش آنے والی مشکلات کے سلسلے میں اپنے فریضے کا احساس کریں اور اس کے لئے اقدام کریں، کیونکہ یہ اسلامی فریضہ ہے۔ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی ذات گرامی، جو بچپن میں اور مدینہ منورہ کی جانب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ہجرت کے بعد مدینے میں اپنے والد کو پیش آنے والے تمام معاملات میں، اپنا کردار ادا کرتی ہوئی نظر آتی ہے، ایک نمونہ ہے جو اسلامی نظام میں عورت کے کردار اور فرائض کو ظاہر کرتا ہے۔ سورہ احزاب کی ایک آيت کہتی ہے کہ اسلام ہو، ایمان ہو، قنوت ہو، خشوع و خضوع ہو، صدقہ دینا ہو، روزہ رکھنا ہو، صبر و استقامت ہو، عزت و ناموس کی حفاظت ہو یا ذکر خدا ہو، ان چیزوں میں مردوں اور عورتوں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ معاشرے میں عورتوں کی وہ سرگرمیاں بالکل جائز، پسندیدہ اور مباح و بلا اشکال ہیں جو اسلامی حدود کی پابندی کرتے ہوئے انجام دی جائيں۔ جب معاشرے میں مرد اور عورتیں دونوں ہی تعلیم حاصل کریں گے تو تعلیم یافتہ افراد کی تعداد اس دور کے مقابلے میں دگنی ہوگی جس میں تعلیمی سرگرمیاں صرف مردوں سے مخصوص ہوکر رہ جائیں۔ اگر معاشرے میں عورتیں تدریس کے شعبے میں سرگرم عمل ہوں گی تو معاشرے میں اساتذہ کی تعداد اس دور کی بنسبت دگنی ہوگی جس میں یہ فریضہ صرف مردوں تک محدود ہو۔ تعمیراتی سرگرمیوں، اقتصادی سرگرمیوں، منصوبہ بندی، فکری عمل، ملکی امور، شہر، گاؤں، گروہی امور اور ذاتی مسائل اور خاندانی معاملات میں عورت و مرد کے مابین کوئی فرق نہیں ہے۔ سب کے فرائض ہیں جن سے ہر ایک کو عہدہ بر آ ہونا چاہئے۔
عورتوں کی سماجی سرگرمیوں کی بنیاد:
کوئی بھی سماجی کام اسی وقت صحیح سمت میں آگے بڑھ سکتا اور نتیجہ خیز ثابت ہو سکتا ہے، جب غور و فکر، عقل و خرد، تشخیص و توجہ، مصلحت اندیشی و بار آوری اور صحیح و منطقی بنیادوں پر استوار ہو۔ عورتوں کے حقوق کی بازیابی کے لئے انجام دئے جانے والے ہر عمل میں اس چیز کو ملحوظ رکھنا چاہئے یعنی ہر حرکت دانشمندانہ سوچ پر مبنی ہو اور حقائق، عورت کے مزاج و فطرت سے آشنائی، مرد کے رجحان و رغبت سے آگاہی، عورتوں کے مخصوص فرائض اور مشاغل سے واقفیت، مردوں کے مخصوص فرائض اور مشاغل سے روشناسی اور دونوں کی مشترکہ باتوں اور خصوصیات کی معلومات کے ساتھ انجام دی جائے، غیروں سے مرعوب ہوکر اور اندھی تقلید کی بنیاد پر انجام نہیں دی جانی چاہئے۔ اگر یہ حرکت غیروں سے مرعوب ہوکر، اندھے فیصلے اور اندھی تقلید کی بنیاد پر آنکھیں بند کرکے انجام دی گئی تو یقینا ضرررساں ثابت ہوگی۔
قومی ترقی میں عورتوں کا کردار:
اگر کوئی ملک حقیقی معنی میں تعمیر نو کا خواہاں ہے تو اس کی سب سے زیادہ توجہ اور اس کا بھروسہ افرادی قوت پر ہونا چاہئے۔ جب افرادی قوت کی بات ہوتی ہے تو اس کا خیال رکھنا چاہئے کہ ملک کی آدھی آبادی اور نصف افرادی قوت عورتوں پر مشتمل ہے۔ اگر عورتوں کے سلسلے میں غلط طرز فکر جڑ پکڑ لے تو حقیقی اور ہمہ جہتی تعمیر و ترقی ممکن ہی نہیں ہے۔ خود عورتوں کو بھی چاہئے کہ اسلام کے نقطہ نگاہ سے عورت کے مرتبہ و مقام سے واقفیت حاصل کریں تاکہ دین مقدس اسلام کی اعلی تعلیمات پر اتکاء کرتے ہوئے اپنے حقوق کا بخوبی دفاع کر سکیں، اسی طرح معاشرے کے تمام افراد اور مردوں کو بھی اس سے واقفیت ہونا چاہئے کہ عورت کے تعلق سے، زندگی کے مختلف شعبوں میں عورتوں کی شراکت کے تعلق سے، عورتوں کی سرگرمیوں، ان کی تعلیم، ان کے پیشے، ان کی سماجی، سیاسی، اقتصادی اور علمی فعالیتوں کے تعلق سے اسی طرح خاندان کے اندر عورت کے کردار اور معاشرے کی سطح پر اس کے رول کے تعلق سے اسلام کا نقطہ نگاہ کیا ہے۔
حصول علم لازمی اور واجب:
عورتیں اعلی تعلیم حاصل کر سکتی ہیں۔ بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ لڑکیوں کو پڑھنا لکھنا نہیں چاہئے۔ یہ بالکل غلط سوچ ہے۔ لڑکیوں کو چاہئے کہ اپنے لئے مفید ثابت ہونے والے موضوعات میں جن سے انہیں دلچسپی اور لگاؤ ہے تعلیمی سرگرمیاں انجام دیں۔ معاشرے کو لڑکیوں کی تعلیمی قابلیت کی ضرورت ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے تعلیم یافتہ لڑکوں کی ضرورت ہے۔ البتہ تعلیمی ماحول صحتمند ہونا چاہئے۔ تعلیم کے لئے مرد اور عورت کی معاشرت سے متعلق اخلاقی اقدار سے دوری ضروری نہیں ہے بلکہ ان اقدار کی مکمل پابندی کے ساتھ تعلیم حاصل کی جا سکتی ہے اور خود کو بلند مقامات پر پہنچایا جا سکتا ہے۔
انتہائی اہم اور بنیانی کاموں میں ایک، عورتوں کو کتابوں کے مطالعے کا عادی بنانا ہے۔ ایک ایسی جدت عمل کی ضرورت ہے جس کی بنیاد پر عورتیں گھروں کے اندر کتابوں کے مطالعے کی عادی ہو جائیں۔ انسانی معرفتوں کی کتابیں ذہنوں کو بہتر ادراک، بہتر فکر، بہتر جدت عمل کے لئے اور زیادہ بہتر پوزیشن میں خود کو پہنچانے کے لئے آمادہ اور تیار کرتی ہیں۔
علم و دانش تو بے حد عزیز چیز ہے اور ضروری کہ اسلامی معاشرے میں عورتیں تمام موضوعات پر عبور حاصل کریں۔ بعض خواتین خیال کرتی ہیں کہ اگر کوئی خاتون، عورتوں سے متعلق موضوع کا علم حاصل کرنا چاہتی ہے تو اسے عورتوں کی خاص بیماریوں کا علم حاصل کرنا چاہئے جبکہ ایسا نہیں ہے۔ عورتوں کی ذمہ داری ہے کہ طب کے مختلف شعبوں جیسے نیورولوجی اور کارڈیولوجی وغیرہ کے سلسلے میں کام کریں۔ یہ شرعی اور سماجی فریضہ ہے۔
عورتیں گھر سے باہر کام کرسکتی ہیں:
اسلام عورت کو کام کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ صرف اجازت ہی نہیں دیتا بلکہ اگر گھر کے باہر کام عورت کے بنیادی فریضے یعنی بچوں کی تربیت اور کنبے کی نگہداشت سے متصادم نہیں ہو رہا ہے تو شائد یہ ضروری بھی ہو۔ کوئی بھی ملک گوناگوں شعبوں میں عورتوں کی افرادی طاقت سے بے نیاز نہیں ہو سکتا۔
بعض لوگ انتہا پسندی سے کام لیتے ہیں۔ بعض کا یہ کہنا ہے کہ چونکہ سماجی سرگرمیوں کی وجہ سے گھر، شوہر اور بچوں کا خیال رکھ پانا مشکل ہو جاتا ہے لہذا سماجی سرگرمیوں سے کنارہ کشی کر لینی چاہئے جبکہ بعض کا یہ کہنا ہے کہ چونکہ گھر، شوہر اور بچوں کی وجہ سے سماجی سرگرمیوں کا موقع نہیں مل پاتا لہذا شوہر اور بچوں سے ناتوڑ لینا چاہئے۔ یہ دونوں ہی باتیں غلط ہیں۔ کسی ایک کو بھی دوسرے کی وجہ سے ترک نہیں کرنا چاہئے۔
البتہ گھر سے باہر کام، عورتوں کا اولیں اور بنیادی مسئلہ نہیں ہے۔ اسلام عورتوں کے کام کرنے اور فرائض کی انجام دہی کا مخالف نہیں ہے، سوائے کچھ کاموں کے کہ جن میں سے کچھ کے بارے میں علمائے کرام کے درمیان اتفاق رائے ہے اور کچھ کے سلسلے میں اختلاف پایا جاتا ہے، تاہم عورت کا بنیادی مسئلہ یہ نہیں ہے کہ اس کے پاس روزگار ہے یا نہیں۔ عورت کا بنیادی ترین مسئلہ اور فریضہ وہ ہے جسے آج بدقسمتی سے مغرب میں نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ وہ ہے تحفظ کا احساس، سلامتی کا احساس اور صلاحیتوں کے نشو نما پانے کے امکانات کی فراہمی کا احساس اور معاشرے میں، خاندان میں، شوہر کے گھر میں یا والدین کے گھر میں اس کا ظلم و زیادتی سے محفوظ رہنا۔ جو لوگ عورتوں کے سلسلے میں کام کر رہے ہیں انہیں ان پہلوؤں پر کام کرنا چاہئے۔
عورتوں کی اسلامی تربیت:
اگر اسلامی معاشرہ عورتوں کو اسلامی تربیت کے نمونوں میں تبدیل کرنے میں کامیاب ہو جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ عورت اپنے شایان شان مقام و منزل پر پہنچ گئی ہے۔ اگر معاشرے میں عورت علم و معرفت اور روحانی و اخلاقی کمالات پرفائز ہو جائے جو اللہ تعالی اور ادیان الہی نے تمام انسانوں، بشمول مرد و زن، کے لئے یکساں طور پر معین کئے ہیں تو بچوں کی بہتر تربیت ممکن ہو سکے گی، گھر کی فضا زیادہ پاکیزہ اور محبت آمیز ہو جائے گی، معاشرہ زیادہ ترقی کر سکے گا، زندگی کی مشکلات زیادہ آسانی سے برطرف ہوں گي۔ یعنی مرد اور عورت دونوں خوش بخت ہو جائیں گے۔ مقصد عورتوں کو مردوں کے مقابلے میں صف آرا کرنا نہیں ہے، مقصد عورتوں اور مردوں کی معاندانہ رقابت نہیں ہے۔ ہدف یہ ہے کہ عورتیں اور لڑکیاں اسی عمل کو دہرا سکیں جس کو انجام دے کر مرد ایک عظیم انسان میں تبدیل ہو جاتے ہیں، یہ ممکن بھی ہے اور اسلام میں اس کا عملی تجربہ بھی کیا جا چکا ہے۔
انتہائی اہم چیزوں میں ایک، گھر کے اندر کے فرائض یعنی شوہر اور بچوں سے برتاؤ کی نوعیت کے تعلق سے عورتوں کو صحیح طریقوں سے آگاہ کرنا ہے۔ ایسی عورتیں بھی ہیں جو بہت اچھی ہیں، ان میں صبر و تحمل، حلم و بردباری، درگزر اور رواداری کا جذبہ اور اچھا اخلاق پایا جاتا ہے لیکن وہ بچوں اور شوہر کے سلسلے میں اپنا رویہ درست نہیں کرتیں۔ یہ رویہ اور روش با قاعدہ ایک علم ہے۔ یہ ایسی چیزیں ہیں جو انسانی تجربات کے ساتھ روز بروز بہتر ہوئی ہیں اور آج اچھی صورت حال میں موجود ہیں۔ بعض لوگ ہیں جن کے پاس بڑے گرانقدر تجربات ہیں۔ کوئی ایسا راستہ اختیار کیا جانا چاہئے جس سے یہ عورتیں گھر کے اندر رہتے ہوئے ان روشوں اور طریقوں سے آگاہ ہو سکیں اور رہنمائی حاصل کر سکیں۔
خاندان میں عورت کی اہمیت:
خاندان کی تشکیل تو در حقیقت عورت ہی کرتی اور وہی اسے چلاتی ہے۔ کنبے کی تشکیل کا بنیادی عنصر عورت ہے، مرد نہیں۔ مرد کے بغیر ممکن ہے کہ کوئی کنبہ موجود ہو۔ کوئی خاندان ایسا ہے جس میں مرد موجود نہیں ہے، دنیا سے رخصت ہو چکا ہے تو گھر کی عورت اگر سمجھدار اور سلیقے مند ہے تو خاندان کو (بکھرنے سے) بچائے رکھے گی لیکن اگر خاندان میں عورت نہ ہو تو مرد خاندان کو محفوظ نہیں رکھ سکتا، معلوم ہوا کنبے اور خاندان کی حفاظت عورت کرتی ہے۔
یہ جو اسلام خاندان کے اندر عورت کے کردار کو اتنی زیادہ اہمیت دیتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر عورت نے خاندان کے فریضے کو سنبھال لیا اور اس میں دلچسپی دکھائی، بچوں کی تربیت و پرورش کو اہمیت دی، اپنے بچوں کا خیال رکھا، انہیں دودھ پلایا، انہیں اپنی آغوش میں پالا، ان کے لئے ثقافتی آذوقہ فراہم کیا یعنی قرآنی حکایتیں، قصے، احکام اور رہنما واقعات سنائے اور فرصت کے وقت میں جسمانی ضرورت کی غذا کی مانند ان چیزوں کا ذائقہ بھی چکھایا تو اس معاشرے کی انسانی نسلیں با شعور اور قابل افتخار ہوں گی۔ یہ عورت کا فن ہے اور یہ تعلیم حاصل کرنے، تعلیم دینے، گھر سے باہر کام کرنے اور سیاست کے میدان میں سرگرم عمل ہونے اور ایسے دیگر امور کی راہ میں حائل بھی نہیں ہے۔
تمام سماجی منصوبوں اور پروگراموں میں خاندان اور کنبے کو معیار اور اساس بنانا چاہئے۔ ماں کا مسئلہ، بیوی کا مسئلہ، گھر اور خاندان کا مسئلہ بہت ہی اہم اور حیاتی نوعیت کا ہے۔ یعنی اگر کوئی عورت بہت بڑی ماہر ڈاکٹر بن جائے یا کسی اور شعبے میں مہارت حاصل کر لے لیکن گھر کے فرائض سے عہدہ برآ نہ ہو سکے تو یہ اس کے لئے ایک نقص اور کمی ہے۔ گھر کی مالکہ کا وجود ضروری ہے، بلکہ محور یہی ہے۔ بلا تشبیہ عورت شہد کی رانی مکھی کا درجہ رکھتی ہے۔