شاعر مشرق علامہ محمد اقبال بیسویں صدی میں ملت اسلامیہ کی ذہنی فکر کے اولین معمار تصور ہوتے ہیں۔ آپ ایسی انقلاب آفرین شخصیت کے مالک تھے جو اپنی ذات میں جامع صفات اور جامع کمالات تھی۔ آپ کی مخاطب شکست خوردہ اور محکوم قوم تھی جو ایک طرف حرکت و حرارت سے ناآشنا، بے عملی اورمایوسی کے اندھیروں میں ڈوبی ہوئی تھی تو دوسری طرف ذہنی اور اخلاقی پستی نے اس کی حُریت فکر کو شکست خوردگی اور خودفریبی سے دوچار کررکھا تھا۔ یہی نہیں بلکہ مغربی تہذیب کا سیلاب بلا خیز مسلم تہذیب و اقدار کو خش و خاشاک کی طرح بہالے جارہا تھا۔ ان حالات کے پیش نظر آپ نے ملت پر طاری جمود کو توڑنے اور قوم کے تنِ مردہ میں حیات نو کا تازہ لہو فراہم کرنے کے لیے شعر و سخن کو اظہار کا ذریعہ بنایا۔ آپ کا شعری پیغام، پرشکوہ، آفاقی، سوز و گداز کی تپش سے لبریز، پیغمبرانہ صفات کا حامل تھا۔ جس نے اسلامی فکر کی تشکیل جدید، اتحاد بین المسلمین اور اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا فریضہ سرانجام دیا۔
علامہ اقبال کی شاعری اور سیاسی افکار نے کئی ایک ارتقائی منازل طے کیں۔ بہت سے دوسرے مسلمان رہنماؤں کی طرح ابتدا میں آپ ہندوستانی قوم پرستی کے قائل تھے۔ اس دور میں آپ کی فکری جستجو حب و الوطنی اور قومی اتحاد کے گہرے اور شدید جذبات سے ہم آہنگ تھی۔ متحد قومیت کے اسی جذبے کے تحت آپ نے ’’ترانہ ہندی‘‘ ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘‘ تحریر کیا جو آپ کے قوم پرستانہ نظریات کا شاہکار ہے مگر سیاسی شعور میں پختگی آنے کے بعد آپ نے قوم پرستی کو خیر باد کہہ دیا اور اخوتِ اسلامی اور اتحاد عالم اسلام کے زبردست حامی و مبلغ بن گئے۔ اسی کے زیر اثر آپ نے ’’ترانہ ملی‘‘ تحریرکیا ’’مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا۔‘‘ سیاسی افکار کی تبدیلی میں ہندوستانی سیاست کا بڑا عمل دخل رہا ہے مثلاً 1905ء میں تقسیم بنگال نے مسلمانوں کو جن سیاسی، سماجی و معاشی فوائد سے بہرہ مند کیا۔ 1911ء میں اس کی تنسیخ سے یہ تمام فیوض و برکات ان سے چھن گئے جس پر مسلمان سراپا احتجاج نظر آئے اور آپ پر بھی اس کا زبردست ردعمل ہو ا۔ مغربی سامراجی چال بازیوں اور ہندوؤں کے متعصبانہ رویے نے انھیں قوم پرستی کی تحریک سے مایوس کردیا کیونکہ ہندوستانی قوم پرستی کی تحریک ہندو غلبے کے مترادف تھی۔
علامہ اقبال کی شاعری اور فکر کا اہم دور 1915ء میں اسرار خودی کی اشاعت سے ہوا۔ یہ وہ دور ہے جب آپ مغرب کی مادہ پرستی، جارحانہ قوم پرستی سامراجیت، سرمایہ دارانہ نظام اور معاشی استحصال کی نفی اور اسلامی اخوت، آفاقیت اور اتحاد کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں۔
علامہ اقبال کے سیاسی افکار و اسلامی فلسفہ میں قیام یورپ کو ایک بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ 1905ء میں آپ یورپ روانہ ہوئے جرمنی کی میونخ یونیورسٹی سے ’’ایران میں مابعد الطبیعات کا ارتقا‘‘ کے عنوان سے پی ایچ ڈی کا مقالہ تحریر کیا اور لنکنز ان لندن سے 1908ء میں بیرسٹر ایٹ لاء کا امتحان پاس کیا۔ قیام یورپ کے دوران آپ نے مغربی دنیا کا بغور مطالعہ کیا۔ مغربی تہذیب کی چمک دمک نگاہوں کو خیرہ کررہی تھی۔ اگرچہ آپ کو اہل یورپ کے علمی انداز فکر، قو تِ عمل اور تسخیر فطرت کی جدوجہد اور علم و فن سے گہرے شغف نے بہت متاثر کیا۔ ساتھ ہی ساتھ مسند درس و تدریس کا مشرق سے مغرب میں منتقل ہوجانا آپ کے لیے سوہانِ روح بنا ہوا تھا۔
مگر وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آبا کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارا
تہذیب مغرب کے تجزیے سے آپ کو اندازہ ہوا کہ منفی سرمایہ داری، محنت کش عوام کو بے جان مشینوں کی طرح اپنے خودغرضانہ مقاصد کے لیے استعمال کررہی ہے۔ جمہوریت کے نام پر دولت مند طبقات عوام کا استحصال کررہے ہیں۔ مغربی نظریہ قوم پرستی نے انسان کو مستقل طور پر تقسیم کردیا ہے۔ رنگ، نسل اور زبان کے اختلافات نے قوموں میں تفریق اور متحارب قوتوں میں تقسیم کررکھا ہے۔ قوم پرستی نے انسانیت کو چھوٹے چھوٹے خطوں میں تقسیم کردیا ہے جس سے خونریز لڑائیوں اور عالمی جنگوں کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ یہ قوم پرستی دنیا کی ہلاکت اور تہذیبِ انسانی کے فنا کا باعث بن رہی ہے۔
یورپ میں پندرھویں اور سولہویں صدی عیسوی سے فلسفہ وطنیت کی تحریک پیدا ہوئی جس نے اٹھارویں صدی عیسوی تک یورپ کے چھوٹے چھوٹے ممالک میں اس طرح تقسیم کردیا کہ وطن پرستی مذہب سے زیادہ اہمیت اختیار کرگئی۔ اسی وطن پرستی نے اہل یورپ کو باہمی نفرت اور عالمگیر جنگوں میں جونک دیا۔ آخر کار 1924ء میں خلافتِ عثمانیہ کے خاتمے کے بعد وطن واپسی کے جراثیم مسلمانوں میں بھی سرایت کرگئے اور مسلمان اسلامی تعلیمات کو فراموش کرکے اتحاد بین المسلمین کی بجائے حب الوطنی کے سحر میں مبتلا ہوگئے۔ حب الوطنی اپنے طور پر دلکش نعرہ ہے مگر امت مسلمہ کے لیے زہر قاتل ہے۔
علامہ جمال الدین افغانی نے انیسویں صدی کے آخری عشروں میں مغرب کی استعماری قوتوں کے مقابلے میں مسلمان کو پان اسلام ازم (Pan-islamic Movement) کی تحریک کی بدولت ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کی کوشش کی۔ انھوں نے مسلمانوں کو احساس دلایا کہ مغرب کے عیسائی ممالک اپنی خودساختہ تہذیب کی ترویج کی خاطر اسلامی تعلیمات کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ وہ اپنی وطن پرستی سے دنیا کی دوسری اقوام کو غلام بناتے ہیں اور خود کسی قوم کے تسلط کو ہرگز گوارا نہیں کرتے۔ علامہ جمال الدین افغانی نے اسلامی دنیا میں اصلاحی، انقلابی اور اتحاد اسلامی تحریکوں کے جو چراغ جلائے تھے وہ ان کے بعد بھی روشن رہے خاص طور پر اسلامیان ہند میں جمال الدین افغانی کے نظریات کو آگے بڑھاتے ہوئے علامہ محمد اقبال نے پان اسلام ازم کی اس تحریک میں ایک نئی روح پھونک دی۔ اسلامی ہند کی ملی بیداری، اسلامی شعور و اسلامی افکار کا پھیلاؤ انہی کی رہین منت ہے۔
علامہ اقبال کی شاعری اور فکر کا اہم دور 1915ء میں اسرار خودی کی اشاعت سے ہوا۔ یہ وہ دور ہے جب آپ مغرب کی مادہ پرستی، جارحانہ قوم پرستی سامراجیت، سرمایہ دارانہ نظام اور معاشی استحصال کی نفی اور اسلامی اخوت، آفاقیت اور اتحاد کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں۔ اسلام انسانیت کی تفریق کی بجائے انھیں ایک ملت میں منسلک کرتاہے۔آپ نے اسلام کے آفاقی پیغام کو اپنے اشعار کا موضوع بنایا اور انسانیت کو یہ باور کروایا کہ اسلام کا نصب العین انسانیت کو رنگ، نسل، زبان اور قوم پرستی کے بندھنوں سے آزاد کرکے ایک ملت میں منسلک کرنا ہے۔
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی
ان کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پر انحصار
قوت مذہب سے ہے مستحکم جمعیت تیری
علامہ اقبال ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر میں اسلامی نظریہ قومیت سے متعلق فرماتے ہیں:
’’مسلمانوں اوردنیا کی دوسری اقوام میں اصول فرق یہ ہے کہ قومیت کا اسلامی تصور دوسری اقوام کے تصور سے بالکل مختلف ہے۔ ہماری قومیت کا اصل اصول نہ اشتراک زبان پر ہے نہ اشتراک وطن، نہ اشتراک اغراض اقتصادی بلکہ ہم لوگ اس برادری میں ہیں جو جناب رسالت مآبﷺ نے قائم فرمائی ہے۔‘‘
علامہ اقبال احیائے اسلام کے علم بردار تھے اور ان کی دلی خواہش تھی کہ مسلمان قرون اولیٰ کے راستے پر گامزن ہوں۔ انھوں نے اخوت اسلامی کی بنیاد پر ملت اسلامیہ کا تخیل پیش کیا جس میں ساری دنیا کے مسلمان کلمہ گوئی کی بنا پر ایک وحدت کی حیثیت رکھتے ہیں اور ملت اسلامیہ توحید کی سیاسی اور سماجی قوت کامظہر تھی۔
آپ نے اتحاد اسلامی کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ اخوت اسلامی کا یہ مطلب نہیں کہ ساری دنیا کے مسلمان سیاسی اعتبار سے ایک مرکز پر متحد ہوجائیں بلکہ اس کا مذہب یہ ہے کہ نسل و قومیت، ز بان و جغرافیائی حدود کی تفریق کی بجائے انسانیت کے جذبے کے ماتحت ساری دنیا کے مسلمان متحد ہوجائیں۔ ذات باری تعالیٰ پر زبردست اعتقاد اورمحمد رسول اللہ سے محبت کا جذبہ ساری ملت اسلامیہ کو متحد رکھ سکتا ہے۔ملت کی رہنمائی کے لیے شریعت اسلامیہ اور خدائی قوانین ہر طرح سے کافی ہوں گے۔
یوں تو آپ کے مخاطب عالم اسلام کے مسلمان تھے، ساتھ ہی ساتھ آپ نے ہندوستان کے مسلمانوں میں یہ احساس پیدا کیا کہ ہندوستان جو مختلف مذاہب اورتہذیب و تمدن کی آماجگاہ ہے۔ یہاں مسلمانوں کو بطور قوم اپنی شناخت اس طرح سے کروانی ہے کہ وہ امت مسلمہ سے اپنا رشتہ استوار رکھے۔آپ خطبہ الہ آباد 1930ء میں آزاد مسلم ریاست کا تصور پیش کرتے ہیں وہاں پر بھی فرماتے ہیں کہ اسلام نے مشکل وقتوں میں مسلمانوں کی زندگی کو قائم رکھا اور اگر آج بھی آپ مسلمان اپنی نگاہیں اسلام کی طرف پھیردیں توآپ کی پراگندہ قوتیں از سر نو جمع ہوکر آپ کو ہلاکت و بربادی سے محفوظ رکھ سکتی ہیں کیونکہ مسلمان ہمیشہ سے جسم واحد کی طرح زندہ رہے ہیں۔ علامہ اقبال احیائے اسلام کے علم بردار تھے اور ان کی دلی خواہش تھی کہ مسلمان قرون اولیٰ کے راستے پر گامزن ہوں۔ انھوں نے اخوت اسلامی کی بنیاد پر ملت اسلامیہ کا تخیل پیش کیا جس میں ساری دنیا کے مسلمان کلمہ گوئی کی بنا پر ایک وحدت کی حیثیت رکھتے ہیں اور ملت اسلامیہ توحید کی سیاسی اور سماجی قوت کامظہر تھی۔ اس کی بنیاد اسلامی مساوات اخوت اور آزادی کے اصولوں پر ہے۔ کعبہ اسی ملت کامرکز ہے۔
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاکِ کاشغر
عصر حاضر میں عالم اسلام کی بقا پیام اقبال اور حب وحدت ملت اسلامیہ کے جذبےمیں مضمر ہے۔ مسلم ممالک کی تعداد پچاس سے زیادہ ہے مگر وہ باہمی اتحاد و اتفاق کی بجائے باہمی آویزش کا شکار نظر آتے ہیں۔ ایران عراق جنگ، کویت پر عراقی حملہ، یمن، شام، عراق اور لیبیا پر جنگ کا مسلط کیا جانا اور خود ایرانی سعودی اختلافات اس امر کی غمازی کرتے ہیں کہ باہمی آویزش سے اسلامی ممالک اس قدر کمزور ہوچکے ہیں کہ صیہونی اورمغربی طاقتیں انھیں ایک ایک کرکے اپنے دام میں گرفتارکررہی ہیں۔ برادر اسلامی ممالک ایک دوسرے کی مدد کرنے کی بجائے ایک دوسرے کی تباہی کا نظارہ کررہے ہیں۔آج ضرورت اس امر کی ہے کہ پیام اقبال کو پھر سے عام کیا جائے تاکہ علامہ اقبال نے پوری علمی و فکری طاقت سے امت مسلمہ کو تمیز رنگ و نسل اورمغرب کی وطنی قومیت کے طلسم سے نکال کر صاحبان ایمان کو دنیا میں امت واحدہ بنانے کا جو مشن اپنایا تھا اسے کامیابی سے جاری و ساری رکھا جائے اور ان کے عظیم شعری، علمی اور فکری سرمایہ کو اس طرح زندہ کیا جائے کہ نوجوان نسل ان کی تعلیمات اور افکار سے مستقل مستفید ہوتی رہے۔