بچوں کا عالمی دن اور ہماری ذمہ داریاں

سمیہ اسلام

مرتبہ: نازیہ عبدالستار

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَلَا السَّیِّئَۃُ اِدْفَعْ بِالَّتِیْ

بچوں کا عالمی دن ہر سال سولہ اکتوبر کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں منایا جاتا ہے. اس دن کو منانے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ عالمی سطح پر بچوں کی تعلیم، صحت، تفریح اور ذہنی تربیت کے حوالے سے شعور اجاگر کیا جائے تاکہ یہ بچے مستقبل میں معاشرے کے مفید شہری بن سکیں۔

20 نومبر 1959کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے چلڈرن رائٹس کاڈیکلریشن کیا اور 20 نومبر 1989 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے چائلڈرائٹس پر کنونشن کیا۔اس طرح 20نومبر1990کو چلڈرن ڈیکلریشن اور کنونشن کی پہلی سالانہ تقریبات ہوئیں۔اس دن کے لئے نیلا رنگ بھی مختص کیا گیا ہے۔تاریخ بنی آدم سے لیکر آج تک کسی بھی قوم اور معاشرے نے بچوں یعنی نسلِ نو کے حقوق اور ذمہ داریوں سے انکار نہیں کیا۔ وہ قومیں اور معاشرے ہمیشہ ترقی کے زینے پر آسانی سے چڑھتے ہیں جو بچوں کی ابتدائی عمر سے ہی مستقبل کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کرتے ہیں۔ ریاست مدینہ کے قیام کے آغاز میں ہی پہلے غزوہ بدر کے پڑھے لکھے غیر مسلم قیدیوں کے لئے بھی آقاِ نامدارنبی آخرالزماں معلم اعظم ؐ نے مدینے کے بچوں کی تعلیم کے بدلے رہائی کا اعلان کیا۔ اولاد ایک طرف والدین کیلئے اللہ تعالیٰ کی جانب سے انمول نعمت ہے اور دوسری جانب ایک بہت بڑی ذمہ داری بھی ہے۔

ماہرین تعلیم اور نفسیات کا اس بات پر مکمل اتفاق ہے کہ بچوں کی عمرکے ابتدائی سال انتہائی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں اس عرصے میں بچوں کی شخصیت کی بنیادیں استوار ہوتی ہیں نیزاس دور میں بچوں کے ذہن پرجو نقوش مُرتسم ہوتے ہیں وہ اتنے گہرے ہوتے ہیں کہ بعد میں مٹانے سے بھی نہیں مٹتے۔ آپ ؐکی حدیث مبارکہ بھی ہے کہ ہربچہ دین فطرت پرپیدا ہوتا ہے بعد میں اس کے والدین اسے مجوسی یا نصرانی بنا دیتے ہیں۔ مادر وطن اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور میں بھی بچوں کے حقوق پر آرٹیکلز ہیں ان آرٹیکلز کی روشنی میں درجنوں ادارے بھی بنا دیے گئے۔لیکن کئی دہائیوں سے ہر دورحکومت میں ایک جیسے نعرے اور دعوے سننے کو ملتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کئی کروڑ بچوں کے لئے سکول نہیں۔ جو بچے سکول پہنچ پا رہے ہیں ان کو اقوام عالم کے معیار کی تعلیم نہیں مل رہی۔ سالانہ لاکھوں بچے صحت کی سہولتیں نہ ہونے کی وجہ سے اورخوراک کی کمی کی وجہ سے لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔

ان میں پہلی چیز گھر کے ماحول کو بہتر بناناہے گھر کا ماحول جتنا آئیڈیل ہو گا بچے کی شخصیت اسی قدر آئیڈیل انداز میں پنپے گی۔، دوسری اہم چیز، بات چیت اور بچوں کو سنناہے، تیسری چیز، بچوں کے جذبات کو سمجھنااورچوتھی چیز، بچوں سے بے جا اُمیدیں اور توقعات وابستہ نہ کی جائیں کیونکہ ہر بچے کی اپنی پہچان اور اپنی قابلیت ہو تی ہے تو ان کو ان کی قابلیت کے مطابق کام کرنے دیا جائے اور بلا وجہ کا بوجھ نہ ڈالا جائے۔

ہمارے ہاں بچوں کیلئے تعلیم، صحت، کھیل و دیگربنیادی ضرورتیں تو دور کی بات اب جنسی تشدد ودیگر سماجی برائیوں کا گراف آئے روز اوپر جا رہا ہے اس کی سب سے بڑی وجہ اس ڈیجیٹل دور میں بھی والدین اور معاشرے نے "ٹارزن آدھا ننگا ہے، سنڈریلا آدھی رات کو گھر آتی ہے، پٹوکیو ہروقت جھوٹ بولتا ہے۔ الہ دین چوروں کا بادشاہ ہے، بیٹ مین 200میل فی گھنٹہ رفتارسے ڈرائیو کرتا ہے، رومیو اور جو لیٹ نے محبت میں خودکشی کرلی، ڈبو شراب پی کر تصورات میں کھو جاتا ہے اور سنو وائٹ سات مردوں کے ساتھ رہتی ہے " وغیرہ وغیرہ توہمیں حیران نہیں ہونا چاہیے کہ ہمارے بچے بدتمیزی کرتے ہیں یہ سب کچھ وہ ان کہانیوں اور کارٹونز سے سیکھتے ہیں جو ہم ان کو فراہم کرتے ہیں۔

اس کی بجائے ہمیں انہیں اس طرح کی کہانیاں پڑھانی چاہیں کہ" حضرت ابوبکرصدیق ؓ کی اپنے آقاؐکے لئے نہ ختم ہونے والی محبت اور خدمت، حضرت عمرفاروقؓ کی بردباری اور عدل وانصاف سے پیار، حضرت عثمان غنیؓ کا شرم و حیا کا معیار، حضرت علیؓ کی ہمت اور حوصلہ دیکھائیں، حضرت فاطمہؓ کا اپنے والد مکرمؐ کے لئے پیار و ادب، حضرت خالد بن ولیدؓ کی برائی سے لڑنے کی خواہش، صلاح الدین ایوبیؒ کی وعدہ کی جگہ کی فتح اور سب سے زیادہ ہمیں اللہ، قرآن کریم اور سنت رسولؐ سے پیار۔ بڑوں کا ادب۔ کے متعلق پڑھانا، دیکھانا اور سیکھانا چاہیے" اور پھر دیکھئے کہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے والدین کو ملنے والا یہ انمول تحفہ قائدانہ صلاحیتوں کے ذریعے نہ صرف گھر، معاشرے اور ملت کا ماحول خوش گوار بنائے گا بلکہ اقوام عالم کو اپنے اسلاف کے وضع کردہ اصولوں کے ذریعے لیڈبھی کرے گا۔ اس سارے عمل میں والدین، اساتذہ اور ریاستی پالیسیوں کو ایک پیج پر ہونا پڑے گا کیونکہ کرونا وبا نے بھی ہماری نسلِ نو کی تعلیم و تربیت کے دوسال پریشان کیے ہیں جن کے گہرے اثرات کئی سالوں تک رہیں گے۔

انسانی زندگی خوبصورت ہے لیکن اس کا خوبصورت ترین حصہ بچپن ہے۔ بچے پھولوں کی مانند ہوتے ہیں۔ وہ نرم و ملائم ہوتے ہیں اور بڑی احتیاط اور ذمہ داری کے ساتھ ان کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔رسول اللہ ﷺ نے بچوں کے ساتھ محبت کی ایک بڑی ہی روشن مثال قائم کی۔ وہ اپنے نواسوں پر محبت نچھاور کیا کرتے تھے۔ ایک حدیثِ مبارکہ کے مطابق نبی اکرمﷺ نے حضرت حسن بن علی رضی اﷲ عنہما کو بوسہ دیا۔ اُس وقت آپ ﷺ کے پاس اقرع بن حابس تمیمی بھی بیٹھے تھے وہ بولے: (یا رسول اﷲ!) میرے دس بیٹے ہیں میں نے تو کبھی اُن میں سے کسی کو نہیں چوما۔ اِس پرآپ ﷺ نے اُس کی طرف دیکھ کر فرمایا: جو رحم نہیں کرتا اُس پر رحم نہیں کیا جاتا۔ (صحیح بخاری)

اگر والدین یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ وہ اپنی زندگیوں میں کس قدر کامیاب ہیں تو اس کا اندازہ وہ اپنے بچوں کو دیکھ کر ہی لگاسکتے ہیں۔ اگر بچے اخلاقی طور پر اچھے ہیں تو یہی والدین کی کامیابی ہے۔ یوں بچے کامیابی یا ناکامی پرکھنے کا حقیقی پیمانہ ہیں۔ اس لیے والدین کو اپنے بچوں کو اپنے گھروں کے اندر بہتر ماحول کی تشکیل کے ذریعے اپنے بچوں کو نیک کردار اور ادب و آداب کی تعلیم دینی چاہیے۔ بچوں کو اخلاق سکھانے کے لیے بلیک بورڈ، فلپ چارٹ یا ملٹی میڈیا کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ والدین کے طور طریقے، عادات، عوامل اور الفاظ بچوں کے اذہان پر دیرپا اثرات مرتب کرتے ہیں۔

ایک سنہری کہاوت ہے کہ نونہالوں سے پیار کیا جاتا ہے، اسکول جانے والے بچوں پر نظر رکھی جاتی ہے اور ٹین ایجر بچوں کے ساتھ دوستوں جیسا سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ مختصراً یہ کہ، اولاد رحمت ہے، اور ان کا لازمی طور پر تحفظ کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں کہ، ’اے ایمان والو تم اپنے آپ کو اور اپنے گهر والوں کو دوزخ کی آگ سے بچاؤ جس کا ایندهن آدمی اور پتهر ہیں۔۔۔۔‘

گھر کا ماحول وہ واحد سب سے اہم ترین عنصر ہے جو بچے کی زندگی پر گہرا اثر مرتب کرتا ہے۔ ایک بچہ اپنی زندگی کے ابتدائی لمحات سے ہی اپنے والدین پر منحصر ہوتا ہے جو اس کی ہر ایک ضرورت کو پورا کرتے ہیں۔ والدین بچوں کے پہلے معلمین ہوتے ہیں اور ان کے لیے رول ماڈل کا کردار ادا کرتے ہیں۔ زیادہ تر بچے خوش قسمت ہیں کہ جنہیں اپنے والدین کی محبت اور شفقت سے بھرپور مطلوبہ گھریلو ماحول ملتا ہے۔تاہم اگر والدین کے باہمی تعلقات کسی وجہ سے تناؤ کا شکار ہیں تو ایسے میں سب سے زیادہ تکلیف ان کے بچے کو ہی اٹھانی پڑتی ہے۔ عام طور پر جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو والدین اپنی تمام تر سرگرمیاں ایک طرف رکھ دیتے ہیں اور ان کی اولین ترجیح اپنی اولاد ہوتی ہے۔ والدین کا باہمی پیار اور محبت، خیال اور تحفظ ہی بچے کے پھلنے پھولنے کا ضامن ہوتا ہے۔

زندگی دھوپ چھاؤں کاکھیل ہے، تلخ وشیریں یادوں کا مجموعہ ہے اورٹھوکر کھاکر گرنے اور دوبارہ کھڑے ہونے کی ایک لمبی ریس ہے۔اس میں ہمیشہ کامیابیاں نہیں ملتی، اپنے بچوں کے ذہن میں صرف کامیابی کے سپنے نہ ڈالیں بلکہ انھیں ناکامی سے بھی متعارف کروائیں اور انھیں بتائیں کہ زندگی میں ناکامی کاسامناکرنا پڑے گالیکن اس کامطلب یہ ہرگز نہیں کہ زندگی ختم ہوگئی بلکہ گرکر دوبارہ اٹھنا ہے اور ایک نئی لگن کے ساتھ آگے بڑھتے جاناہے۔

ہم ٹیکنالوجی کے دور میں رہتے ہیں اور ٹیکنالوجی نے بچوں کی پرورش و تربیت سمیت زندگی کے ہر ایک شعبے میں اپنا حد سے زیادہ عمل دخل قائم کرلیا ہے۔ یوں والدین کے لیے بچے کی پرورش کی ذمہ داریاں پہلے کے مقابلے میں کئی گنا بڑھ گئی ہیں۔ انسان کا بچپن نونہالی، کنڈرگارٹن، پرائمری تعلیم، ٹین ایچ وغیرہ جیسے مختلف مراحل پر مشتمل ہوتا ہے۔ ہر ایک مرحلے پر بچوں کی مختلف انداز میں دیکھ بال اور پرورش درکار ہوتی ہے۔

نونہالی کے دنوں میں بچوں کو وبائی بیماریوں سے بچانا اور باقاعدگی کے ساتھ حفاظتی ٹیکے لگوانا ضروری ہوتا ہے۔ جب بچہ اسکول جانے لائق ہوجائے تو لازماً اسے ادب و آداب، اخلاقیات اور حسنِ عمل کی بنیادی تربیت فراہم کی جائے۔ والدین کو اپنے گھروں میں مذہبی اور روحانی ماحول تشکیل دینے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔ انہیں بدزبانی، لڑائی جھگڑے اور جھوٹ سے کنارہ کشی اختیار کرلینی چاہیے۔ بچوں کو کھیلنے کے لیے کون سا کھلونا دینا ہے یہ فیصلہ کرتے ہوئے والدین کو کافی محتاط رہنا چاہیے۔

آج کل کئی بچے کھلونا گن یا اسلحے سے کھیلتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ بچوں کو اس قسم کے کھلونے نہ دیے جائیں کیونکہ یہ بچوں میں جارحانہ ذہنیت اور جنگی جنون کے رجحانات کو فروغ دیتے ہیں۔ ایسا بھی کہا جاتا ہے کہ کھلونا گن سے کھیلنے والے بچوں کے رویوں میں تحمل مزاجی کی کمی کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ اسی طرح انہیں ایسی بیہودہ فلمیں یا ویڈیوز دیکھنے سے باز رکھنا چاہیے جن میں تشدد اور خون ریزی جیسے مناظر شامل ہوں۔ بچوں کو چند احتیاطی تدابیر کے ساتھ والدین کے زیرِنگرانی سوشل میڈیا کا استعمال کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔

جب بچہ ٹین ایج کی عمر کو پہنچتا ہے تو والدین کی ذمہ داریوں میں بھی تبدیلی آ جاتی ہے۔ اس عمر میں بچہ اسکول، محلے اور معاشرے میں دوستیاں قائم کرتا ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کی اس عمر میں ان کے دوست بن جائیں اور انہیں صحیح راستے کی رہنمائی کریں۔

والدین گھریلو کام کاج میں ہاتھ بٹانے اور روازنہ نماز ساتھ پڑھنے کے لیے بچوں کی حوصلہ افزائی کرسکتے ہیں۔ والدین کو پتہ ہو کہ ان کا بچہ کس قسم کے ہم عمر حلقے میں اٹھتا بیٹھتا ہے اور بچے کی ہر دن کی سرگرمیوں پر بھی نظر رکھیں۔ ہمارے معاشرے میں بچوں پر تشدد کے بڑھتے واقعات کے پیش نظر ضروری ہے کہ بچوں کو بڑی احتیاط کے ساتھ اس خطرے کے حوالے سے آگاہی فراہم کی جائے۔

ایک سنہری کہاوت ہے کہ نونہالوں سے پیار کیا جاتا ہے، اسکول جانے والے بچوں پر نظر رکھی جاتی ہے اور ٹین ایجر بچوں کے ساتھ دوستوں جیسا سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ مختصراً یہ کہ، اولاد رحمت ہے، اور ان کا لازمی طور پر تحفظ کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں کہ، ’اے ایمان والو تم اپنے آپ کو اور اپنے گهر والوں کو دوزخ کی آگ سے بچاؤ جس کا ایندهن آدمی اور پتهر ہیں۔۔۔۔‘ (66:6)

ٹیکنالوجی کے اس جدید ترین دور میں والدین کو انتہائی احتیاط کے ساتھ قدم اٹھاناہوگااور بچوں کی تربیت محبت کے آلہ کو بروئے کار لا کر کرنا ہوگی۔ آج ٹیکنالوجی کی تیزرفتاری ایک بڑا چیلنج ہے۔ مختلف اشیا کے استعمال سے مثبت کے ساتھ منفی نتائج بھی نکل رہے ہیں۔ جب ہم اس چیز کو سمجھ لیں گے تو بچوں کو سمجھنا اور ان کی ذہنی سطح کو جاننا آسان ہوجائے گا۔

بطور والدین ہمیں اس بات کو تسلیم کرنا ہوگا کہ آج کی نسل پرانی نسل سے بالکل مختلف ہے۔ ڈیجیٹل میڈیا کی ترقی نے آج کے بچوں کی سمجھ بوجھ اور چیزوں کی سلیکشن کو انتہائی تیز کردیا ہے جس سے د و چیزیں بہت زیادہ متاثر ہوئی ہیں۔ بچوں کے احساسات اور ان کا قوت فیصلہ۔ سوشل میڈیا کی فرضی دنیا میں رہنے کی وجہ سے ان کے حقیقی دنیا کے احساسات کمزور ہوتے جارہے ہیں۔ چنانچہ آج وہ رشتوں کو اتنی اہمیت نہیں دیتے جتنا سوشل میڈیا کے دوستوں کو دیتے ہیں۔ مختلف قسم کے اشتہارات دیکھ دیکھ کر وہ بھی راتوں رات امیر بننا چاہتے ہیں اور اس وجہ سے ایک غیر محسوس طریقے سے وہ مادہ پرستی کے دائرے میں داخل ہوجاتے ہیں۔ وہ لوگوں سے ملنے اور گھر والوں کے ساتھ بیٹھنے کی نسبت ڈالرز کمانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ایک ہی کونے میں بیٹھے رہنے کی وجہ سے وہ معاشرے سے کٹتے جارہے ہیں اور ان کا سوشل سرکل نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے۔

دوسری چیز فیصلہ (انتخاب) ہے۔ آج دوسال کا بچہ بھی یوٹیوب پر اپنی مرضی کی چیزیں نکالتا اور دیکھتا ہے جبکہ دوسری طرف ایسی گیمز موجود ہیں جن میں ایک بٹن دبانے سے زمین میں درخت لگ جاتاہے۔ دوسرا بٹن دبانے سے اس کے پتے نکل آتے اور تیسرے بٹن پر اس میں پھل بھی لگ جاتا ہے۔ اب یہ دراصل ٹیکنالوجی کی اسپیڈ ہے جس کو نئی نسل زندگی کی اسپیڈ سمجھ لیتی ہے اور پھر حقیقی دنیا میں جب کام اتنی تیزی سے نہیں ہوتے تو وہ چڑچڑے ہوجاتے ہیں اور جذباتی صدمے کا شکار ہوکر معاشرے سے کٹ جاتے ہیں۔

تربیت کے سلسلے میں پہلی چیز گھر کا وہ ماحول ہے جو والدین نے برقرار رکھا ہوتا ہے۔ والدین کی ذات میں اگر صبر و تحمل اور سمجھداری موجود ہے، وہ جذباتی کمزوری کا شکار نہیں، وہ معمولی بات پر آپے سے باہر نہیں ہوتے اور ان کا اللہ کی ذات پر مکمل یقین ہے تو پھر یہ چیزیں آہستہ آہستہ بچوں کی ذات میں بھی اترتی جاتی ہیں اور وہ بیرونی دنیا میں ہزار خطروں اور چیلنجز کے باوجود مشکلات کا شکار نہیں ہوتے۔

زندگی دھوپ چھاؤں کاکھیل ہے، تلخ وشیریں یادوں کا مجموعہ ہے اورٹھوکر کھاکر گرنے اور دوبارہ کھڑے ہونے کی ایک لمبی ریس ہے۔اس میں ہمیشہ کامیابیاں نہیں ملتی، اپنے بچوں کے ذہن میں صرف کامیابی کے سپنے نہ ڈالیں بلکہ انھیں ناکامی سے بھی متعارف کروائیں اور انھیں بتائیں کہ زندگی میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا لیکن اس کامطلب یہ ہرگز نہیں کہ زندگی ختم ہوگئی بلکہ گرکر دوبارہ اٹھنا ہے اور ایک نئی لگن کے ساتھ آگے بڑھتے جاناہے۔

کچھ ایسے اعمال جن پر عمل پیرا ہو کر والدین بچوں کو اچھی طرح سمجھ پائیں گےجوکہ بچوں کی اچھی تربیت میں معاون ثابت ہوں گی۔ ان میں پہلی چیز گھر کے ماحول کو بہتر بناناہے گھر کا ماحول جتنا آئیڈیل ہو گا بچے کی شخصیت اسی قدر آئیڈیل انداز میں پنپے گی۔، دوسری اہم چیز، بات چیت اور بچوں کو سنناہے، تیسری چیز، بچوں کے جذبات کو سمجھنااورچوتھی چیز، بچوں سے بے جا اُمیدیں اور توقعات وابستہ نہ کی جائیں کیونکہ ہر بچے کی اپنی پہچان اور اپنی قابلیت ہو تی ہے تو ان کو ان کی قابلیت کے مطابق کام کرنے دیا جائے اور بلا وجہ کا بوجھ نہ ڈالا جائے۔