مرتبہ: نازیہ عبدالستار
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَلَا السَّیِّئَۃُ اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَبَیْنَہٗ عَدَاوَۃٌ کَاَنَّہٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ.
(فصلت، 41: 34)
’’اور نیکی اور بدی برابر نہیں ہو سکتی، اور برائی کو بہتر (طریقے) سے دور کیا کرو سو نتیجتاً وہ شخص کہ تمہارے اور جس کے درمیان دشمنی تھی گویا وہ گرم جوش دوست ہو جائے گا۔‘‘
اس آیت میں یہ پیغام دیا گیا ہے جو علم فہم اور پیغام کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان کو پوری تاکید کے ساتھ ترغیب دی گئی ہے کہ وہ داعی بنیں۔ دوسری جگہ ارشاد فرمایا: ادع الی سبیل ربک دعوت فرض قرار دی گئی۔ کبھی قرآن صیغہ امر میں بات کرکے حکم دیتا ہے کبھی بطور فضیلت بیان کرکے حکم بیان کرتا ہے۔ الگ الگ انداز میں قرآن مجید کے بہت سےاسالیب ہیں جب قرآن کہتا ہے دعوت دیجیے تو دعوت فرض ثابت ہوجاتی ہے۔ اگر دعوت رک جائے تو پورا معاشرہ تارک فرض ہوگا اور عذاب میں مبتلا ہوگا۔ فرمایا گیا ہے جو دعوت کے اہل ہیں وہ دعوت کی ذمہ داری اپنالیں۔ اس سے بہتر کوئی کام نہیں ہے۔ اگرکوئی دعوت کے برعکس ایسا کا م کرے جس سے داعی کو تکلیف پہنچے تو اس کی برائی اور اذیت کو برائی اور اذیت کے طریقے سے رد نہیں کرنا۔ اس کی برائی کو اچھائی سے دور کرنا ہے۔ اس کی بدخلقی کو نیک خلقی کے ساتھ دفعہ کرنا ہے۔
اگر شیطان داعی کو برائی پر ابھارے کہ اس نے آپ کے ساتھ ایسا سلوک کیا جو اذیت ناک ہے ایسا فعل اپنایا جس سے آپ کو غصہ آتا ہے، دعوت کا مذاق اڑایا، تہمت لگائی، پریشان کیا۔ وہ شیطان کے لیے شاندار وقت ہوتاغصہ آیا ہوا ہوگا یا سبب پیدا ہوچکا ہوگا۔ اس وقت شیطان مشتعل کرے گا۔ اس نے ایسا کیا ہے اس کا رد عمل بھی ایسی برائی سے کر و کہ یہ عمر بھر یاد رکھے۔ اس وقت کے لیے اللہ تعالی فرماتا ہے۔
وَاِمَّا یَنْزَغَنَّکَ مِنَ الشَّیْطٰنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللهِ.
(فصلت، 41: 36)
’’اور (اے بندۂِ مومن!) اگر شیطان کی وسوسہ اندازی سے تمہیں کوئی وسوسہ آ جائے تو الله کی پناہ مانگ لیا کر۔‘‘
اگر شیطان مشتعل کرے کہ برائی کا برائی سے جواب دیا۔ اس وقت فوری اللہ کی پناہ مانگو اور غصہ کو ٹھنڈا کرو۔ کہیں آپ کو شیطان اچھائی کی راہ سے ہٹانے میں کامیاب نہ ہوجائے کیونکہ اللہ تعالی نےفرمایا ہے۔
وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا.
(فصلت، 41: 33)
’’اور اس شخص سے زیادہ خوش گفتار کون ہو سکتا ہے۔‘‘
جس شخص نے دعوت کا کام اختیار کیا لوگوں کو خیر کی طرف بلایا جو دعوت دیتا ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کائنات میں اس پر بہتر کوئی بات نہیں کرسکتا۔ جس نے اپنی بات کے ذریعہ اللہ کی دعوت دی۔ اس سے بہتر کسی کا قول نہی ں جس نے اپنے قول کے ذریعے دعوت الی اللہ دی۔ ومن احسن قولہ جس کا کلام اور گفتگو اس شخص سے بہتر ہو جس نے اپنے کلام اور گفتگو کے ذریعے اللہ کی طرف دعوت دی۔ اس کا جواب ہے کوئی نہیں یہ طریق استفہام اختیار کیا ہے جب طریق استفہام سے کسی چیز کو رد کرتے ہیں یہ بڑا قوی رد ہوتا ہے۔ ہر اس قول کی نفی کردی گئی ہے جو از دعوت الی اللہ سے خالی ہے۔ آپ داعی ہوں اور آپ کلام دعوت ہو۔ اللہ پاک گواہی دے دنیا میں کسی اور کا کلام اس دعوت سے بہتر نہیں لھٰذا اس دعوت کے لیے کچھ شرائط بھی تو ہونی چاہیے پس اس کی دو شرطیں ہیں۔
مِّمَّنْ دَعَآ اِلَی اللهِ وَعَمِلَ صَالِحًا.
(فصلت، 41: 33)
’’جو الله کی طرف بلائے اور نیک عمل کرے۔‘‘
ہر تقریر کرنے والے کا قول کائنات میں اعلیٰ و افضل نہیں ہوسکتا۔ بڑے بڑے فنکار بھی ہیں جو اپنے طریقے سے بولتے اور کام کرتے ہیں لہزا تقریر و دعوت میں فرق ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے دعوت کو تقریر سے جدا کردیا ہے۔ داعی کو یہ مرتبہ دیا آپ کی گفتگو دعوت کے ساتھ کتنی لبریز ہے اور دعوت سے کتنی خالی ہے۔ گفتگو میں زیروبم بھی ہوجائے۔ لفظی بھی ہوجائیں مگر اللہ پاک کو ان کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ اللہ کے کلام سے بہتر کلام کس کا ہوسکتا ہے؟ وہ داعی جو دعوت دے اللہ کی طرف اسکے ساتھ عمل صالح کرے جیسےعالم و عالمہ نے دعوت دی جس میں اللہ کی طرف دعوت تھی۔ دعوت والے کلام میں کسی کا کلام کائنات میں افضل نہیں سوائے اس شخص کی دعوت و کلام کے جو اللہ کی دعوت دے اور دعوت کے مطابق عمل صالح کرے۔ جس چیز کی د عوت دے رہا ہے اس کا عمل بھی اپنی زندگی میں کررہا ہے۔ دعوت کے عمل کو عمل صالح کے ساتھ جوڑ دیا۔ اس لیے اس کا کلام مبنی ہے اللہ کی طرف، دین کی طرف، خیر کی طرف، ہدایت کی طرف۔ اس لیے اس کا کلام دنیا کے ہر کلام سے اعلیٰ ہے۔ اس کا عمل اس کی دعوت کے عین مطابق ہے۔ اس کا کلام دعوت کہلائے گا جس کا عمل قول کے مطابق نہیں اس کی تقریر ہے۔ خطاب اس کی فنکاری ہے جتنا فن چاہے سیکھ لے بے کار ہے اس سے چاہے نعت پڑھوالیں۔ تقریر اور خطاب بھی اسی طرح کا فن ہے لہزا فنکاری و دعوت کاری میں فرق ہے۔ دعوت کو فنکاری نہ بنائیں۔ جب سے ہم نے دین کو تقریر اور دین کو فنکاری بنالیا ہے دعوت و داعی بھی گئے افضلیت بھی گئی۔ جس خیر کی دعوت دی جس اخلاق کی دعوت دی، سننے والا اس کو دیکھنا چاہے تو داعی کی زندگی میں اسے نظر آئیں۔ اس کو عمل صالح کہتے ہیں جو کہیں وہ کریں ایسے شخص کی دعوت ہر قول سے بلند ہوجاتی ہے۔
جس شخص نے دعوت کا کام اختیار کیا لوگوں کو خیر کی طرف بلایا جو دعوت دیتا ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کائنات میں اس پر بہتر کوئی بات نہیں کرسکتا۔ جس نے اپنی بات کے ذریعہ اللہ کی دعوت دی۔ اس سے بہتر کسی کا قول نہیں۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اتنا بڑا زور کیوں دیا ہے دعوت دینا ایک نیکی تو تھی مگر عمل صالح نہیں ہے اس کے مطابق اس کی افضلیت ہی گئی یہ کیوں ک؟ اس کا جواب عمل صالح کا مطابق دعوت ہونا اس لیے ضروری ہے۔ اگر دعوت دینے والا جو عمل کررہا ہوگا سننے والا سمجھے گا جس چیز کی اس نے دعوت دی وہ حق ہے۔ اگر دعوت دے رہا ہے لیکن عمل نہیں کررہا سننے والا سمجھے گا جس چیز کی دعوت دے رہا ہےحق نہیں ہے۔ اگر خود اس کو حق سمجھتا تو سب سے پہلے خود عمل کرتا۔ اس کا مطلب ہے یہ اس کا روزگار ہے۔ یہ اس کی ڈیوٹی ہے۔ اس کے ساتھ اس کی دیگر ضروریات وابستہ ہیں سننے والا کا اعتماد و اعتقاد قائم ہی نہیں ہوگا۔ اس سے دین کو نقصان پہنچے گا۔
جو لوگ دین کی دعوت دیتے ہیں مگر دین پر عمل نہیں کرتے۔ اس کے برعکس جو لوگ دین کی دعوت نہیں دیتے اس عمل سے دین کو اتنا نقصان نہیں پہنچتا جتنا دین کی دعوت دینے والا خود بےعمل ہو۔ خطاب سننےو الا داعی کو اگر بے عمل دیکھے اس کا اعتماد دعوت پر اٹھ جاتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے اتنی محنت کرکے دعوت دے رہا ہے۔ اس ساری دعوت کا اس کی زندگی میں وجود ہی نہیں ہے۔ سننے والا سمجھے گا کہ اس کا اپنا اعتقاد اس دعوت پر نہیں۔ دعوت دے کیوں رہا تو لامحالہ ذہن اس طرف جائے گا کہ اس کا روزگا ہے، ضروریات پوری ہوتی ہیں۔ پس وہ بھی داعی کو سننے کے لیےبیٹھ تو جائے گا مگر ایسے جیسے ٹی وی پر بیٹھ کر دوسری چیز دیکھ لیں۔
اس طرح بیٹھ کر آپ کا خطاب سن لے گا سننے والے کا اعتقاد اور بھی کمزور ہوجائے گا لہذا داعی کا ہر عمل مطابق دعوت ہونا چاہیے۔ داعی کا باعمل ہونا پہلی شرط ہے اگر عمل صالح نہ ہو تو دعوت دعوت ہی نہیں رہتی اللہ کے بندوں کے لیے ضرر رساں ہوجاتی ہے۔ لوگ دعوت و داعی کے عمل کو نیکٹ کرتے ہیں مطابقت نظر نہ آئے تو لوگ لگژری لیتے ہیں۔
اگر شیطان مشتعل کرے کہ برائی کا برائی سے جواب دیا۔ اس وقت فوری اللہ کی پناہ مانگو اور غصہ کو ٹھنڈا کرو۔ کہیں آپ کو شیطان اچھائی کی راہ سے ہٹانے میں کامیاب نہ ہوجائے:
وَّقَالَ اِنَّنِیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ.
(41: 33)
اعمال، کردار کا مطابق دعوت ہونا چاہیے۔ دوسری شرط جب دعوت دے تو دعوت اس چیز کی دے کہ میں مسلمان ہوں میں دعوت الی الاسلام دے رہا ہوں۔ اپنے مفاد کی دعوت نہ دے۔ یہ دونوں شرطیں داعی کے سچے ہونے کے لیے لازم ہیں۔ اس لوگوں کو اس کی دعوت پر اعتماد قائم ہوگا اسی کو تاثیر کہتے ہیں۔ اگر اس کا عمل مطابق دعوت نہیں اپنی دعوت میں مشکوک ہوگا۔ لوگ سمجھیں گے اگر یہ بات جو کہہ رہا ہے سچی ہوتی تو سب سے پہلے خود عمل کرتا ہوتا۔
دعوت دی جب دوستوں میں گئے ایک اور شخصیت نمودار ہوگئی۔ لب و لہجہ بدل گیا۔ مزاج و اخلاق بدل گیا۔ لوگ سمجھ جائیں گے کہ کسی مصلحت کے تحت کرتا رہا ہے۔ وہ دین داری نہیں فنکاری ہے۔ اس کی دعوت کا فوکس کیا ہو تاکہ اس کی دعوت افضلیت کا شرف پاسکے جو ہر شخص کے کلام سے افضل ہے وہ اس لیے کہ اس کی دعوت لوگوں کو اللہ کے عذاب سے نجات دلائے۔ لوگو ں کو دوزخ کی راہ سے ہٹائے۔ دعوت کا فوکس یہ ہونا چاہیے لوگ جنات کی طرف جائیں، بخشش کی طرف جائیں لوگ اس نیت سے کریں کہ اللہ کی طرف سے انھیں کامیابی و فوزو فلاح ملے۔
اس سے یہ نتیجہ پیدا کرنے کی کوشش کریں کہ اس سے بہتر واحسن کوئی کلام نہیں۔ یہ دعوت اسلام، ایمان اور احسان، عمل صالح کے ہر پہلو پر ہر قسم کی خیر و فلاح پر ہے جو انسانیت کے لیے ہے۔ ایسی دعوت تمام چیزوں کا احاطہ کرتی ہے تو خیر کے سارے پہلو داعی کی شخصیت میں ہونے چاہیئں
وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَلَا السَّیِّئَۃُ.
(فصلت، 41: 34)
یہ اللہ کا بیان کردہ قاعدہ ہے جس کو ہم نے اپنی اعراض و حوس نفسانی کے باعث تبدیل کردیا ہے۔ اللہ پاک نے فرمایا کبھی بھی نیکی اور بدی برابر نہیں ہوسکتی۔ دوسرا قاعدہ بیان کیا اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ
(فصلت، 41: 34)
پہلی دعوت ان لوگوں کے لیے تھی جو دعوت کو قبول کرنا چاہتے ہیں۔ آپ نے ان کے اندر صلاحیت پیدا کرنی ہے۔ ان میں قبول کی استعداد ہے مگر آپ نے اس کو جاری کرنا ہے۔ عملاً قبولیت میں بدل جائے۔ قرآن کی دوسری آیت بتاتی ہے ایک طبقہ اور بھی ہوگا ان کی دعوت کو رد کرے گا قبول نہیں کرے گا۔ ان کو برئی نے بڑی مضبوطی سے جکڑا ہوا ہے۔
دوسرا طبقہ ہے جو آپ کی دعوت قبول کرنے کی نیت سے نہیں سن رہا وہ رد کرنے کی نیت سے سن رہا ہے۔ قرآن نے اس کو بھی بیان کیا۔ یہ طباع انسانی میں سے ہے۔ معاشرے میں شر اور خیر دونوں ہوتے ہیں کچھ لوگ خیر کو پسند کرنے والے ہیں تو کچھ لوگ شرپر بھی قائم ہیں۔ آپ کی بات اہل خیر اور اہل شر دونوں سنیں گے۔ خیر سے مراد جن میں نیکی کو قبول کرنے کی استعداد ہے جن کے اندر شر کا غلبہ ہے جو نیکی کو قبول نہیں کریں گے بوجوہ حسد، عناد، ذاتی مقاصد کے اس کی وجہ سے انھوں نے شر ہی شر کرنا ہے۔ لہذا داعی کی ذمہ داری ہے اس پہلو کو بھی سوچے پھر داعی و داعیہ کو قاعدہ دے دیا ادفع بالتی ھی احسن اگر برائی کرنے والا برائی کرے اس برائی کو کبھی بھی برائی سے رد نہ کریں۔ اچھائی کے ساتھ کریں اسے لیے سمجھادیا اچھائی و برائی کسی حال میں برابر نہیں ہوسکتے۔ آپ نے اچھائی کا دامن کبھی بھی نہیں چھوڑنا۔ برائی کرنے والے کے جواب میں تھوڑی سی بھی برائی اختیار کرلی آپ دعوت سے ہٹ گئے۔ آپ سئیہ کی طرف چلے گئے۔ اللہ پاک نے ادفع بالتی ھی احسن اگر مخالف کی طرف سے برا ردعمل آئے، تشکیک پیدا کرے مخالفت کرے، جھوٹ، تہمت لائے آپ نے اس کا طرز عمل اختیار نہیں کرنا۔ طرز عمل وہی رہے جس پر شروع دن سے قائم تھے جس کی دعوت دے رہے ہیں اچھائی کے ساتھ ہی رد کرنا ہے۔ حسنہ کیا ہے؟ نیکی اور اچھائی اس کی بہت ساری اقسام ہیں۔ اچھائی و نیکی بڑی سے بڑی بھی ہوسکتی ہے چھوٹی سے چھوٹی بھی ہوسکتی ہے۔ بہت سے کلمات اورخصلتیں ایسی ہیں۔ جو حسنہ کے عنوان کے تحت آتی ہیں۔ تمیز، ادب و نرمی کے ساتھ بات کرنے کا انداز کسی کو مجھ سے نقصان نہ پہنچے۔ ہر ایک کو نفع پہنچے جن سے اخلاق بنتے ہیں نیک خصلت حسنہ میں آتی ہے جو آپ فعل کرتے ہیں کلام کرتے ہیں لین دین کرتے ہیں معاملہ کرتے ہیں۔ ہر فعل اگر اچھا ہے تو حسنہ میں آتا ہے۔
اسی طرح جو بری ہے وہ سئیہ میں آتی ہے خواہ وہ بری خصلت، طبیعت و مزاج، برا کلام، برا برتاؤ ہے۔ ہر چیز جس میں برائی ہے وہ سیہ میں آتی ہے۔ داعی کو یہ فرق اس لیے سمجھایا کہ وہ دائماً حسنہ پر قائم رہے۔اس کی گفتگو، خصلتیں، اخلاق، کلمات اور افعال بھی حسنہ میں آئیں۔ اس کے اندر دوسرے لوگوں کے بارے میں سوچیں آتی ہیں۔ وہ بھی حسنہ ہو۔ عمل اور ردعمل بھی حسنہ ہو۔ داعی کبھی حسنہ سے ہٹ نہیں سکتا۔
درمیان میں کوئی درجہ نہیں ہے۔ داعی بننے کے لیے سب کچھ بدلنا پڑتا ہے۔ اس داعی کے اندر سے خوبصورتی ہی خوبصورتی ہےوہ شخص کبھی داعی نہیں ہوسکتا جس کو دیکھ کر لوگ ڈر جائیں۔ بڑا عجیب مزاج آدمی ہے میں تو اس سے ڈیل نہیں کرتا۔ آپ خود ہی بات کرلیں اس نے داعی کیا بننا ہے۔ اس نےدعوت کو آگ کا تنور بنا رکھا ہے۔ جس کا غصہ ہی ختم نہیں ہوتا۔ بندے بات کتے جھجکتے ہیں۔ اس کے پشت پیچھے کرتے ہیں سامنے بات کرنے کی ہمت نہیں ہوتی۔ اس نے کیا داعی ہونا ہے۔
دین کی دعوت دینے والا خود بےعمل ہو۔ خطاب سننےو الا داعی کو اگر بے عمل دیکھے اس کا اعتماد دعوت پر اٹھ جاتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے اتنی محنت کرکے دعوت دے رہا ہے۔ اس ساری دعوت کا اس کی زندگی میں وجود ہی نہیں ہے۔ سننے والا سمجھے گا کہ اس کا اپنا اعتقاد اس دعوت پر نہیں۔ دعوت دے کیوں رہا تو لامحالہ ذہن اس طرف جائے گا کہ اس کا روزگا ہے، ضروریات پوری ہوتی ہیں۔
تحریک منہاج القرآن کی دعوت، دعوت الی اللہ ہے۔ یہ دعوت اگر صحیح دعوت ہےاس کے اثر سے جو اثرات پیدا ہوں گے اسی کو انقلاب کہتے ہیں۔ اسی دعوت نے طبیعتوں و مزاجوں میں انقلاب لانا ہے۔ برتاؤ ایک فرد میں آتا ہے تو معاشرے میں پھیلتا ہے۔ انسان اپنے افعال اور اقوال سے تاثیر پیدا کرتا ہے جس نے دعوت دی اور ساتھ عمل صالح کیا تو وہ البلاغ المبین ہوگا۔ وہ حسنہ سے معمور ہوگا۔ بلاغ فن نہیں ہے۔ آپ کے کلام کو سنیں گے جن کی دل و روح صحت مند ہیں وہ بھی سنیں گے مریض وہ جن کے دل و روحیں بیمار ہیں۔ لہذا اپنی روش کبھی نہیں چھوڑنی۔ خصلت حسنہ پر رہنا ہے سیہ پر کبھی نہیں جانا۔
فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَبَیْنَهٗ عَدَاوَةٌ کَاَنَّهٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ.
(فصلت، 41: 34)
’’سو نتیجتاً وہ شخص کہ تمہارے اور جس کے درمیان دشمنی تھی گویا وہ گرم جوش دوست ہو جائے گا۔‘‘
جس نے آپ کا خطاب سنا تھا خواہ وہ کمپیوٹر، سیل فون پر سنا قرآن کہتا ہے ایسے بھی سنیں گے جس کو آپ سے عداوت ہے۔ اس نے آپ کو خیر کے لیے تو نہیں سنانا اس نے تو سنا ہے کہ کیسے آپ کو پریشان کرے۔ تہمت لگائے، عداوت کرنے والی کی عدات کا علاج پہلے بتادیا۔ اس کو یہ بات بھی چبے گی کہ آپ کی بات زیادہ لوگ کیوں سن رہے ہیں؟ آپ بطور داعی کیوں کامیاب ہوتے جارہے ہیں۔ مخالف کو جتنی آپ کی بات جیے گی وہ اتنا ہی آپ کو اذیت دے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا آپ نے اس کی اذیت کا جواب اذیت سے نہیں دینا۔ آپ نے اس کا جواب تحمل، بردباری اور دلیل سے دینا ہے۔ حسنہ اور بھلائی سے دینا ہے۔
آپ نے اپنی جگہ سے گر نہیں جانا۔ اگر آپ حسنہ اور سیہ کے فرق کو قائم رکھ کر برائی کو اچھائی سے رد کرنے پر عمر بھر قائم رہیں گے وہ شخص آپ اور اس کے درمیان بڑی عداوت تھی یہ بھی ممکن ہے کہ وہ آپ کا دوست ہوجائے۔ عداوت ایک اینڈ ہے دوستی ایک دوسرا اینڈ ہے۔ اس میں بڑی منزلیں ہیں قرآن کی آیت پڑھ کر کبھی نہ سمجھیں کہ دشمن ہے دوست کیسے ہوگا۔ ممکن ہے کہ وہ آپ کی بات سننا ہی نہیں چاہتا تھا۔ آپ کو گالی دیتا تھا۔ گویا کہ وہ آپ کا دوست اور بھائی بن گیا تو مرحلے طے کرکے وہ بھی وہاں تک جاسکتا ہے جب وہ آپ کو برا بھلا کہتا رہے گا۔ آپ اس کو برا کہیں گے ہی نہیں۔ آپ نیکی و بھلائی کے ساتھ بات کرتے چلے جائیں گے ابتداء خیر سے نہیں ہوگی وہ تھک جائے گا۔ میری اتنی مخالفت اس کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکی۔ بندہ اپنی کاروائیوں سے مایوس ہوتا ہے۔ اس کی مخالفت میں ذرا ٹھہراؤ آتا ہے۔ اب یہ سفر ولی حمیم کی طرف شروع ہوجاتا ہے۔ وہ اپنے حسد میں جلے گا۔ ایسی حرکتیں کرے گا مزید شرمسار ہوگا۔ کبھی سمجھدار ساتھی اس کو سمجھائے گا کبھی سوچتے سوچتے خود اسے سمجھ میں آئے گا۔ اس داعی کی مخالفت کرتے ہو اور اس کی دعوت کو رد کرتے ہوئے عمرسگزر گئی۔ مگر اس کا کچھ بھی نہیں بگڑا۔ اس کی دعوت پھیلتی چلی گئی۔ یہ کامیاب ہوتا چلا گیا ایک وقت آتا ہے کہ انسان اپنے برے کام میں بھی حوصلہ ہار دیتا ہے۔ حواس نیچے آجاتے ہیں آہستہ آہستہ اس کی عداوت میں کمی آجاتی ہے۔ نیت میں نہیں بلکہ عداوت کے فعل میں کمی آجاتی ہے۔ دشمنی کراہت میں بدل جاتی ہے۔ نفرت دل میں رہ جاتی ہے عمل سے اتنا اظہار نہیں ہوتا ضرر کم ہوتے ہوتے مایوسی پر چلی جاتی ہے۔ ایک جگہ ایسی آئے گی کہ اس کو خود احساس ہو جائے گا بشرط کہ آپ استقامت کے ساتھ کھڑے رہیں۔ ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ وہ تائب ہوجائے اور اپنی راہ بدل لے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنی اگلی آیت میں بیان فرمایا۔
وَمَا یُلَقّٰھَآ اِلَّا الَّذِیْنَ صَبَرُوْا.
(فصلت، 41: 35)
’’اور یہ (خوبی) صرف اُنہی لوگوں کو عطا کی جاتی ہے جو صبر کرتے ہیں۔‘‘
یہ کہ مخالف کی مخالفت ہارجائے داعی کی دعوت کے لیے راستہ کھل جائے۔ دعوت کو راستہ مل جائے۔ یہ کامیابی ہر ایک کو نہیں ملتی انھی کو ملتی ہے جو صبر کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ بے صبری سے چیزیں حاصل نہیں ہوتیں۔ یہ خصلت طویل عمر صبر کرنے والوں کو ملتی ہے۔جلد نتائج حاصل کرنے والے پیچ و تاب نہ کھائے ان کو راستہ نہیں ملتا۔ جتنی خرابی و تباہی بڑھتی جائے گی۔ انسان کا صبر بڑھنا چاہیے یہ انبیاء کا شیوہ ہے۔ اتنا بڑا صبر ملنا کہ حالات موافق بھی نظر نہ آئیں۔ معاشرہ جیسے تباہی کے گڑھوں میں گرتا چلا جارہا ہے۔بدلنے والے لوگ کب کا لفظ نہیں سوچتے۔ صبر نام ہی اس کا ہے کہ کب پر نظر نہ ہو کب بے صبری کا نام ہے۔ صبر ان کو عطا ہوتا ہے جن کو اپنی خیر کا بڑا حصہ عطا کرتا ہے۔ کسی عبادت کا اجر اتنا نہیں جتنا صبر کا ہے۔
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ اِنَّ اللهَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ.
(البقرة، 2: 153)
’’اے ایمان والو! صبر اور نماز کے ذریعے (مجھ سے) مدد چاہا کرو، یقینا الله صبر کرنے والوں کے ساتھ (ہوتا) ہے۔‘‘
نماز کا ذکر بعد میں کیا صبر کا پہلے کیا اس لیے کہ نماز اپنے اپنے وقت پر ہوتی ہے پڑھی پھر وقت ختم ہوگیا پھر چاہیں گے پڑھ لیں گے۔ صبر کا کوئی وقت نہیں یہ ہمہ وقت پوری زندگی کی طبیعت و مزاج میں قائم و دائم رہتا ہے۔ یہ اس کا وقت ختم ہوتا ہے اور نہ شروع ہوتا ہے۔ یہ تنگی میں بھی ہے خوشحالی میں بھی ہے خوشی میں بھی ہے ناکامی میں بھی ہے۔ صبر اس کا نام ہے کسی حالت میں تبدیلی نہ آئے۔ لہذا پریشانی میں مدد طلب کرنے کا حکم آپ نے فرمایا مدد طلب کرو صبر اور نماز کے ذریعے۔ اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ یہ خصلت داعی کے پاس رہتی ہے اس کے لیے راستے کھولتی ہے جسے صبر ملے فرمایا یہ اللہ کے فضل کا بڑا حصہ ہے۔ صبر کے علاوہ کس چیزکا اتنا بڑا حصہ نہیں ہے جتنا صبرکا ہے۔
وَاِمَّا یَنْزَغَنَّکَ مِنَ الشَّیْطٰنِ نَزْغٌ.
(فصلت، 41: 36)
’’ اور (اے بندۂِ مومن!) اگر شیطان کی وسوسہ اندازی سے تمہیں کوئی وسوسہ آ جائے تو الله کی پناہ مانگ لیا کر۔‘‘
داعی کے لیے فرمایا ایسے حالات آئیں گے شیطان آپ کو چھوئے گا وسوسہ ڈالے گا آپ کو پھسلائے گا۔ اپنے آپ کو دین کی طرف دعوت دینا نیکی و بدی کا فرق ہمیشہ قائم رکھنا۔ ہر برائی کو اچھائی سے روکنے کی کوشش کرنا اس کی عداوت دوستی میں بدل جائے۔ اللہ کے فضل کا حصہ ہے ان تمام چیزوں سے محروم کرنے کے لیے شیطان، موقع، وقت ڈھونڈے گا تاکہ وہ حملہ کرے گا آپ اچھی خصلتوں سے ہٹ جائیں۔ شیطان چاہے گا داعی بھڑک اٹھے۔ داعی بھڑکا دعوت گئی۔یاد رکھیں کہ دعوت کو ٹھکرانے والوں کا خیال کیا ہوتاہے جب شیطان تمھیں بھڑکائے تو فوری طور پر اللہ کی پناہ میں چلے جاؤ۔ کوئی چیز آپ کو شیطان کے وسوسے سے بچا نہیں سکتی۔ ہر وقت تعوذ کریں ہر وقت اللہ کی پناہ طلب کریں۔
تحریک منہاج القرآن کی دعوت، دعوت الی اللہ ہے۔ یہ دعوت اگر صحیح دعوت ہےاس کے اثر سے جو اثرات پیدا ہوں گے اسی کو انقلاب کہتے ہیں
جب اللہ کی پناہ میں جائیں تو شیطان کی حملہ آوری سے بچیں رہیں گے۔ آپ یہ ٹول لے کر جائیں گے اپنی دعوت ان شرائط پر ان اوصاف کے ساتھ ان تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے آگے پہنچائیں گے اللہ رب العزت کی مدد شامل ہوگی لوگوں تک دعوت اور کلمہ حق پہنچائیں گے۔ ان کے اعمال و احوال میں تبدیلی پیدا کریں گے ایک مصطفوی معاشرہ قائم کرنے کی کوشش کریں۔ مصطفوی معاشرہ کی بنیاد ہی دعوت صحیح ہے۔ معاشرہ مصطفوی سے پہلے مصطفوی فرد قائم کریں جس کے اندر مصطفویت نظر آئے۔ آپ کی دعوت ان کے اندر گھر کرے گھر کے ماحول، حالات، طبیعتوں ہر چیز میں تبدیلی لائیں۔ اس کے لیے ضروری ہے پہلے آپ خود مصطفوی ہوں اس دعوت کے خود پیکر بنیں دعوت دے رہیں وہ آپ کی سیرت و کردار طیبعتوں میں نظر آنی چاہیے۔ آپ کے چہروں اور گفتگو کی مٹھاس آپ کی امانت و دیانت اور آپ کی خیر خواہی سے آپ کے اندر نظر آنی چاہیے تب سننے والے کا اعتماد قائم ہوگا۔ اس لیے مصطفوی بنانے کے لیے ضروری ہے مصطفوی بنیں۔ اس سے مصطفوی افراد جنم لیں گے۔ مصطفوی افراد سے مصطفوی معاشرہ جنم لے گا۔ اللہ رب العزت اپنی مددو نصرت سے آپ کو نوازے۔ آپ پر اپنا فضل و انعام کرے۔