نوجوان کی اسلامی معاشرے میں اہمیت

ڈاکٹر شفاقت علی البغدادی الازہری

نوجوانی و شباب انسان کی عمر کا وہ حصہ ہے جو سن بلوغت سے شروع ہوتا ہے اور عمر کے 40 سال تک جاتا ہے۔ عربی زبان میں نوجوان کے لیے ’’شباب‘‘ کا لفظ استعمال ہوتا ہے ’’شباب‘‘ کا لغوی معنی دو امور پر دلالت کرتا ہے۔

1۔ نمو یعنی بڑھوتری

2۔ قوت

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے عرصہ شباب کی طرف اشارا یوں فرمایا ہے:

حَتّٰی اِذَا بَلَغَ اَشُدَّهٗ وَبَلَغَ اَرْبَعِیْنَ سَنَةً.

(الاحقاف، 46: 15)

’’یہاں تک کہ وہ اپنی جوانی کو پہنچ جاتا ہے اور (پھر) چالیس سال (کی پختہ عمر) کو پہنچتا ہے۔‘‘

اس کا مطلب ہے کہ جب انسان قوی و مضبوط ہوجاتا ہے اور اس کا عقل و فہم مکمل ہوتا ہے تو اس کی عمر 40 سال تک ہوتی ہے۔ انسانی زندگی میں نوجوانی کا مرحلہ دوسرے مراحل میں سے نمایاں اہمیت کا حامل ہے۔ کیونکہ انسان مختلف مراحل عبور کرتا ہے۔ دنیا میں چھوٹا اور کمزور آتا ہے اور اسے کسی چیز کا علم نہیں ہوتا پھر تھوڑا تھوڑا جانتا ہے اور آہستہ آہستہ اس کا جسم مضبوط اور حواس کی نمو ہوتی ہے اور عقل و علم میں اضافہ ہوتا ہے یہاں تک کہ وہ سن رشد اور پختہ عمر تک پہنچ جاتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں حیات انسانی کے اس ارتقائی مرحلہ کی طرف یوں اشارا فرماتا ہے۔

وَاللهُ اَخْرَجَکُمْ مِّنْ بُطُوْنِ اُمَّھٰتِکُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ شَیْئًا وَّجَعَلَ لَکُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالْاَفْئِدَۃَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ.

’’اور اللہ نے تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹ سے (اس حالت میں) باہر نکالا کہ تم کچھ نہ جانتے تھے اور اس نے تمہارے لیے کان اور آنکھیں اور دل بنائے تاکہ تم شکر بجا لاؤ۔‘‘

(النحل، 16: 78)

یعنی اللہ تعالیٰ نے انسان کو ان کی ماؤں کے پیٹ سے پیدا کیا اس حال میں کہ ان کو کسی چیز کا علم نہ تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں حواس عطا فرمائے جیسے سماعت عطا فرمائی جس سے وہ آوازوں کو جانتے ہیں اور بصارت عطا فرمائی جس سے وہ مرئیات کو محسوس کرتے ہیں اور دل عطا کیا جس سے وہ نافع و ضار اشیاء کا فرق جانتے ہیں۔

انسان کے یہ حواس بالتدریج ترقی پاتے ہیں اور قوت و طاقت حاصل کرتے ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو یہ قوت و عقل و جسم میں پختگی کیوں عطا کی ہے؟ جس کا انتہائی واضح جواب ہے کہ وہ اپنے رب کی عبادت اور اطاعت کرے۔ مرحلہ شباب طاقت و قوت کا مرحلہ ہے لیکن یہ امر بھی ہمیشہ ذہن نشین رہنا چاہیے کہ مرحلہ شباب ہمیشہ برقرار نہیں رہتا بلکہ انسان دوبارہ کمزوری و ضعف کی طرف منتقل ہوتا ہے جوں جوں اس کی عمر میں اضافہ ہوتا ہے۔ ارشاد باری ہے:

اللهُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ ضُعْفٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْم بَعْدِ ضُعْفٍ قُوَّۃً ثُمَّ جَعَلَ مِنْ م بَعْدِ قُوَّۃٍ ضُعْفًا وَّشَیْبَۃً.

(الروم، 30: 54)

’’الله ہی ہے جس نے تمہیں کمزور چیز (یعنی نطفہ) سے پیدا فرمایا پھر اس نے کمزوری کے بعد قوتِ (شباب) پیدا کی، پھر اس نے قوت کے بعد کمزوری اور بڑھاپا پیدا کر دیا۔‘‘

انسان قوی و مضبوط ہوجاتا ہے اور اس کا عقل و فہم مکمل ہوتا ہے تو اس کی عمر 40 سال تک ہوتی ہے۔ انسانی زندگی میں نوجوانی کا مرحلہ دوسرے مراحل میں سے نمایاں اہمیت کا حامل ہے۔ کیونکہ انسان مختلف مراحل عبور کرتا ہے۔ دنیا میں چھوٹا اور کمزور آتا ہے اور اسے کسی چیز کا علم نہیں ہوتا پھر تھوڑا تھوڑا جانتا ہے اور آہستہ آہستہ اس کا جسم مضبوط اور حواس کی نمو ہوتی ہے اور عقل و علم میں اضافہ ہوتا ہے یہاں تک کہ وہ سن رشد اور پختہ عمر تک پہنچ جاتا ہے۔

مرحلہ شباب انسانی زندگی میں افضل اور اعلیٰ ہے کیونکہ انسان اس مرحلہ میں قوت و نشاط سے ہمکنار ہوتا ہے اور حواس میں کمال و نظم پاتا ہے اور حواس سے زیادہ سے زیادہ انتقاع لینے پر قدرت رکھتا ہے۔ مرحلہ شباب کی افضلیت اس بات سے بھی ظاہر ہوتی ہے کہ اللہ رب العزت تمام لوگوں کو جنت میں شباب اور جوانی کی حالت میں داخل فرمائے گا۔ حتی کہ بوڑھوں کو دوبارہ جوان کردیا جائے گا۔

نوجوان قوموں کے ستون:

نوجوان تمام زمانوں، ملکوں اور ثقافتوں میں قوموں کے ستون گردانے جاتے ہیں بلکہ یہ ان کی ترقی کا راز و سر اور ذمہ دار شمار ہوتے ہیں کیوں کہ یہ عمر ہمت، جدوجہد، قربانی اور جانثاری کی ہوتی ہے اور خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں نوجوان اہم کردار ادا کررہے ہوتے ہیں جن کی بدولت کامیابیاں متوقع ہوتی ہیں۔ اگر کسی معاشرے میں نوجوانوں کے تحفظ اور تاھیل پر توجہ نہ دی جائے تو ترقی و غلبہ اس کے لیے ناممکن ہوتا ہے۔

اسی لیے دین اسلام نے اس مرحلہ کے افراد پر خصوصی توجہ مرکوز فرمائی ہے اور برسبیل مثال قرآن کریم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اتباع کی طرف اشارا فرمایا:

فَمَآ اٰمَنَ لِمُوْسٰٓی اِلاَّ ذُرِّیَّةٌ مِّنْ قَوْمِهٖ عَلٰی خَوْفٍ مِّنْ فِرْعَوْنَ وَمَلَاْئِهِمْ اَنْ یَّفْتِنَهُمْ وَاِنَّ فِرْعَوْنَ لَعَالٍ فِی الْاَرْضِ وَاِنَّهٗ لَمِنَ الْمُسْرِفِیْنَ.

(یونس، 10: 83)

’’پس موسیٰ (علیہ السلام) پر ان کی قوم کے چند جوانوں کے سوا (کوئی) ایمان نہ لایا، فرعون اور اپنے (قومی) سرداروں (وڈیروں) سے ڈرتے ہوئے کہ کہیں وہ انہیں (کسی) مصیبت میں مبتلا نہ کر دیں، اور بے شک فرعون سرزمینِ (مصر) میں بڑا جابر و سرکش تھا اور وہ یقینا (ظلم میں) حد سے بڑھ جانے والوں میں سے تھا۔‘‘

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام جونشانیاں اور بینات، قطعی دلائل و براہین لائے ان کی قوم نے نہ مانے بلکہ صریح انکار کیا سوائے چند نوجوانوں کے فرمایا (الا ذریۃ من قومہ) ذریۃ سے مراد مضبوط نوجوان ہیں جنہوں نے سرداروں اور فرعونوں کے ڈر کو اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دیا جو نڈر تھے، مضبوط و قوی تھے تو انھوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تبلیغ کو قبول کیا اور انہیں شعور تھا کہ جو وہ اللہ کی جناب سے اجرو ثواب انعام و اکرام اور بدلہ و جزاء حاصل کریں گے وہ احسن اور اعلیٰ اور ابدی ہے اس لیے وہ اتباع موسیٰ علیہ السلام میں آگئے۔ اسی طرح قرآن کریم نے ان نوجوانوں کی تعریف فرمائی جو ایمان لائے اور ان کی ہدایت و رشد میں اضافہ فرمایا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

اِنَّھُمْ فِتْیَۃٌ اٰمَنُوْا بِرَبِّھِمْ وَزِدْنٰـھُمْ ھُدًی.

(الکہف، 18: 13)

’’بے شک وہ (چند) نوجوان تھے جو اپنے رب پر ایمان لائے اور ہم نے ان کے (نور) ہدایت میں اضافہ فرمادیا۔‘‘

فِتْیَۃٌ عربی ز بان میں شباب اور نوجوان کو کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سورۃ کہف میں ایمان و رشد کے حامل نوجوانوں کا قصہ ذکر کیا اور اپنی بارگاہ سے ان پر کیے گئے انعام ذکر فرمایا۔

نوجوانوں کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اتباع رسول ﷺ میں سے جلیل القدر اور عالی المرتبت صحابہ کرامؓ نوجوان تھے۔ جب حضرت ابوبکر صدیقؓ ایمان لائے تو آپ کی عمر مبارک تقریباً 38 سال تھی اور حضرت عمر فاروقؓ جب ایمان لائے تو آپ کی عمر مبارک 30 سال بھی نہیں تھی۔ اسی طرح حضرت علی المرتضیٰؓ، حضرت عبداللہ بن مسعودؓ، حضرت سعید بن زیدؓ، حضرت مصعب بن عمیرؓ، حضرت الارقم بن ابی الارقمؓ اور حضرت خبابؓ اور ان کے علاوہ دسویوں بلکہ سینکڑوں صحابہ کرامؓ نوجوان تھے۔

نوجوانوں کی دعوت و تبلیغ عمر رسیدہ لوگوں کے مقابلہ میں زیادہ موثر اور سریع ہوتی ہے اور وہ نظریات و معتقدات میں زیادہ پختہ ہوتے ہیں اور وہ اپنے عقائد کے دفاع میں اپنی جان مال، عزت و آبرو حتی کہ وہ اپنے خاندان کی بھی پرواہ نہیں کرتے۔

اسی طرح یہ بات بھی عیاں ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے بھی نوجوانوں پر خصوصی توجہ دی اور ان کی تربیت و تزکیہ و شخصیت سازی پر عالی اہتمام فرمایا ہے۔ اس میں کوئی حیرت والی بات نہیں ہے کیونکہ ہم پہلے جان چکے ہیں کہ اعلان نبوت کے بعد ابتدائے اسلام میں جن لوگوں نے دعوت رسول ﷺ کو قبول کیا آپ کی مدد و نصرت کی اور دعوت کی نشرو اشاعت میں اپنا سنہری کردار ادا کیا اور اس راستے میں مشقتیں، مصائب اور تکالیف برداشت کیں ان میں سرفہرست نوجوان صحابہ کرامؓ کا نام نامی آتا ہے۔

آقا کریم علیہ السلام نوجوان کی دینی و فکری و عملی تربیت اپنے عالی المرتبت انداز فرمائی یہاں تک کہ اطاعت الہٰیہ میں رسوخ و پختگی پیدا کرنے کی ترغیب و ترہیب کے اسالیب اپنائے اور اخروی بشارتیں اور دنیا میں اپنی قربتیں اور نوازشات ہمیشہ عطا فرماتے رہے۔ اس کی نمایاں مثال مذکورہ بشارت رسول میں ہے۔ آپ نے فرمایا جس دن ہر کوئی مشکل میں مبتلا ہوگا اور کوئی سایہ نہ ہوگاتو اطاعت الہٰی میں زندگی گزارنے والے نوجوان کو اللہ سایہ عطا فرمائے گا۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

سمۃ نطلهم اللہ ظلہ یوم لاظل الاظلہ، الامام العادل وشباب نشا فی طاعۃ اللہ.

’’سات افراد ایسے ہیں جنہیں اللہ اپنے سایہ میں رکھے گا جس دن کوئی سایہ نہ ہوگا۔ عادل امال اور وہ نوجوان جس نے اطاعت الہٰی میں پرورش پائی۔‘‘

اس طرح حضور نبی اکرم ﷺ نے نوجوان کی عزت و آبرو کی حفاظت کی خاطر اور اس کی خواہشات کو جائز طریقہ سے حاصل کرنے کے لیے ان سے خطاب کیا اور وصیت فرمائی:

’’اے گروہ شباب تم میں سے جو نان و نفقہ یعنی خرچہ کرنے کی طاقت رکھتا ہے تو شادی کرلے کیونکہ وہ آنکھوں کی زیادہ حفاظت کرنے والا اور شرم گاہ کی پاکی کا ضامن معاملہ ہے اور جو طاقت نہ رکھتا ہو پس وہ روزے رکھے جو اس کے لیے ڈھال ہیں۔‘‘

مرحلہ شباب انسانی زندگی میں افضل اور اعلیٰ ہے کیونکہ انسان اس مرحلہ میں قوت و نشاط سے ہمکنار ہوتا ہے اور حواس میں کمال و نظم پاتا ہے اور حواس سے زیادہ سے زیادہ انتقاع لینے پر قدرت رکھتا ہے۔ مرحلہ شباب کی افضلیت اس بات سے بھی ظاہر ہوتی ہے کہ اللہ رب العزت تمام لوگوں کو جنت میں شباب اور جوانی کی حالت میں داخل فرمائے گا۔ حتی کہ بوڑھوں کو دوبارہ جوان کردیا جائے گا۔

آقا کریم ﷺ کے اس امر میں نوجوانوں کے اخلاق و شخصیت کو فساد و گناہ سے بچانے کی توجیہ ہے۔

نوجوانوں کو وصایا:

حضور نبی اکرم ﷺ نے نوجوانوں کے ساتھ خصوصی اہتمام فرمایا۔ ان کو ہمیشہ مفید کاموں کی وصیت فرمائی اور مضر اورمہلک امراض یعنی اعمال سیئہ سے اجتناب کرنے اور دور رہنے کا حکم دیا۔

عبداللہ بن عباسؓ کو وصیت:

حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنے نوجوان چچا زاد بھائی کو وصیت نامہ فرمائی جو انھوں نے خود روایت کی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ میں ایک دن حضور نبی اکرم ﷺ کے پیچھے تھا تو آپ ﷺ نے فرمایا:

یا غلام! انی اعلمک کلمات احفظ اللہ یحفظک احفظ اللہ تجدہ تجاھک اذا سالت فاسال اللہ، واذا استعنت فاستعن باللہ، واعلم ان الامۃ لو اجتمعت علی ان ینفعوک بشیء لم ینفعوک الا بشیء قد کتبہ اللہ لک، ولو اجتمعوا علی ان یضروک بشیء لم یضروک الا بشیء قد کتبہ اللہ علیک.

’’اے بچے، میں تجھے ’’مفید‘ کلمات سکھاتا ہوں، اللہ کی حفاظت کرو وہ تمھاری حفاظت کرے گا، اللہ کی حفاظت کرو تم سے اپنی طرف پاؤ گے، جب سوال کرو تو اللہ جل مجدہ سے سوال کرو اور مدد چاہو تو اللہ تعالیٰ سے مدد مانگو، اور جان لو! اگر ساری امت جمع ہوجائے کہ وہ کچھ تمھیں فائدہ دے وہ آپ کو فائدہ نہیں دے سکتے سوائے اس کے جو اللہ تعالیٰ نے تمھارے لیے لکھا ہے اور اگر وہ اس بات پر جمع ہوں کہ وہ آپ کو نقصان دیں تو وہ آپ کو نقصان نہیں پہنچاسکتے۔ سوائے اس کے جو اللہ نے تمھارے لیے لکھا ہے۔‘‘

آقا کریم علیہ السلام نوجوان کی دینی و فکری و عملی تربیت اپنے عالی المرتبت انداز فرمائی یہاں تک کہ اطاعت الہٰیہ میں رسوخ و پختگی پیدا کرنے کی ترغیب و ترہیب اسالیب اپنائے اور اخروی بشارتیں اور دنیا میں اپنی قربتیں اور نوازشات ہمیشہ عطا فرماتے رہے۔ اس کی نمایاں مثال مذکورہ بشارت رسول میں ہے۔ آپ نے فرمایا جس دن ہر کوئی مشکل میں مبتلا ہوگا اور کوئی سایہ نہ ہوگاتو اطاعت الہٰی میں زندگی گزارنے والے نوجوان کو اللہ سایہ عطا فرمائے گا۔

یہ عظیم الشان وصیت ہے جو آپ ﷺ نے اپنے نوجوان چچا زاد ابن عباس کو فرمائی ہے۔ یہ ایسی وصیت ہے جو اس کے تمام امور کی کفالت فرمائی ہے۔ یہاں تک کہ اس کی جان، مال اور اہل و عیال کی حفاظت کرتی ہے۔ حضرت ابوذرؓ بیان کرتے ہیں۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

اتق اللہ حیثما کنت، واتبع السیئۃ الحسنۃ تمحھا، وخالق الناس بخلق حسن.

’’(اے ابوذرؓ) تو جہاں بھی ہو اللہ سے ڈرو، سیئہ کے بعد نیکی کرو وہ اسے مٹادے گی اور لوگوں کے ساتھ اخلاق حسنہ سے پیش آؤ۔‘‘

حضرت ابوذرؓ نوجوان تھے اور رسول اللہ ﷺ ایک نوجوان کی تربیت کیسے خوبصورت انداز میں فرمارہے ہیں کہ اللہ رب العزت کے ساتھ تقویٰ کا تعلق ہمیشہ برقرار رکھو اور نیکی کا اہتمام کرو اور تیسری چیز سکھائی کہ خلق خدا کے ساتھ اپنا برتاؤ اور معاملہ اچھا کرو۔

آپ ﷺ نے یہ ہی وصیت نوجوان حضرت معاذ بن جبلؓ کو فرمائی تھی یہاں سوال پیدا ہوتا ہے ایک نوجوان کو ہی کیوں خاص اہتمام کے ساتھ تقویٰ اور نیکی کرنے کی ہدایات فرمائی جارہی ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ نوجوان طاقت ور ہوتا ہے اور اس میں شہوات کی طرف مائل ہونے کے زیادہ مواقع ہوتے ہیں۔ خاص طور پر اس وقت جب نفس کمزور ہو تو اس وجہ سے ان نوجوانوں کو یہ وصیت کی گئی ہے۔

رسول اللہ ﷺ نوجوانوں کے حقوق کا خاص خیال رکھتے تھے اور ان کے مقام کا اعتراف فرماتے تھے۔ حضرت سہل بن سعد الساعدیؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ میں ایک مشروب پیش کیا گیا۔ آپ نے اس میں سے تناول فرمایا۔ آپ کے دائیں طرف ایک نوجوان بچہ تھا اور دوسری طرف بزرگ صحابہ تھے۔ آپ ﷺ نے اس نوجوان سے فرمایا:

اتاذن لی ان اعطی ھولاء.

کیا تو یہ اجازت دیتا ہے کہ میں یہ مشروب ان بزرگوں کو عطا فرمادوں۔

نوجوان نے عرض کی یارسول اللہ ﷺ، اللہ رب العزت کی قسم نہیں،میں آپ کی بارگاہ سے ملنے والے اپنے حصہ و نصیب پر کسی کو ترجیح نہیں دینا۔ آپ ﷺ نے اس کے حق کا اعتراف فرمایا اور اس سے نفرت نہیں فرمائی۔ نہ ہی ناراض ہوئے۔ یہ آپ کے خاص اہتمام کی روشن مثال ہے۔

مذکورہ بالا قرآنی اور احادیث کے شواہد اور سنت رسول ﷺ سے معلوم ہوتا ہے کہ نوجوان قوموں کی ترقی کا راز اور ضامن ہیں۔ اللہ رب العزت امت مسلمہ کے نوجوانوں کو سیرت رسول ﷺ اپنانے اور اخلاق رسول ﷺ کا مظہر بننے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین ﷺ۔