ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَ یْکُمْ وَاتَّقُوا اللهَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ.
(الحجرات، 49: 10)
’’بات یہی ہے کہ (سب) اہلِ ایمان (آپس میں) بھائی ہیں۔ سو تم اپنے دو بھائیوں کے درمیان صلح کرایا کرو، اور الله سے ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے ۔‘‘
یہ آیت کریمہ کلمہ گو لوگوں کے درمیان ایک فکری، نظریاتی اور اعتقادی تعلق کو بیان کرتی ہے کہ جو کلمہ شہادت توحید و رسالت پڑھ لیتے ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لے آتے ہیں جو اللہ کواپنا الہ اور اپنا رب مان لیتے ہیں جو اس کی توحید پر پختہ یقین اور ایمان لے آتے ہیں اور جو رسول اللہ کی ذات پر عقیدہ رسالت کا یقین کرلیتے ہیں اور دل و جان سے آپ کی رسالت پر ایمان لے آتے ہیں اور آپ کی شان ختم نبوت اور آپ کو خاتم النبین تسلیم کرلیتے ہیں۔
زندگی دو اقرار کا نام ہے
دو اقرار وہ اپنی زندگی میں اختیار کرلیتے ہیں ایک اقرار ایمان باللہ کا ہے اور دوسرا اقرار ایمان بالرسالت کا ہے، ان دونوں اقرار کو دل و جان سے اور صدق و یقین سے تسلیم کرنے والا مومن ٹھہرتا ہے، اسی کو ہم مسلم کہتے ہیں اور ساری دنیامیں زبان، رنگ، نسل ، علاقہ، قبیلہ، خطہ، ملک اور براعظم کی قید اورلحاظ کے بغیر جو شخص ان دونوں اقرارات کو اپنی زندگی میں ایک عقیدے کے طور پر اختیار کرتا ہے۔ ہم اس کو مومن کہتے ہیں ہم اس کو مسلم ہونے کا اعزاز دیتے ہیں۔ قرآن ایسے مومنین اور ایسے مسلمین کے درمیان ایک باہمی تعلق اخوت کا خون کی بنا پرنہیں بلکہ ایک نظریے، ایک فکر، ایک عقیدے کی بنا پر قائم کرتا ہے اور یہ اخوت بالدم نہیں بلکہ اخوت بالعقیدہ ہے۔ اخوت بالدم محدود ہے اور اخوت بالعقیدہ غیر محدود ہے۔
اسلام نے اخوت بالعقیدہ کی بنا پر دنیا بھر کے کلمہ گو لوگوں کو اخوت کی لڑی میں پرو دیا ہے اور سب کو کلمہ شہادت کی بنا پر بھائی، بھائی بنادیا ہے۔ اب اس تعلق کو دنیا کی کوئی قوت ختم نہیں کرسکتی۔ البتہ فی زمانہ اس کو کمزور کرنے اور اس میں انتشار لانے اور اس میں عداوت و دشمنی کو پیدا کرنے اور فروغ دینے اور دنیوی مفادات میں الجھانے کی کاوشیں کی جاتی رہی ہیں۔
فطری اخوت پر مختلف حملے
اس اخوت بالعقیدہ والنظریہ کو کمزور کرنے کے لیے کبھی مذہب اور مسلک کے نام پر اسے کمزور کیا گیا کبھی اس کو مذہب کے نام پر فرقہ واریت کے ذریعے کچلا گیا، کبھی اس کو فقہی مذہب کے نام پر روندا گیا کبھی اسی کو مختلف مسالک سنی، شیعہ، دیو بندی، بریلوی، اہلحدیث کے ناموں میں بانٹ کر نفرت پیدا کی گئی اور اس میں انتہا پسندی یہ اختیار کی گئی کہ اپنے علاوہ کسی کو مسلمان نہ سمجھا گیا۔ دوسروں کو کافر بنایا گیا خودکو مخلص مسلمان ہونا ظاہر کیا گیا۔ دوسروں کے عمل کو شرک ٹھہرایا گیا اور اپنے عمل کو توحید اور عین اسلام گردانا گیا، خود کو مومن ہونا ظاہر کیا گیا۔
دوسروں کو فاجر و فاسق اور کافر و مشرک بنایا گیا اور حقیقت یہ ہے کہ جب تک کوئی دین اس کی اصولیات کا انکار نہ کرے وہ کافر نہیں ٹھہرتا مگر ہم نے فروعیات کی بنا پر دوسروں کو کافرو مشرک بنایا۔ اخوت اسلامی پر یہ حملہ مذہب اور مسلک اور عقیدے کے نام پر کیا گیا اور یہ حملہ آج بھی ایک مسلمان دوسرے مسلمان پر جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس حملے کا ادراک اور تدارک اہل علم نے کرنا تھا، علماء ربانیین نے کرنا تھا مصلحین ملت نے کرنا تھا، مساجد کے منبر اور محراب کے حاملین نے کرنا تھا واعظوں اور خطیبوں نے کرنا تھا۔ مبلغین اور مقررین نے کرنا تھا، الا ماشاء اللہ یہ حملہ آج بھی دانستہ اور نادانستہ طور پر منبروں اور محرابوں سے واعظین اور مقررین کے ذریعے جاری و ساری ہے۔ جس کی بنا پر معاشرے میں اخوت اسلامی کو تقویت نہیں مل رہی ہے۔
اخوت اسلامی پر دوسرا حملہ
اخوت اسلامی پر دوسرا حملہ مذہب کے بعد سیاست کے نام پر کیا گیا ہے۔ ہم نے اپنے سیاسی مفادات کو ہر چیز سے بالا رکھا ہے۔ ہمارے سیاسی مفادات کے حصول کے لیے اگر مذہب آڑے آیا تو ہم نے مذہب کی تعلیمات کو پس پردہ ڈال دیا اور مذہب اور دین کو اپنی سیاست میں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے نہ آنے دیا۔ ہمارے سیاسی مفادات کے حصول میں اگر ملک کا آئین اور قانون رکاوٹ بنا تو ہم نے اس کی بھی دھجیاں اڑا دیں ہم نے اپنے سیاسی مفادات کے حصول کے لیے اخوت اسلامی کے پرخچے یوں بھی اڑائے ہم نے اس اخوت اسلامی پر تعجب کا رنگ چڑھایا اور ہم نے اپنے سیاسی مفادات کے حصول کے لیے اس اخوت اسلامی کو کبھی اپنے لسانی امتیاز سے پراگندہ کیا ایک خاص زبان والوں کو بھائی بھائی قرار دیا ار دوسروں کو اپنا دشمن سمجھا اور دشمن بنایا اور انہوں نے دشمن جیسا سلوک کرنا شروع کردیا۔
حتی کہ ہم نے اس پاک سر زمین پر زبان کے امتیاز پر اخوت اسلامی کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے ہزاروں جنازے اٹھائے ہیں۔ اللہ کی اس زمین کو زبان کی بنا پر بانٹا ہے۔ دین تو ہمیں زبان کی بنا پر اخوت کو قائم کرنے کی اجازت نہ دیتا تھا۔ اس لیے کہ دین تو ایمان کی بنا پر اخوت کو قائم کرتا ہے مگر ہم نے اپنے سیاسی مفادات کے حصول کے لیے یہ بھی کیا حتی کہ ہم نے انسانی خون کو پانی کی طرح بہایا۔ ہم دنیا کو امن دینے والے تھے مگر باہم ہم درندے بن گئے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوگئے۔
سیاسی مفادات اور اخوت میں انتشار
کبھی ہم نے اپنے سیاسی مفادات کے حصول کے لیے اخوت اسلامی کو علاقائی تعصب کے ذریعے کمزور کیا، ہم اپنی دو بڑی شرعی اور آئینی پہچانوں کو مسلمان ہونے اور پاکستانی ہونے کو چھوڑ کر متعصبائی و علاقائی پہچانوں میں گم ہوگئے۔ ہمارے سیاسی رہبروں نے ہمارے ساتھ سیاسی رہزنی کی، ہمیں پاکستانی ہونے کی بجائے پنجابی، سندھی، بلوچی اور پختونوی، کشمیری، گلگتی اور وزیرستانی ہونا زیادہ بنایا گیا۔ ہمارے ہر صوبے کا سیاسی لیڈر ہمارے جذبات سے کھیلتا رہا، کبھی کوئی ہمیں کہتا اے بلوچی اٹھ تیرے حقوق پنجابی اور سندھی نے عضب کرلیے تو کبھی ہمیں کہا جاتا ہے ’اے سندھی اٹھ تیرے حقوق پر پنجابی نے ڈاکہ ڈالا ہے، کبھی ہمیں کہا جاتا، اے پٹھان اے پختونوی تیرے حقوق پنجابی اور سندھی لوٹ رہے ہیں۔ ہمیں کبھی کہا جاتا اے پنجابی اٹھ تو بیدار ہوجا، تجھے سندھی، بلوچی، پٹھان سے خطرہ ہے۔ ہم ان نعروں کے ذریعے اپنی قوم کے جذبات سے کھیلتے رہے اور اپنے سیاسی مفادات حاصل کرتے رہے۔
ہمارے معاشرے میں اب تک سب سے بڑا اثر ہمارے سیاستدانوں اور مذہب پرستوں کا رہا ہے۔ اس لیے ہماری قوم کی تقدیر اور ہماری قوم کا مستقبل ہمارے سیاستدانوں اور مذہب پرستوں کے ہاتھوں میں گروی ہے۔
قومی اور ملکی ترجیحات
اب ان دونوں طبقات کو بھی قوم کی تقدیر سنوارنے کے لیے آنا ہوگا۔ دونوں طبقات نے اپنے سیاسی مفادات اور اپنے مذہبی مفادات خوب سمیٹ لیے ہیں۔ اب ان کو قوم کے مفاد کے لیےآگے بڑھنا ہوگا۔ اپنے ذاتی اور سیاسی مفادات سے کنارہ کش ہونا ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ ملک کے دانشوروں، قلمکاروں، مغلموں اور طالب علموں کو بھی اپنی اپنی ذمہ داریاں اس معاشرے اور ملک کو سنوارنے کے لیے ادا کرنا ہوں گی، یونیورسٹیوں، کالجوں اور سکولوں اور ان میں پڑھانے والے ٹیچروں اور پڑھنے والے طالب علموں کی بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ خود کو بنانے کے ساتھ ساتھ اپنی قوم کو بھی ایک زندہ قوم بنائیں۔
رسول اللہ ﷺ کی نظر میں ایک مسلمان وہ ہے جس کے اندر کم از کم دوسرے مسلمان بھائی کے لیے کم ازکم تین چیزیں پائی جائیں۔ ایک محبت و مودت ہے دوسری چیز رحم و مہربانی ہے اور تیسری شفقت و پیار ہے اور یہ چیزیں ہر اس مسلمان کو اور ہر اس مومن کو میسر آتی ہیں جو صدق دل کے ساتھ اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان رکھتا ہے جو پکا اور مخلص مومن ہے جو اللہ کا سچا فرمانبردار ہے اور رسول اللہ ﷺ کا سچا باعمل امتی ہے
حب الوطنی کے جذبے کو بیدار کریں، پاکستانیت کی حقیقت کو زندہ کریں۔آیئے یہاں سے ایسے افراد تیار کریں جو صحیح معنوں میں معمار وطن اور معمار قوم ہوں، یہاں سے نکلنے والے تعمیر ذات کے حصار میں ہی قید نہ ہوں بلکہ تعمیر پاکستان کے جذبے سے بھی مملو ہوں، یہ مقصد ہمیں اس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتا جب تک اس پاک سرزمین کے ظاہر اور باطن کو ان تصورات پر قائم نہ کردیں جو اس کا خمیرہیں، جن تصورات کی بنا پر اس زمین کو پاک سرزمین کا نام دیا گیا ہے۔
یہ زمین اسلام کے نام پر لی گئی اور اس سر زمین کو اسلام کی تعلیمات سے معمور کردیاجائے، اس کے ظاہر پر پھر سے اخوت اسلامی کی فصل اگائی جائے۔ نسلی، لسانی، علاقائی تعصبات کا قلعہ قمع کیا جائے۔ قوم کو پھر اکٹھا کیا جائے۔ قوم کے مشترکات کو ابھارا جائے، نفرت اور منافرت کےپہلوؤں کو دبایا جائے، محبت و یگانگت کے جذبات کو فروغ دیا جائے قوم کی وحدت اور یکجہتی کی بات کی جائے انتشار اور تفرقے کی ہر صورت کا خاتمہ کیا جائے۔ اخوت اسلامی کو بچانے کےلیے سیاسی منافرت اور مذہبی فرقہ واریت کا خاتمہ کیا جائے۔ اس ملک میں تمام برائیوں کا حل اس میں ہے کہ یہ قوم ان برائیوں کے خاتمے کے لیے اکٹھی ہوجائے۔
قومی تشخص اور کردار کی تشکیل
یہ قوم اتحاد اور یکجہتی کی صورت میں ہر برائی کا انسداد کرسکتی ہے۔ اس قوم کو اپنے اجتماعی کردار کو تشکیل دینا ہوگا۔ آج اس قوم کا اجتماعی کردار بدقسمتی سے کرپشن ہے جس کی وجہ سے ملک میں ہر سطح پر کرپشن دکھائی دیتی ہے۔ ہم اقوام عالم میں سے کسی قوم کی آج تعریف کرتے ہیں۔ وہ جھوٹ نہیں بولتے اور وہ دھوکہ نہیں دیتے اور اشیاء میں ملاوٹ نہیں کرتے، مگر سوال یہ ہے کہ ساری دنیا میں اور اقوام عالم میں ہماری اجتماعی پہچان کیا ہے اور ہمارا اجتماعی کردار کیا ہے۔
یہ ایک سوالیہ نشان ہے اور ہماری پوری قوم کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ آیئے اپنی اجتماعیت اور اپنی قومیت کو ہم پھر سے دوبارہ زندہ کریں، ہم سب اہل وطن باہم اتحاد و اتفاق اور اکٹھا و یکجا ہونے کی بنیادیں تلاش کریں جو ہم کو پھر سے ایک قوم بنادیں اور پھر سے ہم کو ایک اخوت اسلامی کی لڑی میں پرودیں اور ہم ایک دوسرے سے اخوت کا اظہار کریں، ایک دوسرے سے محبت اور مودت کا برتاؤ کریں، ایک دوسرے کے دکھ کو اپنا دکھ سمجھیں دوسروں کو خوشیاں دیں غم نہ دیں، دوسروں کو راحت دیں بے چینی اور بے سکونی نہ دیں۔ دوسروں کے لیے ظالم نہ بنیں بلکہ ان کے مددگار بنیں۔ کسی کا حق نہ ماریں بلکہ اس کے حق کا تحفظ کریں اور باہم اتحاد اور اتفاق کو اپنی قوت بنائیں۔
اتحاد قوم کی قوت کا راز ہے
قرآن یہی تصور اتحاد و اتفاق ہمیں دیتا ہے اسی اتحاد و اتفاق کے ذریعے ہم اپنی اسلامی اقدار کو قائم اور بحال رکھ سکتے ہیں۔ قرآن ہمیں اس حقیقت کی طرف یوں متوجہ کرتا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللهِ جَمِیْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا وَ اذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللهِ عَلَیْکُمْ اِذْ کُنْتُمْ اَعْدَآءً فَالَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِکُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهٖٓ اِخْوَانًا ج وَکُنْتُمْ عَلٰی شَفَا حُفْرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَکُمْ مِّنْهَا ط کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللهُ لَکُمْ اٰیٰـتِهٖ لَعَلَّکُمْ تَهْتَدُوْنَ.
(آل عمران، 3: 103)
’’اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ مت ڈالو، اور اپنے اوپر اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جب تم (ایک دوسرے کے) دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا کر دی اور تم اس کی نعمت کے باعث آپس میں بھائی بھائی ہوگئے، اور تم (دوزخ کی) آگ کے گڑھے کے کنارے پر (پہنچ چکے) تھے پھر اس نے تمہیں اس گڑھے سے بچا لیا، یوں ہی اللہ تمہارے لیے اپنی نشانیاں کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم ہدایت پا جاؤ۔‘‘
یہ آیت کریمہ ہمیں بتارہی ہے کہ اخوت اسلامی جس قوت، جس جذبے، جس تصور اور جس ولولے سے قائم رہتی ہے وہ اتحاد کی قوت ہے وہ اتفاق کا جذبہ ہے، وہ یگانگت کا ولولہ ہے اور وہ یکجہتی کا تصور ہے۔ اس کے مدمقابل جہاں نفرت ہوگی جہاں منافرت ہوگی جہاں سیاسی فرقہ واریت ہوگی جہاںمذہبی فرقہ واریت ہوگی جہاں متعصبانہ نظریات ہوں گے، جہاں معاشرتی تفرقہ بازی ہوگی، جہاں انسانوں کو ایک دوسرے سے دور کرنے کا تفرقانہ اور منافرانہ خیالات ہوں گے اور جہاں ایک دوسرے کو کافرانہ اور مشرکانہ ملبوسات پہنانے کے جذبات ہوں گے جہاں لسانیت اور علاقائیت کے فتنے ہوں گے، جہاں ظلم وستم کا نظام ہوگا، وہاں اخوت اسلامی کبھی اپنی جڑیں نہیں پکڑ سکتی، وہاں معاشرے میں ہر سو عداوت ہی عداوت ہوگی۔ دشمنی ہی دشمنی ہوگی نفرت ہی نفرت ہوگی، ایسی فضا میں افراد قوم نہیں بنتے بلکہ ایک گروہ اور ایک طبقہ بنتے ہیں اور ایک جانوروں کے ریوڑ کی طرح دکھائی دیتے ہیں، معاشرے میں فکری، نظریاتی، روحانی اور فزیکل جسمانی پریکٹیکل عملی امن و سلامتی کا ماحول ہی قوم کو قوم بناتا ہے۔
دہشتگری کے نقصانات
معاشرے میں دہشتگردی نے جہاں معاشی مفادات تباہ کیے ہیں جہاں ہمارے وجودوں کو مٹایا ہے جہاں ہماری جانوں کا ضیاع کیا ہے وہاں نظریاتی بنیادوں کو بھی ہلایا ہے وہاں ہماری اسلامی قدروں کو بھی پامال کیا ہے وہاں مسلمان کا قاتل مسلمان ہی ہے پاکستانی کا قاتل پاکستانی ہی ہے۔ کلمہ گو کا قاتل کلمہ گو ہی کو بناکر ہمارے وجودوں سے ہمارے ہی دین کا عملاً مذاق اڑایا ہے۔ اس طرح کہ اے دنیا والو دیکھو یہ مسلمان جس کو قرآن یہ کہہ رہا ایک انسان کا قتل ساری انسانیت کا قتل ہے۔ یہ بم بلاسٹ کے ذریعے، خودکش حملے کے ذریعے کتنے ہی اپنے مسلمان بھائیوں اپنے پاکستانی ہم وطنوں کو قتل کررہا ہے۔ اس کو دیکھو یہ نام کا مسلمان ہے مگر اس کا عمل اپنے مسلمان بھائیوں کے خون کے ذریعے قرآن کے خلاف ہے۔
اسلام نے اخوت بالعقیدہ کی بنا پر دنیا بھر کے کلمہ گو لوگوں کو اخوت کی لڑی میں پرو دیا ہے اور سب کو کلمہ شہادت کی بنا پر بھائی، بھائی بنادیا ہے۔ اب اس تعلق کو دنیا کی کوئی قوت ختم نہیں کرسکتی۔ البتہ فی زمانہ اس کو کمزور کرنے اور اس میں انتشار لانے اور اس میں عداوت و دشمنی کو پیدا کرنے اور فروغ دینے اور دنیوی مفادات میں الجھانے کی کاوشیں کی جاتی رہی ہیں
یہ ہےآج کا مسلمان اور یہ ہے اسلام کے نام پر بننے والا پاکستان جہاں مسلمان ہی مسلمان کا خون کررہا ہے جہاں پاکستانی ہی پاکستانی کے خون کا پیاسا ہے۔
ناحق قتل و غارت گری کفر ہے
اس لیے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
عن ابن عباس ان رسول الله خطب الناس فی حجة الوداع فقال ولا ترجعوا من بعدی کفارا یغرب بعضکم رقاب بعض.
(اخرجہ الحاکم فی المستدرک، کتاب العلم، 1: 171، الرقم: 318)
’’میرے بعد کفر میں مبتلا نہ ہوجانا کہ تم میں سے بعض دوسروں کی گردنیں کاٹنے لگیں۔‘‘
واعتصموا بحبل اللہ جمیعا سورہ آل عمران کی یہ آیت کریمہ ہمیں یہ راہنمائی دیتی ہے اسلام جب سر زمین مکہ میں طلوع ہوا تو اس نے عداوت زدہ لوگوں کو باہمی محبت اور باہمی اخوت کا جذبہ دیا ہے۔ ان کی باہمی عداوت کو سرد کرکے ان پر اخوت اور محبت کا رنگ چڑھایا ہے اور اسلام تو عداوتوں اور دشمنیوں کو مٹاتا ہے اور باہمی محبتوں اور چاہتوں کو فروغ دیتا ہے اور لوگوں کو اکٹھا اور یکجا کرتا ہے، ان کو متحد و متفق کرتا ہے، ان کو متنفر اور منتشر نہیں کرتا۔
اخوت اسلامی کے تین تقاضے
رسول اللہ ﷺ کی نظر میں ایک مسلمان وہ ہے جس کے اندر کم از کم دوسرے مسلمان بھائی کے لیے کم ازکم تین چیزیں پائی جائیں۔ ایک محبت و مودت ہے دوسری چیز رحم و مہربانی ہے اور تیسری شفقت و پیار ہے اور یہ چیزیں ہر اس مسلمان کو اور ہر اس مومن کو میسر آتی ہیں جو صدق دل کے ساتھ اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان رکھتا ہے جو پکا اور مخلص مومن ہے جو اللہ کا سچا فرمانبردار ہے اور رسول اللہ ﷺ کا سچا باعمل امتی ہے۔
حضرت نعمان بن بشیر روایت کرتے ہیں:
عن النعمان بن بشیر قال قال رسول اللہ ﷺ مثل المومنین فی توادهم وتراحمهم وتعاطفهم مثل الجسد اذا اشتکی منه عضو تداعی له سائر الجسد بالسھر والحمی. (متفق علیہ)
(الجامع الصحیح للمسلم، کتاب الایمان، باب الدلیل علی ان من فصال الایمان، 1: 67، الرقم: 45)
’’حضرت نعمان بن بشیر روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مومنین کی مثال باہمی محبت، ایک دوسرے پر رحم کرنے اور شفقت کا مظاہرہ کرنے میں ایک جسم کی مانند ہے چنانچہ جب کسی بھی حصے کو تکلیف پہنچتی ہے تو سارا جسم بے خوابی اور بخار میں مبتلا ہوکر اس کا شریک ہوتا ہے۔‘‘
خلاصہ کلام:
آیئے اس حدیث مبارکہ پر عمل کرتے ہوئے ہم مسلمان بن کر رہیں اور پاکستانی بن کر جئیں اور اس طرح کہ ہم ایک دوسرے سے محبت و مودت کا تعلق قائم کریں۔ ہم ایک دوسرے کے ساتھ رحم اور مہربانی کا رویہ رکھیں۔ ہم ایک دوسرے کے ساتھ شفقت اور پیار کا تعلق رکھیں۔
جب سر زمین مکہ میں طلوع ہوا تو اس نے عداوت زدہ لوگوں کو باہمی محبت اور باہمی اخوت کا جذبہ دیا ہے۔ ان کی باہمی عداوت کو سرد کرکے ان پر اخوت اور محبت کا رنگ چڑھایا ہے اور اسلام تو عداوتوں اور دشمنیوں کو مٹاتا ہے اور باہمی محبتوں اور چاہتوں کو فروغ دیتا ہے اور لوگوں کو اکٹھا اور یکجا کرتا ہے، ان کو متحد و متفق کرتا ہے، ان کو متنفر اور منتشر نہیں کرتا
یاد رکھ لیجئے کوئی عداوت ہماری زندگی کو سکون نہیں دے سکتی کوئی نفرت ہمارے معاشرے کو بقا نہیں دے سکتی کوئی دشمنی ہمارے معاشرے کو چین نہیں دے سکتی، کوئی بھی ظلم معاشرے کو راحت نہیں دے سکتا، کوئی بھی فساد ہمارے معاشرے کو اکٹھا نہیں کرسکتا، کوئی بھی سیاسی فرقہ واریت اور تفرقہ بازی پاکستان اور اسلام کی بنیادوں کو مستحکم نہیں کرسکتی اور کوئی بھی مذہبی فرقہ واریت اسلام کی حقیقی تعلیمات کو معاشرے میں عام نہیں کرسکتی، کسی بھی قسم کی لوگوں کے درمیان باہمی منافرت ان کے درمیان محبت کو فروغ نہیں دے سکتی۔ آیئے آج اپنے معاشرے کو زندہ قوموں کے زندہ معاشرے میں بدلنے کے لیے اپنے اجتماعی مجرمانہ افعال سے ہم تائب ہوں اور اپنے اجتماعی جرائم کو ترک کریں اور اس قوم کو اسلام کے اعلیٰ تصورات و تعلیمات اور آئین پاکستان میں موجود ارفع افکار کے ذریعے اقوام عالم کی ایک عظیم، بے مثال او بے مثل اور بے نظیر اور قابل فکر قوم بنائیں۔ آیئے آج ہم سے ہر کوئی اس تصور میں ڈھل کر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
ہم خود کو بدلیں، ہماری قوم بدل جائے گی ہماری اجتماعی ذلت اجتماعی عظمت میں بدل جائے ہمارا قومی اور بین الاقوامی تشخص ایک زندہ و تابندہ قوم کے تشخص سے بدل جائے گا۔
باری تعالیٰ ہمیں رجوع الی القرآن کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں رجوع الی سیرۃ الرسول ﷺ کی طرف راغب کرے۔