سوال: علم لدنی کیا ہے اور کیا اس کا حصول ممکن ہے؟
جواب: علم بنیادی طور پر دو طرح کے ہیں:
ایک وہ علم ہے جو بندہ اپنی کوشش، محنت اور استاد سے سیکھتا ہے، اسے کسبی علم کہتے ہیں
دوسرا دو علم ہے جو بغیر کسی خارجی سبب کے مِن جانب اللہ خود بخود قلب پر اترتا ہے، اسے علم لدُنّی یا علم وہبی، عطائی اور علم ربانی کہا جاتا ہے۔ امام القاشانی لکھتے ہیں:
یُرَادُ بِهِ الْعِلْمُ الْحَاصِلُ مِنْ غَیْرِ کَسْبٍ، وَلَا تَعَمُّلَ لِلْعَبْدِ فِیْهِ. سُمِّیَ لَدُنِّیًّا لِکَوْنِهٖ إِنَّمَا یُحْصَلُ مِنْ لَدُنْ رَبِّنَا، لَا مِنْ کَسْبِنَا.
(القاشانی، لطائف الإعلام فی إشارات أهل الأعلام: 323)
اِس سے مراد وہ علم ہے جو بغیر ریاضت و مجاہدہ کے حاصل ہو اور انسان کو اس کے لیے تگ و دو نہ کرنا پڑے۔ اسے لدنی اِسی لیے کہا جاتا ہے کیونکہ یہ براہِ راست اللہ تعالیٰ کی طرف سے حاصل ہوتا ہے اور ہماری محنت کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔
امام غزالیؒ نے علمِ لدُنّی کی تعریف اس طرح بیان کی ہے کہ:
وہ علم جس کا ظہور کسی خارجی سبب کے بغیر دل پر ہوتا ہے۔ (غزالی، احیاء العلوم)
علم لدنی کو علم الحقیقتہ اور علم الباطن بھی کہتے ہیں۔ قرآن مجید سے علمِ لدنی کا اثبات کیلئے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام کے واقعہ سے استدلال کیا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں الله تعالیٰ کا ارشاد ہے:
فَوَجَدَا عَبْدًا مِّنْ عِبَادِنَآ اٰتَیْنٰهُ رَحْمَةً مِّنْ عِنْدِنَا وَعَلَّمْنٰهُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًا.
(الکهف، 18: 65)
تو دونوں نے (وہاں) ہمارے بندوں میں سے ایک (خاص) بندے (خضر علیہ السلام ) کو پا لیا جسے ہم نے اپنی بارگاہ سے (خصوصی) رحمت عطا کی تھی اور ہم نے اسے علمِ لدنی (یعنی اَسرار و معارف کا اِلہامی علم) سکھایا تھا۔
علماء کے نزدیک یہ آیت علم لدنی کے اثبات میں اصل ہے۔ علمِ لدنّی کی بہت سی قسمیں ہیں جیسے وحی، الہام، کشف، القاء، مبشرات اور فراست وغیرہ۔ وحی تو انبیاءکرام علیہم السلام کے ساتھ خاص ہے، الہام اور کشف صلحاء و اولیاءاللہ کیلئے ساتھ خاص ہے جبکہ فراست ہر بندۂ مومن کو بقدرِ ایمان ملتی ہے۔ انبیاءکرام علیہم کی وحی غلطی سے مبرا ہوتی ہے، اس میں کسی نقص کا گمان کرنا یا اس کا انکار کرنا کفر ہے۔ الہام، کشف، القاء، مبشرات اور فراست اس کا اعتبار مشروط ہوتا ہے، یہ تب ہی معتبر ہیں جب خلافِ شرع نہ ہوں، اگر خلاف شرع ہوں غیرمعتبر ہوں گے۔ علمِ لدنی وہ علم ہے جو بغیر ذرائع اور وسائط کے براہِ راست اللہ تعالیٰ کسی کے دل میں القاء کرتا ہے۔ علمِ لدنی بغیر واسطے کے براہِ راست مردِ عارف، مردِ مومن کے قلب میں ڈال دیا جاتا ہے۔ یہ صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے۔ یہ وہبِ خالص ہوتا ہے اور اس میں فرشتہ بھی دخیل (involve) نہیں ہوتا یعنی اللہ اور بندے کے قلب کے درمیان کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے علمِ لدنی کا اِجراء جاری و ساری ہے۔ قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے:
کُلًّا نُّمِدُّ ھٰٓؤُلَآءِ وَھٰٓؤُلَآءِ مِنْ عَطَآءِ رَبِّکَ ط وَمَا کَانَ عَطَآءُ رَبِّکَ مَحْظُوْرًا.
(الإسراء، 17: 20)
ہم ہر ایک کی مدد کرتے ہیں ان (طالبانِ دنیا) کی بھی اور ان (طالبانِ آخرت) کی بھی (اے حبیبِ مکرّم! یہ سب کچھ) آپ کے رب کی عطا سے ہے۔
علمِ لدنّی کی بہت سی قسمیں ہیں جیسے وحی، الہام، کشف، القاء، مبشرات اور فراست وغیرہ۔ وحی تو انبیاءکرام علیہم السلام کے ساتھ خاص ہے، الہام اور کشف صلحاء و اولیاءاللہ کیلئے ساتھ خاص ہے جبکہ فراست ہر بندۂ مومن کو بقدرِ ایمان ملتی ہے
مزید فرمایا:
وَمَا کَانَ عَطَآءُ رَبِّکَ مَحْظُوْرًا.
(الإسراء، 17: 20)
اور آپ کے رب کی عطا (کسی کے لیے) ممنوع اور بند نہیں ہے۔
یعنی آپ کے ربّ کی جانب سے نبوت کے سوا بقیہ تمام عطاؤں کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ صرف نبوت و رسالت کا دروازہ بند ہے کیونکہ حضور نبی اکرمﷺ کو خاتم النبیین کے منصب پر فائز فرمایا گیا ہے:
مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللہِ وَخَاتَمَ النَّبِیّٖنَ.
(الأحزاب، 33: 40)
محمد (ﷺ) تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیاء کے آخر میں (سلسلۂِ نبوت ختم کرنے والے) ہیں۔
مالکِ کون و مکاں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو خاتم المرسلین بناتے ہوئے نبوت و رسالت کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جس اَمر کے لیے حکم فرمایا کہ یہ دروازہ بند کر دیا، پس وہ دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہوگیا؛ اور اللہ تعالیٰ نے جن نعمتوں کی عطا جاری رکھی ہے اور اُس کے بند ہو جانے کا واضح حکم نہیں آیا۔ علم اور معارف کے یہ سارے راستے اُسی طرح کھلے رہیں گے، جیسا کہ پہلے کھلے تھے۔ اللہ تعالیٰ جس زمانے کے جس بندے کو چاہے گا، وہ عطا فرمائے گا۔ عین اسی طرح جیسے اللہ تعالیٰ نے کسی بھی زمانے کے لوگوں پر حواسِ خمسہ بند نہیں کیے۔ جیسے کل قوتِ سامعہ، باصرہ، شامہ، ذائقہ اور لامسہ تھی، یہ سب آج بھی بدستور موجود ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جس طرح پہلے دماغ کی حسِ مشترک، حسِ خیال، حسِ واہمہ، حسِ حافظہ، حسِ متصرفہ دی تھی اور دماغ کے جو قویٰ دیے تھے وہ آج بھی لوگوں کو ملتے ہیں۔ اِسی طرح روحانی ذرائع اور نفس پر ورود و کیفیات کا سلسلہ آج بھی جاری و ساری ہے۔ اِسی طرح جن چیزوں سے مکاشفہ ہوتا تھا، وہ اب بھی ہوتا ہے اور اسی طرح ہوتا رہے گا۔ مالکِ ارض و سماوات اپنے بندوں کو علمِ لدنی عطا کرتا تھا، کرتا ہے اور کرتا رہے گا۔ اس کے بند ہونے پر قرآن کی نص نہیں آئی۔ اُس کا مطلب ہے کہ وہ سب وَمَا کَانَ عَطَآءُ رَبِّکَ مَحْظُوْرًا کے کلیہ کے تحت آئے گا۔ اللہ تعالیٰ کی یہ عطا اور نعمت بند نہیں ہوئی۔ یہ جیسے جاری تھی، ویسے ہی جاری ہے اور ہمیشہ جاری رہے گی۔
علمِ لدُنی کی مزید ابحاث پڑھنے کیلئے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی کتاب ’علم اور مصادر علم‘ کا مطالعہ کریں۔
سوال: اگر پالتو پرندےیا جانور کی دیکھ بھال میں کوتاہی کے سبب مرجائیں تو کیاکفارہ ہے؟
جواب: پرندے رکھنا، ان کو پالنا اور ان کی خرید و فروخت کرنا شرعاً جائز ہے، تاہم ضروری ہے کہ ان پالتو پرندوں کے حقوق کا خیال رکھا جائے اور خوراک و دیگر ضروریات کی فراہمی میں کسی قسم کی کوتاہی نہ کی جائے۔ اگر ان کا مالک اس معاملے میں کوتاہی کا مرتکب ہوتا ہے اور پرندوں کو نہ خود دانہ پانی دیتا ہے اور نہ انہیں آزاد چھوڑتا ہے کہ وہ خود اپنا رزق تلاش کرلیں، یہاں تک کہ وہ بھوک پیاس سے تڑپ تڑپ کر مر جاتے ہیں تو ایسا شخص سخت گنہگار اور عنداللہ معتوب ہے۔ حضرت اسماء بنت ابی بکرؓ سے بیان کیا کہ:
أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ صَلَّى صَلاَةَ الكُسُوفِ.... ثُمَّ انْصَرَفَ، فَقَالَ: قَدْ دَنَتْ مِنِّي الجَنَّةُ، حَتَّى لَوِ اجْتَرَأْتُ عَلَيْهَا، لَجِئْتُكُمْ بِقِطَافٍ مِنْ قِطَافِهَا، وَدَنَتْ مِنِّي النَّارُ حَتَّى قُلْتُ: أَيْ رَبِّ! وَأَنَا مَعَهُمْ؟ فَإِذَا امْرَأَةٌ... تَخْدِشُهَا هِرَّةٌ، قُلْتُ: مَا شَأْنُ هَذِهِ قَالُوا: حَبَسَتْهَا حَتَّى مَاتَتْ جُوعًا، لاَ أَطْعَمَتْهَا وَلاَ أَرْسَلَتْهَا تَأْكُلُ.
(بخاری، الصحیح، رقم الحدیث: 745)
نبی کریم ﷺ نے سورج گرھن کی نماز پڑھی... جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا کہ (دورانِ نماز) جنت مجھ سے اتنی نزدیک ہو گئی تھی کہ اگر میں چاہتا تو اس کے خوشوں میں سے کوئی خوشہ تم کو توڑ کر لا دیتا اور مجھ سے دوزخ بھی اتنی قریب ہو گئی تھی کہ میں بول پڑا کہ میرے مالک! کہیں میں تو اس میں سے نہیں ہوں؟ میں نے وہاں ایک عورت کو دیکھا... اس عورت کو ایک بلی نوچ رہی تھی، میں نے پوچھا کہ اس کی کیا وجہ ہے؟ تو جواب ملا کہ اس عورت نے اس بلی کو باندھے رکھا تھا تاآنکہ بھوک کی وجہ سے وہ مر گئی، نہ تو اس نے اسے کھانا دیا اور نہ چھوڑا کہ وہ خود کہیں سے کھا لیتی۔
اس حدیثِ مبارکہ سے واضح ہوتا ہے کہ مخلوقات کو قصداً تکالیف دینا معیوب اور گناہ عظیم ہے، اور جو شخص کسی جانور پر ظلم کرے گا آخرت میں اُس سے اس ظلم کا بھی بدلہ لیا جائے گا۔ اس لیے پالتو پرندوں کی دیکھ بھال اور خوراک کی فراہمی میں کوتاہی اور مار پیٹ وغیرہ اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا سبب، سخت گناہ اور جہنم میں لے جانے والے اعمال ہیں۔ اس لیے اگر کوئی شخص ان میں سے کسی فعل کا مرتکب ہوا ہے تو اس پر توبہ کرنا لازم ہے۔
حضرت ابو نعیم نے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے: حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ روئے زمین پر اللہ کے ایسے خاص بندے ہوتے ہیں جن کی دعا و برکت سے اللہ تعالیٰ لوگوں پر رحم فرماتا ہے، آسمان سے بارش اور زمین سے فصل وغیرہ انکی دعا سے اگتی ہے۔ یہ لوگ دنیا کے لیے باعث امن ہیں
فلھٰذا اگر مالک کی کوتاہی کی وجہ سے کوئی پالتو پرندہ مر گیا ہے تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ آدمی سچے دل سے ندامت و پشیمانی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ و استغفار کرے۔ سچی توبہ گناہوں کو مٹا دیتی، رسالتمآب ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے کہ سچے دل سے توبہ کرنے والا ایسے ہی ہے جیسے اس نے گناہ کیا ہی نہ ہو۔ تمام تر سہولیات کے باوجود اگر کسی شخص کی ملکیت میں کوئی پرندہ مر جائے تو وہ شخص گنہگار نہیں ہوگا، کیونکہ اس نے پرندے پر کسی قسم کا ستم نہیں کیا تھا۔
سوال: غوث، قطب، ابدال اور اوتاد نظامِ زندگی میں کیا کردار ادا کرتے ہیں؟
جواب: حضرت علامہ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ ابدال کی خبر احادیث میں ہے اور ان کا وجود درجہ یقین تک پہنچا ہے۔
اسی طرح علامہ سخاوی رحمہ اللہ نےلکھا ہے کہ سب سے واضح روایت ابدال کے بارے میں ہے جو کہ امام احمد ابن عباد نے شریخ ابن عبید سے روایت کی ہے:
حضرت علی کرم وجہہ اللہ سے مروی ہے کہ اہل شام پر لعنت نہ کرو کیونکہ ان میں چالیس ابدال رہتے ہیں۔ ان کی برکت سے بارش ہوتی ہے اور ان سے دین کو مدد ملتی ہے۔
امام سیوطی نے لکھا ہے کہ حضرت علی کرم وجہہ اللہ کی روایت جو امام احمد نے نقل کی ہے اس کی سند دس طرقوں سے زیادی ملتی ہے۔
علامہ خطیب نے کتاب التاریخ البغداد سے نقل کی ہے کہ نقباء 100 ہوتے ہی اور نجباء 70، ابدال 40 اور 7 اوتاد ہوتے ہیں، قطب زمین میں تین اور قطب الاقطاب یا غوث ایک ہوتا ہے۔ غوث ان سب کا سردار ہوتا ہے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا باطنی جانشین یا خلیفہ ہوتا ہے۔
پالتو پرندوں کی دیکھ بھال اور خوراک کی فراہمی میں کوتاہی اور مار پیٹ وغیرہ اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا سبب، سخت گناہ اور جہنم میں لے جانے والے اعمال ہیں۔ اس لیے اگر کوئی شخص ان میں سے کسی فعل کا مرتکب ہوا ہے تو اس پر توبہ کرنا لازم ہے
حضرت ابو نعیم نے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے: حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ روئے زمین پر اللہ کے ایسے خاص بندے ہوتے ہیں جن کی دعا و برکت سے اللہ تعالیٰ لوگوں پر رحم فرماتا ہے، آسمان سے بارش اور زمین سے فصل وغیرہ انکی دعا سے اگتی ہے۔ یہ لوگ دنیا کے لیے باعث امن ہیں۔
امام احمد ابن عباد صامت سے روایت کرتے ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت میں قیامت تک چالیس آدمی ایسے رہیں گے جن کی وجہ سے زمین و آسمان کا نظام قائم رہے گا۔
سوال: کیا محفل میں اکیلے ذکر خفی کیا جاسکتا ہے؟
جواب: محفل کے آداب ہوتے ہیں۔ آپ تلاوت کلام پاک سنیں، نعت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور واعظ ونصحیت وغیرہ۔ اگر آپ نے اکیلے ذکر کرنا ہے تو پھر محفل میں آنے کا مقصد کیا ہے؟ لہذا بہتر عمل یہی ہے توجہ سے محفل سنیں، ذکر واذکار بھی محفل والے کی ساتھ ہی کریں۔
سوال: کسی کی مدد کرنے کی نیت سے بینک سے سود لینا کیسا ہے؟
جواب: آپ یہ رقم کسی اسلامی بینک میں رکھ کر اس سے حاصل ہونے والا منافع وصول کر سکتے ہیں۔ اس منافع کو آپ خود بھی استعمال کر سکتے ہیں اور اپنی ہمشیرہ کو بھی دے سکتے ہیں۔ مشکلات کے باوجود اسلامی بینکوں میں ممکنہ حد تک شرعی اصول وضوابط کا اہتمام کیا جا رہا ہے اور مزید بہتری کی کوششیں بھی جاری ہیں۔ لیکن سودی بینک میں رقم پر منافع وصول کرنا جائز نہیں ہے، کیونکہ وہ اصل میں منافع نہیں بلکہ متعین اضافہ ہوتا ہے جو رقم جمع کراتے وقت ہی طے کر دیا جاتا ہے، یہی سود ہے جس کے حرام ہونے میں تمام مسلمان علماء کا اتفاق ہے۔ سود کے حرام ہونے پر قرآن وحدیث کی صریح نصوص وارد ہوئی ہیں۔ اصولاً بھی اسلامی بینکوں کی سہولت کے ہوتے ہوئے سودی بینکوں سے منافع حاصل کرنے کا جواز نہیں بنتا، اس لیے آپ کسی بھی اسلامی بینک میں رقم جمع کروا کر اس پر منافع حاصل کر سکتے ہیں۔