صوفیاء کرامؒ وارثان نبوت ہیں جو آفتاب نبوت سے تا بندگی پا کر عوام الناس میں محبت الہی اور محبت رسولﷺ کے چراغ جلاتے ہیں ۔ انہی ہستیوں میں ایک نامور نام حضرت رابعہ بصری رحمتہ اللہ علیہ کا ہے۔ حضرت رابعہ بصری رحمتہ اللہ علیہ قرون اولی کی ان اولین شخصیات میں سے ایک ہیں جنھیں سلوک و معرفت میں کامل اور عظیم ترین مقام حاصل ہوا۔ آپ کا نام راہ سلوک میں اس درخشاں ستارے کی طرح ہے جس سے مسافر اپنی منزل کا تعین کرتے ہیں۔ راہ تصوف میں آپ کو “ قلندر ”کا مقام حاصل ہوا اور آپ حضرت لعل شہباز قلندر (رح) اور حضرت بو علی قلندر (رح) کی پیش رو بنیں۔ مگر آپ کی زندگی خواتین کے لئے بطور خاص ایک عملی نمونہ ہے جو راہ سلوک میں خواتین کی رہبری کر کے معرفت کی راہ ہموار کرنے اور معرفت کی منازل طے کرنے کے لئے مشعل راہ ہے۔
حضرت رابعہ بصری (رح) تصوف کی ایک جلیل القدر اور نامور ہستی ہیں مگر آپ کی ذاتی زندگی کے احوال و واقعات کا تذکرہ کتب تاریخ میں بہت کم ملتا ہے۔ آپ کے بارے میں بیشتر معلومات قدیم صوفی بزرگ خواجہ فرید الدین عطار نے رقم کیں۔ آپ کے سنِ پیدائش میں اختلاف ہے مگر زیادہ مورخین ۹۵ یا ۹۹ پر اکتفا کرتے ہیں۔ آپ نے ایک ایسے گھر میں آنکھ کھولی جو دنیاوی مال و متاع سے محروم مگر تقوی، توکل اور صبرو قناعت کا پیکر تھا۔ آپ کے والد کا نام شیخ اسماعیل ہے اور آپ اپنے والدین کی چوتھی اولاد اور گھر کی چوتھی بیٹی تھیں، اسی نسبت سے آپ کا نام رابعہ رکھا گیا اور بصرہ آپ کا جائے پیدائش ہے۔
حضرت رابعہ بصری(رح) کی غیر معمولی شخصیت کا اظہار آپ کی پیدائش کے دن سے شروع ہو گیا تھا جب آپ کے والد گرامی کو خواب میں آقا کریم صل اللہ علیہ والہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی۔ خواجہ فرید الدین عطار اس واقعہ کو یوں بیان کرتے ہیں کہ جس رات حضرت رابعہ بصری (رح) کی پیدائش ہوئی گھر میں بے سروسامانی کا یہ عالم تھا کہ نو مولود کو اوڑھا نے کے لئے کوئی فالتو کپڑا موجود نہ تھا اور نہ ہی چراغ جلانے کے لئے تیل حتی کہ نومولود کی ناف پر لگانے کے لئے تیل کی ایک بوند بھی میسر نہ تھی۔ یہ حالتِ زار دیکھ کر آپ کی والدہ ماجدہ نے آپ کے والد سے ہمسائیوں سے تھوڑا تیل لانے کے لئے کہا۔ حضرت شیخ اسماعیل نے اس بات کا عہد کر رکھا تھا کہ وہ اللہ رب العزت کے سوا کسی کے سامنے دست حاجت دراز نہیں کریں گے۔ آپ بیوی کے کہنے پر چلے تو گئے مگر ہلکی سی دستک دی، جب اندر سے کوئی نہ آیا تو پلٹ آئے اور بیوی سے کہا وہ سب سو رہے ہیں۔ اسی بے بسی کے عالم میں آپ سو گئے مگر ادھر مقدر کا ستارہ جاگ گیا۔ آپ کو خواب میں حضور صل اللہ علیہ والہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی اور آپ نے فرمایا کہ:
’’غمگین نہ ہو، یہ ایسی مقبول لڑکی ہے کہ میری امت کے ستر ہزار آدمی اس کی سفارش سے جنت جائیں گے۔‘‘
اور مزید فرمایا کہ: ’’صبح والیِ بصرہ کو ایک خط بھیجو اور اسے یاد دلاؤ کہ وہ ہر روز مجھ پر ایک سو مرتبہ درود بھیجتا ہے اور جمعہ کی رات چار سو مرتبہ درود بھیجتا ہے لیکن اس جمعہ کی رات کو وہ درود پڑھنا بھول گیا ہے، اس کا کفارہ یہ ہے کہ وہ حلال کی کمائی سے چار سو دینار اس شخص کو دے جو یہ پیغام تم کو پہنچا رہا ہے۔‘‘
آپ بیدار ہوئے تو آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ آقا کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے حکم کے مطابق خط لکھ کر امیرِ بصرہ کے محل پہنچے تو خدام نے بوسیدہ گدڑی میں ملبوس دیکھ کر مذاق اڑانے لگے اور آپ کی امیر سے ملنے کی استدعا مسترد کر دی۔ تاہم خط آگے بھیج دیا۔ امیر بصرہ نے خط پڑھا تو خدام سے دریافت کیا کہ یہ معزز شخص کہاں ہے؟ جب خدام نے بتایا کہ دروازے ہر موجود ہے تو امیر بصرہ جو کہ اس وقت ننگے پیر تھا، دروازے کی طرف دوڑ پڑا اور آپ کو گلے سے لگا لیا۔ آپ کو اعلی مسند پر بٹھایا اور چار سو دینار پیش کئے۔ اور کہا کہ آج سے میں آپ کے لئے بصرہ کا امیر نہیں آپ کا خادم ہوں، آج کے بعد آپ کا جب جی چاہے میرے پاس تشریف لے آئیں۔
حضرت رابعہ بصری (رح) محض پانچ برس کی تھیں جب آپ کے سر سے والدین کا سایہ اٹھ گیا اور آٹھ یا نو برس کی تھیں جب ایک تاجر کے ہاتھوں فروخت ہو کر لونڈی بنا لی گئیں۔ آپ کی فروخت کے حوالے سے مختلف روایات موجود ہیں، ایک روایت کے مطابق بصرہ میں قحط کے پیش نظر کسی رشتہ دار نے آپ کو فروخت کیا اور دوسری روایت کے مطابق آپ کی بہنوں نے بھوک سے تنگ آ کر آپ کو فروخت کر دیا۔ تاہم زیادہ قرین قیاس یہ ہے کہ کسی ظالم شخص نے زبردستی آپ کو غلام بنا لیا۔ مالک سارا دن مشقت بھرا کام لیتا، آپ تھکن سے چور ہو جاتیں مگر رات عبادت الہی میں گزارتیں اور اف تک نہ کرتیں۔ یہ معمول اسی طرح جاری رہا۔ ایک روز آپ کے مالک نے آپ کو مصروفِ مناجات دیکھ لیا- رات کا وقت تھا اور سب چراغ بجھ چکے تھے مگر گھر پھر بھی بقعہ نور بنا ہوا تھا ۔ مالک نے عالم حیرت میں روشنی کا پیچھا کیا تو وہ آپ کی کوٹھڑی سے آ رہی تھی۔ اس نے دیکھا کہ آپ ایک کونے میں سربسجود ہیں اور آپ کے سر پہ نور کا ایک ہالہ بنا ہوا ہے اور آپ کہہ رہی ہیں: خداوند! اگر میں کسی اور کی غلام نہ ہوتی تو ایک لمحہ بھی تیری یاد سے غافل نہ ہوتی لیکن تو نے مجھے غیر کا محکوم بنا رکھا ہے اس لئے خدمت میں دیر سے حاضر ہوتی ہوں۔‘‘
مالک یہ سب دیکھ کر بے حد نادم ہوا اور صبح ہوتے ہی آزادی کا پروانہ دے دیا اور ساتھ ہی اپنے رویے کی معافی بھی مانگی۔ اس کے بعد روایات میں آتا ہے کہ آپ صحرا کی طرف نکل گئیں اور ایک طویل عرصہ گوشہ نشین ہو کر عبادت میں مشغول ہو گئیں۔ تاہم ایک روایت یہ بھی ہے کہ آپ غلامی سے آزادی پانے کے بعد ظاہری تعلیم کے حصول کے لئے بصرہ سے کوفہ چلی گئیں جو کہ علم کا مرکز تھا۔ بعد ازاں آپ نے امور فقہ، حدیث اور تفسیر میں اس قدر عبور حاصل کیا کہ آپکے وعظ میں بڑے بڑے محدث اور فقہاء بیٹھتے اور آپ کی بصیرت پر دنگ رہ جاتے۔
آپ کا معمول یہ تھا کہ دن بھر روزہ رکھتیں اور رات جاگ کر عبادت کرتیں، دن رات میں ایک ہزار نوافل پڑھنا آپ کا معمول تھا،اکثر پانی سے روزہ افطار کرتیں اور اس پر بھی خدا کا شکر ادا کرتیں۔ آہستہ آہستہ آپ کی عبادت و ریاضت کا چرچا عوام میں ہونے لگا اور لوگ فیض ونصیحت کے لئے آپ کے پاس آنے لگے۔ مگر آپ دنیا و مافیا سے بے نیاز ہو چکی تھیں۔
رنج و الم نے آپ کو دنیا سے یکسر بیگانہ کر دیا تھا،آپ نے دنیا و اہل دنیا سے رخ موڑ کر مالک حقیقی سے یوں لو لگا لی کہ ما سوا اللہ کے ہر شے سے بیگانہ و بے نیاز ہو گئیں ۔ آپ فرمایا کرتیں کہ محبتِ الہی نے میرے دل میں کوئی جگہ چھوڑی ہی نہیں کہ جہاں کسی اور کی محبت یا نفرت سما سکے۔
ایک دفعہ کسی شخص نے آپ سے پوچھا کہ آپ جس کی عبادت کرتی ہیں اسے دیکھتی بھی ہیں یا نہیں؟ آپ نے فرمایا اگر اسے نہ دیکھتی تو عبادت بھی نہ کرتی۔
ایک مرتبہ حضرت سفیان ثوری (رح) آپ کے پاس تشریف لائے اور رات وہیں قیام کیا۔ رات بھر دونوں عبادت الہی میں مصروف رہے۔ صبح حضرت رابعہ بصری بہت شاداب نظر آئیں تو حضرت سفیان ثوری (رح) نے وجہ دریافت فرمائی۔ آپ فرمانے لگیں:
’’میں اس بات پہ خوش ہوں کہ اللہ نے مجھے نماز پڑھنے کی توفیق عطا فرمائی۔‘‘ پھر فرمایا:
’’عبادت کی توفیق عطا ہونے پر ہم کسی طرح بھی معبود حقیقی کا شکر ادا نہیں کر سکتے یعنی یہ اللہ کا اتنا بڑا کرم ہے کہ اس کا جس قدر بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے، اسی شکرانے کے طور پر میں کل روزہ رکھوں گی۔‘‘
ایک دفعہ حضرت حسن بصری (رح) نے آپ سے دریافت کیا کہ آپ کو یہ مراتب کیسے حاصل ہوئے؟
آپ نے فرمایا: ہر شے کو یاد الہی میں گم کر کے۔
پھرآپ نے پوچھا کہ آپ نے نے رب کو کیونکر پہچانا؟
آپ نے فرمایا: بے ماہیت و بے کیفیت۔
ایک اور موقع پر حضرت حسن بصری (رح) نے آپ سے درخواست کی مجھے ان علوم کے بارے میں سمجھائیں جو اللہ نے آپ کو بلاواسطہ عطا کئے ہیں؟
آپ نے فرمایا: ایک دفعہ میں نے تکمیل ضرورت کے لئے سوت کات کر دو درہم میں فروخت کر دیا اور دونوں ہاتھوں میں ایک ایک درہم لے کر اس خیال میں محو ہو گئی کہ اگر دونوں درہم ایک ہی ہاتھ میں لے لئے تو یہ بات واحدانیت کے منافی ہو گی اور میری گمراہی کا باعث ہو گی، اس کے بعد میری تمام راہیں کشادہ ہو گئیں۔‘‘
جنگل میں گوشہ نشینی کے دوران آپ نے سفر حج کا ارادہ کیا، آپ کا ذاتی گدھا جس پر آپ سفر فرما رہی تھیں، نہایت نخیف تھا جو راستے میں ہی مر گیا، قافلے والے آپ کو چھوڑ کر آگے روانہ ہو گئے۔ اس پر آپ بارگاہ الہی میں عرض گزار ہوئیں کہ نادر و عاجز کے ساتھ یہی سلوک کیا جاتا ہے کہ پہلے اپنے گھر کی طرف مدعو کیا، پھر راستے میں گدھے کو مار ڈالا اور مجھے جنگل میں تنہا چھوڑ دیا۔ آپ شکوہ کناں ہوئی ہی تھیں کہ گدھا زندہ ہو گیا اور آپ پھر سے عازم سفر ہو گئیں۔ آپ مکہ معظمہ پہنچیں تو کچھ دن بیابان میں مقیم ہو کر خدا سے التجا کی کہ میں خاک سے بنی ہوں اور کعبہ پتھر سے، خاک اور پتھر میں کیا آویزش ہو گی۔ میں تجھ سے بلاواسطہ ملاقات کی خواہش مند ہوں۔ غیب سے ندا آئی کہ اے رابعہ! کیا نظام عالم درہم برہم کر کے تمام اہل عالم کا خون اپنے سر لینا چاہتی ہے؟ کیا تجھے معلوم نہیں کہ جب موسیٰ علیہ السلام نے دیدار کی تمنا کی اور ہم نے اپنی تجلیات میں سے ایک چھوٹی تجلی طور سینا پر ڈالی تو وہ پاش پاش ہو گیا۔ لہذا وہ سوال نہ کرجس کہ تو اہل نہیں۔ اس کے بعد آپؒ دوبارہ حج پر گئیں تو دیکھا خانہ کعبہ خود آپ کے استقبال کے لئے چلا آ رہا ہے۔ آپ نے فرمایا، مولا مجھے مکان کی نہیں مکین کی حاجت ہے۔ مجھے حسن کعبہ سے زیادہ تیرے دیدار کی تمنا ہے۔
ایک دفعہ حضرت ابراھیم بن ادھم (رح) سفر حج پر روانہ ہوئے۔ آپ ہر گام پر دو رکعت نفل ادا کرتے ہوئے چودہ برس میں مکہ معظمہ پہنچے مگر جب مکہ میں داخل ہوئے تو وہاں خانہ کعبہ دکھائی نہ دیا۔ یہ دیکھ کر آپ سمجھے کہ آپ کی بصیرت زائل ہو گئ ہے، آپ آبدیدہ ہو گئے۔ اتنے میں غیب سے ندا آئی کہ اے ابن ادھم! تیری بصیرت زائل نہیں ہوئی بلکہ کعبہ ایک ضعیفہ کے استقبال کے لئے گیا ہوا ہے۔ یہ سن کر آپ متجسس ہوئے اور عرض کی مولا کہ وہ کون سی ہستی ہے؟ ندا آئی وہ بہت ہی عظیم المرتبت ہستی ہے۔ اتنے میں آپ نے دیکھا حضرت رابعہ بصری (رح) لاٹھی کے سہارے چلی آ رہی ہیں اور کعبہ اپنی جگہ موجود ہے۔ آپ نے حضرت رابعہ بصری (رح) سے سوال کیا، آپ نے نظام کو کیوں درہم برہم کر رکھا ہے۔ جواب میں آپ نے فرمایا، میں نے تو نہیں البتہ تم نے ہنگامہ کھڑا کر رکھا ہے جو چودہ برس میں کعبہ تک پہنچے ہو۔ حضرت ابراہیم (رح) نے عرض کی میں ہر گام پر دو نفل پڑھتا ہوا آیا ہوں جس سے تاخیر ہوئی، حضرت رابعہ (رح) نے فرمایا کہ تم نے نماز کے ساتھ فاصلہ طے کیا ہے اور میں نے عجز و انکساری کے ساتھ۔
ادائیگی حج کے بعد آپ بارگاہ الہی میں یوں عرض گزار ہوئیں کہ مولا تو نے حج پر بھی اجر کا وعدہ فرمایا ہے اور مصیبت پر بھی۔ اگر تو میرا حج قبول نہیں فرماتا تو مجھے مصیبت پر ہی اجر دے دے کیونکہ حج قبول نہ ہونے سے بڑی مصیبت کیا ہو سکتی ہے۔ آپ کی یہ دعا سن کر حضرت ابراھیم بن ادھم (رح) لرز گئے اور جان گئے کہ آپ بہت عظیم ہستی ہیں جو یوں دعا کرنے کا حوصلہ رکھتی ہیں۔
اگلے برس جب حج کا زمانہ آیا تو آپ نے ارادہ کیا کہ گزشتہ برس کعبہ میرے استقبال کو آیا تھا اس برس میں کعبہ کا استقبال کروں گی۔ چنانچہ آپ نے جنگل میں جا کر کروٹ کے بل لڑھکنا شروع کر دیا اور سات برس میں عرفات کے میدان میں پہنچیں۔ وہاں غیب سے ندا آئی کہ اس طلب میں کیا رکھا ہے اگر تو چاہے تو ہم تمہیں اپنی تجلی سے نواز سکتے ہیں۔ آپ نے عرض کی مجھ میں اتنی سکت کہاں، البتہ رتبہ فقر کہ خواہش مند ہوں، ارشاد ہوا،فقر ہمارے قہر کے مترادف ہے جس کو ہم نے صرف ان لوگوں لئے مخصوص کر رکھا ہے جو ہماری بارگاہ سے یوں متصل ہو جاتے ہیں کہ بال برابر فرق نہیں رہتا۔ پھر ہم انہیں لذت وصال سے بھی محروم کر کے ہجر میں مبتلا کر دیتے ہیں مگر اس کے باوجود ان پر کسی قسم کا ملال نہیں ہوتا۔ بلکہ وہ حصول قرب و وصال کے لئے از سرِنو سرگرم ہو جاتے ہیں۔ مگر تو ابھی دنیا کہ ستر پردوں میں ہے اور جب تک تو ان سے باہر نکل کر ہماری طرف گامزن نہ ہو جائے تجھے فقر کا نام بھی نہیں لینا چاہئے۔ پھر حکم ہوا ادھر دیکھ، آپ نے دیکھا تو لہو کا بحر بیکاروں ہوا میں معلق تھا، ندا آئی یہ ہمارے ان عشاق کی چشم خونچکاں کا دریا ہے جو ہماری طلب میں چلے اور پہلی ہی منزلوں پر شکستہ پا ہو گئے کہ ان کا سراغ نہیں ملتا۔ آپ نے عرض کی ان کی کوئی ایک صفت مجھ پر بھی عیاں ہو۔ یہ کہتے ہی آپ کو نسوانی کمزوری لاحق ہو گئی۔ پھر ندا آئی ان کا یہی مقام ہے کہ سات برس تک پہلو کے بل لڑھکتے ہیں تا کہ خدا تک رسائی ملے اور اس کی تجلی کا مشاہدہ کر سکیں اور جب وہ وقت آتا ہے تو ایک حقیر سی علت ان کی راہوں کو مسدود کر کے رکھ دیتی ہے اور وہ صبر کرتے ہیں، یہی ان عاشقوں کی علامت ہے۔
حضرت رابعہ بصری بہت کم گفتگو فرمایا کرتی تھیں اور جو بھی گفتگو فرماتی قرآنی آیات کے ذریعے فرماتی۔ اس ضمن میں آپ سے ایک روایت منسوب ہے: آپ فرماتی ہیں کہ ایک دفعہ عالم کشف میں آپ نے دیکھا کہ فرشتے ایک مردے کے ساتھ سختی سے پیش آ رہے ہیں، آپ نے گھبرا کر پوچھا یا الہی اس سے کیا خطا سر زد ہو گئی؟ جواب آیا اس نے اپنی زندگی میں ایک دفعہ ایسا جملہ اپنے منہ سے نکالا تھا جس سے مخاطب کی دل آزاری ہوئی تھی۔ یہ سب سن کر آپ اس قدر خوفزدہ ہوئیں کہ آپ نے عہد کیا کہ ساری زندگی اپنا مدعا قرآنی آیات سے بیان کریں گی اور اسی پر تا حیات قائم رہیں۔ آپ ہر وقت گریہ و زاری میں رہتی تھیں۔ لوگوں نے وجہ دریافت کی تو فرمانے لگیں، مجھے اس بات سے خوف آتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو دم نزع یہ ندا آجائے کہ تو ہماری بارگاہ کے لائق نہیں۔
سید علی عباس جلال پوری اپنی کتاب ”وحدت الوجود تے پنچابی شاعری‘‘ میں لکھتے ہیں کہ:
’’ اسلامی تصوف میں عشق حقیقی اور خدا سے بے لوث محبت کی ریت حضرت رابعہ بصری(رح) نے شروع کی۔ آپ نے جس طرح مسلسل اور پر جوش طریقے سے عشق حقیقی کا اظہار کیا ہے ہم بلا خوف تردید یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کا اصل مذہب ہی عشق الہی تھا۔‘‘
آپ اکثر یہ دعا فرماتیں کہ مولا اگر میں جہنم کے ڈر سے عبادت کروں تو مجھے اسی میں جھونک دے، اگر فردوس بریں کی خاطر عبادت کروں تو اس کو میرے لئے حرام فرما دے اور اگر میری پرستش صرف تمنائے دیدار کے لئے ہو تو مجھے اپنے جمال دلنواز سے مشرف فرما دے۔
آپ ایک مرتبہ علیل ہو گئیں، کسی نے وجہ دریافت فرمائی تو آپ نے فرمایا،ایک لمحے کے لئے میرا قلب جنت کی جانب متوجہ ہو گیا تو اللہ رب العزت نے ناراضگی کا اظہار فرمایا اسی کا غصہ میری وجہ مرض ہے۔ یعنی مراد یہ تھی کہ دعوی ہمارےعشق کا اور دھیان جنت کی طرف۔
اگر جنت کی طرف دھیان کا یہ حال ہے تو دنیا کی طرف دھیان کا حال کیا ہو گا۔
اللہ رب العزت حضرت رابعہ بصری (رح) کے صدقے ان کے اس تذکرے کو لکھنے اور پڑھنے والوں کو حضرت رابعہ بصری (رح) کے فیض سے فیض یاب فرمائے۔ آمین