فرمانِ الٰہی و فرمانِ نبوی ﷺ

فرمانِ الٰہی

وَقَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللهِ وَاعْلَمُوْآ اَنَّ اللهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ. مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللهَ قَرْضًا حَسَنًا فَیُضٰعِفَهٗ لَهٗٓ اَضْعَافًا کَثِیْرَةً ط وَ اللهُ یَقْبِضُ وَیَبْسُطُ وَاِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ. اَلَمْ تَرَ اِلَی الْمَلَاِ مِنْ م بَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ مِنْ م بَعْدِ مُوْسٰی م اِذْ قَالُوْا لِنَبِیٍّ لَّھُمُ ابْعَثْ لَنَا مَلِکًا نُّقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللهِ ط قَالَ ھَلْ عَسَیْتُمْ اِنْ کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِتَالُ اَلَّا تُقَاتِلُوْا ط قَالُوْا وَمَا لَنَآ اَلَّا نُقَاتِلَ فِیْ سَبِیْلِ اللهِ وَ قَدْ اُخْرِجْنَا مِنْ دِیَارِنَا وَاَبْنَـآئِنَا ط فَلَمَّا کُتِبَ عَلَیْھِمُ الْقِتَالُ تَوَ لَّوْا اِلَّا قَلِیْلاً مِّنْھُمْ ط وَ اللهُ عَلِیْمٌ م بِالظّٰلِمِیْنَ.

(البقرة، 2: 244 تا 246)

’’(اے مسلمانو!) الله کی راہ میں (قیامِ اَمن اور تکریم اِنسانیت کے تحفظ کے لیے) جنگ کرو اور جان لو کہ الله خوب سننے والا جاننے والا ہے۔ کون ہے جو الله کو قرض حسنہ دے پھر وہ اس کے لیے اسے کئی گنا بڑھا دے گا، اور الله ہی (تمہارے رزق میں) تنگی اور کشادگی کرتا ہے، اور تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤگے۔ (اے حبیب!) کیا آپ نے بنی اسرائیل کے اس گروہ کو نہیں دیکھا جو موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد ہوا، جب انہوں نے اپنے پیغمبر سے کہا کہ ہمارے لیے ایک بادشاہ مقرر کر دیں تاکہ ہم (اس کی قیادت میں) الله کی راہ میں جنگ کریں، نبی نے (ان سے) فرمایا: کہیں ایسا نہ ہو کہ تم پر قتال فرض کردیا جائے تو تم قتال ہی نہ کرو، وہ کہنے لگے: ہمیں کیا ہوا ہے کہ ہم الله کی راہ میں جنگ نہ کریں حالاں کہ ہمیں اپنے گھروں سے اور اولاد سے جدا کر دیا گیا ہے، سو جب ان پر (ظلم و جارحیت کے خلاف) قتال فرض کر دیا گیا تو ان میں سے چند ایک کے سوا سب پھر گئے، اور الله ظالموں کو خوب جاننے والا ہے۔‘‘

فرمانِ نبوی ﷺ

عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: أَ لَا أُنَبِّئُکُمْ بِخَیْرِ أَعْمَالِکُمْ وَأَزْکَاھَا عِنْدَ مَلِیْکِکُمْ، وَأَرْفَعِھَا فِي دَرَجَاتِکُمْ، وَخَیْرٍ لَکُمْ مِنْ إِنْفَاقِ الذَّھَبِ وَالْوَرِقِ، وَخَیْرٍ لَکُمْ مِنْ أَنْ تَلْقَوا عَدُوَّکُمْ، فَتَضْرِبُوْا أَعْنَاقَھُمْ وَیَضْرِبُوْا أَعْنَاقَکُمْ؟ قَالُوْا: بَلَی. قَالَ: ذِکْرُ اللهِ تَعَالَی، قَالَ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ رضی الله عنه: مَا شَيئٌ أَنْجَی مِنْ عَذَابِ اللهِ مِنْ ذِکْرِ اللهِ. رَوَاہُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَہ. وَقَالَ الْحَاکِمُ: حَدِیْثٌ صَحِیْحُ الإِسْنَادِ.

’’حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: کیا میں تمہیں تمہارے اعمال میں سے سب سے اچھا ایسا عمل نہ بتاؤں جو تمہارے مالک کے ہاں بہتر اور پاکیزہ ہے۔ تمہارے درجات میں سب سے بلند ہے۔ تمہارے سونے اور چاندی کی خیرات سے بھی افضل ہے، اور تمہارے دشمن کا سامنا کرنے یعنی جہاد سے بھی بہتر ہے درآنحالیکہ تم انہیں قتل کرو اور وہ تمہیں قتل کریں؟ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: کیوں نہیں! آپ ﷺ نے فرمایا: وہ عمل الله تعالیٰ کا ذکر ہے۔ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے کہا: (ذکرِ الٰہی سے بڑھ کر) کوئی چیز ایسی نہیں جو عذابِ الٰہی سے نجات دلانے والی ہو۔‘‘

(المنهاج السوی من الحدیث النبوی ﷺ، ص: 436)