قدوۃ السالکین، زبدۃ العارفین، سند الواصلین، مرکزِ تجلیات، منبع فیوض و برکات، الشیخ علی بن عثمان الہجویری المعروف بہ حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا وجودِ سعید خطۂ پنجاب کے لیے مرکزِ مہرو وفا اور سر چشمۂ تمنا ودعا ہے۔ آپ رحمۃ االلہ علیہ کی ظاہری حیات بھی اس خطے کے لیےسراپا رحمت ورافت تھی اور آپ کی باطنی و روحانی فیوض و برکات آج بھی اس سر زمین کے لیے محبت، ہمدردی اور خیر خواہی کا ذریعہ ہیں۔ پنجاب کی دینی ثقافت سے حضرت داتا گنج بخش کی محبت کو جدا کرنا ناممکن ہے۔ یہ یقیناً داتا گنج بخش کی کرم گستریوں ہی کا فیضان ہے کہ لاہور برصغیر کے لیے قطب الارشاد، قطب البلاد اور مدینۃ الاولیاء ٹھہرا اور اپنی اسی روحانی مرکزیت کے سبب ہمیشہ مرجع خلائق رہا۔
حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری نے اسی شہر لاہور میں تصوف کی معرکۃ الآراء کتاب ’کشف المحجوب‘ تصنیف فرمائی جس کے ذریعے صوفیانہ افکار و تعلیمات کو مکمل طور پر احکامِ شریعت کے نہ صرف تابع قرار دیا بلکہ تصوف کو شریعت کا امین اور نگہبان بنا کر پیش کیا اور یوں برصغیر میں ایک ایسے اسلامی مکتبِ تصوف کی بنیاد رکھی جس کی بلندیوں پر ہمیشہ شریعت و طریقت کا پرچم لہراتا رہے گا۔ ایک ہزار سال قبل ہند کی سر زمین میں حضرت داتا علی ہجویری نے حرفِ حق کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی واحدانیت، نبی ﷺ کی رسالت اور اسلام کی حقانیت کا جو بیج بویا، وہ اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت سے ایک تناور درخت بن گیا۔ جس کی جڑیں اس سرزمین میں نہایت مضبوط ہو گئیں اور شاخیں وسیع فضاؤں میں پھیل گئیں۔ علامہ محمد اقبال اسی شجر طیبہ کا حیات بخش ثمر تھے جنہوں نے کلمۂ طیبہ کی بنیاد پر اس خطۂ ارضی کے حصول کا راستہ مسلمانانِ ہند کو دکھایا۔ آج مرشد لاہور حضرت علی ہجویری کے عطا کردہ اس خطۂ پاک کی حفاظت و استحکام کے لیے بھی آپ ہی کے محبت آمیز اور ایمان افروز افکار و نظریات سے رہنمائی کی ا شد ضرورت ہے۔ آج وطنِ عزیز پر جس انتہاء پسندی اور تشدد پرستی کے سائے منڈلا رہے ہیں، اس سے نبردآزماہونے کے لیے ضروری ہے کہ ہم حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری کے انہی اخوت و انسان دوستی پر مبنی متصوفانہ افکار و کردار اور حیات و احوال کو اپنا رہبرورہنما بنائیں، جس کی روشنی آپ کی شہرۂ آفاق کتاب کشف المحجوب سے ضو ریز ہو رہی ہے۔
حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کی تصنیف منیف ’’کشف المحجوب‘‘ جو انہوں نے آغوشِ رحمت ِ خداوندی میں بیٹھ کر لکھی ہے، مسائلِ شریعت و طریقت اور حقیقت و معرفت کا ایک بیش بہا گنجینہ ہے اور اولیاء متقدمین کے حالاتِ بابرکات اور ان کی مقدس تعلیمات کا بہترین خزینہ ہے۔ نیز فارسی زبان میں تصوف و احسان پر لکھی جانے والی یہ سب سے پہلی کتاب ہے اور اسے ہر دور کے کے اولیاء اللہ اور صوفیاء کرام علیہم اللہ نے تصوف کی بے مثل کتاب قرار دیا ہے۔ کشف المحجوب کاملین کے لیے رہنما ہے تو عوام کے لیے پیر کامل کی حیثیت رکھتی ہے۔ چنانچہ عوام میں سے اس کا مطالعہ کرنے والوں کو دولتِ عرفان و ایقاان حاصل ہوتی ہے ور شکوک و شبہات کی وادی میں بھٹکنے والے یقین کی دنیا میں آباد ہوجاتے ہیں اور اس کے بار بار کے مطالعہ سےحجابات اٹھ کر نئے نئے انکشافات ہوتے ہیں۔ اس نادر و بے مثل کتاب کو جو پذیرائی و مقبولیت حاصل ہوئی وہ اس موضوع کی کسی اور فارسی میں لکھی جانےوالی کتاب کے حصے میں نہیں آئی۔ اکابر اولیاء اللہ نے خوداس سے استفادہ کیا اور طالبانِ حق کو اس سے مستفید ہونے کی تلقین فرمائی۔ اس لیے کہ اس میں ناقصوں اور کاملوں کے لیے سامانِ ہدایت موجود ہے اور اس کے برعکس بعض کتبَ تصوف، نصوص الحکم وغیرہ میں صرف خواص بلکہ اخص الخواص کے لیے رہنمائی ہے اور ناقصین کے لیے حیرانی و سرگردانی کے سوا کچھ نہیں ہے۔
کشف المحجوب 39 ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلے سے چھٹے باب تک اثبات ِ علم، اثباتِ فقر، فقر و غنا، تصوف، خرقہ پوشی، فقروصفوت، ملامت کے عنوانات بالترتیب شامل ہیں جبکہ ساتویں سے تیرویں باب تک صحابہ کرام علیہم السلام، اہل بیت اطہار، اصحاب صفہ، تبع تابعین تابہ زمانہ حال، صوفیاء متأخرین، مختلف ممالک کے مشائخ متاخرین کی زندگیوں سے تصوف کی تعلیما ت و واقعات کو نقل کیا ہے۔ چودہواں باب صوفیاء کے مختلف مکاتب و مذاہب؛ فرقہ محاسبیہ، حقیقتِ رضا، مقام و حال، مجاہدہ نفس، فناءوبقاء، روح کی بحث جیسے روحانی ابحاث پرمشتمل ہے اس باب کا اختتام کشفِ حجاب کے پہلے چار مراتب پرہوتا ہے جبکہ باقی پانچ مراتب پندرہویں سے انیسویں باب تک بالترتیب درج ہیں۔ بیسویں سے انتیسویں باب تک زندگی کےمختلف حصوں کے متعلق آداب بیان کیے گئے ہیں۔ تیسویں سے انتالیسواں باب سماعِ قرآن، سماعِ شعراء، سماعِ لحن و نغمہ اور سماع کے آداب، اختلاف ومقامات وغیرہ جیسے اہم موضوعات پرمشتمل ہے۔
کشف المحجوب میں درج ایمان افروز واقعات:
تعمیرِمسجد اور ایک کرامت:
حضرت داتا صاحب قدس سرہ نے لاہور تشریف لاتے ہی اپنی فرودگاہ کے ساتھ ایک چھوٹی سی مسجد تعمیر کرائی اس ضمن میں دانش کو لکھتا ہے ’’انہوں نے ایک مسجد تعمیر کرائی تھی جس کی محراب دیگر مساجد کی بہ نسبت جنوب کی طرف مائل ہے۔ کہتے ہیں کہ اس وقت کے علماء جو لاہور میں موجود تھے اس محراب کی سمت کے سلسلے میں حضرت شیخ پر معترض ہوئے چنانچہ ایک روز حضرت نے سب علماء کو جمع کیا اور خود امامت کے فرائض سر انجام دیے اور بعد ادائے نماز حاضرین سے مخاطب ہو کر کہا دیکھو کعبہ شریف کس سمت میں ہے دیکھا تو حجابات اٹھ گئے اور کعبہ شریف محراب کی سیدھ میں نمودار ہو گیا۔ ان کا مزار بھی ان کی مسجد کی سمت کے مطابق ہے۔‘‘
فقر:
اثباتِ فقر کے باب میں حضور داتا گنج بخش رحمت اللہ تعالی علیہ بیان فرماتے ہیں کہ فقیر وہی ہے جو اپنے پاس علل و اسباب سے کچھ نہ رکھے اور اس کی طمانیت قلب میں اس کے نہ ہونے سے کچھ خلل واقع نہ ہو اور اسباب کو دیکھ کر غنی نہ ہو اگر اسباب نہ ہوں تو ان کی طرف احتیاج محسوس نہ کرے گویا اسباب کا ہونا نہ ہونا اس کی نظر میں مساوی ہو بلکہ اسباب ظاہری نہ ہوں تو اسے فرحت زیادہ ہو یہ بلند مرتبہ ہے۔ لہٰذا صوفی کو چاہیے کہ اپنے آپ کو اپنے محبوب سے وابستہ رکھے اور دنیائے غدار و بے وفا کے علل و اسباب سے آزاد رہے کہ یہ دنیا سرائے فجارو فساق ہے اور صوفی کا سرمایہ زندگی محبتِ محبوب حقیقی ہے اور متاع دنیامنّاع راہ ِرضاو صبر ہے۔ اس ضمن میں آپ ایک حکایت بیان فرماتے ہیں کہتے ہیں کہ ایک درویش کی ملاقات ایک بادشاہ سے ہوئی۔ بادشاہ نے کہا کچھ مانگیے۔ درویش نے کہا میں اپنے غلاموں سے کوئی حاجت روائی نہیں چاہتا۔ بادشاہ نے کہا یہ کس طرح؟ درویش نے فرمایا میرے دو غلام ہیں یہ دونوں تیرے مالک و صاحب ہیں: ایک حرصِ دنیا دوسرا طولِ امل یعنی امیدِ غیر متناہی۔
خرقہ پوشی:
خرقہ پوشی کے باب میں آپ فرماتے ہیں کہ خرقہ کی حقیقت یہ ہے کہ اس کا گنبد یعنی اوپر کا حصہ صبر کے ساتھ ہو اور دونوں آستینیں خوف و امید کی ہوں اور اس کے آگے پیچھے کے دامن قبض اور بسط سے بنے اور ان کا گریبان جہاں سے کمر باندھتے ہیں مخالفت نفس کے ساتھ ہو اور دونوں کرسیاں یعنی کلیان صحت و یقین کی ہوں اس کی سنجاف یعنی مغزی، اخلاص کی ہو۔ جب صوفی اپنے باطن کو اس شان کا مرقعہ بنا لے گاتو ظاہر کے لیے بھی اسے خرقہ بنانا چاہیے لیکن خرقہ پہننے کے بعد اگر صوفی غلبۂ حال یا قہر ِسلطان ِوقت سے تنگ آ کر اس خرقہ کو چاک کر دے گا تو اسے معذور سمجھا جائے گا تو اسے خرقہ پوشی پھر جائز نہیں۔
آپ فرماتے ہیں کہ خرقہ ایک ایسا لباس ہے کہ طریقت، فقر، صفوت کہ تمام مقامات پر یہ لباس موزوں رہتا ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ خرقہ پہنانے والے کو حقیقت اور طریقت کے اندر اس قدر حکومت و قوت ہونی چاہیے کہ اگر کسی بیگانہ پر نظر ڈالےتو اسے چشمِ شفقت سے آشنا بنا دے اور اگر اس خرقہ کو کسی عاصی پر ڈال دے تو وہ ولی بن جائے۔ ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے آپ لکھتے ہیں کہ ایک دن میں اپنے شیخ کے ہم رکاب تھا۔ چلتے چلتے آذربائیجان کی آبادی سے گزرا۔ میں نے دو تین خرقہ پوش دیکھے کہ گندم کے ڈھیروں پر کھڑے ہیں اور اپنے خرقہ کے دامنوں کو کسانوں کی طرف پھیلا رکھا ہے تاکہ وہ اس گندم میں سے ان کے دامنوں میں کچھ ڈالیں میرے شیخ قدس سراہ نے ان کی طرف نظر ڈالی اور یہ آیت تلاوت فرمائی ’’یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے گمراہی خریدی ہدایت کے بدلے تو ان کی تجارت نے انہیں کچھ فائدہ نہ پہنچایا اور یہ ہدایت یافتہ نہیں ہیں ‘‘۔ میں نے عرض کی حضور یہ لوگ کس قدر ذلت میں مبتلا ہیں کہ لوگوں کی نظر میں ذلیل ہو رہے ہیں۔ شیخ نے فرمایا کہ ان کے پیر کو مرید جمع کرنے کی حرص ہوئی ہے تو ان کو دنیا جمع کرنے کی حرص ہو گئی اور کوئی حرص کسی حرص سے بہتر نہیں اور خلافِ امر و حکم کسی کو دعوت دینی حرص محض ہوتی ہے۔
امیر المومنین حضرت ابوبکر عبداللہ ابن عثمان رضی اللہ تعالی عنہ اور تصوف:
مشہور ہے کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ رات کے وقت نماز میں قران کریم آہستہ آہستہ تلاوت فرماتے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حضرت صدیق رضی اللہ تعالی عنہ سے دریافت فرمایا کہ تم آہستہ تلاوت کیوں کرتے ہو ؟عرض کیا حضور! اس لیے آہستہ پڑھتا ہوں کہ میں جانتا ہوں کہ جس کی مناجات کر رہا ہوں وہ مجھ سے غائب نہیں۔ حضرت ابوبکر صدیق فرماتے ہیں ’’ہمارا گھر فانی ہے ہمارے حالات پر ائے ہیں اور ہماری گنتی کے سانس ہیں اور ہماری سستی بدستور موجود ہے۔‘‘
سرائے فانی میں دل لگانا، عمارت کرنا، جہالت کے مقتضیات سے ہے اور اپنے حالات و کوائف پر بھروسہ کرنا حماقت و بے وقوفی ہے اور چند سانس کے بھروسہ پر دل لگا لینا غفلت محض ہے۔ اس لیے کہ جو چیز عاریۃً آئے وہ واپس جائے گی اور جو چیز گزرنے والی ہے وہ فانی ہے کبھی نہیں رہ سکتی اور جو گنتی کے ساتھ ملی وہ ضرور ختم ہوگی اور کاہلی سستی اس کی دوا معدوم ہے۔ اس فرمان میں صدیق اکبر نے ہمیں ہوشیار فرمایا کہ دنیا اور دنیا کی چیزیں اس قابل نہیں کہ ان سے دل لگایا جائے اس لیے کہ جو مشغول بہ فانی ہو گیا وہ باقی کے ساتھ محجوب ہو جائے گا۔
امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ
اما م حسن بصری حکایت نقل فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ جنگل سے ایک اعرابی آیا حضرت امام حسن بصری اس وقت کوفہ میں ایک مکان کے دروازے پر تشریف فرما تھے۔ اس نے امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ سے سب و شتم کے ساتھ مکالمہ شروع کر دیا اور اتنا بڑھا دیا کہ آپ کے آباؤ اجداد کرام کی شان میں بھی بکنے لگا۔ حضرت امام نے نہایت سنجیدگی کے ساتھ اسے فرمایا کہ اے اعرابی! تم مجھے بھوکے معلوم ہوتے ہو یا پیاسے یا تمہیں کوئی تکلیف پہنچی ہوئی ہے۔ اس نے جواب میں اور سخت کلام شروع کر دیا حتی کہ بکنے لگا تم ایسے تمہاری والدہ، تمہارے باپ ایسے۔ امام سید الشہداء رضی اللہ تعالی عنہ نے خادم کو حکم دیا کہ چاندنی کا کوزہ اندر سے لائے، وہ لایا۔ آپ نے وہ کوزہ نقری اسے عطا فرمایا اور کہا میاں معاف کرو اس وقت ہمارے پاس یہی تھا ورنہ اور کچھ خدمت بھی کرنے سے دریغ نہ تھا۔ اعرابی نے جب یہ الفاظ سنے اور جب یہ سخاوت دیکھی تو پکار اٹھا؛ میں گواہی دیتا ہوں بے شک آپ ابن رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہیں اور میں صرف آپ کی حلم و کظم غیظ کے تجربہ کے لیے آیا تھا اور یہ صفت محققان مشائخ کی ہے کہ مدح و ذم ِخلائق ان کے نزدیک یکساں ہوتی ہے اور وہ لوگ کسی کلمہ سخت و سست سے اپنی حالت متغیر نہیں کرتے۔
تصوف کی اس عظیم الشان کتاب میں تصوف اور صوفیاء سے متعلق بہت سےایمان افروز واقعات درج ہیں۔ جن کوچند صفحات میں سمو کر بیان کرنا ممکن نہیں۔ البتہ اس مقصد کے حصول کے لیے کتاب کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔ کشف المحجوب کا مطالعہ قاری کے ااندر ایسی صفات پیدا کرتا چلا جاتا ہے کہ اس پر حجاب اٹھتے چلےجاتے ہیں اور اسے تصوف کی حقیقی آگہی حاصل ہوتی ہے۔ اللہ رب العزت مصنف کے درجات بلند فرمائے۔ آمین