ارشاد باری تعالیٰ ہے:
یٰـٓاَیُّھَا الْمُدَّثِّرُo قُمْ فَاَنْذِرْo وَ رَبَّکَ فَکَبِّرْo وَ ثِیَابَکَ فَطَھِّرْo وَ الرُّجْزَ فَهْجُرْo
(المدثر، 74: 1۔ 5)
’’اے چادر اوڑھنے والے (حبیب!)۔ اُٹھیں اور (لوگوں کو اللہ کا) ڈر سنائیں۔ اور اپنے رب کی بڑائی (اور عظمت) بیان فرمائیں۔ اور اپنے (ظاہر و باطن کے) لباس (پہلے کی طرح ہمیشہ) پاک رکھیں۔ اور (حسبِ سابق گناہوں اور) بتوں سے الگ رہیں۔ ‘‘
دعوت کے قیام کا حکم اس آیت کریمہ میں دیا جارہا ہے اس دعوت کے نتیجے میں لوگوں کو ہدایت ملے اور آپ اس دعوت پر اپنی ثابت قدمی کا اظہار کریں وحی سے مانوس ہوں اس لیے کہ یہ وحی ہی آپ کی دعوت کا سرچشمہ ہے۔
آپ کی دعوت کی بنیاد بننے والی یہ وحی بذات خود کیا ہے؟ وحی سے مراد وہ الہام ہے جو ایک واضح شکل میں دل میں جم جائے حتی اس کے بعد کسی قسم کا کوئی شک و شبہ باقی نہ رہے۔ رسول اللہ ﷺ کی دعوت کے ضمن میں آنے والی یہ وحی کبھی گھنٹی کی آواز کی طرح آتی تھی اور یہ قسم رسول اللہ ﷺ کی ذات پر سخت گراں تھی۔ یہاں تک کہ انتہائی سخت ٹھنڈک کے دن میں بھی وحی کے نزول کے وقت رسول اللہ ﷺ کے جسد اقدس سے اور آپ کی پیشانی سے آپ کا پسینہ جاری ہوجاتا تھا۔
(صحیح بخاری، کتاب الوحی، باب کان بدء الوحی الی رسول اللہ ﷺ، رقم الحدیث: 2)
وحی کے نزول کی صورتیں
اور کبھی آپ سواری پر ہوتے اور ادھر وحی کا نزول ہوتا تو وہ سواری بیٹھ جاتی تھی۔
(مسند احمد بن حنبل، ابو عبداللہ احمد بن محمد بن حنبل، رقم الحدیث: 24828)
اسی طرح ایک مرتبہ وحی کا نزول شروع ہوا تو اس وقت آپ کے ساتھ حضرت زید بن ثابت بیٹھے ہوئے تھے اور آپ کی ران حضرت زید بن ثابت کی ران کے ساتھ ملی ہوئی تھی تو وحی کے نزول کا بوجھ حضرت زید بن ثابت کو اس قدر محسوس ہوا کہ شاید ان کی ران کی ہڈی ٹوٹ جائے اور چٹخ جائے۔
(ایضاً، رقم الحدیث: 21601)
کبھی وحی اس سے آسان اور ہلکی صورت میں ہوتی تھی اور وحی کبھی الہام کی صورت میں آتی تھی۔ اس کی صورت یہ تھی رسول اللہ ﷺ فرماتے روح القدس جبرائیل امین نے میرے دل میں یہ بات ڈال دی ہے یہ وحی کی آسان قسم تھی، وحی جو مشکل صورت میں آتی تھی اس کی وجہ سیرت نگاروں نے یہ لکھی ہے ا س صورت کے ذریعے وحی کے بارے میں ہر طرح کے شکوک و شبہات کا خاتمہ کرنا بھی تھا اور اس حقیقت کو بھی واضح کرنا مقصود تھا کہ اس وحی کے الفاظ و معانی اللہ کی طرف سے منزل الی اللہ ہیں اور رسول اللہ ﷺ نے رسالت و نبوت کے ذریعے وحی کے اس بوجھ کو اٹھایا ہے۔
رسالت ایک عظیم ذمہ داری ہے
یہ رسالت و نبوت کا منصب کوئی آسان ذمہ داری نہیں ہے اور اس ذمہ داری کو وہی ذات ادا کرسکتی ہے جس کو اللہ رب العزت چن لیتا ہے اور اس مقصد و منصب کے لیے منتخب کرلیتا ہے اور یہ ذمہ داری کسی عبادت گزار کی کسی خلوت گزینی کا کوئی وہم و تخیل نہیں جو اس نے اپنے گوشہ تنہائی سے اخذ کیا ہے اور نہ ہی یہ ذمہ داری کسی فلسفی کی ذہنی اختراع کا نام ہے جو انسانی ذہن کو قائل کرنے کے لیے عقلی دلیلیں قائم کرتا ہے اور اپنی بات کو منطقی اور عقلی طریق سے نہایت عمدگی کے ساتھ پیش کرتا ہے۔ ہر سننے والا ذہن قائل ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔ ان ساری چیزوں کے برعکس یہ قرآن اس وحی کے نزول کی واضح علامت کے ساتھ سراسر کلام الہی ہے اس لیے قرآن کو اللہ کی وحی قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰیo اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰیo
(النجم، 53: 3-4)
’’اور وہ (اپنی) خواہش سے کلام نہیں کرتے۔ اُن کا ارشاد سَراسَر وحی ہوتا ہے جو انہیں کی جاتی ہے۔‘‘
منصب رسالت اور رسول کی دعوت کی بنیاد اور اساس وحی الہی پر ہوتی ہے۔ رسول کی ہر دعوت دعوت الی اللہ ہے اور اس دعوت کا انحصار اور اس کا کمال وحی الہیہ پر مشتمل ہوتا ہے۔
اہل مکہ کی دعوت اسلام کے عناصر
اہل مکہ کو رسول اللہ ﷺ نے کیا دعوت دی یہ دعوت دین کے قیام کی دعوت تھی اور یہ دعوت دین کی قبولیت کی دعوت تھی یہ دعوت، دعوت توحید تھی، دعوت قبولیت رسالت تھی، یہ دعوت، ایمان آخرت کے اظہار کی تھی اور یہ دعوت عمل بندگی اور عمل ہدایت کی دعوت تھی۔
توحید کی دعوت
رسول اللہ ﷺ کی دعوت کا پہلا نکتہ یہ تھا کہ اللہ وحدہ لاشریک ہے وہ توحید کامل کی شان رکھتا ہے اور اس کی شان لا الہ الا اللہ ہے اور اس زمین و آسمان میں اس کے سوا کوئی خدا اور کوئی الہ نہیں ہے۔ ہر چیز اس کی بندگی میں مشغول ہے۔ کائنات کا ذرہ ذرہ اس کی توحید کا قائل ہے اور اس تصور توحیدکو عملاً قبول کیے ہوئے ہے اور اس کی عظمت و جلال کے سامنے ساری کائنات اور مخلوقات جھکی ہوئی ہیں۔ ہر کوئی اس کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کرتا ہے کوئی اس کا شریک نہیں۔
ہر انسان تنہا و اکیلا اپنے پروردگار کی طرف رجوع کرسکتا ہے اور وہی رب اکیلا اس کائنات کا خالق و مالک ہے۔ کوئی بھی اس کی خالقیت و مالکیت میں شریک نہیں ہے۔ رسول اللہ نے اس دعوت توحید کے ذریعے اہل مکہ کو باور کرایا کہ پتھر بھی اللہ کی مخلوق ہے پتھر بذات خود خالق و مالک نہیں ہیں اور ان سے بنے ہوئے بت مخلوق ہوکر ہرگز خالق نہیں ہوسکتے۔ یہ بے جان بت الہ نہیں ہوسکتے۔ ان پتھر کے بتوں کی حیثیت عام پتھروں کی سی ہے یہ لائق عبادت نہیں۔ یہ معبود کہلانے اور ماننے کے مستحق نہیں۔ ان پتھروں کے بنے ہوئے بتوں کو خدا و الہ ماننا انسانیت کی تذلیل ہے اور انسانی شرف اور افضلیت کے خلاف ہے۔ یہ خود اپنے مالک نہیں ہیں انسان کے مالک کیسے ہوسکتے ہیں؟
یہ کسی انسان کو رزق نہیں دے سکتے کسی انسان کی مشکل و تکلیف کو دور نہیں کرسکتے۔ اس لیے عبادت و بندگی کا مستحق اللہ ہی ہے اور انسانی حاجت و ضرورت کا سوال اللہ ہی سے کیا جاسکتا ہے۔ یہ اسلوب دعوت رسول اللہ ﷺ نے اہل مکہ کے سامنے دعوت توحید کے حوالے سے اختیار کیا۔ اس اسلوب دعوت نے اہل مکہ کو سوچنے، سمجھنے اور معمولی سی عقل رکھنے والے ہر طبقے کو ایک مرتبہ اندر سے ہلاکر رکھ دیا۔ دعوت رسول کے اس منہج نے ان کو اندر سے جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور ان کو سوچنے پر مجبور کردیا۔ جنہوں نے سلیم القلب اور سلیم الفطرت ہوکر سوچا تو انہوں نے فیصلہ کیا اور وہ دولت ایمان سے مزین ہوئے اور جنہوں نے اس دعوت کو اپنے مفادات اور اپنی دنیوی اغراض کے تناظر میں دیکھا وہ اس کی قبولیت کے وقتی طور پر منکر ہوئے۔ اک وقت آیا جب اسلام نے دنیوی اعتبار سے بھی فتح مکہ کی صورت میں غلبہ پایا تو اب یہ اپنے کفر پر ٹھہر نہ سکے۔ اب ان کا وہ دل جو اسلام کی دعوت کی طرف مائل تو تھا مگر دنیوی مفادات کی وجہ سے قائل نہ تھا۔
اب فتح مکہ کی کامیابی کی صورت میں دعوت اسلام اپنا مکمل نفوذ کرتی ہے اور کفار مشرکین کی اکثریت اسلام قبول کرلیتی ہے اوریہی وہ لوگ تھے جو اسلام کی دعوت کے مقابل ہر طرح کے فتنے کھڑے کرتے تھے۔ ہر نوع کی سازشیں کرتے تھے ہر قسم کی جنگ و حرب کی صورت پیدا کرتے تھے مگر اب اسلام کے دامن میں پناہ لیتے ہیں اور رسول اللہ کی دعوت مؤثر ہوتی ہے اور نتیجہ خیز ہوتی ہے۔
دعوت رسول کا دوسرا نکتہ، دعوۃ بالآخرۃ
رسول اللہ ﷺ نے اہل مکہ کو دوسری دعوت، آخرت کی دعوت دی کہ اس بات پر ایمان اور عقیدہ رکھو کہ تمہیں ایک دن اس دنیوی زندگی سے مرنا ہے اور قبر میں جانا ہے اور پھر اس قبر سے اٹھایا جانا ہے اور قیامت کے دن اللہ کے حضور حاضر کیا جانا ہے اور اللہ کے روبرو تم کو اپنی زندگی کے جملہ اعمال و اقوال اور تمام اعمال نامہ حیات کا جوابدہ ہونا ہے اور تمہاری ساری حیات کا بہت باریک بینی سے محاسبہ کیا جانا ہے، تمہیں اپنی ذات میں ذرہ خیر کی جزاء ملنی ہے اور ذرہ شر کی سزا ملنی ہے۔
فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَّرَهٗo وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا یَّرَهٗo
(الزلزال، 99: 7-8)
’’تو جس نے ذرہ بھر نیکی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا۔ اور جس نے ذرہ بھر برائی کی ہوگی وہ اسے (بھی) دیکھ لے گا۔‘‘
عمل خیر کرنے والوں کا صلہ بصورت جنت ہوگا اور عمل شر کرنے والوں کی سزا بصورت دخول جہنم ہوگی۔ جنت نیکو کاروں کی منزل انعام ہے اور دوزخ بدکاروں کی منزل انجام ہے۔ آخرت کے تصور کے ذریعے ایک مسلمان کو اپنے اعمال کی روزانہ کی بنیاد پر اصلاح کا تصور دیا ہے کہ وہ اپنے آج کے عمل کو کل کے عمل نجات کی بنیاد اور اساس بنائے۔ اس کا آج کا عمل ہی اس کے کل کی منزل کا تعین کرے گا جس کا آج سنور گیا ہے اس کا کل بھی سرفراز ہوگیا ہے۔ جس کا آج برا ہے اس کا کل بھی انجام بد ہے۔
دعوت کا تیسرا نکتہ ۔ تزکیہ نفوس
رسول اللہ ﷺ نے اہل مکہ کو تیسری دعوت تزکیہ نفس کی دی ہے تزکیہ نفس کی دعوت یہ تھی کہ انسان اپنی جان کو اللہ کے حکم کی پہچان بنائے۔ اللہ کے حکم کو انسان جانے اور اس کے بعد اس حکم الہی کو خود اپنی جان پر نافذ کرے اور جس چیز کے کرنے اور اختیار کرنے سے باری تعالی نے منع کیا ہے، اس چیز سے انسان اپنے نفس کو پوری قوت کے ساتھ روک لے اور تزکیہ نفس کی دعوت یہ تھی بندہ خود کو بندہ خدا بنائے اور خود کو بندہ شیطان نہ بنائے۔ انسان خود کو بندہ خیر بنائے بندہ شر نہ بنائے۔ انسان پیکر خیر ہو اور پیکر شر نہ ہو، انسان بندہ مطیع ہو بندہ نافرمان نہ ہو۔ تزکیہ نفس کی دعوت یہ تھی کہ انسان اپنے نفس کا محاسب ہو اور اپنے نفس کا کڑا احتساب کرے، اپنے نفس کا روک ٹوک کا نظام اللہ کے احکامات کی اطاعت میں قائم و دائم کرے۔ حلال کو اختیار کرے اور حرام سے اجتناب کرے حتی کہ دعوت تزکیہ نفس کا کمال یہ تھا بندے کا نفس، نفس خیر بنے نفس شر نہ بنے۔
رسول اللہ ﷺ نے تزکیہ نفس اور نفس خیر اور نفس شر کی عملی صورتیں بھی ان کے سامنے رکھیں، نفس کی حالت کیسے متعین ہوتی ہے کہ یہ کون سا نفس ہے، نفس خیر ہے یا نفس شر ہے۔ اس کا ضابطہ یہ دیا جس چیز کا حکم بندے کو رب کی طرف سے دیا جارہا ہے اگر وہ اس پر عمل کرتا ہے تو وہ نفس خیر ہے اور اگر اس پر عمل نہیں کرتا تو وہ نفس شر ہے۔
مکی دعوت کے اہداف
اس لیے قرآن نے دعوت بندگی دیتے ہوئے اور نفس خیر کی طرف بلاتے ہوئے اور تزکیہ نفس کی عملی دعوت ہمارے سامنے رکھتے ہوئے بیان کیا:
’’فرما دیجیے: آؤ میں وہ چیزیں پڑھ کر سنا دوں جو تمہارے رب نے تم پر حرام کی ہیں (وہ) یہ کہ تم اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو اور مفلسی کے باعث اپنی اولاد کو قتل مت کرو۔ ہم ہی تمہیں رزق دیتے ہیں اور انہیں بھی (دیں گے) اور بے حیائی کے کاموں کے قریب نہ جاؤ (خواہ) وہ ظاہر ہوں اور (خواہ) وہ پوشیدہ ہوں اور اس جان کو قتل نہ کرو جسے (قتل کرنا) اللہ نے حرام کیا ہے بجز حقِ (شرعی) کے (یعنی قانون کے مطابق ذاتی دفاع کی خاطر اور فتنہ و فساد اور دہشت گردی کے خلاف لڑتے ہوئے)، یہی وہ (اُمور) ہیں جن کا اس نے تمہیں تاکیدی حکم دیا ہے تاکہ تم عقل سے کام لو۔ اور یتیم کے مال کے قریب مت جانا مگر ایسے طریق سے جو بہت ہی پسندیدہ ہو یہاں تک کہ وہ اپنی جوانی کو پہنچ جائے، اور پیمانے اور ترازو (یعنی ناپ اور تول) کو انصاف کے ساتھ پورا کیا کرو۔ ہم کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے اور جب تم (کسی کی نسبت کچھ) کہو تو عدل کرو اگرچہ وہ (تمہارا) قرابت دار ہی ہو اور اللہ کے عہد کو پورا کیا کرو، یہی (باتیں) ہیں جن کا اس نے تمہیں تاکیدی حکم دیا ہے تاکہ تم نصیحت قبول کرو۔ اور یہ کہ یہی (شریعت) میرا سیدھا راستہ ہے سو تم اس کی پیروی کرو اور (دوسرے) راستوں پر نہ چلو پھر وہ (راستے) تمہیں اللہ کی راہ سے جدا کر دیں گے، یہی وہ بات ہے جس کا اس نے تمہیں تاکیدی حکم دیا ہے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔‘‘
(الانعام، 6: 151۔153)
تزکیہ نفوس اسلام کی تعلیمات کا مقصد و منتہا ہے۔ اب ان آیات میں اہل مکہ کے سامنے اسلام کا آفتاب طلوع ہوتا ہے تو ان کو دعوت الی الاسلام و تعالوا کے کلمات کے ساتھ دی جاتی ہے کہ تم آؤ، تم اس طرف آو، تم اس طرف متوجہ ہوجاو، دعوت اسلام درحقیقت دعوت تزکیہ نفس، دعوت عمل اور دعوت کردار تھی۔
پہلی دعوت ۔ دعوت توحید
اسلام کی پہلی دعوت تزکیہ نفوس کے باب میں توحید کی دعوت ہے اسلام تم کو اللہ کی توحید کی دعوت دیتا ہے اور اس کے ساتھ شرک کی ہر صورت سے منع کرتا ہے۔
دوسری دعوت ۔ والدین سے حسن سلوک
تزکیہ نفس کی دوسری دعوت یہ ہے آج سے تم اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا شروع کردو۔ اپنے والدین کو اذیت نہ دو، کسی قسم کی تکلیف نہ دو، کسی طرح دکھ اور رنج نہ دو۔ والدین کے ساتھ تمہارے عمل میں حسن سلوک دکھائی دے۔
تیسری دعوت ۔ اولاد کا عدم قتل
تزکیہ نفوس کی تیسری دعوت یہ ہے خبردار! آج طلوع اسلا م کے بعد اپنی اولادوں کو مفلسی و غربت کی بنا پر ناحق قتل نہ کرو۔ اپنی اولادوں کو زندہ درگور نہ کرو۔ بھوک کے ڈر اور خدشے کی بنا پر ان کی جان سے نہ کھیلو۔ ان کی بھوک تم نے نہیں مٹانی بلکہ اللہ نے مٹانی ہے۔ تم رازق نہیں ہو اللہ ہی رازق ہے۔ وہ تمہارا بھی رازق ہے اور ان کا بھی رازق ہے۔ اس لیے رزق کی کمی اور رزق سے محرومی کے خدشے کی وجہ سے ان کو قتل ہرگز نہ کرو۔ اولاد کو پالو اور ان کی کفالت و پرورش کرو ان کا رزق ہر حال میں اللہ سے مانگو۔
چوتھی دعوت ۔ عمل فحش سے انسداد
تزکیہ نفوس کی چوتھی دعوت اہل مکہ کو یہ دی کہ ہر وہ عمل جو فحش ہو، منکر ہو، ناپسندیدہ ہو، جس عمل کو اسلام نے برا کہا ہے اللہ اور اس کے رسول نے برا کہا ہے۔ اسلام نے اسے برا جانا ہے، مسلمانوں نے اسے برا تسلیم کیا ہے۔ ایسے ہر فحش اور برے کام سے بچ جاؤ، کسی بھی عمل فحش کا ارتکاب نہ کرو۔
پانچویں دعوت ۔ ناحق قتل کی ممانعت
تزکیہ نفس کی پانچویں دعوت اسلام نے اہل مکہ کو یہ دی کہ کسی بھی انسان کو ناحق قتل نہ کرو، کسی بھی انسان کو بلا وجہ اور بلا سبب اور ناحق قتل مت کرو، معاشرے کا کوئی انسان اپنے دشمن کی جان سے بھی نہ کھیلے، اس کا خون ہرگز نہ بہائے، جب کسی ایک انسان کا خون زمین پر گرتا ہے تو پھر یہ سلسلہ دراز ہوجاتا ہے بہت سے معصوم اور ناحق خون بھی معاشرے میں بہہ جاتے ہیں۔ معاشرے میں خون کا بدلہ خون کی آگ بھڑک اٹھتی ہے۔ اس لیے خون بہانے سے گریز کرو اور خون نہ بہانا، ہر خون اور ہر انسان کا احترام کرنا یہ تزکیہ نفس کی بہترین صورت ہے۔ اسلام تزکیہ نفس کی ان ساری دعوتوں کی بنیاد عقل پر استوار کرتا ہے اور یہ دعوی کرتا ہے اس کی تزکہ نفس کی ہر دعوت کی بنیاد عقل پر استوار ہے، اسلام کی یہ دعوت تزکیہ نفس عقل سے آراستہ ہے اس دعوت پر عمل کرنا اللہ کی منشاء و رضا ہے۔
چھٹی دعوت ۔ مال یتیم کی حفاظت
اسلام اہل مکہ کو تزکیہ نفس اور اعمال کی طہارت کی یہ چھٹی دعوت بھی دیتا ہے کہ طلوع اسلام کے بعد اور قبولیت اسلام کے بعد آج سے تمہارے لیے کسی طرح بھی مناسب نہیں، جائز نہیں اور شرعی طور پر حلال نہیں ہے کہ تم کسی یتیم کا مال کھاؤ، ہڑپ کر جاؤ اور غصب کر جاؤ اس میں فراڈ اور دھوکہ کر جاؤ۔ حتی کہ تمہارے لیے ضروری ہے کہ تم مال یتیم کے قریب بھی نہ جاؤ اور وہ مال یتیم تمہارے پاس ایک امانت ہے۔ جب یتیم بچے جوان ہوجائیں اور اپنے نفع و نقصان کا ادراک کرنے لگیں تو ان کی امانت احسن طریق سے ان کے سپرد کردو۔ گویا اسلام لانے کے بعد تم یتیموں کے مالوں کے محافظ بن گئے ہو اور ان کے امین بن گئے اور یتیموں کی جان و مال کی حفاظت کے حوالے سے ان کے جانثار بن گئے ہو۔ تمہارا یہ عمل بھی تمہارے نفس کے تزکیے کا باعث ہوگا۔
ساتویں دعوت ۔ ناپ تول میں انصاف
تزکیہ نفس کی اسلام نے ساتویں دعوت یہ دی ہے کہ طلوع اسلام اور قبولیت اسلام کے بعد تم اپنی تجارت اور اپنے کاروبار میں ناپ و تول کے معاملات درست کرو، ناپ تول میں کسی قسم کی کمی اور کس طرح کی ہیرا پھیری اور کسی نوعیت کی چور بازاری اور کسی نوع کی ذخیرہ اندوزی اور کسی قسم کی دھوکہ بازی اور کسی طرح کی دغا بازی کا عمل اختیار نہ کرو۔ کاروبار و تجارت کو انصاف کے ساتھ کرو، ملاوٹ اور فراڈ کے ساتھ نہ کرو، کاروبار و تجارت میں انصاف تمہارے عمل بیع و شراء میں بھی نظر آئے۔ تمہارے لین دین میں دکھائی دے تمہارے ناپ و تول میں بھی محسوس ہو اور اشیاء کی کمیت اور حیثیت میں بھی انصاف نظر آئے تو یہ عمل تمہارے نفس کے تزکیے کا باعث ہوگا۔
آٹھویں دعوت ۔ قیام عدل
تزکیہ نفس کی اہل مکہ کو اسلام، آٹھویں دعوت یہ دیتا ہے تم اپنی ساری زندگی میں عدل و انصاف کو قائم کرو زندگی کے ہر شعبے میں قیام عدل اور اعطائے انصاف کی جدوجہد کرو، تمہارا عدل تمہاری ذات پر بھی فائق ہو، تمہارے رشتوں سے بھی بلند ہو، پیمانہ عدل اپنے معیار پر حقدار کی طرف جھکے تمہارے معاشرتی منصب کی بنا پر اور تمہارے جاہ و تفاخر اور تکبر و غرور کی وجہ سے اور تمہاری قوت کے رعب و دبدبہ اور اثرو رسوخ کی وجہ سے یہ غیر حقدار کی طرف نہ جھکے، تمہارا پیمانہ عدل اس طرح تلے کہ تم اپنے قریبی رشتے دار کو بھی انصاف کے ساتھ تول دو اور تم خونی قرابت کی وجہ سے اس میں ذرا بھر بھی مداخلت نہ کرو اور اس پیمانہ عدل کو اپنی خواہش کے تابع نہ کرو اور اپنی مرضی کے ساتھ اسے اپنی طرف مت جھکاؤ۔
تزکیہ نفوس کے تجدید عہد
یہ تزکیہ نفوس کے باب میں اللہ تبارک و تعالی تم سے اعمال خیر کے لیے چند عہد لے رہا ہے، اللہ رب العزت تم سے اپنا وعدہ لے رہا ہے کہ اب مسلمان ہوگئے ہو تو میرے فرمانبردار ہوجاؤ تمہاری فرمانبرداری میرے حکم کی پیروی میں مسلم ہے۔ باری تعالی نے فرمایا یہ میرے احکامات ہیں، تمہارے لیے عمل کرنے کے لیے ہیں حکم اس لیے ہوتا ہے کہ اس کو سنا جائے اس کو مانا جائے اور اس کو عمل میں اتارا جائے۔ ایک مسلمان کی ذمہ داری اللہ اور اس کے رسول کے حکم اور احکامات کو عمل میں لانا ہے، حکم الہی اور حکم رسول ﷺ کو عمل کا لباس پہنانا ہے اور فرمایا عمل کے باب میں یہ بات ذہن نشین کرلو ہمارا ہر حکم تمہارا عمل بن سکتا ہے۔ ہم تم کو کوئی حکم ایسا نہیں دیتے جو تمہاری استعداد، بنیادی صلاحیت اور اہلیت کے مطابق نہیں ہوتا، ہمارا ہر حکم تمہارے لیے قابل عمل ہے، اگر تم عمل کرنا چاہو تو اس میں کوئی چیز بھی انسانی استعداد سے باہر نہیں اور ہمارے ہر حکم کی بنیاد یہ اصول ہے۔
لَا نُکَلِّفُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا.
(الانعام، 6: 152)
’’اور ہم کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے۔ اس لیے تمہاری بندگی کی شان یہ ہونی چاہیے تم ہمارے ہر حکم کو پوراکرو۔‘‘
ذلکم وصکم بہ تزکیہ نفس باب میں اور تمہاری بندگی کی اصلاح کے لیے یہ سارے ہمارے احکامات ہیں ان کو بجا لاؤ۔ یہ اللہ کے احکامات تمہارے لیے اللہ سے کیے ہوئے عہد ہیں۔ و بعهد اللہ اوفوا اللہ کے ہر حکم پر عمل کرنا اس سے کیے ہوئے عہد کو پورا کرنا ہے۔ یہی شان بندگی ہے اور یہی کمال بندگی ہے، تم اس حوالے سے لعلکم تعقلون سے عقل کی روشنی پاؤ اور تم لعلکم تذکرون کے ذریعے نصیحت وخیر خواہی حاصل کرو اور لعلکم تتقون کے ذریعے تم راہ نجات کے مسافر بنو۔
خلاصہ کلام
اسلام کی جو پہلی دعوت رسول اللہ ﷺ کے ذریعے بپا ہوئی وہ دعوت قیامت تک داعیان دعوت اسلام کی راہنمائی کرتی رہے گی اور ان کو اپنے زمانے میں دعوت اسلام بپا کرنے کے اصول و ضوابط دیتی رہے گی۔ ہر کوئی اپنی فہم و فراست کے مطابق اس دعوت سے اصولہائے دعوت اخذ کرتا رہے گا۔ رسول اللہ ﷺ کی دعوت سے ہم یہ جانتے ہیں کہ آپ کی دعوت اسلام، مسلمات اور کلیات کی دعوت تھی اور ہے آپ کی دعوت حقائق دین اور اصل کائنات کی دعوت تھی اور ہے، آپ کی دعوت اصولیات کی دعوت تھی اس لیے آپ نے لوگوں کو توحيد کی دعوت دی، ایمان بالرسالت کی دعوت دی اور ایمان بالآخرت کی دعوت دی اور ایمان بالکتب والکتاب کی دعوت دی اور آپ نے انسانوں کے اخلاق و کردار اور اقوال و اعمال میں اصلاح کی دعوت دی۔ آپ کی دعوت کا مرکز ومحور بندے کو رب سے واصل کرنا ہے اور بندے کو خدا کے بندوں کے ساتھ حسن معاملات کی تعلیم دینا ہے اور آپ کی دعوت کا عملی اثر بندوں میں نتیجے کے طور پر اور عمل کے روپ میں یہ نظر آیا کہ بندے نے رب سے حسن عبادت کا تعلق قائم کیا اور اللہ کے بندوں سے حسن معاملات کا طرز عمل اختیار کیا۔
جب کسی بندے میں اللہ کے لیے حسن عبادات اور بندوں کے لیے حسن معاملات کا وصف ظاہر ہوا تو وہی بندہ قرآن کی زبان میں عبد بنا اور نعم العبد بنا اس کائنات میں اللہ کا بہترین بندہ بنا۔ رسول اللہ ﷺ نے جو دعوت قائم کی اس کی بنیاد اور اس کا اصول حکمت و دانائی تھی اور ہے، اس لیے فرمایا:
’’(اے رسولِ معظّم!) آپ اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ بلائیے۔‘‘
(النحل، 16: 125)
’’اور ان سے بحث (بھی) ایسے انداز سے کیجیے جو نہایت حسین ہو۔‘‘
(النحل، 16: 125)
آج ہم کو اسلام کی دعوت عصر کی حکمت پر اور جدال احسن پر قائم کرنا ہے اور یہی رسول اللہ ﷺ کی دعوت کا منہج اور اسلوب ہے۔ اگر آج کا داعی اسلام حکمت سے اپنی دعوت کو مزین کرلے تو اس کی دعوت موثر بھی ہوسکتی ہے اور نتیجہ خیز بھی۔ اب سوال یہ ہے حکمت کیا ہے۔ قرآن بیان کرتا ہے:
’’جسے چاہتا ہے دانائی عطا فرما دیتا ہے اور جسے (حکمت و) دانائی عطا کی گئی اسے بہت بڑی بھلائی نصیب ہوگئی۔‘‘
(البقرة، 2: 269)
حکمت یہ ہے کہ افضل اور بہترین چیز کو بہترین علم کے ذریعے جانا جائے۔ حکمت عقل کی راہنمائی کا نام ہے، حکمت قلب کی بصیرت کا نام ہے۔ حکمت پرستی کی حقیقت کو جاننے کا نام ہے، حکمت حق و باطل کے درمیان امتیاز کرنے کا نام ہے۔ حکمت نفسانی اور شیطانی وساوس اور حملوں سے بچنے اور ان کے امتیاز کا نام ہے۔ حکمت برائیوں کی نشاندہی اور صحیح علاج اور تدبیر کا نام ہے اور مخلوق کے احوال کو مکمل جاننے کا نام حکمت ہے۔ حکمت حقائق کائنات کو جاننے کا نام ہے، حکمت اسباب و علَل کی تہہ تک پہنچنے کا نام ہے۔ حکمت ذکاوت، ذہانت اور سرعت فہم کانام ہے، حکمت کے ان سارے معانی و معارف کی روشنی میں آج دعوت اسلام میں حکمت کا پہلو یہ ہے کہ ہماری دعوت کی بنیاد قرآن ہو، ہماری دعوت کی اساس حدیث رسول ﷺ ہو، ہماری دعوت کا مدار صحابہ کرامؓ، تابعین، تبع تابعین، ائمہ مجتہدین، علماء ربانیین، اولیاء و عارفین کی اجماعی آراء ہوں۔
ہماری دعوت کی قوت اسلام کا فی زمانہ مضبوط و مستحکم اور متمسک بالقرآن والسنہ اجتہاد واستنباط ہو، ہماری دعوت اسلام کے عناصر تمسک بالقرآن والسنہ ہوں اور تمسک بالاجماع والاجتہاد آئمہ ہو، ہماری دعوت اسلام اعتصام باللہ والرسول ہو، اتحاد و یگانگت امت مسلمہ ہو، اس لیے کہ یہ پیغام رسول اللہ ﷺ کی بعثت ہے اور یہی مقصد نسخہ کیمیا قرآن کا بھی ہے۔ عصر حاضر میں وہی دعوت اسلام موثر ہے اور نتیجہ خیز ہے، جس میں رحمت کا غلبہ ہو، جو رحمت للعالمین کی سیرت سے کاملاً وابستہ و مستنیر ہو۔ اس لیے اقبال عظیم نے کہا۔
جو عاصی کو دامن میں اپنی چھپالے
جو دشمن کو بھی زخم دکھا کر دعا دے
اسے اور کیا نام دے گا زمانہ
وہ رحمت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے