قائدِ اعظمؒ وہ برگزیدہ ہستی ہیں جن کی زندگی کے معمولات، نظم و ضبط، محنت، لگن اور خداداد صلاحیتوں کو دنیا بھر میں رشک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اس کی وجہ ان کے کام کی انفرادیت اور تنوع ہے۔ عرفِ عام تو یہی بات ہے کہ قائدِ اعظم محض ایک سیاست دان کی حیثیت رکھتے تھے مگر حقیقتِ حال یہ ہے کہ وہ ایک غیر معمولی شخصیت کے حامل تھے۔ انہوں نے نا امیدوں کےاندھیرے میں اپنے غیر متزلزل اور پختہ و راسخ اصولوں اور ارادوں کا چراغ جلائے رکھا۔ عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ سیاست اور اصول دو متضاد چیزیں ہیں، ان کا کوئی تال میل نہیں۔ یہ سہرا اس شخصیت کے سر ہے کہ اس نے سیاست کو بھی اصولوں کے تابع بنانے کے نادر الوقوع کرشمے سے دنیا کو متعارف کروایا۔
شہرِکراچی کے ایک درمیانے درجے کے تاجر کے ہاں جنم لینے والا ایک دبلا پتلا نوجوان جو کسی کے گمان میں بھی نہ تھا کہ آنے والے دنوں میں ناممکن کو ممکن کا روپ دے گا۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ قائد اعظم روایتی نوابزادوں اور رئیس زادوں کی طرح منہ میں سونے کا چمچ لے کر پیدا نہیں ہوئے۔ انہوں نے ایک ایسے گھرانے میں پرورش پائی تھی کہ جہاں زندگی کے تعیشات، مراعات اور سہولیات بافراط موجود نہ تھے۔ ابتدائی تعلیم انہوں نے کراچی ہی کے مدرسہ میں حاصل کی۔ کراچی کے گلی کوچوں میں اپنے ہم عمر بچوں کے ساتھ بچوں ہی کی طرح کھیل کود میں مصروف رہے۔ اسکول میں ان کا شمار حاضر دماغ، محنتی اور ذہین طالب علموں میں ہوتا تھا۔
قائد اعظم چونکہ اسلام اوراس کی تعلیمات کے نہایت قریب تھے۔ ان کے فرامین سے اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ نظم و ضبط بھی اسلامی تعلیمات سے لیا کرتے تھے۔اسلام فرائض کی انجام دہی کا درس دیتا ہے۔ اور فرائض کی ادائیگی سے نظم و ضبط پیداہوتا ہے۔ قائدِ اعظمؒ نے فرمایا:
میں ہر ایک مسلمان سے کہتا ہوں کہ اسلام تم سب سےیہ توقع رکھتا ہے کہ تم اپنا فرض نبھاؤ اور ایک قوم کی حیثیت سے اپنے لوگوں کا ساتھ دو۔
روزہ اور نظم و ضبط:
دینِ اسلام کے امور کے حوالے سے آپ مکمل طور پر علم و آگہی رکھتے تھے اور ان سے نظم و ضبط اخذ کیا اور اسے اپنی زندگی میں شامل کیا۔ رمضان المبارک میں جو معمولات سر انجام پائے پاتے ہیں ان کے بارے میں قائدِ اعظمؒ نے فرمایا:
رمضان کے روزوں اور نماز کا نظم و ضبط خدا کے حضور لازوال رقت قلب اور عاجزی پر منتج ہوگا لیکن یہ کمزور دل کی نرمی کے مترادف نہیں ہو گا۔ جو لوگ ایسا سوچیں گے وہ خدا اور رسول کے ساتھ نا انصافی کر رہے ہیں۔کیونکہ تمام مذاہب کا تضاد یہ ہے کہ منکسر المزاج لوگ طاقتور ہوں گے۔ اسلام کے لئے تو یہ خاص مفہوم رکھتا ہے۔ جیسا کہ آپ کو معلوم ہے اسلام کا حقیقی مطلب عمل ہے۔
سیرت رسول ﷺ سے بھی اخذ ہوتا ہے کہ رمضان نظم سکھاتا ہے۔ اس بارےقائدِ اعظمؒ نے فرمایا:
ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے عمل کے لیے ہمیں ضروری قوت دینے کی خاطر ماہ رمضان کا نظم و ضبط دیا تھا عمل کا مفہوم انسانوں کی سوسائٹی کی دلالت کرتا ہے جب ہمارے عمل کی تعلیم دی تھی تو ان کے ذہن میں صرف کسی ایک انسان کی تنہا زندگی نہیں تھی۔
کیونکہ نظم و ضبط کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ اس کے بغیر ملک و قوم کی خدمت کرنا ناممکن ہے۔ اس لئے قائدِ اعظمؒ نے فرمایا:
ہم میں سے ہر ایک ذاتی نظم و ضبط اختیار کر کے اپنے ملک کی خدمت سر انجام دے سکتا ہے میری رائے میں نظم و ضبط اس مبارک مہینے ماہ رمضان کا لب لباب ہے
نماز اور نظم و ضبط:
نماز دین کا بنیادی رکن ہے۔ قرآن و حدیث میں اس کی فرضیت کا حکم ہوا۔ اس کی حکمت یہ ہے کہ بندہ کو ایک طرز زندگی، مثبت تعامل سکھاتی ہے اور نظم و ضبط کا داعیہ پیدا کرتی ہے۔قائدِ اعظمؒ نے فرمایا:
قران پاک کی روح سے دعا اور زندگی کے درمیان ایک نہایت حقیقی ربط پایا جاتا ہے تمہیں یاد ہوگا کہ اپنے ساتھیوں سے ملنے اور انہیں سمجھنے اور پھر افہام و تفہیم کے ذریعے ان کی خدمت کرنے کے لیے ہمیں کتنے حیرت انگیز مواقع دیے گئے ہیں تم یہ دیکھو گے کہ نماز کا ائین وضع کر کے تمام مواقع پیدا کیے گئے ہیں دن میں پانچ مرتبہ ہمیں اپنے محلے کی مسجد میں جمع ہونا پڑتا ہے ہر ہفتہ جمعہ کے روز ہمیں جامع مسجد میں اکٹھا ہونے کا حکم ہے پھر عید کے دن سال میں دو مرتبہ ہمیشہ گھروں سے باہر سب سے بڑی مسجد یا میدان میں مجتمع ہونا پڑتا ہے
اسلام امور زندگی کے سماجی پہلو پر بہت زور دیتا ہے ہر روز مسجد میں پانچ دفعہ علاقے کے امیر و غریب اور خرد و قلعہ جمع ہوتے ہیں یہ اجتماع انسانوں کی کامل مساوات کا مظہر ہوتا ہے اس طرح نماز کے ذریعے صحت مندانہ سماجی تعلق کی بنیاد پڑتی ہیں اور نماز ہی سے اسے استوار کیا جاتا ہے۔
حج اور نظم و ضبط:
حج کے موقع پر دنیا بھر کے مسلمانوں کو بیت اللہ میں حاضر ہو کر خدا سے راز و نیاز کرنے کے لیے زندگی میں کم از کم ایک بار وہاں کا سفر اختیار کرنا پڑتا ہے تم نے اس امر کا ضرور مشاہدہ کیا ہو گا کہ ہماری زندگی کی یہ سکیم لازمی طور پر نہ صرف دوسرے مسلمانوں سے ہمارا رابطہ قائم کرتی ہے بلکہ اپنے سفر کے دوران ہم دیگر قوموں کے افراد سے بھی ملتے ہیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ نماز کے بارے میں یہ احکام صرف ایک حادثے کی حیثیت رکھتے ہیں میں اس بات کا قائل ہوں کہ نمازوں کا مقصد انسانوں کو مواقع مہیا کرنا ہے تاکہ وہ اپنی سماجی جبلتوں کو پورا کر سکیں۔
قائد اعظمؒ کی زندگی میں نظم و ضبط کے مظاہر:
قائد اعظم محمد علی جناح ؒہمیشہ وقت کی پابندی کے اصولوں پر کاربند رہے اورا س پر انہوں نے کبھی بھی سمجھوتہ نہیں کیا۔ ایسا ہی ایک واقعہ ہے کہ وفات سے کچھ عرصے قبل بابائے قوم نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا افتتاح کیا، یہ وہ آخری سرکای تقریب تھی جس میں قائداعظم اپنی علالت کے باوجود شریک ہوئے۔ وہ ٹھیک وقت پر تقریب میں تشریف لائے، انہوں نے دیکھا کہ شرکاء کی اگلی نشستیں ابھی تک خالی ہیں۔ انہوں نے تقریب کے منتظمین کو پروگرام شروع کرنے کا کہا اور یہ حکم بھی دیا کہ خالی نشستیں ہٹا دی جائیں۔ آپ کے اس حکم کی تعمیل ہوئی اور بعد میں آنے والے شرکاء کو کھڑے ہو کر تقریب کا حال دیکھنا پڑا۔ ان میں کئی دوسرے وزراء اور سرکاری افسران کے ساتھ اس وقت کے وزیرا عظم خان لیاقت علی خان بھی شامل تھے، وہ بے حد شرمندہ تھے کہ ان کی یہ غلطی قائد اعظم نے برداشت نہیں کی اور ایسی سزا دی جو کبھی نہ بھلائی جائے گئی۔
رشوت، سفارش اور بے ایمانی جیسی معاشرتی خرابیوں سے قائد اعظم کوسوں دور تھے، نہ خود کبھی انہوں نے ایسا کرنے کا سوچا اور نہ ہی دوسروں کوکرنے کا موقع دیا۔ ایک بار قائد اعظم سفر کر رہے تھے، سفر کے دوران انہیں یاد آیا کہ غلطی سے ان کا ریل کا ٹکٹ ملازم کے پاس رہ گیا ہے اور وہ بلا ٹکٹ سفر کر رہے ہیں، جب وہ اسٹیشن پر اترے تو ٹکٹ ایگزامنر سے ملے اور اس سے کہا کہ چونکہ میرا ٹکٹ ملازم کے پاس رہ گیا ہے اس لیے دوسرا ٹکٹ دے دیں۔ ٹکٹ ایگزامنر نے کہا کہ آپ دو روپے مجھے دے دیں اور پلیٹ فارم سے باہر چلے جائیں، قائداعظم یہ سن کر طیش میں آگئے اور انہوں نے کہا کہ ’’تم نے مجھ سے رشوت مانگ کر قانون کی خلاف ورزی اور میری توہین کی ہے‘‘۔ بات اتنی بڑھی کہ لوگ اکٹھے ہو گئے، ٹکٹ ایگزامنر نے لاکھ جان چھڑانا چاہی لیکن قائداعظم اسے پکڑ کر اسٹیشن ماسٹر کے پاس لے گئے، بلآخر ان سے رشوت طلب کرنے والا قانون کے شکنجے میں آگیا۔
ایمانداری اور دیانتداری بانی پاکستان کی لافانی شخصیت کا خاصہ تھیں اور وکالت جیسےپیشے میں جہاں نامور وکلاء زائد آمدنی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے، وہیں قائد اعظم اپنے اصولوں کے مطابق ایک پائی زیادہ وصو ل نہیں کرتے تھے۔ ایسا ہی ایک واقعہ ہے کہ ایک تاجر مقدمہ لے کر آیا۔ اس نے کہا کہ مَیں چاہتا ہوں کہ آپ اس مقدمے میں میری وکالت کریں، آپ کی فیس کیا ہوگی؟قائدِاعظم ؒنے کہا،’’ مَیں مقدمے کے حساب سے نہیں، دن کے حساب سے فیس لیتا ہوں۔‘‘ مؤکل نے فیس پوچھی تو قائد نے کہاکہ وہ پانچ سوروپے فی پیشی لیتے ہیں۔ مؤکل کے پا س پانچ ہزار روپے تھے، جو اس نے قائد کو دینا چاہے تو قائد نے کہا، ’’مجھے افسوس ہے کہ مَیں یہ مقدمہ نہیں لے سکتا، ہوسکتا ہے کہ یہ مقدمہ طول پکڑے اور یہ رقم ناکافی ہو۔ بہتر ہے کہ آپ کوئی اور وکیل کرلیں کیونکہ میرا اصول ہے کہ مَیں فی پیشی فیس لیتا ہوں‘‘۔ بہرحال قائدِاعظم ؒنے اپنی شرائط پر مقدمہ لڑا اور اپنی فراست سے مقدمہ تین پیشیوں میں ہی جیت لیا اور فیس کے صِرف پندرہ سو روپے وصول کیے۔ تاجر نے اس کامیابی کی خوشی میں پورے پانچ ہزار پیش کرنا چاہے تو قائدِاعظم نے جواب دیا، میں نے اپنا حق لے لیا ہے۔
قائد اعظمؒ اپنے عہدے اورپروٹوکول کا نہ خود فائدہ اٹھاتے تھے اور نہ ہی دوسروں کو اس کا موقع دیتے تھے۔ اسی لئے جب وہ قیام پاکستان کے بعد ملک میں منائی جانے والی پہلی عید کی نماز میں دیر سے پہنچے تو پہلی صف میں نماز پڑھنے کے بجائے پیچھے کی صف میں کھڑے ہوگئے۔ ہوا کچھ یوں کہ 25 اکتوبر1947ء کوعید الاضحیٰ کی نماز کے لیے قائد اعظم وقت مقررہ پر عید گاہ نہیں پہنچ پائے۔ اعلیٰ حکام نے مولانا ظہور الحسن درس کو مطلع کیا کہ قائد اعظم راستے میں ہیں ا س لئے نماز کی ادائیگی کچھ وقت کے لیے مؤخر کردیں۔ مولانا ظہور الحسن درس نے فرمایا میں قائد اعظم کے لیے نماز پڑھانے نہیں آیا ہوں بلکہ خدائے عزوجل کے لیے نماز پڑھانے آیا ہوں، چنانچہ انہوں نے صفوں کو درست کرکے تکبیر پڑھ دی۔ ابھی نماز عید کی پہلی رکعت شروع ہی ہوئی تھی کہ اتنے میں قائد اعظم بھی عید گاہ پہنچ گئے۔ قائد اعظم کے منتظر اعلیٰ حکام نے قائد سے درخواست کی وہ اگلی صف میں تشریف لے چلیں مگر قائد اعظم نے ان کی درخواست مسترد کردی اور کہا کہ میں پچھلی صف میں ہی نماز ادا کروں گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور قائد اعظم نے پچھلی صف میں نماز ادا کی۔ قائد اعظم کے برابر کھڑے نمازیوں کوجب پتہ چلا کہ ان کے برابر میں نماز ادا کرنے والا کوئی عام شہری نہیں بلکہ ریاست کا سربراہ ہے توان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔ بعد میں قائد اعظم نے مولانا ظہور الحسن کی تعریف کی کہ ہمارے علماء کو ایسی ہی جرأت اور کردار کا حامل ہونا چاہئے۔
قائد اعظم محمد علی جناح کی زندگی میں تعلیم کا اہم مقام تھا، اور ان کی شخصیت میں انتہائی اصولیت اور نظم کا اثر واضح تھا۔ وہ ایک انتہائی منصب شخصیت تھے جن کے اندر کمال کی تواضع اور اخلاقی اصولوں کا گہرا اثر تھا۔ قائد اعظم کی ایک اہم خصوصیت یہ تھی کہ وہ ہمیشہ اپنے مقاصد کے لئے محنت اور قرارداد کو ترجیح دیتے تھے، اور ان کی زندگی کا ہر پہلو ان کی ثابت قدمی اور نظم و ضبط کی عکاسی تھا۔ انہوں نے پاکستان کی تشکیل کے لئے بھی بے شمار مشکلات اور تنازعات کا سامنا کیا، لیکن ان کی قوت ارادہ اور ان کی تواضع نے انہیں منصفانہ راہ پر چلنے کا اہم سبب بنایا۔ ان کی زندگی کا ہر پہلو ایک مثالی نمونہ ہے کہ اصولوں، نظم و ضبط کی پیروی اور تواضع کے ساتھ کام کر کے ہم اپنے مقاصد کو حاصل کر سکتے ہیں اور اللہ تعالی ملک پاکستان کی عوام و خواص کو ایمانداری، دیانت، محنت اور لگن کے ساتھ کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہِ سید المرسلین (ﷺ)