قائد اعظم قوم کے نباض اور دانائے راز تھے

آمنہ خالد

کائنات کی گردشِ دوراں ہزاروں سال جاری رہتی ہے تو پھر ایک انسان پیدا ہوتا ہے۔ منتشر عوام کو قومی روپ میں ڈھالنے کے لیے بطلِ جلیل کا منظر عام پر آنا ایک معجزہ کہلاتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ معجزے روز روز نہیں ہوتے۔ وقت مدتوں کسی نابغۂ روزگار کی تلاش میں رہتا ہے اور پھر ایسا قائد منصہ شہود پر آتا ہے جو قوم کی آواز بن جاتا ہے۔ زمین کا وہ ٹکڑا کتنا خوش نصیب ہے جس پر کسی دیدہ ور کی آنکھ کھلتی ہے۔ مادرِ گیتی ایسے فرزندِ جلیل کو جنم دے کر خود بھی فخر محسوس کرتی ہے۔ جس قوم کو ایسا عظیم انسان میسر آجائے، اس کی خوش قسمتی کے کیا کہنے۔ محمد علی جناح ایسے ہی جلیل القدر انسانوں کی صف میں شامل ہیں۔ جن کی ذات پر براعظم پاک و ہند کے مسلمان فخر کر سکتے ہیں۔

قائد اعظم کی قیادت پر مسلمانان ہند کے بھروسے کا یہ عالم تھا کہ جولوگ انگریزی زبان سے ناواقف تھے وہ بھی پوری دل جمعی سے قائد کی تقریر سنا کرتے ان کا خیال ہی نہیں یقین بھی تھا کہ قائد اعظم جو بھی کہہ رہے ہیں وہ مسلمانوں کی بہتری کے لیے کہہ رہے ہیں، وہ اس لیے کہ قائد اعظم نے جو بھی کہا یا کہتے تو اس پر عمل درآمد بھی کرتے، وہ ایک کھرے اور سچے مسلمان تھے

قائد اعظم محمد علی جناح علامہ اقبال کے اس شعر کی تفسیر تھے کہ

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

وہ قوم کے نباض اور دانائے راز تھے۔ ایک نئی قوم کے بانی، مسلمانوں کے دلوں کی دھڑکن، انسانیت، شرافت، صداقت، امانت اور پیکرِ ایثار تھے۔ انھوں نے دوقومی نظریے کی تفہیم و ترویج کر کے مسلمانوں کی عروقِ مردہ میں خونِ زندگی دوڑا دیا۔ ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے 1930ء میں خطبہ الہٰ آباد میں مسلمانوں کے لیے ایک آزاد اور خود مختار مملکت کا جو خاکہ پیش کیا اس میں حقیقت کا رنگ بھرنے کے لیے محمد علی جناح کی ولولہ انگیز بصیرت کام آئی۔ اُن کا فلسفہ ٔ حیات کام، کام اور بس کام تھا۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن اور لارڈریڈ کلف نے یہ بات تسلیم کی کہ قائد اعظم محمد علی جناح کو کسی قیمت پر نہیں خریدا جا سکتا۔ وہ اولوالعزم انسان تھے۔ جس بات پر ڈٹ گئے کبھی پیچھے نہ ہٹے۔

تحریک پاکستان کو مہمیز لگانے میں اُن کا تاریخی کردار رہا۔ وہ بچپن ہی سے صاف شفاف شخصیت کے مالک تھے۔ قائد اعظم محمد علی جناح کی سیاسی زندگی کا آغاز زمانۂ طالب علمی میں ہی ہوگیا تھا۔ 1885ء میں کانگرس معرض وجود میں آئی۔ کانگرس نے ہندوستانیوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کی۔ قائد اعظم نے اس میں بڑے جوش و جذبہ کے ساتھ کام کیا۔

انگریز حکومت نے 1905ء میں ہندوؤں کو خوش کرنے کے لیے تنسیخ بنگال کا حربہ استعمال کیا۔ ہندوستان بھر میں مسلمانوں نے خوب احتجاج کیا۔ اس احتجاجی مہم کے نتیجہ میں 1906ء میں مسلم لیگ معرض وجود میں آئی۔ 1909ء میں مسلمانوں کا ایک وفد لندن روانہ ہوا۔ مسلمانوں کو جداگانہ تشخص مل گیا۔ منٹو مارلے اصطلاحات کے بعد انگریز حکومت نے 1911ء میں اپنا فیصلہ تبدیل کر لیا۔

صوبہ بمبئی کی کانگرس کمیٹی نے قائد اعظم کو صدر منتخب کر لیا لیکن جلد ہی کانگرس کا چہرہ منظر عام پر آگیا۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے حکومتی پالیسیوں کے خلاف کڑی تنقید کی۔ 1909ء میں آپ کو وائسرائے کی ایگزیکٹو کونسل کا ممبر بنا دیا گیا اور پاکستان بننے تک مرکزی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوتے رہے۔ انھوں نے مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے خود کو وقف کر لیا۔ حق گوئی و بے باکی کی وجہ سے مسلمان ان کی شخصیت سے بہت متاثر ہوئے۔

آپ بیس سال کانگرس میں رہے اور مسلمانوں کے حقوق کا دفاع کیا۔ ہندو لیڈروں نے پسِ پردہ مسلمانوں کے خلاف سازشوں کا جال بچھانے کی کوششیں شروع کر دیں۔ قائد اعظم نے محسوس کر لیا کہ کانگرس ایک فرقہ پرست جماعت ہے۔ اس کے پیش نظر صرف ہندوؤں کا مفاد ہے۔ اس تلخ حقیقت نے مجبور کیا کہ قائد اعظم کانگرس کو خیر باد کہہ کر مسلم لیگ کی از سر نو تنظیم سازی کریں اور مسلمانوں کو ایک مرکز پر اکٹھا کریں۔ 1934ء سے پہلے مسلم لیگ میں بے حد انتشار تھا۔ رجعت پسند مسلم لیگیوں نے بھی اُن کی راہ میں روڑے اٹکائے لیکن وہ اپنی دھن کے پکے تھے۔ آخر اُن کا عزم صمیم رنگ لایا اور قائد اعظم کی محنت سے مسلمان ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوگئے۔ دو قومی نظریے کا نعرہ بلند کیا جس سے کانگرسی لیڈر بوکھلا اُٹھے۔

پہلی جنگ عظیم 1914ء سے 1918ء تک جاری رہی۔ اس دوران قائد اعظم محمد علی جناح کی کوششوں سے مسلم لیگ اور کانگرس میں میثاق لکھنؤ 1916ء میں منظر عام پر آیا۔ قائد اعظم کی بصیرت سے مسلمان آزادی کی راہ پر گامزن ہوگئے۔

ڈاکٹر علامہ محمد اقبال دستور ساز اسمبلی کے ممبر منتخب ہوگئے۔ حکومت کا ہر حربہ ناکام نظر آنے لگا۔ 1928ء میں نہر و رپورٹ منظر عام پر آئی۔ نہرو کا دعویٰ تھا کہ یہ برصغیر پاک و ہند کے مسائل کا حل ہے۔ اس کے جواب میں 1929ء میں قائد اعظم محمد علی جناح کے چودہ نکات نے براعظم پاک و ہند کی سیاست میں ہلچل مچادی۔

ہندوؤں اور مسلمانوں میں سیاسی بے چینی نے حالات مزید خراب کر دیے۔ قائد اعظم محمد علی جناح کچھ عرصہ کے لیے لندن تشریف لے گئے۔ کانگرسی وزارتوں نے مسلمانوں پر ظلم و ستم کی انتہا کر دی۔ لیکن یہ اصول فطرت ہے کہ

ظلم حد سے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے

دوسری جنگ عظیم مسلمانوں کے لیے ایک نعمت ثابت ہوئی۔ انگریزوں کو مسلمانوں کی ضرورت پیش آگئی اور انھوں نے کانگرسی وزارتوں کے خاتمے کا اعلان کر دیا۔ قائداعظم محمد علی جناح کے کہنے پر مسلمانوں نے یوم تشکر منایا۔ قائد اعظم کی بصیرت کے سامنے ہندوؤں، سکھوں اور انگریزوں کی چال بازیاں دم توڑ گئیں۔

شاعرِ مشرق، ترجمان حقیقت، اقلیم سخن ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ ا لہٰ آباد میں مسلمانوں کے لیے ایک خودمختار مملکت کا مطالبہ کر دیا۔ علامہ محمد اقبال نے کہا کہ برصغیر پاک و ہند کے جن علاقوں میں مسلمان اکثریت میں ہیں ان پر مشتمل ایک آزاد ریاست ہونی چاہیے۔ چودھری رحمت علی نے اسے ''پاکستان'' کا نام دیا۔ جب یہ قرارداد ِ لاہور پیش کی گئی تو بیگم مولانا محمد علی جوہر نے اسے قراردادِ پاکستان قرار دیا۔ مارچ 1940ء قائد اعظم کی ولولہ انگیز قیادت میں اس قرارداد پر دستخط کیے گئے۔ تاریخِ پاک و ہند میں یہ ایک عظیم الشان مرحلہ تھا جب مسلمانوں نے متفقہ طور پر ایک الگ ریاست کا مطالبہ کیا۔ اس اجلاس کے بعد ہندو لیڈر مسلمانوں کی مخالفت پر میدان عمل میں آگئے۔

مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی، کے مصداق قائد اعظم کے عزم و استقلال میں جوش آتا گیا۔ محمد علی جناح اپنے مؤقف پر چٹان کی طرح ڈٹ گئے کیوںکہ انھیں اس کی سچائی کا پورا پورا یقین تھا۔ ہندوؤں، سکھوں اور انگریزوں نے کئی منافقانہ گُر استعمال کیے لیکن وہ مسلمانوں کے عظیم رہنما محمد علی جناح کی بصیرت تک نہ پہنچ سکے۔ وہ ہندو ذہنیت کوبخوبی سمجھتے تھے۔ قائد اعظم محمد علی جناح کی خواہش پر معروف صحافی حمید نظامی نے 23 مارچ 1940ء کو ''نوائے وقت'' کا اجراء کیا جس نے دو قومی نظریے کی ترویج کا فریضہ ادا کیا۔ ہندو پریس نے قراردادِ لاہور کو قرار داد ِ پاکستان قرار دے کر مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی شروع کر دی۔ قائد اعظم نے مسلم اکثریت کے مختلف علاقہ جات کا دور ہ کیا اور سب کو دعوت فکر دی۔

کانگرس کی نام نہاد کوششیں قائد اعظم کی راہ میں رکاوٹ نہ بن سکیں۔ قائد اعظم نے انگریزی حکومت کی ہر منفی چال کو دلائل سے ناک آوٹ کر دیا۔ قائداعظم اکیلے سوئے منزل چلے تھے کہ ان کے کارواں میں بہت سے مخلص لوگ شامل ہوگئے۔ 2 مارچ 1942ء کو قائد اعظم نے واضح کر دیا کہ ہمارا مقصد حصولِ پاکستان ہے۔ انھوں نے نوجوانوں پر زور دیا کہ ''سب سے پہلے آپ کو تعمیر قوم کی ادارت میں محنت کی داد دینا ہوگی آپ پوچھیں گے یہ ادارت کون سے ہیں او رکیا ہیں ؟ لیجیے میں آپ کو بتاتا ہوں دنیا میں کم از کم تین ستون، رکن ایسے ہیں جو کسی قوم کو صاحب مملکت اور لاحقی حکومت بننے کا حق دار ٹھہراتے ہیں۔ ان میں سے ایک تعلیم ہے۔ تعلیم کے بغیر آپ اسی حالت میں ہوں گے جیسا کہ کل رات پنڈال کے اندر اندھیرے تھے اور اگر تعلیم ہوگی تو آپ کی کیفیت اس وقت کی سی ہوگی کہ روزِ روشن میں بیٹھے ہیں۔ ہمیں اس بات کی ضرورت نہیں کہ دوسروں کو دھمکیاں دیں اس کی وجہ کیا ہے ؟ سنیئے یہ ایک سیدھا سا معاملہ ہے کہ ہم نے اپنے مدعا کی بنیاد، دیانت، انصاف اور صداقت پر رکھی ہے تو یہ ہوئی پہلی وجہ اور دوسری وجہ یہ ہے کہ وہ لوگ جو طاقتور ہوتے ہیں اپنے آپ پر بھروسہ کرنا سیکھ لیتے ہیں۔''

سوئے منزل چلتے ہوئے قائد اعظم محمد علی جناح اور اُن کے ساتھی کسی مرکز پر بھی نہ رکے۔ قائد اعظم نے اپنی صحت کی پروا کیے بغیر سفر جاری رکھا۔ آخر اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مسلمانوں کو فتح و نصرت حاصل ہوئی۔ 14 اگست 1947ء کو پاکستان معرض وجود میں آیا۔ 26 اور 27 رمضان المبارک کو تلاوتِ قرآن پاک کی گونج میں پاکستان دنیا کے نقشے پر نمودار ہوا۔ قیام پاکستان ایک معجزہ سے کم نہیں تھا۔ وہ قوتیں جو تصور پاکستان کو مضحکہ خیز کہا کرتی تھیں، انھیں منہ کی کھانا پڑی۔

11 اکتوبر1947ء کو سرکاری افسروں سے خطاب کرتے ہوئے بانیٔ پاکستان نے کہا ''جس پاکستان کے قیام کے لیے ہم نے گزشتہ دس برس جدوجہد کی ہے، آج بفضل تعالیٰ ایک مسلمہ حقیقت بن چکا ہے، مگر کسی قوم کا ریاست کو معرض وجود میں لانا مقصد بالذات نہیں ہو سکتا، بلکہ کسی مقصد کے حصول کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ ہمارا نصب العین یہ تھا کہ ہم ایک ایسی مملکت کی تخلیق کریں جہاں ہم آزاد انسانوں کی طرح رہ سکیں، جو ہماری تہذیب و تمدن کی روشنی میں پھلے پھولے او رجہاں معاشرتی انصاف کے اسلامی تصور کو پوری طرح پنپنے کا موقع ملے۔''

قائدا عظم نے پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کی حیثیت سے ان تھک کام کیا۔ دن رات کام کرنے سے اُن کی صحت خراب ہوگئی۔ اُن کو زیارت ( کوئٹہ کے قریب ایک صحت افزا مقام ) پر لے جایا گیا، لیکن وہ صحت یاب نہ ہو سکے۔ ڈاکٹر وں نے مشورہ دیا کہ انھیں حکومت کے کام چھو ڑ دینے چاہیے، لیکن ان کی ہمت نے یہ گوارا نہ کیا اور بیماری کے عالم میں بھی وہ ضروری امور طے کرتے رہے اور احکام صادر فرماتے۔ آخر کار ان کی صحت نے بالکل جواب دے دیا تو انھیں کراچی لایا گیا اور 11 ستمبر 1948ء کو اسلام کا مخلص خادم ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہم سے رخصت ہوگیا۔

اِنَّا لِلّٰہ وَاِنآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْن

آپ نے پاکستان کی پہلی سالگرہ کے موقع پر 14 اگست 1948ء کو قوم کے نام اپنے پیغام میں فرمایا: ’’یاد رکھیے کہ قیام پاکستان ایک ایسی حقیقت ہے جس کی تاریخِ عالم میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ تاریخِ عالم کی عظیم ترین مسلم مملکتوں میں اس کا شمار ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ اس کو اپنا شاندار کردار ادا کرنا ہے۔صرف شرط یہ ہے کہ ہم دیانت داری، خلوص اور بے غرضی سے پاکستان کی خدمت کرتے رہیں۔ مجھے اپنی قوم پر اعتماد ہے کہ وہ ہر موقع پر خود کو اسلامی تاریخ، عظمت اور روایات کا امین ثابت کرے گی۔‘‘

آج قیام پاکستان کو 70 سال کا عرصہ گزر چکا ہے،اس دوران ہم نے قائد اعظم کی ہدایت اور خواہش کے مطابق قومی اور بین الاقوامی امور میں کیا وہی کردار ادا کیا ہے جس کی قائد اعظم ہم سے توقع رکھتے تھے؟ اس سوال پر ہم کو بحیثیت قوم ضرور غور کرنا چاہیے۔