مرتبہ: نازیہ عبدالستار
حضور نبی کریم ﷺ نے جب مدینہ ہجرت فرمائی تو 11 ماہ تک بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے رہے۔ حضور علیہ السلام مسجد قبلتین میں نماز پڑھا رہےتھے۔ آپ ﷺ کی خواہش تھی کہ اجازت ملے تو مکہ مکرمہ والے کعبہ کو قبلہ بنالیں۔ ابھی یہ کیفیت ہوئی تھی کہ حالت نماز میں حکم آگیا کہ مکہ مکرمہ والے قبلہ کی طرف منہ پھیر لیں۔کیونک مکہ مکرمہ اور بیت المقدس کی سمتیں بالکل متضاد ہیں۔ جب نماز شروع ہوئی تو رخ بیت المقدس کی طرف تھا اور صحابہ آپ ﷺ کے پیچھے نماز ادا کررہے تھے۔ جب حکم آیا کہ قبلہ رخ بدل دیجئے تو جب رخ بدلا تو امام اور مقتدیوں کا رخ آمنے سامنے ہوگیا۔ ایک عجیب سی صورتحال پیدا ہوگئی۔ پھر صحابہ کرامؓ نے چہرے پھیرے۔ آقا علیہ السلام آگے ہوئے اور مقتدی پیچھے ہوئےجب قبلہ نہیں بدلہ تھا تویہودی بات بات پر طعنہ دیتے کہ مسلمانوں کی ہر شے جدا ہے تومسلمانوں کا قبلہ جدا کیوں نہیں۔ جب قبلہ بدل لیا تب بھی طعنہ دیتے لو جی قبلہ ہی بدل لیا۔ طعنہ زنی کرنے والےکبھی بھی پیچھا نہیں چھوڑتے۔
قرآن مجید نے اپنا کلام یہاں سے شروع کیا ہے:
سَیَقُوْلُ السُّفَهَآءُ مِنَ النَّاسِ مَا وَلّٰهُمْ عَنْ قِبْلَتِهِمُ الَّتِیْ کَانُوْا عَلَیْهَا.
(البقرة، 2: 142)
’’اب بیوقوف لوگ یہ کہیں گے کہ ان (مسلمانوں) کو اپنے اس قبلہ (بیت المقدس) سے کس نے پھیر دیا جس پر وہ (پہلے سے) تھے۔‘‘
جب قبلہ بدل گیا تو قرآن میں ہے کہ بے وقوف لوگ عنقریب یہ طعنہ دیں گے کس چیز نے انہیں قبلہ بدلنے پر مجبور کردیا۔ اب قبلہ تو حضور علیہ السلام کے عمل سے بدلا تھا۔ صحابہ کرامؓ نے تو حضور علیہ السلام کے عمل پاک کی پیروی کی تھی۔
حضور علیہ السلام پر طعن، تنقید اور الزام کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے الناس کہنا بھی پسند نہیں فرمایا بلکہ ان کو سیقول السفھاء کہا اس سے مراد وہ ہیں جن کی مت ماری گئی ہے۔ عنقریب بیوقوف لوگ یہ کہیں گے تو قرآن مجید نے عقل مندی اور بے عقلی کا معیار مقرر کردیا جو شخص حضور علیہ السلام پر طعن اور الزام لگاتا ہے کہ رسول ﷺ نے یہ کیوں کیا؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: حضور ﷺ کے ذکر پر کیوں کرنے والے سے بڑا بے عقل کوئی نہیں اسی کی مت ماری گئی ہے۔ عقل مند وہ ہے جو در رسول پر عقل کو قربان کردے۔ دانش رسول ﷺ پر اپنی دانش کو قربان کردے اور جو آقا علیہ السلام کی سنت کے سامنے اپنی عقل و دانش کے چراغ جلانا چاہے وہی بے عقل ہے۔ یہودیوں نے کیونکہ حضور علیہ السلام پر اعتراض کیا مگروہ طبی اعتبار سے پاگل تو نہیں تھے مگر دنیاوی اعتبار سے عقل مند ہوکر بھی قرآن نے انھیں پاگل کیوں کہا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ پاگل اس لیے کہا کیوں کہ وہ حضور علیہ السلام پر طعن کرتے تھے۔ اللہ پاک نے فرمایا جس کی عقل ہمارے حبیب ﷺ پر تنقید کرے ہمارے ہاں وہ عقلمند ہی نہیں۔
اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے فرمایا: اے میرے محبوب انھیں فرمادیں ان کا انحصار رسم پر ہے ۔ ہمارا انحصار حکم پر ہے۔ مگر افسوس اس بات کا ہے کہ آج ہمارا حال یہ ہے کہ وعظ و نصیحت صرف مسجد کے لیے رہ گیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں جواللہ کا حکم ہے اس کو مسجد میں ہی رہنا چاہیے۔ شریعت کی بات پاک چیز ہے اس کو مسجد میں رہنا چاہیے گھر میں داخل نہیں ہونا چاہیے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارےگھر کا نظام برادری کی رسم پر چلے اگر مسجد کا امام تھوڑی سی مرضی کر لے تو اس کی شامت آتی ہے جب کہ ہماری ساری زندگی بھی اصل راہ سے ہٹی ہوئی ہو اور ہمیں پوچھنے والا بھی کوئی نہیں اس لیے کہ ہم مسجد کے امام کو تنخواہ دیتے ہیں۔ سوچ یہ ہوگئی کہ تنخواہ دے کر نہ صرف امام بلکہ پورا دین خرید لیا ہے۔
ہماری خواہش یہ ہوتی ہے کہ لوگ ہمارے مطابق چلیں مگر ہماری زندگی اللہ کے امر کے مطابق نہ چلے۔ جب تک ہم اس سوچ کے بت کو نہیں توڑتے تب تک ممکن نہیں کہ ہماری زندگی میں انقلاب آسکے۔ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی رضا کی راہ پر چل سکیں۔ ہمیں اپنے آپ کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے تابع کرنا ہوگا۔ اپنی ذاتی پسند اور ناپسند کے بتوں کو توڑنا ہوگا۔ شادی کا وقت آتا ہے تو پتہ ہوتا ہے کہ یہ چیز جائز ہے اور یہ ناجائز ہے مگر کرتے وہی ہیں جو ناجائز ہے اگر نہیں کریں گےتو برادری میں ناک کٹ جائے گی۔ ہمیں برادری کے سامنے ناک کی فکر ہے اس بارگاہ کی فکر نہیں جس کے سامنے پیش ہونا ہے۔ وہاں پوچھا جائے گا کہ تمہیں کچھ کرنے کو کہا تھا وہ کرکے آئے ہو یا نہیں جبکہ ہماری تمام خوشیاں رسم و رواج کے مطابق ہیں دین کے مطابق نہیں۔ دین کے مطابق صرف دو،چار مرلہ یا کنال کی مسجد ہے باقی ساری زندگی کفر و جہالت کے تابع ہے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ ہماری زندگیوں میں کتنا تضاد آگیا ہے۔
اللہ رب العزت نے یہودیوں کے بارے میں فرمایاکہ آپ ﷺ ان کو کہہ دیں کہ تم رسم کے پیرو بنو ہم اللہ کے امر کے پیرو ہیں۔ دین امر کی پیروی کا نام ہے۔ علماء کا وقار معاشرہ میں جتنا بلند ہوگا۔ اتنا دین کا وقار اتنا بلند ہوگا۔
وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰـکُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُهَدَآءَ عَلَی النَّاسِ.
(البقرة، 1: 142)
’’اور (اےمسلمانو!) اسی طرح ہم نے تمہیں (اعتدال والی) بہتر امت بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو۔‘‘
اے امت مسلم ہم نے تمہیں اعتدال پر چلنے والی امت بنایا اسی وجہ سے تمہیں افضل امت بنایا لہذا تم اپنی زندگی میں توازن پیدا کرو اس توازن سے اپنے اندر حسن و نکھار پیدا کروتاکہ تم پوری انسانیت کی پیشوائی کرنے لگو۔ تمہیں عالم انسانیت پر گواہی کا مرتبہ عطا کیا گیا ہے ۔ تمہارا قول انسانیت پر گواہی کا درجہ رکھتا ہے۔ تاحال یہ بلندی کا مقام امت محمدی ﷺ کو کیسے ملے گا؟ اس کا جواب ہے جب امت اپنے آپ کو نگہبانی مصطفی ﷺ میں دے دے گی۔ اپنی زندگی کے تمام رخ مٹا کر اس رخ کو اپنالیں جس رخ پر حضور علیہ السلام مسکراتے ہیں۔ ہم اس راہ پر نہیں اس لیے دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ جس راہ سے عزت و وقار اور بلندی ملنی تھی ہم نے اس کو چھوڑ دیا وہ راستہ حضور علیہ السلام کی اتباع کا راستہ تھا۔ خود کو سپردگی رسول ﷺ میں دے دینے کا راستہ تھا۔
وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِیْ کُنْتَ عَلَیْهَآ اِلَّا لِنَعْلَمَ.
(البقرة، 2: 143)
’’ اور آپ پہلے جس قبلہ پر تھے ہم نے صرف اس لیے مقرر کیا تھا کہ ہم (پرکھ کر) ظاہر کر دیں۔‘‘
یہ قبلہ جس پر آپؐ پہلے یعنی مکہ کی زندگی میں تھے بیت المقدس سے پھیر کر خانہ کعبہ کی طرف کردیا اس کی وجہ صرف ایک تھی۔
اِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ یَّتَّبِعُ الرَّسُوْلَ مِمَّنْ یَّنْقَلِبُ عَلٰی عَقِبَیْهِ.
(البقرة، 2: 143)
’’کون (ہمارے) رسول (a) کی پیروی کرتا ہے (اور) کون اپنے الٹے پاؤں پھر جاتا ہے۔‘‘
اس آیت میں اللہ تعالی فرما رہے ہیں ہم نے قبلہ اس لئے بدلا کہ ہم ایمان پر چلنے والوں کی آزمائش کرنا چاہتے تھے۔ ایمان والوں کا امتحان لینا چاہتے تھے فرمایا ہم نے حالت نماز میں اچانک قبلہ بدلنے کا حکم اس لیے دیا ہم دیکھنا چاہتے تھے کہ کون آپ ﷺ کی طرف آتا ہے کون قبلہ کی طرف جاتا ہےتاکہ ہم جان سکیں تیرے صحابہ ایمان کا مدار کس چیز پر رکھتے ہیں تیری نسبت پر رکھتے ہیں یا قبلہ پر رکھتے ہیں لہذا ادھر نسبت مصطفی ﷺ ہوگئی ادھر نسبت بیت اللہ ہوگی۔ اب دیکھنا یہ تھا کہ وہ ایمان نسبت مصطفی ﷺ کو سمجھ رہے ہیں یا نسبت بیت اللہ میں سمجھ رہے ہیں۔ اس وقت ایمان کی آزمائش تھی یقیناً یہ گھڑی بڑی دشوار تھی صحابہ کرامؓ کے لیے یہ فیصلہ کرنا دشوار لمحہ تھا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے صحابہ اکرام کو ہدایت سے نوازا تھا، پس سمجھ گئےکہ ایمان اس طرف ہے جس طرف چہرہ مصطفی ﷺ ہےبقول شاعر۔
جس طرف وہ نظر نہیں آتے ہم وہ رستہ ہی چھوڑ دیتے ہیں
کعبہ بنتا ہےاس طرف ریاض جدھر وہ رخ موڑ لیتے ہیں
ان کو سمجھ آگئی کہ ہماری اپنی نسبت اور واسطہ ہی قبلہ سے کیا ہے؟ آقا ﷺ کا چہرہ جدھر ہے قبلہ وہی ہے۔
میری زندگی بھی عجیب ہے میری بندگی بھی عجیب ہے
جہاں مل گیا تیرا نقش پا وہیں میں نے کعبہ بنالیا
اللہ نہیں چاہتاکہ تمہارا ایمان ضائع ہو جائے اس نے ہدایت دی جو نمازیں ادھر پڑھی گئیں وہ بھی قبول ہوگئیں۔ یہ بھی ہدایت دی کہ سب ادھر (مکہ کی جانب) پھرگئے۔
پہلی آیت میں بات پرائیوں کی تھی۔ دوسری آیت میں بات اپنوں کی ہے تیسری آیت میں اللہ نے اپنی بات کی ہے۔
قَدْ نَرٰی تَقَلُّبَ وَجْهِکَ فِی السَّمَآءِ.
(البقرة، 2: 144)
’’(اے حبیب!) ہم بار بار آپ کے رُخِ انور کا آسمان کی طرف پلٹنا دیکھ رہے ہیں۔‘‘
اب تیرے چہرے کا بار بار پلٹنا ہم نے دیکھ لیا ہے۔ ترتیب و تقدیم بتاتی ہے تیرا چہرہ بعد میں پلٹا ہے ہم پہلے ہی تک رہے ہیں اگر تو ہمیں بار بار دیکھتا ہے ہم بھی تو تیری طرف دیکھ رہے ہیں۔ حضور علیہ السلام طائف گئے لوگوں نے پتھر مارے، جسم پاک لہولہان کردیا۔ لوگوں نے طعنہ زنی کی۔ مسجد میں جاتے تو لوگ بوجھ ڈال دیتے جہاں جاتے لوگ تنگ کرتے بتقاضاۓ بشریت دکھی دل سے واپس تشریف لاتے ہوں گے۔ قلب اطہر پر بوجھ ہوتا ہو گا کہ میں انہیں برائی سے بچاتا ہوں یہ میرے ساتھ کیا کرتے ہیں اللہ پاک نے بوجھ ختم کرنے کے لیے آیت مبارکہ نازل فرما دی ۔
فَاصْبِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ.
( الانسان، 76: 24)
’’سو آپ اپنے ربّ کے حکم کی خاطر صبر (جاری) رکھیں۔‘‘
اے میرے محبوب اپنے رب کی خاطر صبر کریں اگر وہ تمہیں پتھر مارتے ہیں انھیں نہ دیکھئے ہمیں دیکھ ہماری نگاہیں تو تیری طرف لگی ہوئی ہیں۔میرے محبوب موازنہ کر لے ان کے پتھر زیادہ بھاری ہیں یا ہمارا تکنا آپ کو زیادہ محبوب ہے۔زبان حال سے یہ نکلتا ہے۔
مجھے اس کا غم نہیں کہ بدل گیا زمانہ
میری زندگی ہے تم سے کہیں تم بدل نہ جانا
جواب یہ بنتا ہےاگر یہ کفار ہزار پتھر تو کیا ایک لاکھ بھی مار لیں تیری نگاہ پر منظور ہیں۔ اے محبوب! اگر تیری خواہش کعبہ کو قبلہ بنانے کی ہے تو ہم تو پہلے ہی فرما چکے ہیں مشرق و مغرب کی تمام سمتیں اللہ تعالی کی ہیں مشرق کی طرف منہ کرکے نماز پڑھ لیں یا مغرب کی طرف میری خدائی میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ میری خدائی تو سمتوں سے بے نیاز ہےمیری تو ساری خدائی تیرے لیے ہےتو جس قبلہ کی طرف راضی ہے ہم قبلہ رخ اسی طرف پھیر دیتے ہیں ہم نے تو قبلہ سے کچھ لینا دینا نہیں۔ لینا تو صرف یہ کہ تو راضی ہو جائے۔ اے میرے محبوب اپنا چہرہ مسجد حرام کی طرف کر لیں مسلمانوں تم بھی جہاں کہیں بھی ہو اپنا چہرہ مسجد حرام کی طرف پھیر لو قبلہ بدل لینے کا حکم تین آیات کے ساتھ مکمل ہوگا۔ اس آیات کو دوبارہ بیان کرنے کی کوئی حاجت نہیں تھی۔
تقلب ایک سے زائد بار ہٹنے کو کہا جاتا ہےاگر آقا علیہ السلام کا چہرہ ایک باراٹھتا تو حکم بھی ایک بار کافی ہوتا۔ حضور بار بار چہرہ اٹھاتے رہے۔ رب نے کہا اے محبوب جتنی بار تیرا چہرہ اٹھا ہے اتنی بار تیرے چہرے کی بات کروں گا۔ ایک بار بھی تیرا چہرہ خالی نہ جائے۔ اب یہ تو اس کو سمجھ آئے جس کا دل محبت مصطفی ﷺ سے آشنا ہو۔ بعض فلسفیانہ گفتگو کرتے ہیں کہتے ہیں کہ تم نعمتیں سنتے ہو سر دھنتے ہو اس میں کیا رکھا ہے۔ انہیں چاہیے کہ وہ مولا سے پوچھیں کہ محبوب ﷺ کے چہرے میں کیا رکھا ہے وہ بار بار کہتا ہے اپنا چہرہ پھیر لیں ہم تیرا چہرہ دیکھ رہے ہیں۔ دل کی باتیں وہ شخص کیا سمجھ سکتا ہے جنہیں دل ہی میسر نہیں ہے۔ اس نکتہ میں یہ سمجھانا مقصود ہے کہ ایمان کا مرکز و محور رضا رسول ﷺ ہے۔ رضا رسول ﷺ ہی امر الہٰی ہے۔
جو قوم آپ ﷺ کے اسوہ کو اپنا اوڑھنا بچھونا نہیں بناتی۔ کامیابی کے زینے نہیں طے کرسکتی۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ حالات و تقدیر بدل جائے تو ہمیں تمام تر چاہتوں اور سمتوں کو ختم کرکے ایک سمت کو اپنانا ہوگا۔ وہ سمت رضائے اتباع رسول ﷺ ہےاور محبت رسول ﷺ ہے جو رسول ﷺ تمہیں دیں وہ لے لو اور جس چیز سے منع کریں رک جائیں۔ یہ متاع ایمان ہے اگر ہماری زندگی کے تمام شعبے عملی طور پر محبت رسول ﷺ کو ایک زندہ حقیقت بنالیں۔ اس سے مراد ایسی حقیقت کہ ہماری زندگی کی چکی اتباع رسول ﷺ سے گھومے۔ لہذا جب تک رسول ﷺ کی محبت ایک زندہ حقیقت نہیں بن جاتی اس وقت تک امت محمدی کی تقدیر نہیں بدل سکتی۔
آج ہم در بدر دھکے کھا رہے ہیں ہم نے حضور ﷺ کی چوکھٹ کا راستہ چھوڑ کر غیروں کے دروازے پر سجدہ ریزیاں شروع کررکھی ہیں۔ لہذا امت مسلمہ کی مشکلات و پریشانیوں کا حل صرف و صرف حضور علیہ السلام کی سنت و سیرت پر عمل پیرا ہونے میں مضمر ہے۔