ماہ ربیع النور میں محبوب سبحانی حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ اقدس میں اس سے خوبصورت کوئی تحفہ نہیں ہوسکتا کہ اس ماہ میں آپ ﷺ کی سنت مبارکہ کو زندہ کیا جائے اور اپنی روزمرہ زندگی میں انہیں اپنایا جائے۔
قرآن مجید کے ساتھ سنت نبویہ ﷺ کوقبول کرنےکی تاکید وتوثیق کے لیے قرآن مجید میں بے شمار قطعی دلائل موجود ہیں۔ اور سنت رسول ﷺ ہی انسانیت کےلیے ایک عظیم مشعل راہ اور نمونۂ عمل ہے۔ جس طرح عبادات (نماز، روزہ، حج وغیرہ) میں اتباع سنت مطلوب ہے اسی طرح زندگی کےہر موڑ پر اخلاق وکردار، کاروبار، حقوق العباد اور دیگر معاملات میں بھی پیغمبر اسلام ﷺ کی حیات اقدس کوبطور نمونہ اپنانا ضروری ہے۔ کیوں کہ دنیا وآخرت کی کامیابی کا راز اسی میں پوشیدہ ہے۔
مسلمانوں کو اپنی یومیہ زندگی میں جس بات کا سب سے زیادہ اہتمام کرنا چاہئے وہ ہے اپنی حرکات و سکنات میں رسول اکرم ﷺ کی سنت پر عمل کرنا اور صبح سے لے کر شام تک اپنی پوری زندگی کو آپ ﷺ کے طریقے کے مطابق منظم کرنا۔
حضرت ذوالنون المصریؒ کہتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ سے محبت کی علامات میں سے ایک علامت یہ ہے کہ انسان رسول اللہ ﷺ کی عادات، ان کے افعال، انکے احکام اور ان کی سنتوں کی پیروی کرے۔‘‘
’’تمہا رے لیے رسول اللہ ﷺ (کی سیرت) میں عمدہ نمونہ موجود ہے اس شخص کے لیے جو اللہ اور روزِ آخرت کی اُمید رکھتا ہے (اللہ کے ثواب، اس کی ملاقات اور نعمتِ آخرت کا امیدوار ہے) اور اللہ کو بہت یاد کرتا ہے۔‘‘
(سورۃ الاحزاب : 21)
طہارت کی حالت میں رہنے کے لئے سونے سے پہلے وضو کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ سوتے وقت، ہماری روح اللہ کے تخت پر اٹھ کھڑی ہوتی ہے اور اگر ہم وضو کی حالت میں ہیں تو، ہماری جانوں کو اللہ کے سامنے سجدہ کرنے کی اجازت ہوگی
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ :
’’جس شخص نے میری سنت کو محبوب رکھا اس نے مجھ کو محبوب رکھا اور جس نے مجھ کو محبوب رکھا وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا۔‘‘
(مشکوٰة، ج : 1، ص: 30)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ :
’’میری اُمت کے بگڑنے اور فساد کرنے کے وقت جس شخص نے میری سنت کو مضبوطی سے پکڑا اُس کو سو (100) شہیدوں کا ثواب ملے گا۔‘‘
( مشکوٰة، 1: 30 )
حدیث پاک میں ہے کہ جس نے میری سنت کی حفاظت کی تو اللہ تعالیٰ چار باتوں سے اس کی تکریم کرے گا:
1- نیک لوگوں کے دلوں میں اس کی محبت پیدا کرے گا
2- فاجر بدکار لوگو ں کے دلوں میں ہیبت ڈال دے گا
3- رزق میں کشادگی کرے گا
4- دین میں پختگی نصیب فرمائے گا
(شرح شرعة الاسلام لسید علی زادہ، ص: 8)
مسلمانوں کو اپنی یومیہ زندگی میں جس بات کا سب سے زیادہ اہتمام کرنا چاہئے وہ ہے اپنی حرکات و سکنات میں رسول اکرم ﷺ کی سنت پر عمل کرنا اور صبح سے لے کر شام تک اپنی پوری زندگی کو آپ ﷺ کے طریقے کے مطابق منظم کرنا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جب غصہ آئے تو اگر کھڑے ہو تو بیٹھ جاؤ اور اگر بیٹھے ہو تو لیٹ جائو، غصہ جاتا رہے گا۔ سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ باغ میں پانی دے رہے تھے، ایک شخص نے ایسی حرکت کی کہ نالی کی پال ٹوٹ گئی اور پانی باہر نکل کربہنے لگا۔ حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کو غصہ آیا، مگر فوراً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد یاد آگیا، آپ ؓ کیچڑ اور پانی میں بیٹھ گئے، سارے کپڑے لت پت ہوگئے، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادِ گرامی کی تکمیل میں تاخیر برداشت نہیں کی۔ (مسند امام احمد)
حضرت عبداللہ بن عمرؓ جب مدینہ پاک سے مکہ مکرمہ جاتے تو ایک درخت کے نیچے آرام فرمایا کرتے تھے، کسی نے اس کی وجہ پوچھی تو آپؓ نے فرمایا کہ: میں نے آپ ﷺ کو یہاں آرام فرماتے دیکھا تھا، اس لیے میں بھی آپ ﷺ کی اتباع کرتا ہوں۔ حضرت نافع رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: حضرت ابن عمر رضی اللہ عنھما حضور ﷺ کی بے حد اتباع کرتے تھے، ایک درخت کے نیچے آپ ﷺ نے آرام فرمایا تھا، آپ ﷺ اس درخت کی بڑی نگہداشت کرتے اور اسے پانی دیا کرتے تھے، تاکہ وہ خشک نہ ہوجائے۔ (کنزالعمال)
امام اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ نے خواب میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی زیارت کی اور فرمایا کہ: اے عبدالرحمٰن! امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتے رہو۔ میں نے عرض کیا: یا اللہ! آپ کے فضل و کرم سے کرتا ہوں، پھر میں نے کہا: اے رب! مجھے اسلام پر موت نصیب فرما، تو ارشاد ہوا: ’’ وعلی السنۃ‘‘ اور سنت پر موت آئے، اس کی بھی دعا کرو۔ (تلبیسِ ابلیس، فتاویٰ رحیمیہ)
دعا ہے کہ اللہ پاک ہم سب مسلمانوں کو پوری زندگی سنتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آیئے اب محنت کرتے ہیں اور سیکھتے ہیں کہ سنت رسول ﷺ کو اپنی زندگیوں کا حصہ کیسے بنائیں۔
روزمرہ کی زندگی میں چند آسان سنتوں کی پیروی
ہم روزمرہ کی زندگی میں جو کام کرتے ہیں اور جن جن چیزوں سے ہمارا روز واسطہ پڑتا ہے ان کاموں کو ہم حضرت محمد مصطفٰی ﷺ کی سنت پر عمل پیرا ہوکر بھی انجام دے سکتے ہیں۔ ان میں سے کچھ کام ذیل میں بیان کئے گئے ہیں۔ آیئے اس ماہ مبارکہ میں ان پر عمل کرتے ہیں۔
1۔ سنت کے مطابق کسی بھی کام کا آغاز کرنا
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کسی بھی چیز کا آغاز کرنے سے پہلے پڑھی جاتی ہے۔ یہ کھانے، پینے یا جائز کام کرنے سے پہلے پڑھی جاتی ہے۔ پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ ہمیشہ کچھ بھی کرنے سے پہلے بسم اللہ کی تلاوت کرتے تھے کیونکہ اس سے کام میں برکت ہوتی ہے۔ آپ ﷺ بسم اللہ کے ساتھ خطوط لکھنا شروع کرتے اور بسم اللہ کے مبارک الفاظ سے ہی معاہدہ حدیبیہ بھی لکھا۔ جب ہم بسم اللہ کے بابرکت الفاظ سنتے ہیں تو ہم قبول کرتے ہیں کہ ہم بحیثیت انسان کمزور ہیں اور ہمیں ہر معاملے میں اللہ کی مدد کی ضرورت ہے۔ وہ عمل جو ان مبارک الفاظ کے بغیر انجام دیا جاتا ہے، وہ نامکمل رہتا ہے۔
2۔ بیت الخلا میں داخل ہونے اور نکلنے کی دعا پڑھنا سنت رسول ﷺ ہے
جو شخص بیت الخلا میں جانا چاہے، اُسے مسنون ذکر کرنا چاہیے۔
حضرت انس رضی الله عنه سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب بیت الخلا جاتے تو یہ کہتے:
اَللّٰھُمَّ إِنِّي أَعُوذُبِکَ مِنَ الْخُبُثِ وَالْخَبَائِثِ
(صحیح بخاری،مسلم)
’’اے اللہ! میں تیری پناہ میں آتا ہوں خبیث جنوں اور خبیث جنیوں سے۔‘‘
یوں آدمی مذکر اور مؤنث شیطانوں کے شر سے پناه میں آجاتاہے۔
3۔ سنت کے مطابق سونا
نیند موت کی طرح ہے۔ ہمیں سونے سے پہلے اپنے گناہوں سے توبہ کرنی چاہئے کیونکہ ہمیں نہیں معلوم کہ کیا ہم ایک دن اور زندہ رہنے کے لئے آنکھیں کھول سکیں گے کہ نہیں۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سونے سے پہلے اللہ کی تعریف کرتے تھے۔ ہمیں ان کے سونے کے راستے پر نگاہ ڈالنی چاہئے اور ان کی سنت پر عمل کرنا چاہئے۔
طہارت کی حالت میں رہنے کے لئے سونے سے پہلے وضو کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ سوتے وقت، ہماری روح اللہ کے تخت پر اٹھ کھڑی ہوتی ہے اور اگر ہم وضو کی حالت میں ہیں تو، ہماری جانوں کو اللہ کے سامنے سجدہ کرنے کی اجازت ہوگی۔۔
پپیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ ہمیشہ سونے سے قبل دعائیں پڑھتے اور ہمیشہ دائیں طرف سوتے۔ وہ کبھی بھی اپنے پیٹ کے بل لیٹ کر نہیں سوتے تھے اور اگر کسی کو ایسی حالت میں سوتا ہوا دیکھتے تو پریشان ہوجاتے۔
4۔ نیند سے جاگنے کی سنت
جاگنا اللہ کی طرف سے ایک نعمت ہے۔ جاگنے پر، اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے، ایک دن اور زندہ رہنے کے لئے اس کا شکر گزار ہونا چاہئے اور اس کی یاد میں دن گزارنے کے بارے میں سوچنا چاہیے اور پیغمبر اسلام ﷺ کی سنت کی پیروی کرنی چاہئے۔ جاگنے پر وہ وضو کریں یہ سنت ہے، دانت صاف کرنے کے لئے مسواک کا استعمال کریں۔
5۔ خوشگوار مسکراہٹ بھی سنت ہے
مسکرانا پیغمبر اسلام ﷺ کی سنت ہے۔ وہ ہمیشہ اپنی خوبصورت اور مبارک مسکراہٹ کے ساتھ اسلام کے دائرے میں لوگوں کو مسکراتے ہوئے خوش آمدید کہتے۔ مسکرانے کی عادت ڈالیے اور سنتِ رسول ﷺ کو زندہ کیجئے۔
6۔ وصیت لکھ رکھنا مسنون ہے
وصیت لکھ کر تیار رکھنا ہر مسلمان کے لیے مسنون ہے، خواہ وہ تندرست ہو، یا بیمار۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’کسی مسلمان شخص کو جس کے پاس کوئی ایسی چیز ہو جس کی وصیت کرنا چاہتا ہو، اُسے یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ دو راتیں اس طرح بسر کرے کہ اُس کی وصیت اُس کے پاس لکھی ہوئی موجود نہ ہو۔‘‘
(صحیح بخاری، صحیح مسلم)
’’میری اُمت کے بگڑنے اور فساد کرنے کے وقت جس شخص نے میری سنت کو مضبوطی سے پکڑا اُس کو سو (100) شہیدوں کا ثواب ملے گا۔‘‘
(مشکوٰة: 1: 30 )
دو راتوں کا ذکر وقت کی حد بندی کے لیے نہیں، مراد یہ ہے کہ جتنی جلدی ہوسکے، اُسے اپنی وصیت لکھ لینی چاہیے کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ اُسے کب موت آجائے۔
یہ سنت عمومی حیثیت کی حامل ہے اور اپنے حکم میں سب لوگوں کو شامل کرتی ہے۔ جہاں تک حقوق اللہ اور حقوق العباد کے متعلق وصیت کا تعلق ہے، مثلاً: اداء زکاۃ، حج یا اداء کفارہ کے متعلق وصیت، یا اداء قرض کے متعلق وصیت، تو ایسی وصیت کا لکھ رکھنا واجب ہے۔
واجب اس لیے ہے کہ اس کے ساتھ فرائض کی ادائیگی وابستہ ہے۔ بالخصوص اُس وقت ایسی وصیت کی اہمیت بہت بڑھ جاتی ہے جبکہ ان واجبات کے متعلق کوئی اور کچھ نہ جانتا ہو۔ اور یہ قاعدہ ہے کہ واجب جس بات کے بغیر پورا نہ ہو، وہ بھی واجب ہے۔ اس سنت مبارکہ پر عمل کرکے معاشرے میں انتہائی مثبت تبدیلی لائی جاسکتی ہے اور بہت سارے فتنے اور فسادات کو روکا جاسکتا ہے۔
7۔ خرید و فروخت میں نرمی اور وسعت ظرفی کا مظاہرہ کرنا
خرید و فروخت کے معاملات میں خریدنے اور فروخت کرنے والے دونوں افراد یا دونوں فریقوں کو نرمی، وسعت ظرفی اور رواداری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ انہیں اس سلسلے میں جھگڑنا نہیں چاہیے۔ دونوں فریق جہاں تک ہوسکے، ایک دوسرے کے لیے آسانی پیدا کریں۔ اس سنتِ مبارکہ پر عمل سے معاشرتی زندگی میں حسن پیدا ہوگا۔
اس کی دلیل: حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ ایسے آدمی پر رحم کرے جو اُس وقت نرم ہوتا ہے جب وہ (کوئی شے) بیچتا ہے اور جب وہ خریدتا ہے اور جب وہ تقاضا کرتا ہے۔‘‘
(صحیح بخاری)
جب آدمی اپنے حق کا تقاضا کرے تو اُس وقت بھی نرمی اختیار کرنا سنت ہے۔
8۔ ہر وضو کے بعد دو رکعت نفل نماز
یہ ایک روزمرہ کی سنت ہے جس کی بڑی فضیلت بتائی گئی ہے۔ اور یہ فضیلت ہے: داخلۂ جنت۔
حضرت ابوہریرہ رضی الله عنه سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے نمازِ فجر کے وقت بلال رضی الله عنه سے فرمایا: ’’بلال! مجھے تم اپنے اُس سب سے زیادہ امید افزا عمل کے متعلق بتاؤ جو تم نے اسلام میں انجام دیا ہو۔ میں نے جنت میں اپنے آگے تمھارے جوتوں کی چاپ سنی ہے۔‘‘ بلال رضی الله عنه نے عرض کیا: میرے نزدیک جو میں نے سب سے امید افزا عمل کیا ہے، وہ یہ ہے کہ میں دن یا رات کے کسی بھی وقت جب وضو کرتا ہوں تو اُس وضو سے جس قدر مقدر میں لکھی ہوتی ہے، نماز پڑھتا ہوں۔
(صحیح بخاری، صحیح مسلم)
9۔ نماز کا انتظار کرنا
نماز کا انتظار کرنا بھی بڑی فضیلت سے بھرپور سنت ہے۔ نماز کے انتظار میں بھی آدمی کو نماز ہی کا ثواب ملتا ہے۔
اس کی دلیل: سیدنا ابو ہریرہ رضی الله عنه سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’نماز جب تک کسی کو روکے رکھے وہ نماز میں ہی ہوتا ہے، اس طرح کہ اُسے اپنے گھر جانے سے صرف نماز نے روک رکھا ہو۔‘‘
(صحیح بخاری، صحیح مسلم)
یوں وہ نماز کا انتظار کرنے کی وجہ سے نماز کا اجر پائے گا۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ایک آدمی جب تک جائے نماز پر رہتا ہے، فرشتے اُس کے لیے یہ دعا کرتے رہتے ہیں۔‘‘
حضرت ابوہریرہ رضی الله عنه سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ایک آدمی جب تک جائے نماز پر رہتا ہے، فرشتے اُس کے لیے یہ دعا کرتے رہتے ہیں (جب تک کہ وہ بے وضو نہ ہو) اے اللہ! اسے معاف کر دے۔ اے اللہ! اس پر رحم فرما۔ ایک شخص نماز ہی میں رہتا ہے، جب تک نماز اُسے روکے رکھتی ہے۔ اور اسے اپنے گھر واپس آنے کے لیے نماز کے علاوہ اور کوئی چیز مانع نہ ہو۔‘‘
(صحیح بخاری، صحیح مسلم)
10۔ مسواک کرنا
مسواک کرنا ایک عمومی نوعیت کی سنت ہے جس پر ہر وقت عمل کیا جاسکتا ہے۔ نبی کریم ﷺ اس کی بہت ترغیب دیتے تھے۔
آپ ﷺ نے فرمایا: ’’میں نے تمہیں مسواک کی بہت زیادہ تاکید کر دی ہے۔‘‘
(صحیح بخاری)
آپ نے مسواک کے متعلق یہ بھی فرمایا: ’’یہ منہ صاف کرنے اور رب کی رضا حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔‘‘
(مسند أحمد، سنن نسائی)
غور کرنے کی بات یہ ہے کہ صرف مسواک سے حضور ﷺ کا قرب حاصل کیا جاسکتا ہے اور بے پناہ اجر بھی کمایا جاسکتا ہے۔
11۔ ہر نماز کے لیے نیا وضو کرنا
ایک مسلمان کے لیے مسنون ہے کہ وہ ہر نماز کے لیے نیا وضو کرے۔ مثال کے طور پر اگر اُس نے نمازِ مغرب کے لیے وضو کیا ہے تو اُسے چاہیے کہ نمازِ عشاء کے لیے بھی وضو کرے چاہے وہ پہلے سے باوضو ہو۔ ہر نماز کے لیے نیا وضو کرنا سنت ہے۔
اس کی دلیل: صحیح بخاری کی ایک روایت ہے کہ نبی ﷺ ہر نماز کے وقت وضو کیا کرتے تھے۔
(صحیح بخاری)
یہ بھی سنت ہے کہ آدمی تمام دن باوضو رہے۔ حضرت ثوبان رضی الله عنه سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’ ایک مومن ہی وضو کی حفاظت کرتا ہے۔‘‘
(مسند أحمد، سنن ابن ماجہ)
12۔ اذان کا جواب اور جنت
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب موذن اللہ اکبر اللہ اکبر کہے تو تم میں سے جو (اخلاص کے ساتھ) اللہ اکبر، اللہ اکبر کہے پھر جب وہ اشھد ان لا الہ الا اللہ کہے تو یہ بھی اشھد ان لا الہ الا اللہ کہے اور جب وہ اشھد ان محمدا رسول اللہ کہے تو یہ بھی اشھد ان محمدا رسول اللہ کہے، جب وہ حی علی الصلاۃ کہے تو یہ لاحول ولا قوۃ الا باللہ کہے، جب وہ حی علی الفلاح کہے تو یہ لا حول ولا قوۃ الا باللہ کہے، پھر جب وہ اللہ اکبر، اللہ اکبر کہے تو یہ بھی اللہ اکبر، اللہ اکبر کہے اور جب وہ لا الہ الا اللہ کہے تو یہ بھی لا الہ الا اللہ کہے۔ جس نے دل سے یہ کلمات کہے وہ جنت میں جائے گا۔
(صحیح مسلم)
درج بالا تحریر میں 12 سنتوں کا انتخاب کیا گیا ہے جن کی تقلید میں ہی راہ نجات ہے۔ 12 ربیع الاول کے مبارک دن تک ان 12 سنتِ رسول ﷺ پر عمل پیرا ہونے کا ارادہ کیجئے اور اپنی زندگی کو رحمتوں اور برکتوں سے بھر لیں۔