تعارف
آپؓ کا نام حسن اور کنیت ابو محمد ہے۔ آپ کا نام اور کنیت دونوں رسول اللہ ﷺ کی طرف سے ہیں۔ آپ کو ریحانۃ النبی ﷺ (حضورؐ کے پھول) اور شبیہ النبیؐ (حضورؐ کے مشابہ) جیسے قابل اعزاز القابات سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ آپ ﷺ سر سے لے کر سینہ مبارک تک حضور ﷺ کے ساتھ بہت زیادہ مشابہت رکھتے تھے۔
ولادت و پرورش
روایت کے مطابق آپ 15 رمضان المبارک سن 3 ھجری میں مدینہ طیبہ میں پیدا ہوئے۔ حضور اکرم ﷺ نے دائیں کان میں اذان دی اور بائیں کان میں اقامت کہی۔ اپنے مبارک لعاب دہن سے آپ کے منہ میں گھٹی ڈالی۔ ولادت کے ساتویں دن آپؓ کا عقیقہ کیا گیا۔ آپ کے سر کے بال مونڈ کر ان کے وزن کے برابر چاندی صدقہ کی گئی۔ اسی دن آپؓ کا ختنہ ہوا۔ عقیقہ کے لیے حضور اکرم ﷺ نے دو بکریاں ذبح کیں۔ حضرت علیؓ نے آپؓ کا نام حرب تجویز کیا۔ مگر آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اس نام کو تبدیل کرکے حسن رکھ دیا۔
بچپن میں کفالت اور رضاعت کی سعادت حضرت ام الفضل کو حاصل ہوئی جو حضور اکرم ﷺ کے چچا حضرت عباسؓ کی اہلیہ ہیں ان کا شمار جلیل القدر صحابیات میں ہوتا ہے۔ حضرت حسنؓ کی پیدائش سے پہلے حضرت ام الفضلؓ نے خواب میں دیکھا کہ آپ ﷺ کے بدن کا ایک ٹکڑا میری گود میں آگرا ہے۔ آپ ﷺ نے اس کی تعبیر بیان فرمائی کہ میری بیٹی فاطمہؓ کے گھر ایک بیٹا پیدا ہوگا جس کی کفالت ام الفضلؓ کریں گی۔
نکاح اور ازواج و اولاد
حضرت حسنؓ نے ایک سے زیادہ نکاح کیے۔ مختلف اوقات میں آپؓ کے نکاح میں رہنے والی ازواج کی کل تعداد دس کے قریب ہے۔ آپ کی زوجات میں خولہؓ بنت منظور، ام بشرؓ بنت ابی مسعود، ام اسحاقؓ بنت طلحہ اور جعدہؓ بنت اشعث مشہور ہیں۔ آپؓ کے آٹھ بیٹے حسن مثنیٰ، زیدؓ، عمروؓ، قاسمؓ، ابوبکرؓ، عبدالرحمنؓ، حسینؓ اور طلحہؓ ہیں۔ آپ کی نسل دو بیٹوں سے چلی ہے جن میں حسن مثنیٰؓ اور زید بن حسنؓ شامل ہیں۔ آپ ﷺ کی پانچ صاحبزادیاں حضرت فاطمہؓ، حضرت رقیہؓ، حضرت ام سلمیؓ، حضرت ام عبداللہ اور حضرت ام الخیرؓ ہیں۔
خلافت
آپؓ نے چاروں خلفائے راشدین کی خلافت کا زمانہ دیکھا اور حضرت علیؓ المرتضیٰ کی شہادت کے بعد پانچویں خلیفہ منتخب ہوئے۔ رمضان المبارک 40 ھجری میں کوفہ میں حضرت حسنؓ کی خلافت کی ابتداء ہوئی چالیس ہزار لوگوں نے آپؓ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ آپؓ نے مستقبل کے حالات کا اندازہ کرتے ہوئے اسی وقت لوگوں کو بتادیا کہ انھیں ہر حال میں حضرت حسنؓ کی اطاعت کرنی ہوگی۔ اگر وہ دشمن سے صلح کریں تو تمام لوگوں کوصلح کرنی ہوگی اور اگر وہ جنگ کریں تو تمام لوگ ان کے ساتھ جنگ میں شریک ہوں گے۔ سب نے اس شرط کو قبول کیا لیکن حضرت حسنؓ نے 6 ماہ کے عرصے میں یہ محسوس کیا کہ اسلامی سطلنت انتشار کا شکار ہے تو ربیع الاول 41 ھجری میں انھوں نے حضرت معاویہؓ کے ساتھ صلح کرکے حکومت سے علیحدگی اختیار کرلی۔ لوگوں کو حکم دیا کہ وہ بھی حضرت معاویہؓ کی بیعت کرلیں۔ کیونکہ ان کا مقصد حکومت کرنا نہیں بلکہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے حکم کی پیروی کرنا تھا۔
حضرت امام حسنؓ نے دین اسلام کی سربلندی اور فتنہ و فساد کا خاتمہ کرنے کے لیے حکومت کو ٹھوکر مار کر وہ تاریخی صلح کی جس کی مثال نہیں ملتی۔ وہ مسلمانوں کی دو بڑی جماعتوں کے درمیان صلح کا ذریعہ و وسیلہ بنے جس کی پیشین گوئی رسول اکرم ﷺ فرماچکے تھے۔ آپؓ نے فرمایا تھا کہ
’’میرا بیٹا حسنؓ سردار ہے۔ امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے مسلمانوں کی دو بڑی جماعتوں کے درمیان صلح کرائے گا۔ ‘‘
وفات
حضرت حسنؓ کو قیام مدینہ کے دوران کئی مرتبہ زہر دیا گیا لیکن آخری مرتبہ کے زہر نے آپؓ کی انتڑیاں کاٹ دیں۔ 40 دن اسی تکلیف میں گزرے۔ انتقال کے وقت آپ کے چھوٹے بھائی حضرت حسینؓ نے جب زہر دینے والے کا نام پوچھا تو آپؓ نے فرمایا:
’’میں کبھی اس شخص کا نام نہیں بتاؤں گا مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے سخت انتقام لینےو الا ہے۔ ‘‘
آپؓ کی موت زہر کی وجہ سے ہوئی اس لیے آپ شہادت کے مرتبے پر فائز ہوئے ہیں۔ آپ کی شہادت ربیع الاول 49 ھجری میں ہوئی اس وقت آپؓ کی عمر مبارک 46 سال تھی۔ آپ کو اپنی والدہ کے پہلو میں جنت البقیع میں دفن کیا گیا۔
امام حسنؓ کی اخلاقی خصوصیات و فضائل
حضرت امام حسنؓ کی پرورش و تربیت آغوش مصطفی ﷺ میں ہوئی تھی جس وجہ سے آپؓ اعلیٰ اخلاقی خصوصیات کے حامل تھے۔ زہد و تقویٰ، عبادت و ریاضت، عفو و درگزر، حق گوئی و بے باکی اور جرات و شجاعت جیسی صفات آپؓ میں بدرجہ اتم موجود تھیں۔ دن کو اکثر روزہ رکھتے اور رات سجود و قیام میں بسر کرتے۔ اسلام کے اعلیٰ اصولوں کی پاسداری اپنے نانا جان سے سیکھی تھی۔ اسی لیے صلح جوئی اور اتحاد امت کا باعث بنے تھے۔ قرآن مجید سے گہرا قلبی و روحانی تعلق تھا فقرو غنا، ایثار و قربانی، علم و فضل اور عدل و احسان زندگی کا معمول تھا۔
حضرت انسؓ فرماتے ہیں: ’’امام حسنؓ سے بڑھ کر کوئی بھی حضور اکرم ﷺ سے مشابہت رکھنے والا نہ تھا۔ ‘‘
آپؓ اپنے نانا جان کی طرح بہت سخی تھے ایک ہی وقت میں لاکھوں درہم غربا میں تقسیم فرمادیتے۔ ایک مرتبہ آپؓ نے ایک باغ چار لاکھ درہم میں خریدا بعد میں پتہ چلا کہ باغ کا مالک غریب ہوگیا ہے تو آپؓ نے وہ باغ مفت میں اس کو واپس کردیا۔ آپؓ نہایت بردبار اور حلیم تھے۔ حضرت معاویہؓ سے صلح اس بات کا عملی ثبوت ہے۔ جو شخص آپ سے ایک بار مل لیتا تھا وہ ساری زندگی آپ سے دور نہیں ہوتا تھا۔
آپؓ نے ظاہری و باطنی علوم اپنے نانا رسول خد ﷺ سے حاصل کیے تھے۔ صبرو سخاوت نانی حضرت خدیجہؓ سے ورثے میں ملی تھی۔ شرافت نیکی اور عفت و عصمت اپنی والدہ حضرت فاطمہؓ سے منتقل ہوئی تھی۔ حضرت ابوبکرؓ، عمرؓ اور عثمانؓ بھی آپؓ سے بہت محبت فرماتے تھے۔
حضور اکرم ﷺ حضرت حسنؓ کے بارے میں فرماتے تھے کہ اے اللہ میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت فرما اور جو اس سے محبت کرے اس سے تو بھی محبت فرما۔ یہ بات فرماکر آپؓ نے حضرت حسنؓ کو اپنے سینہ مبارک سے چمٹا لیا۔
ایک اور روایت میں ہے کہ: ’’حضرت حسنؓ آپ ﷺ کی گود میں بیٹھ کر آپ ﷺ کی داڑھی مبارک میں انگلیاں ڈال رہے تھے اور آپ ﷺ اپنی زبان ان کے منہ میں دیتے اور فرماتے اے اللہ میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت فرما۔ ‘‘
حضرت حسنؓ کبھی آپ ﷺ کی طرف آتے اور آپ ﷺ سجدے میں ہوتے تو آپ کی پیٹھ پر سوار ہوجاتے۔ اور جب تک خود نہ اتر جاتے آپ ﷺ اپنا سر سجدے سے نہ اٹھاتے اور اگر کبھی آپ ﷺ رکوع میں ہوتے اور حضرت حسنؓ آتے تو آپ ﷺ اپنی ٹانگیں پھیلادیتے اور وہ ٹانگوں کے درمیان سے گزر کر دوسری طرف نکل جاتے۔
حضرت حسنؓ حضور اکرم ﷺ کی طرح نہایت حسین و جمیل اور خوبصورت تھے۔ آپؓ سر سے سینہ تک حضور اکرم ﷺ کے مشابہ تھے اور سینہ سے پاؤں تک حضرت علی المرتضیٰؓ کے مشابہ تھے۔
عمیر بن اسحاق کہتے ہیں کہ ’’میں حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ کہیں جارہا تھا۔ راستے میں ہمیں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ملے۔ انھوں نے حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ میں نے دیکھا تھا کہ حضور ﷺ آپ کے بدن پر بوسہ دے رہے تھے۔ مجھے بھی وہ جگہ دکھاؤ تاکہ میں بھی بوسہ لوں۔ حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنا کرتہ ہٹایا تو حضرت ابوہریرہؓ نے ان کی ناف کا بوسہ لیا۔ ‘‘
حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مدینہ سے بیس حج پیدل چل کر کیے اور وجہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ
’’مجھے اپنے رب سے حیا آتی ہے کہ میں اس سے ملاقات کے لیے جاؤں اور سواری پر سوار ہوں۔ ‘‘
آپؓ کے پاس جو کچھ بھی ہوتا راہ خدا میں دے دیا کرتے تھے۔ سنت مصطفی ﷺ پر سختی سے عمل پیرا رہتے تھے۔ آپ کی شان کو شاعر نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے۔
پیکر علم و حکمت حسن مجتبیٰ
باعث خیرو برکت حسن مجتبیٰ
آپ کی ذات اقدس سراپا کرم
منبع عزو عظمت حسن مجتبیٰ
جن کی شکل و شباہت بھی نانا سی ہے
رشک حسن و وجاہت حسن مجتبیٰ
آپ کی ہے محبت بھی روح ایماں
وارث دین و جنت حسن مجتبیٰ
حضرت امام حسنؓ کی اخلاقی خصوصیات
عمیر بن اسحاقؒ کہتے ہیں:
صرف حضرت حسنؓ ہی ایک ایسے شخص تھے کہ جب بات کرتے تھے تو میں چاہتا تھا کہ آپ باتیں کیے جائیں اور اپنا کلام کبھی ختم نہ کریں۔ ان کی زبان میں نے کبھی کوئی فحش کلمہ نہیں سنا۔
جریر بن اسماء کہتے ہیں کہ:
جب حضرت امام حسنؓ نے وفات پائی تو مروان بن الحکم جو کہ مدینہ کا گورنر تھا زارو قطار رونے لگا۔ حضرت امام حسینؓ نے فرمایا کہ اب تو کیوں روتا ہے جبکہ ان کی زندگی میں انھیں ستاتا رہا ہے۔ مروان نے کہا: جانتے بھی ہو میں اس شخص کے ساتھ ایسا کرتا تھا جو پہاڑ سے بھی زیادہ حلیم تھا۔
علی بن زید کہتے ہیں کہ حضرت امام حسنؓ نے دو مرتبہ اپنا مال راہِ الہٰی میں خیرات کیا اور تین مرتبہ نصف نصف خیرات کردیا۔ یہاں تک کہ ایک جوتا رکھ لیا، ایک دے دیا ایک موزہ رکھ لیا ایک دے دیا۔
حضرت حسنؓ باب مدینۃ العلم حضرت علی المرتضیٰؓ کے بیٹے تھے۔ اسی گہوارہ علم میں آپ نے پرورش پائی تھی۔ اس لیے آپ کو اپنے اسلاف کی علمی وراثت اسے حصہ ملا تھا۔
حدیث میں آپ کی روایات کی تعداد تیرہ ہے جن میں سے اکثر حضرت علی المرتضیٰؓ سے مروی ہیں اس کے علاوہ حضرت عائشہؓ سے بھی آپ نے احادیث روایت کی ہیں۔ فقہ میں مہارت رکھتے تھے مدینہ کی صاحب علم و افتاء جماعت کے اہم رکن تھے شاعری سے ذوق تھا۔ مکارم اخلاق میں خلق رسول اللہ ﷺ کا نمونہ تھے۔ آپ کے فضائل و اخلاق میں استغناء و بے نیازی سرفہرست ہے۔ خلافت جیسے جلیل القدر منصب سے دست بردار ہونا استغناء و بے نیازی کی بدولت ہی تھا۔
آپ کا ضبط و تحمل بھی بے مثال تھا آپ کی زبان کبھی کسی تلخ اور درشت کلمہ سے آلود نہ ہوئی۔ انتہائی غصہ کی حالت میں بھی کسی کے متعلق رغف انفہ (اس کی ناک خاک آلود ہو) سے زیادہ کچھ نہ کہتے۔
خلافت سے دستبرداری کے بعد مخالفین آپ کے سامنے آپ کو مسلمانوں کو رسوا کرنے والے اور ننگ المسلمین کہتے تھے۔ آپ صرف اس قدر جواب دیتے کہ میں نے مسلمانوں کو رسوا نہیں کیا البتہ حکومت کے لیے ان کی خون ریزی پسند نہیں کی۔
اللہ تعالیٰ کی عبادت آپ کی زندگی کا مشغلہ تھی۔ لوگوں کے عقائد کی اصلاح فرماتے رہتے تھے شیعان علی کے ایک گروہ نے یہ عقیدہ پھیلانا شروع کردیا کہ حضرت علیؓ نے عام انسانوں کی طرح وفات نہیں پائی اور وہ قیامت سے پہلے زندہ ہوجائیں گے۔ حضرت حسنؓ کو پتہ چلا تو فرمایا کہ یہ لوگ جھوٹے ہیں۔ اگر ایسا ہونا ہوتا اور ہمیں ان کے دوبارہ زندہ ہونے کا یقین ہوتا تو نہ ہم ان کی میراث کو تقسیم کرتے اور نہ ان کی بیویوں کا عقد ثانی ہونے دیتے۔