فقہی مسائل: ووٹ کے استعمال کا شرعی طریقہ

دارالافتاء منہاج القرآن

سوال نمبر: ووٹ کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

جواب: دینِ خدا نے اپنے پیروکاروں کے نظمِ اجتماعی کی بنیاد شورائیت پر رکھی ہے۔ شرعِ متین کی نگاہ میں ہر فرد اصلاً آزاد ہے‘ کوئی مطلق العنان بادشاہت اسے غلام نہیں بنا سکتی۔ معاشرے کے افراد اپنی انفرادی آزادیوں کو اجتماعی نظام میں ڈھالتے ہیں تو اپنے میں سے کسی ایک کو نظمِ اجتماعی چلانے کا اختیار سونپ دیتے ہیں۔ اسلام نے نظمِ اجتماعی و حکومت کے قیام میں مشاورت کو بنیادی اصول قرار دیا ہے۔ شوریٰ کا تصور اسلام سے قبل دورِ جاہلیت میں بھی تھا۔ اسلام نے اسے برقرار رکھا اور مطلق العنانی کے مقابلہ میں یہ اصول پیش کیا کہ مسلمانوں کے سیاسی و انتظامی معاملات ان کی رائے اور مشورے سے طے ہوں گے۔ قرآنِ مجید نے مشاورت کو اہلِ ایمان کی لازمی صفت شمار کیا ہے۔ ارشاد ہے:

وَالَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّهِمْ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ.

(الشُّوْرٰی، 42: 38)

اور (اہل ایمان وہ ہیں) جو لوگ اپنے رب کا فرمان قبول کرتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اور اُن کا فیصلہ باہمی مشورہ سے ہوتا ہے اور اس مال میں سے جو ہم نے انہیں عطا کیا ہے خرچ کرتے ہیں۔

اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے متعدد مقامات پر شوریٰ کی فضیلت اور امت کے اجتماعی نظام کے لیے اس کی ضرورت اور اہمیت بیان فرمائی ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

’’جب تم میں سے بہتر لوگ تمہارے امیر ہوں ، تمہارے دولت مند بڑے دل والے ہوں اور تمہارے معاملات تمہارے درمیان مشورے سے طے ہوں تو زمین کے اوپر کا حصہ تمہارے حق میں اس کے نیچے کے حصے سے بہتر ہوگا۔‘‘

اسلام نے معاشرہ کے اندر یہ ذوق اور رجحان پیدا کیا ہے کہ ہر فرد اپنے ذاتی اور شخصی معاملات سے لے کر امورِ سیاست تک ہر معاملہ میں مشورے کا عادی ہو اور یہ چیز اس کے مزاج میں رچ بس جائے۔ مشاورت کا ایک خاص طریقہ لازم قرار دینے کی بجائے اسلام نے اسے حالات و ضرورت پر چھوڑ دیا۔ چنانچہ خلافتِ راشدہ کے دور میں اجتماعی مشاورت بیعت کے ذریعے ہوتی تھی اور اب یہ معاملہ انتخابات کے ذریعے ہوتا ہے اور ووٹ اس کا اہم ترین جزو ہے۔ جدید زمانے میں علماء نے ووٹ کو شہادت (گواہی)، امانت، وکالت، مشاورت، شفاعت (سفارش)، قضاء اور سیاسی بیعت کی حیثیت سے قیاس کیا ہے۔ ہمارے نزدیک ووٹ کی حیثیت مشاورت اور شہادت کی ہے۔

باہمی مشاورت سے حکومت کا قیام اور امورِ مملکت کو انجام دینا اسلام کا طرّہ امتیاز رہا ہے۔ اس اعتبار سے رائے دہندگان کے لیے ضروری ہے کہ باصلاحیت، قوم و ملت کے ہمدرد، اخلاق و کردار کے حوالے سے اچھی شہرت کے حامل اور فرض شناس کے حق میں ووٹ دیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

إِنَّ اللهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تُؤَدُّواْ الْأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا.

بیشک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں انہی لوگوں کے سپرد کرو جو ان کے اہل ہیں۔

(النساء، 4: 58)

جس سے مشورہ طلب کیا جائے وہ مشورہ دینے کے بارے میں امین ہے اور امانت کا تقاضہ یہ ہے کہ صحیح اور درست مشورہ دیا جائے۔ کسی ذاتی لالچ یا خود غرضی کے بدلے ظالم و جابر کو اختیار سونپنے کا مشورہ (ووٹ) دینا دنیا و آخرت میں خسارے کا سودا ہے۔

ہمارے نزدیک ووٹ کی دوسری حیثیت شہادت کی ہے۔ ووٹ شہادت خیال کرتے ہوئے ووٹر جس امیدوار کے حق میں ووٹ ڈال رہا ہے اس کے حق میں گویا گواہی دے رہا ہے کہ یہ امیدوار میرے علم کے مطابق اقتدار و اختیار کا دیگر امیدواروں کی نسبت زیادہ مستحق ہے۔

قرآن کریم نے جھوٹی شہادت کو حرام قرار دیا ہے اسی طرح سچی شہادت کو واجب اور لازم فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ كُونُواْ قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلّٰهِ وَلَوْ عَلَى أَنفُسِكُمْ أَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ إِن يَكُنْ غَنِيًّا أَوْ فَقِيرًا فَاللهُ أَوْلَى بِهِمَا.

(النساء، 4: 135)

اے ایمان والو! تم انصاف پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہنے والے (محض) اللہ کے لئے گواہی دینے والے ہو جاؤ خواہ (گواہی) خود تمہارے اپنے یا (تمہارے) والدین یا (تمہارے) رشتہ داروں کے ہی خلاف ہو، اگرچہ (جس کے خلاف گواہی ہو) مال دار ہے یا محتاج، اللہ ان دونوں کا (تم سے) زیادہ خیر خواہ ہے۔

ایک آیتِ مبارکہ میں سچی شہادت کا چھپانا حرام اور گناہ قرار دیا گیا ہے، ارشاد ہے:

وَلاَ تَكْتُمُواْ الشَّهَادَةَ وَمَن يَكْتُمْهَا فَإِنَّهُ آثِمٌ قَلْبُهُ.

(البقرة، 2: 283)

اور تم گواہی کو چُھپایا نہ کرو، اور جو شخص گواہی چُھپاتا ہے تو یقینا اس کا دل گنہگار ہے۔

شہادت و گواہی کے معاملے میں اسلام کا پسندیدہ عمل یہ ہے کہ کسی کے مطالبہ کرنے سے پہلے ہی انسان یہ فریضہ ادا کرے اور اس میں کسی کی دعوت یا ترغیب کا انتظار بھی نہ کرے۔حضرت زید بن خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

الا اخبرکم بخیر الشهداء الذی یأتی بشهادته قبل أن یسألها.

’’کیا میں تمھیں نہ بتاؤں کہ بہترین گواہ کون ہے؟ بہترین گواہ وہ شخص ہے، جو اپنی گواہی کسی کے مطالبہ کرنے سے پہلے ہی ادا کر دے۔‘‘

ووٹ کو شہادت کی حیثیت دینے سے اس پر قرآن و سنت کے وہ تمام احکام جاری ہوتے ہیں جو شہادت کے حوالے سے دیے گئے ہیں۔ اس لیے دین داری کا تقاضا ہے کہ ووٹ کا صحیح استعمال یقینی بنایا جائے۔

حاصلِ کلام یہی ہے کہ ووٹ ایک ملی و قومی ذمہ داری ہے۔ اس ذمہ داری کو مفاد پرستی، سڑکوں، گلی کوچوں، کھمبوں، ٹرانسفارمروں اور آلوپیاز کی بھینٹ نہ چڑھایا جائے۔ وطنِ عزیز میں‌ دہائیوں سے یہ روش بن گئی ہے کہ انتخابات کا موسم آتے ہی مفادپرست اور طاقت و اقتدار کا بھوکا ٹولہ‘ مہنگائی، غربت، بےروزگاری اور افلاس کے مارے عوام کے ووٹوں‌ کی خرید و فروخت شروع کر دیتا ہے۔ چند ٹکوں، مستقبل کے جھوٹے وعدوں اور لالچ میں‌ ضمیر فروشی ہوتی ہے۔ نظامِ سیاست میں موجود خرابیوں‌ کی دیگر وجوہات کے ساتھ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دیانتدار اور ذمہ دار شہری عموماً ووٹ دینے ہی سے گریز کرتے ہیں‌ جس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے ضمیر فروشوں‌ کے ووٹوں سے بدکردار اور خائن حکمران بن کر قوم پر مسلط ہو جاتے ہیں۔

اس لیے اگر حلقے میں‌ کوئی نسبتاً بہتر اور قابل امیدوار ہے تو اسے ووٹ دینے سے گریز کرنا شرعاً ممنوع اور قوم و ملت پر ظلم کے مترادف ہے۔ اگر حلقے میں کوئی بھی امیدوار صحیح معنوں‌ میں قیادت کے لائق اور دیانتدار نہیں ہے تو موجود امیدواروں میں سے کسی امیدوار کی ایک صلاحیت، کسی ایک خوبی کو مدِنظر رکھ کر تقلیل شر ‌(کم برائی) کے خیال سے ووٹ دینا بھی جائز ہے۔ اس معاملہ میں یہ اصول ذہن نشین کر لیں‌ کہ شخصی معاملات میں کسی فرد کی غلطی کا اثر صرف اسی فرد تک محدود رہتا ہے، اس کی سزا و جزا کا حقدار بھی وہی ہے۔ البتہ قومی و ملکی معاملات سے پوری قوم متاثر ہوتی ہے۔ آپ کا غلط انتخاب پوری قوم کو متاثر کر سکتا ہے اس لیے ووٹ کا استعمال مکمل ذمہ داری کے ساتھ کریں۔

سوال نمبر: کیا اسلام میں‌ جمہوریت کی تلقین کی گئی ہے؟

جواب: قرآن وحدیث میں جمہوریت کی ہی تلقین کی گئی ہے لیکن اس کو سمجھنے کےلیے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اصل جمہوریت کیا ہے؟ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ جمہوریت کوئی غیر اسلامی سوچ اور فکر ہے انہیں یہ نہیں معلوم کہ غیر مسلموں نے جموریت اسلام کو دیکھ کر اپنائی ہے جس کی بنا پر وہ آج مسلمانوں پر راج کر رہے ہیں۔ انہوں نے اپنی عوام کو سہولیات مہیا کی ہیں اورلوگوں کے جذبات کی قدر کرتے ہیں۔ اور ہمارے ہاں خاص طور پر پاکستان میں کوئی اسلام کے نام پر لوٹ رہا ہے تو کوئی جمہوریت کے نام پر۔ جس کو عوام کو بےوقوف بنانے کا زیادہ طریقہ آتا ہے وہی زیادہ لوٹ مار کر کے لے جاتا ہے۔ ابھی تک تو عوام نے اصل جمہوریت دیکھی ہے نہ ہی چکھی ہے۔ بس ایک طرف جمہوریت کے نام پر لوٹ مار کرنے والے ہیں دوسری طرف جمہوریت کو برا بھلا کہہ کر اسلام کے نام پر لوٹنے والے ہیں۔ عوام کا حافظہ بہت کمزور ہے وہ ایک کے ہتھے چڑھ جاتی ہے دوسرے سے بھاگتی ہے، کچھ عرصہ بعد پھر اسی کو گالیاں دیتی ہے کسی اور کی باتوں میں آجاتی ہے۔نہ جمہوریت کے نام لیوا اصل جمہوریت لانا چاہتے ہیں نہ اسلامی نظام کا نعرہ لگانے والے اپنے اندر کی بات لوگوں تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ کیونکہ پردہ اٹھ جائے تو عوام ان ظالموں کے ہاتھوں سے اس طرح نکل جائے جیسے قید کی ہو ئی چڑیا۔ اگر اصل جمہوریت ملک میں نافذ کر دی جائے تو عوام بھول کر بھی ان ظالموں کے ہاتھ نہ آئے۔ ایک بات یاد رکھیں قرآن وحدیث میں کچھ بھی جمہوریت کے خلاف نہیں ہے۔ جو جمہوریت کو قرآن وحدیث کے خلاف سمجھے، اس کو خود ہی سمجھ نہیں یا پھر اس کے ذہن میں فتنہ فسا د ہے کہ وہ عوام کی بہتری نہیں چاہتا۔

سوال: کیا کسی کو فرعون اور یزید کہنا درست ہے؟

جواب: فرعون اور یزید دو شخصیات کے نام تھے، مگر ان کی ذہنیت اور نظامِ حکومت کی وجہ سے اب وہ اس ذہنیت اور نظام کے استعارے بن چکے ہیں۔ یزید کی سوچ اور اس کا نظام یزیدیت کہلاتا ہے، جبکہ فرعون کی ذہنیت اور نظامِ حکومت کو فرعونیت کہا جا تا ہے۔ یہ دونوں سوچیں اور نظام چونکہ ظلم، زیادتی، کرپشن، لوٹ مار، قتل وغارت، دہشت گردی اور غنڈہ گردی پر مبنی ہیں، تو جو شخص بھی ایسی سوچ رکھتا ہو یا ایسے نظام کو تقویت دے وہ فرعونی اور یزیدی کہلاتا ہے۔ ان لوگوں کو یہ نام دینے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ فرعون یا یزید ہیں، بلکہ مراد یہ ہے کہ وہ اسی رویہ کہ مالک ہیں جو فرعون یا یزید کا تھا۔

اسلامی ریاست میں اگر کوئی ایسا شخص اقتدار پر قابض ہوجائے، تو ضروری ہے کہ اس کا اصل ظالمانہ چہرہ دنیا کے سامنے لایا جائے تاکہ لوگ اس کو اقتدار سے نکال باہر کریں۔ قرآنِ مجید نے بھی یہی اصول سکھایا ہے۔ ارشادِ ربانی ہے:

لاَّ يُحِبُّ اللهُ الْجَهْرَ بِالسُّوءِ مِنَ الْقَوْلِ إِلاَّ مَن ظُلِمَ وَ كَانَ اللهُ سَمِيعًا عَلِيمًا.

(النِّسَآء، 4: 148)

اللہ کسی (کی) بری بات کا بآوازِ بلند (ظاہراً و علانیۃً) کہنا پسند نہیں فرماتا سوائے اس کے جس پر ظلم ہوا ہو (اسے ظالم کا ظلم آشکار کرنے کی اجازت ہے)، اور اللہ خوب سننے والا جاننے والا ہے۔

درج بالا آیت سے یہ اصول اخذ ہوا کہ جب ظالم لوگ اقتدار پر قابض ہو جائیں تو ان کے ظلم کو روکنا، ان کے خلاف احتجاج کرنا اور انہیں مروجہ طریقوں کے ذریعے اقتدار سے ہٹانا ضروری ہے۔

اسلام ایک کامل دین اور مکمل دستور حیات ہے۔ اسلام جہاں انفرادی زندگی میں فرد کی اصلاح پر زور دیتا ہے وہیں اجتماعی زندگی کے زریں اصول بھی وضع کرتا ہے، جوزندگی کے تمام شعبوں میں انسانیت کی راہنمائی کرتے ہیں۔ اسلام کا نظامِ سیاست وحکمرانی موجودہ جمہوری نظام کے نقائص ومفاسد سے بالکلیہ پاک ہے۔ اسلامی نظامِ حیات میں جہاں عبادت کی اہمیت ہے وہیں معاملات، معاشرت اور اخلاقیات کو بھی اولین درجہ حاصل ہے۔ اسلام کا جس طرح اپنا نظامِ معیشت ہے اور اپنے اقتصادی اصول ہیں اسی طرح اسلام کا اپنا نظامِ سیاست وحکومت ہے۔