تنگ نظری اور عدم برداشت نے ہماری سماجی زندگیوں کو زہر آلود کر دیا ہے۔ خاندان معاشرہ کا ایک بنیادی یونٹ ہے جو یکطرفہ پروپیگنڈا کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔انفرادی اور اجتماعی سطح پر سکون اور یکسوئی ختم ہو چکی ہے۔ کسی بھی ملک اور معاشرے کی ترقی اور خوشحالی پرسکون خاندانی زندگی کی مرہون منت ہے۔ خاندانی نظام کے اندر در آنے والی آلائشوں کی سماجی، اقتصادی وجوہات کے ساتھ ساتھ مناسب تعلیم و تربیت کا فقدان اور دین سے دوری ایک بڑی وجہ ہے۔ ہم دوسروں کے نقطہ نظر کو برداشت کرنے، معاف کرنے اورحُسنِ ظن رکھنے کی مصطفوی تعلیمات کو بھلا چکے ہیں۔ آج روایتی میڈیا اور سوشل میڈیا پر یہ شرمناک خبریں عام ہیں کہ ماں بیٹے کے ظلم اور ناروا سلوک سے تنگ آ کر پولیس کی مدد مانگتی نظرآتی ہے۔ عمر رسیدہ باپ اولاد کی بے اعتنائی کے سبب اولڈ ہومز اور آرفن ہومز میں پناہ لے رہے ہیں۔ بھائی، بھائی کو قتل کررہا ہے۔ دوست، احباب اور عزیز و اقارب معمولی اختلافات پر نسل در نسل مقدمے لڑتے ہیںاور اپنی صحت، وسائل اور زندگیاں لایعنی قانونی چارہ جوئی کی نذر کر دیتے ہیں۔ پاکستان کا معاشرہ اسلامی ہے۔ آج سے چار دہائیاں قبل خاندانی نظام میں اتنا استحکام ضرور تھا کہ گھریلو جھگڑے گھر کے بزرگ چار دیواری کے اندر افہام و تفہیم کے ساتھ نمٹا دیتے تھے مگر آج ہماری فیملی کورٹس میں 80 فیصد سے زائد کیسز میاں بیوی کے جھگڑوں سے متعلق ہیں۔ والدین کے جھگڑوں کی وجہ سے سب سے زیادہ اولاد متاثر ہورہی ہے جسے ہم اپنی آئندہ نسلیں قرار دیتے ہیں۔ ہمارا میڈیا، علمائے کرام فروعی اختلافات پر اپنی توانائیاں صرف کررہے ہیں جبکہ ہمارے معاشرہ کو سب سے بڑا چیلنج خاندانی نظام کا تحفظ ہے۔ باہمی عزت و احترام کے جذبات کو فروغ دے کر ہم اخلاقی گراوٹ سے باہر نکل سکتے ہیں۔ اس حوالے سے تاجدار کائنات ﷺ نے نہایت شاندار انداز کے ساتھ اُمت کی راہ نمائی فرمائی ہے۔ حضور نبی اکرمﷺ کا فرمان ہے اللہ تعالیٰ معاف کرنے والے انسان کی عزت میں اضافہ فرما دیتا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا اللہ خود نرمی فرمانے والا ہے اور ہر چیز میں نرمی پسند فرماتا ہے اور جب اللہ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو اُسے نرمی کی صفت سے نواز دیتا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا جو لوگوں پر رحم نہ کرے اللہ اس پر رحم نہیں کرتا۔آپ ﷺ نے فرمایا آدمی اپنے حلم اور بردباری کے ذریعے دن کے روزہ دار اور رات کے عبادت گزار کے درجہ تک پہنچ جاتا ہے۔ایک حکمت و دانش سے بھرپور حدیث مبارکہ ہے کہ جو شخص غصہ دلائے جانے پر بھی غصہ میں نہ آئے اُس کے لئے اللہ کی محبت ضروری ہو جاتی ہے اور جو اللہ کی رضا کے لئے عاجزی و انکساری، نرمی اختیار کرتا ہے اللہ اُسے سربلند کر دیتا ہے،ان واضح کلمات حکمت و نصیحت کے باوجود ہم نے معاف نہ کرنے والی بری عادت کو اپنی طبیعت کا حصہ بنا لیا ہے ۔ ضد، ہٹ دھرمی ، عدم برداشت وہ سماجی ومعاشرتی عوارض ہیں جن کا علاج شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری سیرت طیبہ کے مختلف گوشوں کو نمایاں کر کے کررہے ہیں۔ ہمارے ہر مادی و روحانی عارضہ کا علاج اسوہ رسول ﷺ میں ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری دامت برکاتہم العالیہ نے حال ہی میں برطانیہ، یورپ، ملائیشیا، ہانگ کانگ، سائوتھ کوریا، جاپان کا دورہ کیا اور ان ممالک میں عظیم الشان سیرت النبی ﷺ کانفرنسز سے خطاب کیا۔ شیخ الاسلام کے خطابات کا ایک ہی موضوع تھا آپ ﷺ کی حیات طیبہ اور آپ ﷺ کا اخلاق و کردار۔ جس دن من الحیث الجموع ہم نے اپنا ٹوٹا ہوا تعلق سیرت طیبہ سے جوڑ لیا ہمارا زوال ان شاء اللہ تعالیٰ کمال میں بدل جائے گا۔ ہم حالات نہیں بدل سکتے مگر اپنی سوچ اور خیالات کو ضرور بدل سکتے ہیں۔ سوچ کی تبدیلی ہی حالات کی تبدیلی کا سبب بنتی ہے۔ آئیے اپنے احوال بدلنے کے لئے نفس کی اندھا دھند پیروی کی بجائے اپنا رشتہ قرآن مجید اور سیرت مصطفی ﷺ سے مضبوط کریں۔