اعتکاف 2024ء میں اساتذہ اور والدین کے لئے خاص راہنمائی کیا ہے؟ (قسط نمبر 4)

ڈاکٹر فرح ناز

تاریخِ انسانی اس بات کی گواہ ہے کہ جیسے جیسے زمانہ گزرتا گیا، ویسے ویسے مادیت کا غلبہ بھی بڑھتا چلا گیا اور روحانی اقدار کمزور سے کمزور تر ہوتی چلی گئیں۔ اس وقت ساری دنیا مادی کلچر، مادی افکار، مادی نظریات، مادی طرزِ زندگی، مادی سوچ اور مادی خواہشات کے سحر میں گرفتار دکھائی دیتی ہے۔ پاکستان ہو یا بھارت؛ عرب ہو یا عجم؛ مغربی دنیا ہو یا مشرقی دنیا سب کے ماحول میں مادیت کا غلبہ موجود ہے، جس نےبحیثیت مجموعی انسانی شخصیت کے باطنی پہلوؤں کو بری طرح متاثر کیا ہے، اسی سے لامذہبیت کی سوچ پیدا ہوتی ہے۔

مادہ پرستی کے شکار لادینی معاشرے میں نئی نسل کے ایمان کی حفاظت کے لیے ماحول میں بہتری لانا والدین کی بنیادی ذمہ داری ہے، تاکہ بچپن ہی میں بچوں کے ایمان، عقیدے، اعمالِ صالح اور اعلیٰ اخلاقیات کی مضبوط بنیاد استوار کی جا سکے۔ نسلِ نو کو کم از کم گھر میں ایسا ماحول ملنا چاہیے جو اُن کے دین، ایمان اور عقیدے کو ایسی مضبوط بنیاد فراہم کر سکے جو انہیں زندگی بھر صراطِ مستقیم پر گامزن رکھ سکے۔ ہمارے بچوں کو ایسا ماحول نہ تو گھر سے ملتا ہے اور نہ سکول سے؛ نہ معاشرے سے اور نہ دوستوں کی سنگت و صحبت سے رہی سہی کسر پرنٹ، الیکٹرونک یا سوشل میڈیا وغیرہ نے پوری کر دی ہے۔ انہیں جو کچھ بھی مل رہا ہے، وہ ایمان، روحانیت اور اخلاق کی اعلیٰ اقدار کے خلاف ہی مل رہا ہے، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ نوجوان نسل طاغوتی ماحول سے متاثر ہو کر تیزی کے ساتھ لادینیت یا لامذہبیت کی طرف راغب ہو رہی ہے۔ سیدی شیخ الاسلام کے خطابات 2024ء نے جہاں ہمیں عصر حاضر کے اس بڑےفتنے فتنہ الحاد سے خبر دار کیا ہے وہیں ہمیں اس فتنے کے تدارک کے لئے ٹھوس دلائل بھی فراہم کیے ہیں۔

آپ نے والدین اور اساتذہ کے مؤثر کردار کی اہمیت کو بھی خوب اجاگر کیا ہے۔ بنیادی طور پرتو والدین کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنی اولاد کو لا دینیت سے بچانے کا سامان مہیا کریں۔ انہیں اپنی اولاد کو اعتقادی پختگی کے بغیر دیگر عقائد و مذاہب کے مطالعہ سے اِجتناب کی تلقین کرنا ہوگی۔ کیونکہ علومِ شریعہ سے لا تعلقی گمراہی کا سبب بن سکتی ہے۔ سیدی شیخ الاسلام نے ذاتی حوالے سے فرمایا:

’’آپ میں سے بیشر لوگ جانتے ہوں گے کہ گریڈ ون سے لے کر گریڈ 8 تک میری ساری schooling ایک یورپین انگلش سکول ، سیکرٹ ہارٹ سکول میں ہوئی ۔ اس سے مجھے مختلف چیزوں کو پڑھنے، سوچنے، سمجھنے اور موازنہ کرنے کا ایک شوق پیدا ہوا ۔ میں اس زمانے میں مختلف مذاہب اور مسالک کی کتابوں کی سٹڈی کرتا تھا ۔ میرے والد گرامیؒ ہر ہفتے میری لائبریری چیک کرتے اور دیکھتے، جو جو کتابیں دوسرے مذاہب و مسالک کی comparative study کے لیے پڑی ہوتی تھیں ان کو نکال لیتے اور مجھے ایک ہی جملہ بولتے : ’’بیٹے! ابھی آپ کا ان comparative study کی کتابیں پڑھنے کا وقت نہیں آیا ۔ ایک وقت آپ کی زندگی میں آئے گا جب آپ ان سب کتابوں کو پڑھیں گے اور اتنی قابلیت آپ کے اندر پیدا ہو جائے گی کہ غلط اور صحیح ، سچ اور جھوٹ کا فرق اور امتیاز کر سکیں گے۔ تب آپ کے علم میں، اتنی علمی پختگی ہو جائے گی کہ جب آپ کے سامنے دوسرا موقف آئے گا تو آپ درست اور غلط کی پہچان کر سکیں اس وقت یہ ساری کتابیں پڑھنی جائز ہو جائیں گی ابھی جائز نہیں ہے۔‘‘

(اقتباس از خطاب شیخ الاسلام ، خطاب نمبر: Ca-12، یکم اپریل 2024ء)

آج ہر طرف فتنوں اور آزمائشوں کا دور ہے۔ اساتذہ کرام کی ذمہ داری ہے کہ جس بھی پہلو پر دین کے خلاف محاذ آرائی ہو رہی ہے علمی، فکری اور عملی طور پر اس کا دفاع کریں اور طلباء کو آگا ہ کریں ۔لادین قوتیں کچھ ایسے حربے استعمال کرتی ہیں کہ نوجوان نسل اس فتنے میں شعوری و لاشعوری طور پر اس کا شکار ہو جاتے ہیں

سیدی شیخ الاسلام فرماتے ہیں کہ اب وہ زمانہ نہیں رہا۔ اگر والدین ، اساتذہ اور مربی حضرات یہ ذمہ داری ادا نہیں کر رہے ہیں تو یہ ذمہ داری کون ادا کرے گا اس سے تو نسلوں کا نقصان ہوگا۔ انہوں نے نسل نو کی علمی تربیت پرزور دیتے ہوئے فرمایا:

’’یہ جو بات میں نے بتائی ہے میرے بیٹے اور بیٹیو! اس بات کو عمر کے کسی خاص حصے پر لاگو نہ کریں، یہ علمی پختگی کا مسئلہ ہے۔ اللہ تعالیٰ چاہے تو کسی کو وہ پختگی تھوڑی عمر میں عطا کر دے اور چاہے تو 70 سال گزار کے بھی نہ دے ۔ جب آپ قرآن کی آیات تدبر، آیات تفکر، آیات تعقل، اللہ کی نشانیاں اساتذہ سے پڑھیں گے نہیں تو علم میں پختگی حاصل نہیں کرسکیں گے۔ نتیجہ یہ نکلے گا کہ جب آپ دوسری آراء کو پڑھیں گے تو چونکہ آپ کا اپنا علم کھوکھلا ہے، اپنے دین کے بارے میں معلومات کھوکھلی ہیں، تو فوری متاثر ہو جائیں گے اور عقیدہ میں بگاڑ آ جائے گا ۔ لہذا یہ مسئلہ عمر کا نہیں یہ مسئلہ علم کی پختگی کا ہےجس کے لئے اچھا خاصا وقت صرف کرنا پڑتا ہے ۔‘‘

(اقتباس از خطاب شیخ الاسلام، خطاب نمبر: Ca-12، یکم اپریل 2024ء)

شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ نے مندرجہ بالا اقتباسات میں والدین اور اساتذہ کے لیے تربیت اولاد کے راہنما اصول دیے ہیں۔ مادیت پرستی کی وجہ سے آج کی نوجوان نسل شیطانی دلدل کی طرف دھکیلی چلی جا رہی ہے۔ ان کے ناپختہ ذہنوں میں درجنوں بے سر و پا اور لا حاصل سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ آخر ہم اللہ تعالیٰ کی ذات کو کس بنا پر تسلیم کریں، یا اس جدید دور میں مذہب کی ضرورت ہی کیا ہے وغیرہ وغیرہ۔

شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ اعتکاف 2024ء کے خطابات علم دین، سائنسی تحقیقات فزکس، تاریخ اور انسانی نفسیات کا مجموعہ تھے۔ یہ خیال قطعاً درست نہیں کہ سائنس مذہب اور اللہ کے وجود کا انکار کرتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جدید سائنسی تحقیقات بتدریج ان مادی حقیقتوں تک رسائی حاصل کرنے میں کوشاں ہے، جن کا انکشاف قرآن حکیم نے چودہ سو سال قبل ہی فرما دیا تھا۔ چنانچہ ان مادی حقائق نے سائنس کو سوچنے پر مجبور کر دیا کہ کائنات کا کوئی نہ کوئی خالق ضرور ہے۔

اب یہ اساتذہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ طلباء کو بتائیں کہ سائنس علم ،عقل مندی اور استدلال کا نام ہے۔ سائنس مادی، تحقیقی، علمی، فکری، عقلی، مشاہداتی اور تجرباتی طریقے سے معرفت الٰہیہ کے راستے متعین کرتی اور انسان کو بالواسطہ اللہ کے وجود پر ایمان لانے تک پہنچاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی جو نشانیاں اس عالمِ انفس و آفاق میں موجود ہیں، سائنس اُن نشانیوں کو دیگر علوم کی نسبت سب سے بہتر طریق سے دیکھ رہی ہے۔ قرآن مجید کا اشارہ اسی طرف ہے، ارشاد فرمایا گیا:

سَنُرِيهِمۡ ءَايَٰتِنَا فِي ٱلۡأٓفَاقِ وَفِيٓ أَنفُسِهِمۡ حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَهُمۡ أَنَّهُ ٱلۡحَقُّۗ.

(فصلت، 41: 53)

’’ہم عنقریب انہیں اپنی نشانیاں اَطرافِ عالم میں اور خود اُن کی ذاتوں میں دِکھا دیں گے یہاں تک کہ اُن پر ظاہر ہو جائے گا کہ وہی حق ہے۔‘‘

اس وقت ایک طرف عالمی حالات، مسلم امہ کی حالت زار، مغربی تہذیب کی یلغار، دوسری طرف پاکستان کی مخدوش داخلی صورتحال، منتشر سیاسی منظر نامہ، معاشی ابتری، ہماری بے لگام معاشرتی صورتحال، ہر جانب بے بسی، بے حسی اور لادینیت ، معاشرتی بگاڑ، اخلاقی بے راہ روی کے باعث صورت حال گھمبیر ہے۔ دینی اقدار پامال ہو رہی ہیں۔ ان حالات میں حضور شیخ الاسلام کے خطابات 2024ء بعنوان ’’خدا کو کیوں مانیں؟ اور مذہب کو کیوں اپنائیں؟‘‘ بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔ اس تناظر میں اساتذہ اور والدین کی بنیادی طور پر دو ذمہ داریاں بنتی ہیں:

پہلی ذمہ داری یہ کہ حصول علم کے لیے خوب تگ و دو کریں: کیونکہ جو انسان اپنے عہد کے شَر کے علم سے آگاہی نہیں رکھتا وہ خیر کی کڑیاں بھی بکھیرے گا اور ڈر ہے کہ کہیں وہ خود اس فتنے میں مبتلاء ہو جائے۔

(غزالی، احیاء علوم الدین، 1: 78)

والدین اور اساتذہ کی بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے عہد کے فتنوں کے بارے مکمل آگاہی حاصل کریں۔ حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ

كَانَ النَّاسُ يَسْأَلُونَ رَسُولَ اللهِ ﷺ عَنِ الخَيْرِ، وَكُنْتُ أَسْأَلُهُ عَنِ الشَّرِّ، مَخَافَةَ أَنْ يُدْرِكَنِي.

(بخاري، الصحيح، كتاب الفتن، باب كيف الأمر إذا لم تكن جماعة 6/2595، الرقم: 6673)

ترجمہ: لوگ رسول اللہ ﷺ سے خیر کے بارے میں پوچھا کرتے تھے لیکن میں شر کے بارے میں پوچھتا تھا۔ اس خوف سے کہ کہیں میری زندگی میں ہی شر نہ پیدا ہو جائے۔

حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ مدینہ طیبہ کے قلعوں میں سے کسی قلعے پر چڑھے تو فرمایا:

هَلْ تَرَوْنَ مَا أَرَى؟ إِنِّي لَأَرَى مَوَاقِعَ الْفِتَنِ خِلَالَ بُيُوتِكُمْ، كَمَوَاقِعِ الْقَطْرِ.

(مسلم، الصحيح، كتاب الفتن وأشراط الساعة، باب نزول الفتن كمواقع القطر، 4: 2211، الرقم: 2885)

ترجمہ: کیا تم (بھی) وہ دیکھتے ہو جو میں دیکھ رہا ہوں؟ میں تمہارے گھروں میں فتنوں کے واقع ہونے کے مقامات بارش ٹپکنے کے نشانات کی طرح (بکثرت اور واضح) دیکھ رہا ہوں۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

بَادِرُوا بِالْأَعْمَالِ فِتَنًا كَقِطَعِ اللَّيْلِ الْمُظْلِمِ.

(مسلم، الصحيح، كتاب الإىمان، باب الحث على المبادرة بالأعمال قبل تظاهر الفتن، 1: 110، الرقم: 118)

’’ان فتنوں سے پہلے پہلے جو تاریک رات کے حصوں کی طرح چھا جانے والے ہوں گے، نیک اعمال کرنے میں جلدی کرو۔‘‘

آج ہر طرف فتنوں اور آزمائشوں کا دور ہے۔ اساتذہ کرام کی ذمہ داری ہے کہ جس بھی پہلو پر دین کے خلاف محاذ آرائی ہو رہی ہے علمی، فکری اور عملی طور پر اس کا دفاع کریں اور طلباء کو آگا ہ کریں ۔لادین قوتیں کچھ ایسے حربے استعمال کرتی ہیں کہ نوجوان نسل اس فتنے میں شعوری و لاشعوری طور پر اس کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا آپ کابچہ ملحد اس وجہ سے ہوا ہے کہ مغرب کے اندر ترقی ہوتی چلی جا رہی ہے؟ نہیں یہ وجہ نہیں بلکہ ہمارا آج کا نوجوان مذہب کا انکار علم کی بنیاد پر کرتا ہے لہذا اس کو مطمئن کرنے کے لئے اساتذہ اور والدین کو اس حوالے سے مکمل آگہی حاصل کرنا، خبردار و ہوشیار رہنا اور علم دین حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ درج ذیل چار علوم کا جاننا انتہائی ضروری ہے:

  • تاریخ کا علم
  • نفسیات کا علم سائنس اور فزکس کا علم
  • معاشیات کا علم

یہ چار علوم انتہائی اہم اور ناگزیر ہیں تاکہ بچے کے ذہن میں اٹھنے والے سوالات کے تسلی بخش جواب دیئے جائیں اور اس کو شعوری سطح پر مطمئن رکھا جاسکے۔

(ان علوم پر دسترس حاصل کرنے کا نقطہ آغاز کیا ہے۔ اس کی تفصیلات قسط نمبر 7 میں دی جائیں گی)

یاد رکھیں سائنس کا تھوڑا علم انسان کو ملحد بناتا ہے اورسائنس کو زیادہ جاننا اور اس کی تحقیقات کی آخری حدود تک پہنچنا ایک عام با شعور انسان کو ایمان کی دولت عطا کرتا ہے۔ علم الادویہ میں ایک بڑا نام لوئس پاسچر (Louis Pasteur) کا ہے، وہ کہتا ہے:

The more I know, the more does my faith approach that of the Breton peasant (i.e., the faith which is serein, complete, unquestioning.

(William J. Fedrer & William Joseph Fedrer, American's God and Country: Encyclopedia of Quotations p. 493)

’’جس قدر میرا علم بڑھتا ہے اسی قدر میرا عقیدہ بھی پختہ ہوتا چلا جاتا ہے ، ایسا عقیدہ جو بارش کی پھوار کی مانند مکمل اور شک و شبہ سے پاک ہو۔‘‘

شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ اعتکاف 2024ء کے خطابات علم دین، سائنسی تحقیقات فزکس، تاریخ اور انسانی نفسیات کا مجموعہ تھے۔ یہ خیال قطعاً درست نہیں کہ سائنس مذہب اور اللہ کے وجود کا انکار کرتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جدید سائنسی تحقیقات بتدریج ان مادی حقیقتوں تک رسائی حاصل کرنے میں کوشاں ہے، جن کا انکشاف قرآن حکیم نے چودہ سو سال قبل ہی فرما دیا تھا۔ چنانچہ ان مادی حقائق نے سائنس کو سوچنے پر مجبور کر دیا کہ کائنات کا کوئی نہ کوئی خالق ضرور ہے

دوسری ذمہ یہ ہے کہ کسی کو کبھی بھی جبراً قائل کرنے کی کوشش نہ کریں۔ والدین اور اساتذہ کی بنیادی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ بہت شائستگی، دلیل ، سلیقے اور بہتر لب و لہجے میں نئی نسل کی ذہنی و فکری آبیاری کریں کہ ایمان اور یقین دل کی گہرائیو ں میں اتر جائے۔

نئی نسل کی تربیت کا سفر انتہائی نازک ہے اس میں علمی بحث بھی بہت احتیاط اور خیر خواہی کے جذبے سے لبریز ہو کر کرنا ہوگی۔ تب ہی انسانوں کی اصلاح کی سچی فکر پیدا ہوگی اور ایسے مربیانہ کردار سے ہی نسلوں کے ایمان کو بچا سکیں گے۔ جس دور میں ہم سانس لے رہے ہیں یہ مغربی تہذیب کا دور ہے، اس دور جدید کے علمی تقاضے اور اعتقادی الجھنیں اس بات کی متقاضی ہیں کہ ہر فرد بالخصوص والدین اور اساتذہ علم دین لازمی حاصل کریں۔ علم دین کے ساتھ ساتھ ان سائنسی علوم کا جاننا بھی ضروری ہے جن کے بغیر ہم اپنے بچوں کے سوالات کے جوابات نہیں دے سکتے اور ہماری یہ غفلت کسی بڑے نقصان کا باعث بن سکتی ہے۔