نگاہ بلند سخن دلواز جاں پرسوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لیے
اس دنیا میں آج تک ہونے والے تمام جھگڑے اور تمام جنگیں اپنے پیچھے کوئی نہ کوئی حق و باطل کی داستان رکھتی ہیں۔ جس دن ابلیس نے خدائے بزرگ کو برتر کے سامنے "نہ" کہنے کی جرات کی اسی دن سے ایک جانب حق اور دوسری طرف باطل کی قوت وقوع پذیر ہو گئی۔
یوں وقت گزرتا گیا کبھی موسی نے فرعون کا سامنا کیا تو کبھی ابراہیم نے نمرود کا۔ کبھی صالح کو عاد و ثمود سے برسر پیکار دیکھا گیا تو کبھی حسینؑ کو یزید سے نہ نبرد آزما پایا گیا۔
غرض یہ کہ:
حق نے حق کو حق کہنا نہ چھوڑا
باطل نے ہزاروں چالیں چل دیں
وقت کے بے رحم پنجوں نے ہزارہا قافلوں کو لٹتے دیکھا مگر آخری فتح ہمیشہ حق نے سمیٹی۔
ہر دور کے یزید نے یہی سمجھا تھا کہ وہ جیت گیا مگر ہر دور میں لعنت اس کا مقدر ٹھہری۔ اور ندائے حاتف ائی 'وتعزو من تشاء و تذل من تشا' حق و باطل کے ان تمام معرکوں میں ایک قدر مشترک تھی اور وہ تھی عاجزی کا غرور کے خلاف مقابلہ۔
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
کرگس کا جہاں اور، شاہین کا جہاں اور
آج سے تقریبا 59 سال پہلے ایک بار پھر ایک مغرور قوم کی فرعونیت نے جوش مارا۔ غرور کا تاج پہنے مگر گیدڑ کا حوصلہ رکھتے ہوئے اس قوم کی فوج 1965 میں ستمبر کی ایک شب کی تاریک سیاہی میں چوروں کی طرح لاہور سے منسلک بارڈر سے اپنے ناپاک عزائم کے ساتھ پاک سرزمین میں داخل تو ہو گئی مگر وہ اس بات سے بے خبر تھی کہ پاک فوج ایک فولادی مزاحمت رکھتی ہے اور یوں وہ جرات، ہمت اور عزم کی چٹانوں سے ٹکرا کر بکھر گئی۔
مسلمانوں کے ہاتھوں بار بار رسوا ہونے کے باوجود ہندو قوم کو ہوش نہیں آیا کہ وہ جس قوم سے ٹکرا رہے ہیں وہ کٹ تو سکتی ہے لیکن جھک نہیں سکتی۔
پاکستان کے جری دلیر، بہادر سپوتوں نے شجاعت کی انمٹ داستان رقم کی اور دشمن کے غرور اور زعم کو خاک میں ملا دیا۔اور پوری قوم پاکستانی افواج کے شانہ بشانہ سیسہ پلائی دیوار ثابت ہوئی۔یہ ایک حقیقت ہے کہ جنگ محض ہتھیاروں سے نہیں، جذبوں سے جیتی جاتی ہے۔اور اس وقت یہ جذبہ پاکستانی قوم میں بیدار تھا۔
بھارت نے 6 ستمبر 1965 کو رات کے وقت پاکستان پر حملہ کیا تو اس کا خیال تھا کہ راتوں رات پاکستان کے اہم علاقوں پر قبضہ کر لیں گے۔ لیکن انہیں اندازہ نہیں تھا کہ شیر سویا بھی ہو تو شیر ہی ہوتا ہے۔
اور پھر وہ ہوا جسے چشم فلک نے صدیوں بعد دیکھا:
یہ غازی یہ تیرے پراسرار بندے
جنہیں تو نے بخشا ہے ذوقِ خدائی
مٹھی بھر پاکستانی فوج نے دشمن کے چھکے چھڑا دیے۔ صبح کا ناشتہ لاہور میں کرنے کا خواب دیکھنے والے ساری زندگی کا کھانا بھول گئے۔ اور ہر محاذ پر عبرت ناک شکست کا سامنا کرتے ہوئے اقوام متحدہ میں سیز فائر کی بھیک مانگنے چلے گئے۔ لاہور کے بارڈر سے لے کر سندھ تک اور کشمیر سے لے کر گلگت بلتستان تک پاک فوج نے ان گدڑوں کو انچ بھر بھی پاکستان میں آنے نہ دیا۔ بلکہ کشمیر اور بھارتی پنجاب میں کئی میل تک پاک فوج کے دستے جا پہنچے۔ پاک دھرتی کے محافظ اور اس زمین کے بیٹے دشمن کی راہ میں آہنی دیوار بن گئے۔توپوں اور ٹینکوں کے رخ موڑ دیے۔ دشمن کے قدم وہیں روک دیے۔ اور وہ شعلے جو ہمارے لیے بھڑکائے گئے تھے دشمن کو اسی میں دھکیل کر راکھ کر دیا۔ اور دشمن کے ناپاک عزائم کو رزقِ خاک بنا دیا۔
اور یہ ثابت کر دیا کہ:
میرے تن کے زخم نہ گن ابھی
میری آنکھ میں ابھی نور ہے
میرے بازوؤں پر نگاہ کر
جو غرور تھا وہ غرور ہے
وہ تو جب عالمی برادری نے مداخلت کی تو بھارت نے غیور پاکستانی افواج سے اپنے علاقے بھیک کی طرح واپس لیے۔
اور یوں 6 ستمبر یوم دفاعِ پاکستان کے نام سے منسوب ہوا۔ہمارے سینکڑوں نوجوانوں میں مادر وطن کی حفاظت کے لیے اپنی جانوں کا نظرانہ پیش کیا۔ اور دشمن کو ذلت آمیز شکست سے دوچار کرکے ان 17 دنوں کو ہماری تاریخ کا زندہ جاوید باب بنا دیا۔
ستارہ جرات نشان حیدر اور ستارہ امتیاز کی داستان ہو تو آج بھی ہم اپنے شہیدوں کی عظمت کو سلام پیش کرتے ہیں۔ اسی معرکہ میں پاکستان کے تین شہروں لاہور سرگودھا اور سیالکوٹ کو ہلالِ استقلال سے بھی نوازا گیا۔
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوِئے قاتل میں ہے
پھر دنیا نے یہ منظر بھی دیکھا کہ میری ملت کے محافظوں نے جرات اور بہادری کا مظاہرہ کیا اور چونڈہ کے مقام پر ٹینکوں کا سب سے بڑا قبرستان بنا ڈالا۔ شہادت کے متلاشی اور میرے وطن کے شاہین اڑے اور ایک منٹ سے بھی کم وقت میں دشمن کے پانچ طیاروں کے پرخچے اڑا دیئے۔
اور دشمن کو یہ پیغام دیا کہ:
خون دل دے کے نکھاریں گے رخ برگ گلاب
ہم نے گلشن کے تحفظ کی قسم کھائی ہے
اس دن ہمیں اپنے عہد رفتہ کے شیر دل جوانوں کے کارنامے یاد آتے ہیں۔ میجر راجہ عزیز بھٹی جیسے نوجوانوں کی صورت میں شیر کی للکار سنائی دیتی ہے تو وطن کی عظمت پر اپنا سب کچھ لٹاتے، سوار محمد حسین کی شان بھی واضح ہے۔
قربانی کی لازوال مثالیں قائم کرتے ہوئے کچھ شہادت کے رتبے پر فائز ہوئے تو کچھ غازی بن کر سرخرو ہوئے۔ قوم کے بہادر سپوتوں نے جرات اور بہادری کا ایسا مظاہرہ کیا کہ فضائے بدر کی یاد تازہ ہو گئی۔
اے عرض وطن اج بھی اپنا یہ عہد ہے
ہم حرف وفا خون سے تحریر کریں گے
6 ستمبر کا یہ دن ہمیں دو پیغام دیتا ہے۔ اول یہ کہ ہم اپنا مقصد حیات اور حب الوطنی اپنے آباؤ اجداد سے سیکھیں۔ اور دوسرا یہ کہ اپنے وطن کے دفاع کے لیے ہر وقت تیار رہیں اور کسی بھی قربانی سے دریغ نہ کریں۔
یوم دفاع پاکستان دراصل ہمارے عزم، حوصلے اور محبت وطن کی علامت ہے۔
یوم دفاع پاکستان نہ صرف ہماری عسکری تاریخ کا ایک اہم دن ہے بلکہ یہ ہمیں اتحاد، یکجہتی، اور قربانی کی اہمیت کا بھی درس دیتا ہے۔ یہ دن ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ ہم سب کو مل کر اپنے وطن کی حفاظت کرنی ہے اور دشمن کے ناپاک ارادوں کو ناکام بنانے کے لیے ہمیشہ تیار رہنا ہے۔ تاکہ ہمارا پیارا وطن ہمیشہ قائم و دائم رہے۔
ستمبر 1965 کی کی جنگ پاک دھرتی کے ان بہادر سپوتوں کی داستان ہے کہ جو اپنی دھرتی کی طرف اٹھنے والی ہر انگلی کو توڑنے اور اسے میلی نگاہ سے دیکھنے والی ہر آنکھ کو پھوڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
اور اس کی عملی تصویر ہیں کہ
ہم جنون گردش کے رخ کو موڑ دیتے ہیں
ہم وہ ہیں جو ظلم کے پنجوں کو توڑ دیتے ہیں
نہ دیکھنا میرے اس وطن کو کبھی میلی نگاہ سے
ورنہ زمانہ گواہ ہے ہم ایسی آنکھیں اکثر پھوڑ دیتے ہیں
لیکن افسوس کہ وہ جذبہ جو 1965 کی جنگ میں پاکستانی قوم میں موجود تھا آج پاکستانی قوم اس جذبہ جرأت و شجاعت سے عاری نظر آتی ہے۔ اور اپنی نسلوں کو اپنی اقدار کا دفاع کرنا سکھانے میں ناکام رہی۔
ہم جن کو حکم اذاں پر پر بت شکن بننا تھا وہ ضمیر فروش بن گئے۔ ہم اقبال کے شاہین، ملک کے معمار تھے جن کو ستاروں پر کمند ڈالنا تھی وہ بجلی چوری کرنے کے لیے کنڈے ڈالنے لگے
جن کے نعروں سے قیصر و کسریٰ کے ایوان لرز جاتے تھے، جن کی بے رحم شمشیروں سے دشمن کے دل دہل جاتے تھے آج وہی شمشیریں زنگ آلود ہیں کہ
اقبال تیری قوم کا اقبال کھو گیا
لیکن اگر آج بھی پاکستانی قوم اپنی میراث کو جان لے تو ترقی یافتہ قوموں کی صفِ اول میں آنے سے اسے دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔
کیونکہ ان پر سایۂ شمشیرِ حیدر ہے۔ یہ تو وہ قوم ہے جس کے بہادر سپوتوں نے گلشن کے تحفظ کی قسم کھائی ہے کبھی میجر عزیز بھٹی بن کر تو کبھی مقبول حسین بن کر کہ جس کی زبان کاٹ دی جاتی ہے جس کے ناخن چیر دیے جاتے ہیں اور پاکستان مردہ باد کہنے پر مجبور کیا جاتا ہے لیکن وہ اپنی زبان کے بہتے لہو سے دیوار زندان پر لکھتا ہے ’پاکستان زندہ باد‘۔
آج پھر سے اسی جذبے کو بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان آج بھی دشمن کی آنکھوں میں کھٹک رہا ہے ۔ اسے پاکستان کا وجود گوارا نہیں اب وہ سرحدوں پر حملہ کرنے کی بجائے ملک کے اندر ہی مسلمان بھائیوں کو لڑانے کی سازشیں کر رہا ہے۔
آئیے اس دن پر ہم سب یہ عہد کریں کہ ہم اپنے ملک کی ترقی، خوشحالی اور سلامتی کے لئے بھرپور محنت کریں گے۔ ہم اپنے شہداء کی قربانیوں کو رائیگاں نہیں جانے دیں گے اور ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے وطن کی خدمت کریں گے۔دشمن کے ناپاک منصوبے خاک میں ملا دیں گے اور پاکستان کا دفاع ہر قیمت پر کریں گے یہی 6 ستمبر کا پیغام ہے
اے ارض وطن ہم تیری عظمت کے ہیں قائل
اونچا تیرا دنیا میں علم کرکے رہیں گے
پاکستان زندہ باد!