وما ارسلنک الا رحمۃ للعالمین

رابعہ فاطمہ

یوں تو اللہ کریم کا بھیجا ہوا ہر نبی رحمت الہٰیہ کا مظہر ہے کہ اللہ نے انسانیت کی رشد و ہدایت کےلیے انہیں بھیجا ورنہ دنیا جہالت کے گہرے گھڑے میں گرگئی ہوتی مگر اللہ پاک نے انبیاء کو بھیج کر نسل انسانی پر رحمت کا نزول فرمایا اور انسانوں کو فلاح کا راستہ دکھلایا۔ لیکن کریم اللہ نے جو احسان رحم اور شفقت کا مظاہرہ رسول خدا محمد مجتبیٰ ﷺ کو دنیا میں مبعوث فرماکر کیا ہے۔ اس کا احسان دنیا کے سارے انسان تو کیا پوری کائناتیں بھی ملکر نہیں اتار سکتیں کہ آقا علیہ السلام کی ذات بابرکات کس قدر رحمتوں والی عظمتوں والی اور عنائیتوں والی ہے۔ جس قدر بھی ہم اللہ کا شکر ادا کریں حق ادا ہو ہی نہیں سکتا۔ اس احسان عظیم کا کہ ایک تو آقا کریم علیہ الصلوۃ والسلام اللہ کے محبوب اللہ کے آخری نبی اور سب سے بڑھ کر وہ رحمۃ للعالمین ہیں۔ کل جہانوں کے لیے رحمت، سراپا رحمت، اللہ کی رحمت کے کامل مظہر۔ان کی رحمت بے حساب و بے کنار ہے۔ اس کا کچھ شمار نہیں۔ ان کی رحمت نہ صرف گناہگاروں، خطاکاروں عام لوگوں، خواتین بچوں، فقیروں، خادمین، جانی دشمنوں، کفار و مشرکین، چرند پرند، حشرات بلکہ کائنات کے ہر ہر ذرے کے لیے ہے۔

ہر کسی کے لیے اس رحمت میں حصہ موجود ہے۔کوئی بھی اس رحمت الہٰی کے فیض سے محروم نہیں۔ ہر کسی کو حصہ ملا ہوا ہے۔ پھر چاہے وہ کوئی اپنا ہو یا غیر کیونکہ اس دریائے رحمت سے کوئی بھی خالی نہیں لوٹتا۔ آقا علیہ الصلوۃ والسلام کی ولادت رحمت، آپ ﷺ کی رسالت رحمت، آپ ﷺ کی بعثت رحمت، آپ ﷺ کی تعلیمات رحمت، آپ ﷺ کا دین رحمت، آپ ﷺ کی حیات مبارکہ رحمت، آپ ﷺ کا زمین پر آنا رحمت، آپ ﷺ کے احوال آپ ﷺ کے اقوال آپ ﷺ کے افعال رحمت۔ آپ ﷺ کا اسلام رحمت، آپ ﷺ کا قرآن رحمت، رہنا رحمت، آپ ﷺ کا گنبد خضرا رحمت، آپ ﷺ کی آل رحمت، آپ ﷺ کے اصحاب رحمت، آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام کا قیامت میں شفاعت کرنا رحمت، آپ ﷺ کا حوض کوثر رحمت غرضیکہ آپ ﷺ سراپا رحمت ہی رحمت ہیں۔

اللہ رب العالمین ہے وہ اپنی ربوبیت کو رحمن و رحیم کی صفت کے ساتھ قرآن میں ذکر کرتا ہے اور رحمت والی صفت کو غالب دکھاتا ہے۔جیسے ارشاد باری تعالیٰ ہے:

الحمدللہ رب العالمین. الرحمٰن الرحیم.

اسی طرح آقا علیہ الصلوٰہ والسلام کی ذات مبارکہ آپ ﷺ کی احادیث و افعال میں بھی غالب رحمت کا وصف ہی ہے۔ آپ ﷺ کی لائی ہوئی تعلیمات کو بھی اگر بغور دیکھا جائے تو وہ بھی رحمت، شفقت، نرمی، عفو درگزر پر ہی زور دیتی نظر آتی ہیں کیونکہ آپ ﷺ سراپا رحمت ہی رحمت ہیں۔ دین اسلام کی پہلی سیڑھی اسلام ہے جو کہ سلامتی سے ہے دوسری سیڑھی ایمان ہے وہ امن سے ہے۔ تیسری سیڑھی احسان ہے وہ حسن سے ہے۔

دین اسلام کی تینوں سیڑھیوں پر صرف سلامتی، امن اور حسن ہے جو کہ رحمت و شفقت کی شکلیں ہیں۔ آقا علیہ الصلوۃ والسلام چونکہ خود رحمت ہیں۔ اس لیے وہ انسانیت کے لیے آسانیاں اور شفقتیں بانٹنےو الے ہیں۔ رحمن و رحیم رب ارشاد فرماتا ہے:

وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ.

(آل عمران: 159)

اور اگر آپ تند خو اور سخت دل ہوئے تو لوگ آپ کے گرد سے چھٹ کر بھاگ جاتے۔

یعنی آپ ﷺ کی محبت و شفقت کی وجہ سے لوگ آپ ﷺ کی جانب کھچے چلے آتے ہیں اور جو آجاتا ہے وہ پھر کہیں اور جا ہی نہیں پاتا۔ اتنی محبت و شفقت رحمدلی چھوڑ کر کہاں جائے۔ آپ ﷺ کے سراپا رحمت ہونے کا عالم یہ ہے کہ اگر کوئی بھی انسان معمولی سی کسی تکلیف یا پریشانی میں ہو تو اس کا دکھ یا درد یا تکلیف آقا علیہ السلام اپنی جان پر محسوس کرتے ہیں کیونکہ آقا کریم ﷺ رحمت تو ہر کسی کے لیے ہیں لیکن مومنین کی تو جانوں سے بھی زیادہ قریب ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

اَلنَّبِیُّ اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ.

(الاحزاب: 6)

یہ نبی مومنوں کے ساتھ ان کی جانوں سے بھی زیادہ قریب اور حقدار ہیں۔

اللہ پاک نے حضور نبی اکرم ﷺ کو نہ صرف مسلمان اور مومنین کے لیے رحمت بنایا ہے بلکہ کل جہانوں کے لیے رحمت ہیں۔ یہ آپ ﷺ کی شان ہے کہ آپ ﷺ کی موجودگی کی وجہ سے ہی کفار و مشرکین پر بھی اللہ اپنا عذاب نہیں بھیجتا کہ اس کے محبوب کا وجود باعث رحمت ہے

یعنی ہماری جانیں بھی ہم سے دور ہیں لیکن کریم و شفیق آقا علیہ الصلوۃ والسلام ہماری جانوں سے بھی زیادہ قریب ہیں۔ ہم سے اسی لیے ہماری تکلیف دکھ درد کو گنبد خضریٰ کے مکین رحیم آقا ﷺ اپنی جان پر محسوس کرتے ہیں۔ اسی لیے شاعر نے کہا:

فریاد جو امتی کرے حال زار میں
ممکن نہیں کہ خیرالبشر کو خبر نہ ہو

حدیث مبارکہ میں آتا ہے میرے امتی کو اگر کانٹا بھی چبھے تو اس کی تکلیف مجھے ہوتی ہے۔ اس قدر کوئی کریم ہے اپنے امتیوں پر کہ ذرا سی تکلیف بھی ان کی برداشت نہیں ہوتی۔ قربان جائیں ان کی کریمی و رحیمی پر۔ ساری ساری رات اللہ رب العزت کی بارگاہ میں التجائیں کرتے مولا میری امت کو بخش دے قدمین مبارکہ متورم ہوجاتے مگر امت کا غم اس قدر ہوتا کہ اگلی رات پھر خدا لم یزل کی بارگاہ میں کھڑے ہوجاتے اس قدر محبت تو والدین تو والدین انسان خود بھی اپنی ذات سے نہیں کرتا جتنی محبت شفقت رسول اللہ ﷺ اپنے امتیوں سے کرتے ہیں اللہ کریم ارشاد فرماتا ہے:

لَقَدْ جَآءَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ.

(التوبۃ: 123)

بے شک تمھارے پاس تم میں سے (ایک باعظمت) رسول تشریف لائے۔ تمھارا تکلیف و مشقت میں پڑنا ان پر سخت گراں گزرتا ہے (اے لوگو) وہ تمھارے لیے بھلائی اور ہدایت کے لیے بڑے طالب و آرزو مند رہتے ہیں (اور) مومنوں کے لیے نہایت (ہی) شفیق بے حد رحم فرمانے والے ہیں۔

آپ ﷺ کے رحمۃ للعالمین ہونے پر قربان جایئے کہ آپ ﷺ کو کسی چیز کی آرزو نہیں سوائے اس کے کہ آپ ﷺ کے امتی ہدایت کے راستے پر چلیں آپ ﷺ رحمت ہر کسی کے لیے تو ہے خصوصی طور پر مومنین کے لیے تو انتہائی شفیق و رحیم ہیں۔

دنیاوی دکھ تکلیف تو عارضی ہیں وہ جب آپ ﷺ پر گراں گزرتے ہیں تو دوزخ کی طرف اگر کوئی امتی جارہا ہو تو سوچیں آقا علیہ الصلوۃ والسلام کو کس قدر رنج ہوگا اسی لیے اتنے دکھ درد تکلیفیں کفار کی طرف سے ملنے کے باوجود کبھی بدعا نہیں کی۔ اس سے بڑھ کر اور کیا رحمت ہوگی وہ سراپا رحمت ہیں۔

اللہ پاک نے حضور نبی اکرم ﷺ کو نہ صرف مسلمان اور مومنین کے لیے رحمت بنایا ہے بلکہ کل جہانوں کے لیے رحمت ہیں۔ یہ آپ ﷺ کی شان ہے کہ آپ ﷺ کی موجودگی کی وجہ سے ہی کفار و مشرکین پر بھی اللہ اپنا عذاب نہیں بھیجتا کہ اس کے محبوب کا وجود باعث رحمت ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَمَا کَانَ اللہُ لِیُعَذِّبَهُمْ وَاَنْتَ فِیْهِمْ.

(الانفال: 33)

اور (در حقیقت بات یہ ہے کہ) اللہ کی یہ شان نہیں کہ ان پر عذاب فرمائے درآنحالیکہ (اے حبیب مکرم) آپ بھی ان میں (موجود) ہوں۔

یعنی کفار و مشرکین سخت عذاب کےمستحق ہونے کے باوجود عذاب سے مامون ہیں تو اس کی وجہ صرف آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سراپا رحمت ذات مبارکہ ہے۔

حضرت عقبیٰ بن عامرؓ فرماتے ہیں جب ہم آقا علیہ السلام کے ساتھ نماز پڑھتے تو آپ ﷺ قیام میں تخفیف کردیا کرتے تاکہ پیچھے کھڑے لوگ مشکل میں نہ پڑیں لیکن ایک موقع پر آپ ﷺ نے قیام طویل کردیا ہمیں کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا کہ آپ ﷺ کیا پڑھ رہے ہوں۔ سوائے ان کلمات کے۔

رب وانا فیہم اے میرے رب! میں ان میں موجود ہوں۔ اے میرے اللہ جبکہ میں ان میں موجود ہوں۔

صحابہ کرامؓ سمجھ گئے کہ یہ اسی آیت کی طرف اشارہ ہے۔ یعنی آقا علیہ السلام کا وجود مبارکہ باعث رحمت ہے۔صحابہ کرامؓ نے نماز کے بعد قیام کی طوالت کے بارے میں پوچھا تو رسول خدا ﷺ نے فرمایا۔ اس ذات کی قسم جس کےقبضہ قدرت میں میری جان ہے تم لوگوں سے آخرت کے دن کے لیے جس جس شے کا وعدہ (جنت و دوزخ) کیا گیا ہے۔ ان میں سے ہر چیز اللہ تعالیٰ نے مجھے نماز کی حالت میں دکھادی حتی کہ دوزخ بھی میرے سامنے لائی گئی۔چنانچہ میں نے دیکھا کہ دوزخ کا کوئی شعلہ اٹھ رہا ہے اور مجھے خدشہ ہوا کہ کہیں وہ میری امت کو اپنی لپیٹ میں نہ لے لے۔ اس لیے میں نے اللہ تعالیٰ سے عرض کیا: رب وانا فیہم رب وانا فیہم یعنی میں ان میں موجود ہوں ان پر عذاب نہ اتارنا۔

قربان جائیں ان کی شان رحیمی و کریمی پر کہ کیسے ان کے قلب میں امت کا خیال احساس ہے کہ آپ ﷺ ہمارے لیے ایک ڈھال ہیں۔ بے حد مضبوط پناہ ہیں۔

پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

فصر فھا عنکم

پس اللہ تعالیٰ نے اسے تم سے ہٹادیا۔ اللہ اللہ! جبکہ ہم ایسے کریم رحیم محبت کرنے والے محبوب کے امتی ہیں تو ہمیں بھی ان کی محبت کا جواب انتہائی محبت و احترام اور سب سے بڑھ کر اطاعت رسول سے دینا چاہیے تاکہ ان کے قلب رحمت پر قیامت والے دن ہمارے برے اعمال کو دیکھ کر رنج نہ ہو۔

اسی طرح آقا علیہ الصلوٰہ والسلام کی ذات مبارکہ آپ ﷺ کی احادیث و افعال میں بھی غالب رحمت کا وصف ہی ہے۔ آپ ﷺ کی لائی ہوئی تعلیمات کو بھی اگر بغور دیکھا جائے تو وہ بھی رحمت، شفقت، نرمی، عفو درگزر پر ہی زور دیتی نظر آتی ہیں کیونکہ آپ ﷺ سراپا رحمت ہی رحمت ہیں۔ دین اسلام کی پہلی سیڑھی اسلام ہے جو کہ سلامتی سے ہے دوسری سیڑھی ایمان ہے وہ امن سے ہے۔ تیسری سیڑھی احسان ہے وہ حسن سے ہے

ایسے کریم آقا ﷺ کی ولادت پر بڑھ چڑھ کر خوشیاں منانی چاہیے آپ ﷺ سے عہد وفا نبھانے کا عزم مصمم کرنا چاہیے۔ آپ ﷺ کی اطاعت و فرمانبرداری پر مکمل عمل پیرا ہونا چاہیے اپنی طرف سے پوری دیانتداری کے ساتھ شریعت کے مطابق زندگی گزارنی چاہیے تاکہ قیامت والے دن حبیبِ خدا ہمارے آقا ﷺ ہم سے راضی ہوجائیں۔ اللہ کی بارگاہ میں شکر بجا لانا چاہیے۔ اللہ کریم سے دعا ہے کہ مولا ہم گناہگار، عاجز، ناقص انسان ہیں تو رحیم ہے کریم ہے اپنے محبوب رحمۃ للعالمین کی ولادت کے صدقے ہمیں توفیق کاملہ عطا فرما کہ ہم تیرے محبوب ﷺ کے راستے پر چل سکیں۔ حضور ﷺ ہم سے راضی ہوجائیں قیامت کے دن نبی کریم ﷺ کے سایہ رحمت میں ہمیں رکھنا۔ آمین