ارشاد باری تعالیٰ ہے:
یٰٓـاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اٰمِنُوْا بِاللهِ وَرَسُوْلِهٖ.
النساء، 4: 136
’’اے ایمان والو! تم اللہ اور اس کے رسول پرایمان لاؤ۔‘‘
دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا:
فامنوا باللہ ورسولہ النبی الامی.
’’سو تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤجو شان امیت کا حامل ہے۔‘‘
امی کا معنی ہے وہ رسول جو اللہ کے سوا کسی سے کچھ نہیں پڑھا مگر جمیع خلق میں سب سے زیادہ جانتا ہے کفر و شرک کے معاشرے میں جوان ہوا مگر بطن مادر سے نکلے ہوئے بچے کی طرح معصوم اور پاکیزہ ہے۔ اس رسول امی پر ایمان لاؤ۔
ایمان لانے والوں کے لیے ایمان لانے کا مفہوم
اب یہاں یہ بات قابل توجہ ہے وہ لوگ جو پہلے ہی ایمان لاچکے ہیں، ان کو کہا جارہا ہے یایھا الذین امنوا، امنوا باللہ ورسولہ اے ایمان لانے والو۔ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ۔ وہ تو پہلے ہی ایمان لاچکے ہیں۔ اب دوبارہ ان کے ایمان لانے کا مطلب کیا ہے۔ امنوا والو ں کو دوبارہ امنوا کا حکم کیوں دیا جارہا ہے جو پہلے ہی ایمان لاچکے ہیں۔ اب دوبارہ ایمان کیا لائیں۔ اس حوالے سے یہ بات ذہن نشین کرلیں۔
ایمان لانے والوں سے دوبارہ تقاضا ایمان اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اصل ایمان کے مطابق کامل اطاعت کا حکم ہے کہ تمہارا ایمان کامل ایمان کی صورت میں اس وقت ڈھلے گا جب تمہارے دل میں جو ایمان ہے وہ عمل بن کر تمہارے وجود میں بھی عیاں ہو دل کا ایمان عمل کی صورت میں ظاہراً ایک حقیقت کردار بنے۔ دل کا اقرار ایمان، عمل کی دنیا کا عملی اظہار بنے۔ ایمان لانے کا فقط اعلان نہ ہو بلکہ ایمان لانے کا عملی اظہار کردار مومن بنے۔
ایمان کو عمل کی دنیا میں متشکل کرنے کا نام اطاعت ہے۔ ایک مسلمان کو اپنی زندگی میں دو اطاعتوں کو غیر مشروط پر اپنی زندگی میں اختیار کرنا ہے، ایک اللہ کی اطاعت ہے اور دوسری رسول اللہ ﷺ کی اطاعت ہے اور ان دونوں اطاعتوں کی حیثیت اپنی جگہ مستقل ہے۔ یہ دونوں اطاعتیں عمل کی دنیا میں قرآن اور حدیث و سنت رسول کی صورت میں دکھائی دیتی ہیں۔
ان دونوں اطاعتوں کا ذکر کرتے ہوئے باری تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللهَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ.
النساء، 4: 59
’’اے ایمان والو اللہ کی اطاعت کرو اور رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کرو۔‘‘
رسول اللہ ﷺ کی اطاعت، سیرت کی پیروی ہے
باری تعالیٰ اس آیت کریمہ کے ذریعے ایمان کو عملی حقیقت دینے کے لیے اپنی اطاعت کا حکم دے رہا ہے اور اپنے رسول کی اطاعت کا حکم دے رہا ہے۔ اس آیت میں لفظ اطیعوا کا تکرار اس بات کو عیاں کررہا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی اطاعت بھی مستقل بالذات ہے۔ دونوں اطاعتیں ایک مسلمان اور ایک مومن پر فرض اور واجب ہیں۔ اطاعت خواہ خدا کی ہو اور اطاعت خواہ مصطفی ﷺ کی ہو۔ دونوں اطاعتوں کا عملی نمونہ ایک ہے اور وہ ہے سیرۃ الرسول، سیرت النبی، اسوہ رسول، اسوہ حسنہ۔ اسوہ و سیرت الرسول کے بغیر اطاعت الہٰی کی کوئی عملی صورت نہیں ہے۔ گویا اسوہ رسول کو اختیار کرنا اور سیرت الرسول پر عمل کرنا اطاعت الہیٰ کو اختیار کرنا ہے۔ اس لیے باری تعالیٰ نے قرآن حکیم میں اپنے بندوں کو راہنمائی دیتا ہے کہ اس کے ہر حکم کی اطاعت کی عملی صورت اسوہ رسول ہے، اس اسوہ رسول کو ہر ایمان والے شخص نے اختیار کرنا ہے۔ اس لیے فرمایا:
لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللهِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ.
(الاحزاب، 33: 21)
’’رسول اللہ کی ذات و سیرت عمل اطاعت کے باب میں تمہارے لیے بہترین اسوہ اور نمونہ عمل ہے۔‘‘
جو اللہ کا حکم اطاعت ہے وہی رسول اللہ ﷺ کا حکم اطاعت ہے جو حکم باری تعالیٰ قرآن میں رسول اللہ ﷺ کے ذریعے اپنے بندوں کو حکم دیتا ہے وہی حکم رسول اللہ ﷺ سے بھی اپنی امت کو دیتے ہیں۔ اس لیے اللہ کا حکم اور رسول اللہ ﷺ کا حکم جدا نہیں ہیں۔ وہ دونوں اپنی حقیقت میں ایک ہیں مگر اس حکم الہٰی کی عملی حقیقت صرف اور صرف سیرت النبی ہے۔
حکم اطاعت اور سیرت رسول ﷺ
آیئے اب ہم قرآن سے حکم اطاعت اور اس کا عملی اظہار سیرت کے تناظر میں دیکھیں اور جانیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَاعْبُدُوا اللهَ وَلَا تُشْرِکُوْا بِہٖ شَیْئًا.
(النساء، 4: 36)
’’اور تم اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ۔‘‘
اب رسول اللہ ﷺ نے امت کو تعلیم توحید یہ دی ہے انسان اپنی ساری حیات میں ھو اللہ احد کا قائل رہے اور اپنی زندگی کے ایک ایک لمحے میں اسی کی طرف مائل رہے اور توحید الوہیت، توحید ربوبیت میں اس کا عقیدہ ہمیشہ واذکر اسم ربک وتبطل الیہ تبتیلا کا ہو۔
اب اس حکم اطاعت کو رسول اللہ ﷺ نے اپنی سیرت بنایا۔ امت کو اپنی سیرت یہ سمجھائی کسی بھی غیراللہ کی عبادت نہ کرنا، کسی کو بھی اللہ کے ساتھ شریک نہ کرنا۔ اس لیے کہ اللہ کا کوئی شریک کسی بھی حوالے سے ہے ہی نہیں وہ رب اپنی ذات اور صفات میں شرک سے پاک ہے لیس کمثلہ شئی اس کی کوئی مثل نہیں ہے۔
حکم انفاق اور سیرت النبی ﷺ
انفاق کے باب میں حکم اطاعت یہ ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
یٰـٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰـکُمْ.
(البقرہ، 2: 254)
’’اے ایمان والو! جو کچھ ہم نے تمہیں عطا کیا ہے اس میں سے اللہ کی راہ میں خرچ کرو۔‘‘
انفقوا مما رزقنکم اللہ نے انسان کو جو جو نعمتیں دی ہیں۔ مال کی نعمت، علم کی دولت، صحت کی نعمت، ہنر و فن کی صلاحیت، کسی بھی شعبے میں قابلیت و استبداد کی نعمت۔ اب اس آیت کو رسول اللہ ﷺ نے اپنی سیرت بنایا۔ اللہ کی نعمتوں کو اللہ کی رضا کی خاطر خرچ کیا اور اب رسول اللہ ﷺ کی سیرت پر عمل یہ ہے ایک مسلمان اپنے پاس میں جو جو نعمتیں رکھتا ہے۔ رسول اللہ کی پیروی میں اسے اللہ کے بندوں پر خرچ کرتا جائے۔ اپنی ہر نعمت اور ہر صلاحیت سے مخلوق خدا اور امت مصطفی کو فائدہ و نفع پہنچائے تو یہ اس کا سیرت پر عمل کرنا ہے۔
حکم عدل و انصاف اور سیرت رسول ﷺ
اب عدل کے باب حکم اطاعت یہ ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اِعْدِلُوْا قف ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی.
(المائدۃ، 5: 8)
’’عدل و انصاف اختیار کرو یہ تقویٰ کے زیادہ قریب ہے۔‘‘
فَاعْدِلُوْا وَلَوْ کَانَ ذَا قُرْبٰی.
(الانعام، 6: 152)
’’انصاف اختیار کرو اس سلسلے میں رشتے اور دوستیوں کو آڑے نہ آنے دو۔‘‘
اس لیے انصاف ہر حال میں کرتے رہنا تمہارے لیے اللہ کا حکم ہے اور رسول اللہ ﷺ کی تعلیم ہے اور رسول اللہ ﷺ کی سیرت ہے۔
اِنَّ اللهَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ.
(النحل، 16: 90)
’’اللہ تم کو عدل اور بھلائی کا حکم دیتا ہے۔‘‘
دوسرے مقام پر فرمایا:
وَاَقْسِطُوْا اِنَّ اللهَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ.
(الحجرات، 49: 9)
’’ہمیشہ انصاف کرتے رہو، اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند بھی کرتا ہے اور انصاف کرنے والوں کی مدد بھی کرتا ہے۔‘‘
مسلمان وہ ہے جو یدعون الی الخیر جو خیر کی دعوت دیتا ہے۔ جو سلامتی کی دعوت دیتا ہے جو امن کی دیتا ہے، جو محبت و ایمان کی دعوت دیتا ہے، جو فوزو فلاح کی دعوت دیتا ہے، مسلمان داعی ہے خیر کا، مسلمان داعی ہے امن کا، مسلمان داعی ہے سلامتی کا مسلمان داعی ہے انسانی جان کے احترام کا مسلمان داعی ہے امن عالم کا
رسول اللہ ﷺ کی سیرت اس باب میں یہ ہے کہ آپ نے اپنی ساری حیات میں عدل و انصاف کی اقدار کو فروغ دیا۔ عدل و انصاف کے طرز عمل میں کسی کے جاہ و منصب کسی کی بھی رشتے داری اور تعلق داری اور کسی بھی معاشرتی مجبوری اور کسی بھی ظالم و مستبد کو رکاوٹ نہیں بننے دیا اور اپنی سیرت یہ دی کہ عدل و انصاف کے باب میں اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتیں تو ان کے بھی ہاتھ کاٹنے کا حکم دیتا۔ آج ہمارا سیرت پر عمل یہ ہے ہم عدل کی مٹی ہوئی قدروں کو بحال کریں۔ آج عدل، ، خود عدل کی تلاش میں ہے۔ آج انصاف خود اپنی جستجو میں ہے۔ ہمیں عدل وانصاف کو آج اپنی سیرت بنانا ہے۔ کوئی ہماری قلم عدل اور کوئی بھی ہماری زبان انصاف کونہ خرید سکے نہ دباسکے۔ یہی سیرت پر عمل ہے اور یہی آج ہم سے سیرت الرسول تقاضا کرتی ہے۔
ادائیگی امانت اور نمونہ سیرت
ادائیگی امانت کے باب میں حکم اطاعت یہ ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اِنَّ اللهَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰـنٰـتِ اِلٰٓی اَهْلِهَا.
(النساء، 4: 58)
’’بے شک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں انہی لوگوں کے سپرد کرو جو ان کے اہل ہیں۔‘‘
انسان کی ساری حیات ایک امانت ہے۔ ہماری زندگی ہمارے پاس اللہ کی امانت ہے۔ اللہ نے یہ زندگی اپنی بندگی کے لیے ہمیں بطور امانت دی ہے۔ ہماری زندگی میں اللہ کی بندگی کس حد تک ہے یہ ہمیں غور کرنا ہے اور خود سوچنا ہے۔ زندگی کے امانت ہونے کا معنی یہ ہے انسان کی زندگی کا کوئی قول اور فعل اللہ کی بندگی اور اطاعت سے خالی نہ ہو۔
ہماری سوچ اور ہمارا عمل ادائیگی امانت کا سبب بنتا ہے۔ ادائیگی امانت کی شرط اہلیت ہے یہ حکم اطاعت ہے یہ اللہ اور اس کا واضح حکم ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے منصب رسالت کو بھی ایک امانت جانا ہے اور خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر تمام صحابہ کرامؓ سے پوچھا:
ھل بلغت؟ ھل بلغت؟
کیا میں نے تم تک اللہ کی امانت، پیغام رسالت اور پیغام خداوندی کو پہنچادیا ہے؟ سب نے گواہی دی آپ نے وہ پیغام حق پہنچادیا ہے رسول اللہ ﷺ نے امانت کو اس کے اہل تک پہنچانے کو اپنی سیرت بنایا۔ آج امت پر ادائیگی امانت میں سیرت الرسول ﷺ یہ ہے ہم ادائیگی امانت میں کوئی کوتاہی نہ کریں۔ کسی قسم کی غفلت کا مظاہرہ نہ کریں۔ امانت خواہ مشورے کی صورت میں ہو، خواہ رائے دہی کی صورت میں ہو، خواہ سچ کے اظہار کی صورت میں ہو، خواہ ووٹ کی صورت میں۔ ہماری رائے، ہماری ووٹ، ہماری سوچ کو کوئی خرید نہ سکے، کوئی دباؤ کے ذریعے نقوش سیرت سے ہٹا نہ سکے۔ کوئی برادری ازم کے تحت ہماری ووٹ کا مالک نہ بن سکے۔ جس کو ہم حق سمجھیں، جس کو ہم سچا جانیں، جس رائے کو ہم صائب تصور کریں جس موقف کو ہم صدق سمجھیں وہی ادائیگی امانت بن کر اہل و قابل تک پہنچنے کے لیے ہماری سیرت بنے تو ہمارا یہی طرز عمل سیرت الرسول پر عمل کرنا ہے۔
کاروبار و تجارت اور اسوہ رسول ﷺ
حکم اطاعت ہے کہ ہم ہر حال میں ناپ و تول کو پورا رکھیں، وزن میں کسی قسم کی کمی نہ کریں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَاَوْفُوا الْکَیْلَ وَالْمِیْزَانَ بِالْقِسْطِ.
(الانعام، 6: 152)
’’اور پیمانے اور ترازو (یعنی ناپ اور تول) کو انصاف کے ساتھ پورا کیا کرو۔‘‘
دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا:
فَاَوْفُوا الْکَیْلَ وَالْمِیْزَانَ وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآءَ ھُمْ.
(الاعراف، 7: 85)
’’سو تم ماپ اور تول پورے کیا کرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں گھٹا کر نہ دیا کرو۔‘‘
خریدو فروخت کرتے وقت ماپ و تول پر انصاف کو قائم کرنا، حکم اطاعت ہے۔ اللہ کا بھی یہی حکم ہے اور رسول اللہ ﷺ کا بھی یہی حکم ہے۔ لوگوں کے ساتھ دھوکہ نہ کیا جائے اور ان کو فراڈ کے ذریعے نقصان نہ پہنچایا جائے اور ان کے مال کے بدلے میں اشیاء تھوڑی اور ہلکی نہ دی جائیں۔ خود کو زیادہ نفع پہنچانے کے لیے دوسرے کو نقصان نہ دیا جائے۔
صحابہ کرامؓ نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے اس حکم اوفوا الکیل والمیزان پر عمل کیا ہے اور اس حکم کو اپنا عمل بنایا ہے یہ حکم جب ان کے عمل میں ڈھلا تو خود بخود خوشبو کی طرح ایک روشن کردار بن کر ہر سو پھیل گیا، اس عمل نے دوسرے انسانوں کو متاثرکیا یوں وہ اس کردار کے ظہور سے اسلام کے دائرے میں آگئے، اہل اسلام کا یہ کردار جب ان کی سیرت بنا دوسرے لوگ ان کی اس سیرت کی وجہ سے سیرت مصطفی سے وابستہ ہوگئے اور رسول اللہ ﷺ کی پیروی میں آگئے اور اسلام میں داخل ہوگئے۔
آج سیرت رسول ﷺ ہمیں یہ درس حیات دیتی ہے، حالات کچھ کے کچھ کیوں نہ ہوجائیں ہم ناپ تول میں کمی نہ کریں۔ لوگوں کو ملاوٹ شدہ چیزیں نہ بیچیں۔ اشیاء کی خریدوفروخت میں دھوکہ و دجل نہ کریں، دوسروں کو کسی قسم کا نقصان و خسارہ نہ دیں۔ ایسا تاجر بنیں اور ایسا کاروباری فرد بنیں جو امانتدار ہو اور دیانتدار ہو، دھوکہ باز نہ ہو اور دجل پرور نہ ہو اور دجال ساز نہ ہو۔ اسی کردار کو اپنانا آج سیرت رسول ﷺ پر عمل کرنا ہے۔
انسانی جان کی حفاظت اور سیرت الرسول ﷺ
انسانی جان کی حفاظت، تقدس، احترام اور اکرام کے باب میں حکم اطاعت یہ ہے۔ ہر انسانی وجود ہمارے مسلمانی وجود سے محفوط ہو، کسی انسان کو بلاوجہ ہم سے کوئی گزند نہ پہنچے کسی قسم کا کوئی نقصان و خسران نہ پہنچے۔ ہم انسان پرور ہوں انسان دشمن نہ ہوں، ہم سلامتی کی علامت ہوں دہشت کی علامت نہ ہوں، ہم امن پرور ہوں فساد پرور نہ ہوں۔ ہم انسانی خون کا احترام کرنے والے ہوں، انسانی خون کو بہانے والے نہ ہوں۔ اس لیے ہمارے لیے حکم اطاعت یہ ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
مَنْ قَتَلَ نَفْسًام بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًا ط وَمَنْ اَحْیَاهَا فَکَاَنَّمَآ اَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعًا.
(المائدۃ، 5: 32)
’’ جس نے کسی شخص کو بغیر قصاص کے یا زمین میں فساد انگیزی (کی سزا) کے بغیر (ناحق) قتل کر دیا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو قتل کر ڈالا اور جس نے اسے (ناحق مرنے سے بچا کر) زندہ رکھا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو زندہ رکھا (یعنی اس نے حیاتِ انسانی کا اجتماعی نظام بچا لیا)۔‘‘
رسول اللہ ﷺ اپنے اس فرمان کے ذریعے سب سے اچھے مسلمان اور سب سے بہترین انسان کی نشاندہی کررہے ہیں کہ وہ ہے جو دوسرے لوگوں کے لیے منفعت کا باعث ہو جو دوسرے لوگوں کو نفع پہنچانے والا ہو، اس کا وجود دوسروں کے لیے سلامتی اور خیر کا باعث کا ہو۔ آج کے دور میں اس کردار کو اپنانا سیرت الرسول ﷺ پر عمل کرنا ہے
اب انسانوں کو ناحق قتل نہ کرنا اللہ اور اس کے رسول کا حکم ہے، اسلام کی تعلیم دوسروں لوگوں کو قتل نہ کرنا ہے تعلیم قرآن اور سنت رسول دوسرے لوگوں کا خون نہ بہانا۔
قتل و غارت گری کی ممانعت اور سیرۃ النبی ﷺ
رسول اللہ ﷺ کی سیرت یہ ہے دوسرے لوگوں کا خون نہ بہایا جائے۔ صحابہ کرامؓ کی سیرت یہ ہے کہ لوگوں کا خون نہ بہایا جائے۔ تابعین اور تبع تابعین اور جملہ اسلاف کی سیرت یہ ہے کہ کسی انسان اور کسی بھی مسلمان کا خون نہ بہایا جائے۔ ایک طرف رب اپنے بندوں کہ کہہ رہا ہے دوسرے انسانوں کا ناحق خون نہ بہانا۔ دوسری طرف رسول اللہ ﷺ اپنی امت کو یہ حکم دے رہے ہیں۔
لا ترجعوا بعدی کفارا یضرب بعضکم رقاب بعض.
’’میرے بعد کفار جیسا طریقہ اختیار نہ کرنا اور ایک دوسرے کی گردنیں نہ مارنا۔‘‘(متفق علیہ)
آج مسلمان ہونا یہ ہے کہ ہم اپنی ہوائے نفس کو مسلمان کریں ہم اپنی ہوائے نفس کو رسول اللہ ﷺ کی سیرت کے قالب میں ڈھالیں تو تبھی وجود مسلم عملاً وجود مسلم کی صورت میں نظر آئے گا۔ باری تعالیٰ ان افکار سیرت کو ہمیں زندگی میں اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے
میرے بعد ایک دوسرے کی گردنیں اڑا کر کافر نہ ہوجانا یا اللہ کا نافرمان نہ ہوجانا آج مسلمان وہ ہے جو تعلیم قرآن پر عمل کرتے جو سیرت رسول پر اپنی سیرت استوار کرے جس کا وجود ساری انسانیت کے لیے سلامتی اور خیر کا باعث ہو، جس کا وجود انسانیت کے نفع رساں ہو، جس کے وجود سے اسلام کے تشخص کو نقصان نہ پہنچے جس کی وجہ سے اسلام ساری دنیا میں رسوا نہ ہو۔ جس کا وجود اسلام کی عظمت اور رفعت کا باعث ہو، جس کے وجود سے کردار مسلم کی خوشبو آئے۔ اس کردار مسلم کو اپنانا عصر حاضر میں سیرت الرسول ﷺ پر عمل کرنا ہے۔ کردار مسلم کی پہچان یہ ہے قرآن اسے بیان کرتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَیَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ.
(آل عمران، 3: 104)
’’جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائیں اور بھلائی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں۔‘‘
نیکی کی دائمی دعوت اور اسوہ رسول ﷺ
یہ حکم اطاعت ہے۔ ہر مسلمان اس حکم کا پابند بنایا گیا ہے۔ یہی حکم اللہ کا ہے اور یہی حکم رسول اللہ ﷺ کا ہے کہ مسلمان وہ ہے جو یدعون الی الخیر جو خیر کی دعوت دیتا ہے۔ جو سلامتی کی دعوت دیتا ہے جو امن کی دیتا ہے، جو محبت و ایمان کی دعوت دیتا ہے، جو فوزو فلاح کی دعوت دیتا ہے، مسلمان داعی ہے خیر کا، مسلمان داعی ہے امن کا، مسلمان داعی ہے سلامتی کا مسلمان داعی ہے انسانی جان کے احترام کا مسلمان داعی ہے امن عالم کا۔
اس لیے ایک مسلمان کی سیرت رسول اللہ ﷺ نے یہی بنائی ہے اور اسی سیرت کی تعلیم دی ہے۔ اسی سیرت کو اپنانے کا حکم دیا ہے۔ کردار مسلم میں رسول اللہ ﷺ کی سیرت کی پیروی میں دو چیزیں نظر آتی ہیں۔ ویامرون بالمعروف وہ نیکی کا حکم دیتا ہے ہر امر پر اس کے وجود سے صادر ہوتا ہے ہر نیکی کا صدور اس کی ذات سے ہوتا ہے۔ ہر عمل خیر کا سرچشمہ اس کی ذات بنتی ہے۔
وینھون عن المنکر وہ مسلمان برائی سے لوگوں کو منع کرتا ہے، ظلم سے لوگوں کو روکتا ہے مظلوم کی مدد کرتا ہے۔ ظالم کو ظلم سے باز رکھتا ہے۔ وہ سیرت رسول میں ڈھل کر پیکر خیر بن جاتا ہے۔ وہ سیرت النبی ﷺ کی پیروی میں اپنی شناخت میں ہمیشہ نیکی کرنا اور ہمیشہ نیکی میں آگے بڑھتے رہنا بنالیتا ہے۔ اس لیے وہ اللہ کے اس حکم کو اپنے پیش نظر رکھتا ہے۔
فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرٰتِ.
(البقرہ، 2: 148)
’’سو تم نیک کاموں میں سبقت اختیار کیا کرو۔‘‘
اور دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا:
وَافْعَلُوا الْخَیْرَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ.
(الحج، 22: 77)
’’تم نیک کام کیا کرو یقیناً تم فلاح پاجاؤ گے۔‘‘
وہ نیکی اور بر کو اپنا کردار اس لیے بناتا ہے۔ اسی میں فلاح اس میں کامیابی ہے۔
انسانی منفعت اور سیرت النبی ﷺ
اس کائنات میں انسان کی انسانیت خیرو نیکی کا نام ہے۔ دوسرے انسانوں کے ساتھ نیکی کرنا بھلائی کرنا، ان کو نفع پہنچانا، ان کو فائدہ دینا، ان سے اچھے سلوک سے پیش آنا ان کی کسی حاجت کو پورا کرنا ان کی کسی ضرورت کو پورا کرنا، ان کی تکلیف و اذیت کو دور کرنا، ان کی کسی مشکل کو ختم کرنا، ان کے لیے آسانی پیدا کرنا۔ یہ طرز سیرت کسی انسان میں انسانیت کا ہونا ہے۔ قرآن نے انسان کی اس انسانیت کو خیر کے الفاظ سے بیان کیا ہے۔ اس لیے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
خیرالناس من ینفع الناس.
فرمایا تم میں سے اپنی سیرت میں سب سے اچھا انسان وہ ہے جو دوسرے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ نفع پہنچائے۔
رسول اللہ ﷺ اپنے اس فرمان کے ذریعے سب سے اچھے مسلمان اور سب سے بہترین انسان کی نشاندہی کررہے ہیں کہ وہ ہے جو دوسرے لوگوں کے لیے منفعت کا باعث ہو جو دوسرے لوگوں کو نفع پہنچانے والا ہو، اس کا وجود دوسروں کے لیے سلامتی اور خیر کا باعث کا ہو۔ آج کے دور میں اس کردار کو اپنانا سیرت الرسول ﷺ پر عمل کرنا ہے۔
سیرت النبی ﷺ کی پیروی میں ہوائے نفس کا حملہ
آج کے موضوع کے حوالے سے سوال یہ ہے کہ ہماری سیرت، سیرت رسول ﷺ میں ڈھلتی کیوں نہیں۔ ایک مسلمان کی سیرت میں سیرت رسول ﷺ کی روشنی نظر کیوں نہیں آتی، ایک مومن رسول اللہ ﷺ کی سیرت کا عملی پیکر بنا ہوا نظر کیوں نہیں آتا۔ کتابوں میں سیرت رسول ﷺ کے مظاہر کچھ اور ہیں اور عملاً مسلمان کے وجود میں سیرت کے آثار دکھائی نہیں دیتے۔ جن وجودوں میں سیرت کے یہ آثار دکھائی نہیں دیتے اس کی وجہ قرآن بیان کرتا ہے:
اَفَرَئَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰهَہٗ هَوَاہُ.
(الجاثیۃ، 45: 23)
’’کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا ہے جس نے اپنی نفسانی خواہش کو معبود بنا رکھا ہے۔‘‘
اور رسول اللہ ﷺ نے اس آیت کی وضاحت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
لا یومن احدکم حتی یکون ھواہ تبعاً لما جئت بہ.
(شرح السنہ، 1: 213)
تم میں کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک وہ اپنی ہوائے نفس کو میرے لیے ہوئے دین کے تابع نہ کرلے۔
آج ہماری ہوائے نفس ہم کو سیرت کی پیروی سے روکتی ہے۔ قرآن نے اس ہوائے نفس کے بارے میں کہہ دیا ہے کہ اس انسان نے اپنی ہوائے نفس کو معبود بنالیا ہے۔ ہم اس ہوائے نفس کے پجاری ہیں، ہوائے نفس آج ہم پر حاکم ہے اور ہم اس کے محکوم ہیں۔ اس ہوائے نفس کے اندرونی داعیات، باطنی داعیات، اندرونی عوامل ہر لمحہ ہم کو سیرت رسول ﷺ سے دور لے جانے کے لیے ترغیب دیتے ہیں اور اس کے بیرونی داعیات، خارجی داعیات اور بیرونی عوامل بھی ہم کو سیرت الرسول ﷺ سے دور کرتے ہیں۔
ہماری حیثیت اس ہوائے نفس کے سامنے غلام کی سی ہے جو اس ہوائے نفس کے سامنے مجبور ہے۔ یہ ہوائے نفس ہی ہمارے اندر کا بت ہے جس کو ہم معبود بناکر پوجتے ہیں۔ یہی ہوائے نفس کسی سے کرپشن کراتی ہے، کسی سے ظلم کراتی ہے، کسی کو چور اور ڈاکو بناتی ہے، کسی کو ظالم و فرعون بناتی ہے، کسی کو قاتل و رہزن بناتی ہے، کسی کو زانی و شرابی بناتی ہے، گناہ اور گناہ کے سارے داعیات اس ہوائے نفس کے میلے ہیں۔ ہم اپنی اس ہوائے نفس کو اپنے اطمینان کے لیے کبھی قانون کا سہارا دیتے ہیں، کبھی آئین کا تحفظ دیتے ہیں اور کبھی اسلام کا لبادہ اس کو پہناتے ہیں۔
آج مسلمان ہونا یہ ہے کہ ہم اپنی ہوائے نفس کو مسلمان کریں ہم اپنی ہوائے نفس کو رسول اللہ ﷺ کی سیرت کے قالب میں ڈھالیں تو تبھی وجود مسلم عملاً وجود مسلم کی صورت میں نظر آئے گا۔ باری تعالیٰ ان افکار سیرت کو ہمیں زندگی میں اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین