بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ ایک عہد آفرین شخصیت کے مالک، عظیم قانون دان اور بلند پایہ مدبر تھے۔ آپ نےمعمولی قوت، عمل، غیر متزلزل عزم و ہمت، اٹل قوت ارادی بے مثل استقلال و انتھک محنت سے پاکستان جسے خیالِ محض سمجھاجاتا تھا ایک زندہ و جاوید حقیقت بنادیا۔ دس کروڑ اسلامیان ہند کو نہ صرف آزادی کا مژدہ سنایا بلکہ دنیا کی سب سے بڑی اسلامی جمہوری مملکت کا تحفہ بھی دیا۔ اس طرح انھوں نے صرف تاریخ کا دھارا تبدیل کیا بلکہ نقشہ عام کو بھی بدل کر رکھ دیا۔
قائداعظم محمد علی جناح کی جدوجہد حیات کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے اپنی زندگی کے ابتدائی ا دوار سے ہی بلند ہمتی، عزم و استقلال اور جہد مسلسل کا درس سیکھ لیا تھا۔ آپ کا خاندان گجرات کا ٹھیاواڑ کے ایک گاؤں پانیلی میں آباد تھا۔ آپ کا تعلق خوجہ برادری سے تھا جو نچلے متوسط طبقے کے امن پسند تاجر تھے۔ پونجا بھائی کے تین بیٹے وجلی بھائی، ناتھو بھائی، جینا بھائی (جو بعد ازاں جناح بھائی کہلائے) اور ایک بیٹی مان بائی تھی۔ پونجا بھائی کے چھوٹے بیٹے جناح بھائی کو کاروبار کو وسعت دینے کی سچی لگن پانیلی گاؤں سے ایک بڑے تجارتی مرکز کراچی لے آئی۔
یہاں انھوں نے انگریزی زبان میں بات چیت کی استعداد حاصل کرلی بعد ازاں انگریزی لکھنا پڑھنا سیکھ لی۔ اس قابلیت کی بنا پر کراچی میں بہت سے انگریز تاجروں سے قریبی روابط استوار کرلیے۔ انھوں نے اپنی تجارت کو وسیع اور منافع بخش بنایا اور ایک فرم جناح پونجا اینڈ کمپنی قائم کرلی۔ جناح بھائی کی شادی اپنی ہی برادری کی ایک نیک صفت خاتون میٹھی بائی سے 1874ء میں کردیگئی۔ 25 دسمبر 1875ء کو اس نوجوان جوڑے کے ہاں پہلے بیٹے کی ولادت ہوئی۔ یہ بچہ خوبصورت، دبلا پتلا اور ہوشیار تھا۔ اس کی گہری چمکدار آنکھیں ذہین و فطین ہونے کی غماز تھیں۔ اس کا نام محمد علی جناح بھائی رکھا گیا۔ محترمہ فاطمہ جناح اپنی یادداشت پر مبنی ڈائری (My Brother) میں تحریر کرتی ہیں کہ میری والدہ محمد علی سے انتہائی محبت کرتی تھیں اور اس حقیقت کے باوجود کہ انھوں نے بعد ازاں چھ اور بچوں کو جنم دیا۔ وہ اپنی زندگی کے آخری لمحے تک محمد علی سے سب سے زیادہ پیار کرتی رہیں۔ رحمت، مریم، احمد، علی، شیریں، فاطمہ، بندہ علی ان کے دیگر بچے تھے۔
محمد علی جناح بھائی کی والدہ میٹھی بائی مذہب سے بہت لگاؤ رکھتی تھیں۔ میٹھی بائی کو یقین کامل تھا کہ ایک عظیم مستقبل محمدعلی جناح کا منتظر ہے۔ برکت کے لیے انھوں نے ننھے محمد علی کی روسم عقیقہ پانیلی کے قریب درگان حسن پیر میں ادا کی۔ اس امید کے ساتھ کہ بزرگ کی دعا سے محمد علی کا مستقبل تابناک اور روشن ہوگا۔ محترمہ فاطمہ جناح نے اپنے عزیز بھائی کے بچپن کے حالات بھی بیان کیے ہیں۔ چھ برس کی عمر میں ایک مدرس انہیں گجراتی پڑھانے گھر آتے تھے۔ گھر کےقریب سکول میں پڑھنے کا تجربہ اچھا نہ رہا تو انہیں سندھ مدرسۃ الاسلام بھیج دیا گیا۔ جس کی بنیاد حسن علی آفندی نے رکھی تھی۔ نوخیز عمری میں ان کا تعلیمی سلسلہ باربار منقطع ہوتا رہا انہیں اس عمر میں حصول تعلیم کی بجائے عملی کھیل پسند تھے۔ والد کی خواہش تھی کہ بیٹا حساب کتاب میں طاق ہوجائے جو کاروبار میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے مگر آپ کو ریاضی سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ البتہ آپ نے بہت جلد گھڑ سواری سیکھ لی۔ اپنے دوست کریم قاسم کے ساتھ گھڑ سواری کرتے ہوئے میلوں دور نکل جاتے۔ دراصل آپ گھوڑوں سے بہت متاثر تھے جو گردنیں تان کر سیدھے کھڑے ہوتے اور طاقت اور خود اعتمادی کا مظہر تھے۔ انھوں نے زندگی میں اصول بنالیا کہ وہ نہ صرف سامنے دیکھے گئے بلکہ اپنا سر بھی بلند رکھیں گے مشکلات سے گھبرا کر نہیں جھکیں گے بلکہ ان کا چیلنج قبول کرکے ان پر قابو پالینے کی جدوجہد کریں گے۔ وہ صنوبر کے اونچے درخت کی مانند بنیں گے کہ طوفان جیسے چھو سکتے ہیں مگر جھکا نہیں سکتے۔
محمد علی جناح بھائی کی عمر پندرہ برس تھی ان کے والد کے دوست فیڈرک لی کرافٹ ان کی ذہانت اور نیک اطوار سے متاثر تھے انھوں نے پونجا جناح کو مشورہ دیا کہ بیٹے کو جہاز رانی یعنی شپنگ کی اپرنٹس شپ کے لیے لندن بھیج دینا بہتر ہے۔ لندن میں تین سالہ کورس ان کی کاروباری تعلیم و تربیت کے لیے بہت خوش آئند ہوگا۔ محمد علی کی والدہ تین سال کی جدائی برداشت کرنے کے لیے تیار نہ تھیں۔ خاندانی دستور کے مطابق لندن جانے سے پیشتر ان کی شادی پانیلی ہی کی ایک چودہ سالہ لڑکی ایمی بائی سے کردی گئی۔ یہ 1892ء کے اوائل کا زمانہ تھا جب شادی اور پھر بیرون ملک سفر کے لیے انھوں نے سندھ مدرسہ کو خیرباد کہا۔ میٹھی بائی نے بیٹے کو آنسوؤں اور آہوں میں رخصت کرتے ہوئے ایک ایسی پیش گوئی کہ جو حرف بہ حرف پوری ہوئی۔ انھوں نے فرمایا کہ محمد علی مجھے تم سے جدا ہونا پسند نہیں مگر مجھے یقین ہے کہ میری زندگی کا خواب پورا ہوگا اور انگلینڈ جاکر تم بہت بڑے آدمی بن جاؤ گے مگر شاید جب تم واپس آؤ تو تمھیں دیکھنے کےلیے زندہ نہ رہوں۔ اس موقع پر محمد علی جناح نے جذباتی ہوکر والدہ کو گلے لگالیا۔ ماں کی دعا سولہ سالہ پرعزم نوجوان کی متاع حیات تھی کہ ایک دن تم ضرور بڑے آدمی بنو گے اور اللہ تعالیٰ کے کرم سے مجھے تم پر فخر ہوگا۔ بعد ازاں قائد اکثر اپنی والدہ کے وجدان کا ذکر بڑی محبت سے کرتے تھے۔
اس دور میں کسی ہندوستانی کا برطانوی سلطنت اس خیرہ کن مگر علم دوست ماحول میں تعلیم حاصل کرنا بہت بڑا اعزاز سمجھا جاتا تھا۔ ابتدا میں لندن کے اجنبی ماحول میں انھوں نے خود کو تنہا پایا۔ معاوضے پر رہنے والے مہمان (Paying guest) کی حیثیت سے وہ مسز ڈریک کے ہاں ٹھہرے ہوئے تھے ان کی نوجوان حسین وجمیل بیٹی اس پرکشش نوجوان سے بہت التفات رکھتی تھی مگر آپ اپنے مقصد حیات کو فراموش کرنے والے نہ تھے۔ آپ نے اس کی حرکات پر سرزنش کی اور اپنی مذہبی و معاشرتی حدود و قیود سے آگاہ کیا۔ شدید سردی اور مسلسل بارش اس بھیگے ہوئے سرد موسم میں وہ پیدل ہی دفتر پہنچتے تاکہ اپنے اخراجات کو کم سے کم رکھ سکیں۔ کچھ عرصے بعد انھوں نے محسوس کیا وہ ایک دوراہے پر کھڑے ہیں۔ کیا انہیں بحیثیت اپرنٹس گراہمز کمپنی میں کام کرتے رہنا چاہیے جو ان کے لیے انتہائی بور اور محدود مستقبل کا پیشہ تھا؟ یا قانون کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے بیرسٹر بننے کے لیے تیار ہونا چاہیے جس کے ذریعے وہ عوامی اور قومی زندگی پر بہتر اثرات مرتب کرسکتے ہیں۔ خوش قسمتی سے اس سال لٹک گو (Little Go) امتحان پاس کرکے بار ایٹ لا میں داخلہ لینے کا آخری موقع تھا ورنہ قواعد و ضوابط میں تبدیلی کے باعث داخلہ لینے کی اہلیت حاصل کرنے میں مزید دو سال لگ جاتے۔
انھوں نے پیشہ وارانہ زندگی کی سمت متعین کرتے ہوئے مستقبل کا اہم فیصلہ کیا اور گراہمز کی اپرنٹس شپ کو چھوڑکر لٹل گو امتحان میں بیٹھنے کا فیصلہ کرلیا۔ آپ نے بالغ نظری اور اوالوالعزمی کی بدولت بہت محدود وقت میں شبانہ روز محنت کی، تمام تر توانائیاں امتحان میں کامیابی کے لیے وقف کردیں۔ آخرلٹل گو کا امتحان نمایاں انداز میں پاس کیا اور بار ایٹ لاکرنے کے لیے لنکز ان میں داخلہ لینے کے اہل قرار پائے۔ محترمہ فاطمہ جناح لنکنز ان میں محمد علی کے داخلہ لینے کی وجہ بیان کرتے ہوئے تحریر کرتی ہیں کہ لنکز ان کے صدر دروازے پر دنیا کی نامور قانون ساز شخصیات کے ساتھ عظیم پیغمبر حضرت محمدﷺ کا نام بھی کندہ تھا جسے دیکھ کر نوجوان محمد علی نے دل میں عہد کرلیا کہ لٹل گو امتحان میں کامیابی حاصل ہوئی تو لنکز ان میں داخلہ لیں گے۔ اس سے مذہب اسلام سے ان کے گہرے شغف اور پیغمبر اسلام سے روحانی عقیدت کا اندازہ ہوتا ہے۔
وہ لندن میں ابھی زیر تعلیم تھے کہ کراچی میں ان کی دلہن ایمی بائی کا انتقال ہوگیا۔ کم سنی کی شادی کے باعث اپنی بیوی کے ساتھ ان کا کوئی جذباتی لگاؤ نہ تھا۔ کچھ عرصے بعد انہیں خبر ملی کہ ان کی والدہ بھی چل بسی ہیں۔ دیارِ غیر میں یہ صدمہ محمد علی کے لیے ناقابل برداشت تھا۔ وہ مرحومہ ماں کی یاد میں گھنٹوں سسکیاں لے کر روتے رہے گویا ان کی عزیز ترین متاع چھن گئی ہو۔ نوجوان محمد علی کی عمر تقریباً اٹھارہ برس تھی جب وہ اپنی ماں اور بیوی سے محروم ہوچکے تھے۔ ان کے والد کا کاروبار زوال پذیر ہوچکا تھا۔ مگر وہ اس قلبی و جذباتی آزمائش میں بھی سرخرو ہوئے۔ پے درپے صدمات نے ان کی خوابیدہ صلاحیتوں کو مزید بیدارکردیا۔ ان کی تمام تر توجہ صرف اور صرف حصول تعلیم پر مرکوز تھی۔ بے حد متین سنجیدہ اور حساس طالب علم کی حیثیت سے آپ نے شبانہ روز محنت شاقہ کی بدولت لنکز ان میں بار ایٹ لا کا امتحان دو سال میں پاس کرلیا۔ اس طرح اٹھارہ برس کی عمر میں بیرسٹر کہلانے والے سب سے کم عمر ہندوستانی قرار پائے۔ مگر اپنا کیپ اور گاؤن حاصل کرنے کے لیے انہیں مزید کچھ عرصہ انگلینڈ میں قیام کرنا ضروری تھا۔
آپ لندن قیام کے دوران وہاں کے لبرل، سیاسی و علمی ماحول سے مکمل طور پر مستفیدہونا چاہتے تھے۔ آپ اکثر برٹش میوزیم لائبریری میں وسیع اور جامعہ مطالعہ میں مصروف رہتے۔ وسیع مطالعہ نے انہیں انگریزی ادبیات و تخلیقات سے روشناس کروادیا۔ اولڈ وکٹوریہ میں شکسپیر کے ڈرامے دیکھنے جاتے اور اکثر شیکسپیر کے ڈراموں کے پسندیدہ پیرے بلند آواز میں پڑھتے جس سے آپ کی آواز کا رنگ و آہنگ درست اور اتار چڑھاؤ بہت موزوں ہوگیا۔ اتوار کے روز ہائیڈ پارک میں برطانوی حکومت کے ناقدین کی تقاریر سنا کرتے جس سے انہیں کسی بھی قوم کے لیے آزادی اظہار کی اہمیت کا احساس ہوا۔ یہ وہ دور تھا جب ہندوستانیوں میں سیاسی بیداری کے آثار نمایاں تھے۔ آئینی اصلاحات اور آزادی کا شعور پیدا ہورہا تھا۔ اس سلسلے میں لندن میں مقیم ہندوستانی پارسی لیڈر دادا بھائی نورو جی نوجوان محمد علی کے سیاسی رول ماڈل کے طور پر سامنے آئے۔ لندن میں موجود تمام ہندوستانی طلبا ان سے بہت عقیدت رکھتے تھے۔ طلبا حلقوں میں وہ گرینڈ اولڈ مین کہلاتے تھے۔
دادا بھائی نوروجی نے ہندوستان کو اپنی اصلاحات اور نو آبادیاتی درجہ دلانے کے لیے پارلیمنٹ کے انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔ ٹوری وزیراعظم لارڈ سالبری نے دادا بھائی کو بلیک مین کہہ کر ان کی تحقیر کی تو بدلے کے طورپر نوجوان محمد علی نے ان کی انتخابی مہم میں دل وجان سے حصہ لیا۔ دادا بھائی نورو جی یہ انتخاب جیت گئے مگر رنگ ونسل کے امتیازات نوجوان محمد علی کے لیے ناقابل برداشت تھے آپ کا کہنا تھا اگر دادا بھائی کالے تھے تو میرا رنگ تو ان سے بھی زیادہ گہرا ہے۔ اگر ہمارے سیاسی آقاؤں کی یہ ذہنیت ہے تو ہم ان سے کبھی بھی منصفانہ طرز عمل کی توقع نہیں کرسکتے۔ آپ نے مزیدکہا کہ میں ہاؤس آف کامنز (پارلیمنٹ) کی گیلری میں بیٹھ کر اولڈ مین کی سب سے پہلی تقریر سنی اورمجھے اپنے اندر جذبات کی گرم جوشی محسوس ہوئی۔ یقیناً ان حالات میں آپ کے سیاسی افکار کو جدید سیاسی نظریات سے ہم آہنگ ہونے کا موقعہ ملا۔ پارلیمانی نظام جمہوریت کو اس کی اصل روح کے ساتھ عملی طور پر دیکھنے سے آپ میں سیاسی افکار کی بالیدگی اور شعور بیدار ہوا۔ آپ باقاعدگی سے برطانوی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں کی گیلری میں بیٹھ کر روشن خیال لبرل سیاستدانوں کی تقاریر سنا کرتے تھے۔ اس طرح وہ پارلیمانی جادو بیانی کے فن سے آشنا ہوئے جو آنے والے برسوں میں ان کا مضبوط ہتھیار ثابت ہوا۔
قیام لندن کے دوران آپ نے اپنا نام محمد علی جناح بھائی سے محمد علی جناح کرلیا۔ اسی حیثیت سے بیس سالہ نوجوان 1896ء میں ایک زیرک، بالغ نظر اورنڈر قانون دان کے پیکر میں ڈھل کر وطن واپس کراچی پہنچا۔ والد کی خواہش تھی کہ آپ کراچی میں پریکٹس کریں مگر آپ کٹھن اور سخت کوش زندگی کے عادی ہوچکے تھے۔ آپ نے بمبئی کے قانونی و سیاسی افق پر جلوہ گر ہونا پسند کیا جہاں نہ کوئی واقفیت تھی نہ کوئی حوالہ مگر سخت مقابلے کے باوجود آگے بڑھنے کے مواقع بہت زیادہ تھے۔ قدرت ان سے ابھی کچھ اور امتحان لینا چاہتی تھی۔ بیس سالہ محمد علی جناح بمبئی ہائی کورٹ بار کا ممبر بن چکے تھے مگر روزانہ عدالت آنے جانے کے باوجود تین سال تک وہ کوئی بھی مقدمہ حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوئے۔ ان دنوں کا ذکر کرتے ہوئے وہ کہا کرتے تھے بمبئی میں جب میں نے شروعات کی تو میرے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ ٹرام یا بس سے جاسکوں۔ میں زیادہ تر پیدل ہی چلا کرتا تھا۔ بلندی پر ہمیشہ جگہ ہوتی ہے مگر سیڑھیاں پیدل ہی چڑھنی پڑتی ہیں۔ اگرچہ ان کے پاس وسائل نہیں تھے مگر انھوں نے سخت مشکل دنوں میں اپنے سماجی روابط برقرار رکھے۔ جو بھی ملتا اس نوجوان کی سحر انگیز شخصیت اور عزم و حوصلے سے بہت متاثر ہوتا۔ جب کہ وہ دل میں اپنی تشنہ آرزوؤں کی عدم تکمیل کی چبھن لگاتار محسوس کرتے تھے۔
انہی دنوں بمبئی کے ایڈووکیٹ جنرل مسٹر میکفرسن اس نوجوان بیرسٹر کی ذہانت قابلیت اور دیانت داری سے بہت متاثر ہوئے اور اپنے چیمبر میں شامل کرلیا۔ اب وہاں بیٹھ کر یہ نوجوان ان کی ضخیم لائبریری سے استفادہ کرسکتا تھا۔ بقول سروجنی نلمڈو یہ رعایت کسی ہندوستانی کو پہلی بار ملی تھی جو جدوجہد کے ان اندھیروں میں امید کی کرن سے کم نہ تھی۔ مسٹر میکفرسن کی وساطت سے 1900ء میں آپ کا بطور عارضی پریسٹرنسی مجسٹریٹ ان کا تقرر ہوگیا۔ جب ان کی عارضی تقرر کی میعاد ختم ہوئی اور مستقل ملازمت کی پیشکش ہوئی مگر 15سو روپے کی شاہانہ تنخواہ کی حامل اس ملازمت سے معذرت کرتے ہوئے آپ نے کہا کہ اتنی رقم تو میں ایک دن میں کمالوں گا۔ کیونکہ قانون کی دنیا میں آپ کی ایک شناخت بن چکی تھی۔آپ کو بہت سے مقدمات کی پیش کش ہونے لگے اور جلد ہی آپ کا شمار بمبئی کے صف اول کے وکلا میں ہونے لگا۔ آپ کے قدم مضبوطی سے جم چکے تھے۔ آپ نے اپنے والد اور اہل خانہ کو بمبئی بلالیا۔ خاندان کی مالی اعانت کے ساتھ ساتھ تمام بہن بھائیوں کے تعلیمی مصارف برداشت کرنے لگے۔
مشہور واقعہ ہے کہ جب جسٹس مارٹن کی عدالت میں جسٹس مارٹن نے بھڑک کر کہا ذہن میں رکھیں کہ آپ کسی تھرڈ کلاس مجسٹریٹ سے مخاطب نہیں ہیں۔ آپ نے فوری جواب دیا جناب والا آپ کے روبرو بھی کوئی تھرڈ کلاس وکیل نہیں ہے۔
قائد کا یہ بے مثل جذبہ حریت، شبانہ روز محنت ہی کا سرمایہ تھا جس نے انہیں ایک زیرک اور بیباک قانون دان اور پھر مدبر، دور اندیش، عظیم سیاستدان بنادیا۔ آپ کے پاس خاندانی یا سماجی عزت و وقار کی وراثت نہیں تھی جس سے اس دور کے زیادہ تر بیرسٹر سرفراز تھے۔ آپ کا سماجی پس منظر متوسط طبقے سے تھا۔ آپ نے ابتدائی تعلیم اوسط درجے کے سکولوں سے حاصل کی۔ مگر آپ نے تنظیم ذات،یقین محکم اور سعی پیہم کے جذبے سے سرشار سماج اور سیاست میں منفرد مقام حاصل کیا۔ آپ ایک ایسے نوجوان کے طور پر کارزار حیات میں ابھرے جسے اپنے صلاحیتوں پر کامل یقین تھا اور اصولوں پر سودہ بازی نہ کرنے کا عزم مصمم۔ اسی بنیاد پر آپ نے اپنی زندگی کا سب سے بڑا اور آخری مقدمہ ’’پاکستان‘‘ لڑا اور جیت لیا۔
قائداعظم محمد علی جناح کی کتاب حیات کے ابتدائی اوراق میں عصر حاضر کے نوجوان کے لیے پیغام عمل پوشیدہ ہے۔ آج کا نوجوان صبر حوصلہ اور جرات مندی کے بغیر فوری کامیابی کی تمنا کرتا ہے۔ وہ shortcuts کا متلاشی ہے۔ وہ چاہتا ہےکہ وہ آئے، دیکھے اور فتح کرلے جبکہ حقیقی اور دیرپا کامیابی جہد مسلسل میں مضمر ہے۔ نوجوان اگر قائد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے زندگی میں اپنے اہداف متعین کریں اور پھر ان کے حصول کے لیے انتھک محنت کریں تو یقیناً خودی اور خود شناسی کی یہ منزل کامیابیوں کے نئے افق چھونے میں مددرگار ہوگی۔