تعارف
حضرت ابوہریرہؓ کا شمار جلیل القدر صحابہ کرامؓ میں ہوتا ہے۔ ان کا اصل نام عبدالرحمن تھا۔ اپنی کنیت ابوہریرہؓ سے مشہور ہوئے۔ حضور ﷺ نے ان کا نام عمیر رکھا تھا۔ ان کا سلسلہ نسب کچھ یوں ہے:
عمیر بن عامر بن عبد ذی الشریٰ بن طریف بن غیاث بن لہنیہ بن سعد بن ثعلبہ بن سلیم بن فہم بن غنم بن دوس۔
ان کا اصل نام جو کہ خاندان والوں نے رکھا تھا عبد شمس تھا۔ وہ قبیلہ دوس سے تعلق رکھتے تھے جو کہ یمن میں آباد تھا۔ ان کی کنیت کی وجہ ان کی پالتو بلی تھی جسے رات کو ایک درخت میں رکھتےتھے اور صبح جب بکریاں چرانے جاتے تو ساتھ لے جاتے تھے۔ حضور ﷺ نے بلی کو ان کی آستین میں دیکھا تو یا اباہریرۃ کہہ کر مخاطب فرمایا۔ روایات کے مطابق ان کی پیدائش 602ھ میں تہامہ میں ہوئی۔ بچپن میں ہی والد کا انتقال ہوگیا تھا۔ فقر و افلاس کا دور تھا کچھ بڑے ہوئے تو بسرہ بنت غروان کے پاس ملازمت اختیار کی جس کی اجرت صرف کھانا پینا تھا۔ غزوہ خیبر کے زمانہ میں اپنے قبیلے کے ساتھ بارگاہ نبوی میں حاضر ہوئے اور اسلام قبول کرلیا۔ اس کے بعد ساری زندگی حضور ﷺ کے ساتھ رہے۔ اُن کا شمار اصحاب صفہ میں ہوتا تھا۔ طبقات ابن سعد کے مطابق بعد میں بسرہ بنت غزوان سے ہی نکاح ہوا۔
نبی کریم ﷺ سے محبت و عقیدت
حضرت ابوہریرہؓ نبی کریم ﷺ کا بہت زیادہ ادب و احترام کرتے تھے۔ ہر وقت آپ ﷺ کے ساتھ رہنے کی کوشش کرتے۔ آپ ﷺ کی خصوصی توجہ کی وجہ سے آپؓ کو یہ شرف حاصل ہوا کہ سب سے زیادہ احادیث حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہیں۔ حضور نبی کریم ﷺ کے ساتھ حضرت ابوہریرہؓ کی محبت کا یہ عالم تھا کہ اگر حضور ﷺ کے چہرہ انور پر خوشی چھلکتی تو آپ بھی خوش ہوتے اور اگر حضور ﷺ کے چہرہ اقدس پر حزن و ملال کے آثار ظاہر ہوتے تو آپ بھی غمگین ہوجاتے۔ باادب اس قدر تھے کہ بغیر طہارت کے بارگاہ رسالت میں حاضر نہیں ہوتے تھے اور نہ ہی آپ ﷺ سے مصافحہ کرتے تھے۔
تعلیمی درسگاہ۔ صفہ (چبوترہ)
حضرت ابوہریرہؓ کا شمار ان اصحاب میں ہوتا تھا جو صفہ چبوترے پر بیٹھے رہتے تھے۔ وہیں بیٹھ کرعبادت کرتے اور علم حاصل کرنے میں مشغول رہتے تھے۔ آپ کا کوئی کسب معاش نہ تھا فاقوں پر فاقے سہتے تھےلیکن تحصیل علم سے پیچھے ہٹنےکو تیار نہ ہوتے۔ یہی وجہ ہے کہ سب سے زیادہ احادیث کا علم حاصل کیا۔ ان کی مرویات کی تعداد باقی صحابہ کرامؓ سے بہت زیادہ ہے۔
والدہ کا قبول اسلام
آپؓ اپنی والدہ کا بے حد احترام کرتے تھے آپ نے 7 ہجری میں اسلام قبول کیا تھا لیکن آپ کی والدہ اسلام لانے سے برابر انکار کرتی رہتی تھیں۔ ایک دن حسب معمول انھوں نے اپنی والدہ کو اسلام کی دعوت دی تو والدہ نے شان نبوت میں کچھ نازیبا الفاظ استعمال کیے آپؓ روتے ہوئے بارگاہ نبوی ﷺ میں حاضر ہوئے اور پورا واقعہ بیان کیا۔ حضرت ابوہریرہؓ نے نبی کریم ﷺ سے ماں کے قبول اسلام کے لیے دعا کی التجا کی۔ رحمت عالم ﷺ کی دعا قبول ہوئی گھر واپس گئے تو والدہ غسل کرکے تیار بیٹھی تھیں۔ آپ کو دیکھتے ہی کلمہ شہادت پڑھا اور دائرہ اسلام میں داخل ہوگئیں۔ آپؓ فوراً کاشانہ نبوی ﷺ کی طرف پلٹے اور نبی کریم ﷺ کو اطلاع دی کہ آپ ﷺ کی دعا قبول ہوگئی اللہ تعالیٰ نے میری والدہ کو ہدایت عطا فرمائی۔
لباس و حلیہ
حضرت ابوہریرہؓ کا رنگ گندمی تھا۔ شانے کشادہ اور دانت آبدار تھے۔ سامنے کے دو دانتوں کے درمیان خلا تھا زلفیں رکھتے تھے جن میں زرد خضاب لگایا کرتے تھے۔
ان کا لباس عموماً سادہ ہوتا تھا صرف دو رنگین کپڑے استعمال کرتے تھے لیکن کبھی کبھی کتان وغیرہ کے قیمتی لباس بھی زیب تن فرماتے تھے۔
آپؓ کی فضیلت و عظمت
حضرت ابوہریرہؓ کو علم حاصل کرنے کا بہت زیادہ شوق تھا اور ان کا ذوق علم حرص کے درجہ تک پہنچ چکا تھا اس بات کا اظہار نبی کریم ﷺ نے خود فرمایا تھا۔
ایک مرتبہ حضرت ابوہریرہؓ نے نبی کریم ﷺ سے سوال کیا کہ قیامت کے دن کون ایسا خوش قسمت ہوگا جو سب سے زیادہ آپ کی شفاعت کا مستحق ہوگا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تمہاری علم حدیث کی حرص کو دیکھ کر میں سوچتا تھا کہ یہ سوال تم سے پہلے کوئی نہیں کرے گا۔
عام طور پر صحابہ کرامؓ نبی کریم ﷺ سے سوال نہیں کرتے تھے اور ہمیشہ ڈرتے ہوئے پوچھتے تھےلیکن حضرت ابوہریرہؓ نہایت دلیری سے پوچھتے تھے۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے ایک شخص نے کہا کہ حضرت ابوہریرہؓ کثرت سے روایت کرتے ہیں کیا وہ صحیح ہوتی ہیں تو انھوں نےجواب دیا کہ ان کی روایات بالکل صحیح ہوتی ہیں تم ان میں کسی قسم کا شک و شبہ نہ کرنا کیونکہ وہ نبی کریم ﷺ سے پوچھنے میں بہت جری و بہادر تھے اس لیے وہ ایسے ایسے سوالات کرتے تھے جو ہم لوگ حضور ﷺ سے نہیں پوچھ سکتے تھے۔
حضرت ابوہریرہؓ جیسے خود علم حاصل کرنے کا شوق اور لگن رکھتے تھے اسی طرح وہ چاہتے تھے کہ ہر مسلمان کے دل میں طلب علم کا جذبہ پیدا ہوجائے اس مقصد کے لیے ایک دن بازار میں جاکر کھڑے ہوگئے اور لوگوں کو پکارنے لگے کہ تمھیں کس چیز نے مجبور کررکھا ہے کہ تم لوگ مسجد نبوی میں حضور ﷺ کی بارگاہ میں نہیں جاتے جبکہ وہاں نبی کریم ﷺ کی میراث تقسیم ہورہی ہے۔ سب لوگ دوڑ کر مسجد نبوی میں پہنچے لیکن وہاں کوئی مادی میراث نہ تھی اس لیے واپس چلے گئے اور کہا کہ وہاں کچھ بھی تقسیم نہیں ہورہا۔ البتہ کچھ لوگ نمازیں پڑھ رہے ہیں کچھ لوگ قرآن پاک کی تلاوت میں مصروف ہیں۔ کچھ حلال و حرام پر گفتگو کررہے ہیں۔ حضرت ابوہریرہؓ نے جواب دیا کہ افسوس ہے تم لوگوں پر تم لوگ مادیت کے طلبگار ہو جبکہ یہی علم و عبادت تمھارے نبی ( ﷺ ) کی میراث ہے۔
حضرت ابوہریرہؓ کا علمی مقام
حضرت ابوہریرہؓ کو سب سے بڑا عالم و حافظ حدیث ہونے کا شرف حاصل ہے وہ حدیث کا بحر بیکراں تھے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے تھے کہ ابوہریرہؓ ہم سب سے زیادہ احادیث جانتے تھے۔ امام شافعی فرماتے تھے کہ ابوہریرہؓ اپنے ہمعصر حفاظ حدیث میں سب سے بڑے حافظ تھے۔
علامہ ذہبی اپنے تذکرے میں لکھتے ہیں کہ ابوہریرہؓ علم کا ظرف تھے اور صاحب فتویٰ آئمہ کی جماعت میں بلند پایہ رکھتے تھے۔ حافظ ابن حجر العسقلانی کے مطابق ابوہریرہؓ اپنے ہمعصر رواۃ میں سب سے بڑے حافظ تھے اور تمام صحابہؓ میں کسی نے حدیث کا اتنا ذخیرہ فراہم نہیں کیا۔ حضرت ابوہریرہؓ خود بھی اپنی اس حیثیت کا اعتراف کیا کرتے تھے۔
حضرت ابوہریرہؓ کی دعا
حضرت زید بن ثابت کا بیان ہے کہ ایک دن میں اور ابوہریرہؓ مسجد میں بیٹھے دعا اور ذکر خدا میں مشغول تھے کہ حضور ﷺ تشریف لے آئے۔ ہم لوگ خاموش ہوگئے آپ ﷺ نے فرمایا کہ اپنا کام جاری رکھو۔ اس ارشاد پر میں اور دوسرا شخص ابوہریرہؓ سے پہلے دعا کرنے لگے اور حضور ﷺ اس بات پر آمین کہتے جاتے تھے اس کے بعد حضرت ابوہریرہؓ نے دعا کی کہ یا اللہ جو کچھ میرے ساتھی مجھ سے پہلے مانگ چکے ہیں وہ بھی مجھے دے اور وہ علم بھی عطا فرما جو کبھی فراموش نہ ہو۔ اس پر حضور اکرم ﷺ نے آمین کہا۔ اسی طرح ایک مرتبہ حضرت ابوہریرہؓ نے حضور ﷺ اکرم سے عرض کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
’’اپنی چادر پھیلاؤ۔ آپ ﷺ نے اس چادر میں اپنا دست مبارک رکھا اور فرمایا اس کو سینہ سے لگالو۔ ‘‘
کہتے ہیں کہ اس کے بعد میں کبھی بھی نہیں بھولا۔
کتابتِ حدیث کا اہتمام
حضرت ابوہریرہؓ احادیث کے معاملے میں بہت احتیاط کرتے تھے۔ بھولنے یا الفاظ کے ردو بدل کے ڈر کی وجہ سے احادیث کو لکھ لیا کرتے تھے۔ فضل بن حسن اپنے والد حسن بن عمرو کا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ:
انھوں نے حضرت ابوہریرہؓ کو ایک حدیث سنائی تو انھوں نے اس سے لاعلمی کا اظہار کیا حسن نے کہا کہ میں نے یہ حدیث آپ سے ہی سنی ہے۔ آپؓ نے فرمایا کہ اگر مجھ سے سنی ہے تو ضرور میرے پاس لکھی ہوئی ہوگی چنانچہ ان کو اپنے ساتھ گھر لے گئے اور ایک کتاب دکھائی جس میں تمام احادیث درج تھیں اسی میں وہ حدیث بھی موجود تھی۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت ابوہریرہؓ کتابت و حفظ حدیث کا کس قدر اہتمام فرماتے تھے۔ حضرت ابوہریرہؓ کی کثرت روایت کی وجہ سے کچھ لوگ ان پر شک بھی کرتے تھے۔ ایک دفعہ مروان نے ان کا امتحان لینے کا ارادہ کیا۔ پہلے سال امتحان لیتے ہوئے اپنے کاتب سے تمام احادیث لکھوائیں اور دوسرے سال دوبارہ امتحان لیا اور پہلے والی تحریر کے ساتھ موازنہ کیا تو دونوں میں کوئی فرق نہ پایا جس سے حضرت ابوہریرہؓ کی علمی ثقاہت واضح ہوگئی۔
خلفائے راشدینؓ کے ادوار میں حضرت ابوہریرہؓ کا مقام
خلفائے راشدین کے دور میں بھی حضرت ابوہریرہؓ اشاعت حدیث میں مصروف رہتے تھے۔ حضرت ابوبکرؓ کے دور میں بھی ان کی زندگی عسرت میں ہی گزری لیکن حضرت عمرؓ نے اپنے دور خلافت میں انہیں بحرین کا عامل مقرر کیا۔ جس سے ان کے معاشی حالات بہتر ہوگئے اور ان کا فقرو افلاس ختم ہوا جب بحرین سے واپس آئے تو دس ہزار درہم ان کے پاس تھے۔ جس کی تحقیق کی گئی کہ وہ رقم کہاں سے حاصل ہوئی تو حضرت ابوہریرہؓ نے بتایا کہ گھوڑیوں کے بچوں، عطیات اور غلاموں کے ٹیکس سے۔ ان کا بیان صحیح ثابت ہوا تو حضرت عمرؓ نے انہیں دوبارہ ان کے عہدے پر فائز کرنا چاہا مگر انھوں نے انکار کردیا کہ میں دوبارہ اس عہدے پر فائز نہیں ہونا چاہتا۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ تمھیں امارت قبول کرنے میں کیا مسئلہ ہے۔ حالانکہ اس کی خواہش تو حضرت یوسف علیہ السلام نے بھی کی۔ حضرت ابوہریرہؓ نے فرمایا کہ وہ اللہ کے نبی تھے اور ایک نبی کے بیٹے تھے۔ میں تو بیچارہ امیمہ کا بیٹا ہوں اور مجھے ڈر لگتا ہے کہ بغیر علم کے کوئی بات نہ کردوں یا بغیر شرعی حجت کے کوئی فیصلہ نہ ہوجائے یا میری عزت خراب ہو مجھے مار دیا جائے یا میرا مال لوٹا جائے۔
حضرت عثمانؓ کے دور خلافت میں خاموشی کی زندگی بسر کی۔ حضرت عثمانؓ کی محصوری کے زمانہ میں ان کے ساتھ ان کے گھر میں موجود رہے اور لوگوں کو بتایا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا تھا کہ:
’’تم لوگ میرے بعد فتنہ اور اختلاف میں مبتلا ہوجاؤ گے۔ لوگوں نے پوچھا یارسول اللہ ﷺ ! اس وقت ہمارا طرز عمل کیا ہونا چاہیے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ: تمھیں امین اور اس کے حامیوں کے ساتھ ہونا چاہیے‘‘ اس میں امین حضرت عثمانؓ کو کہا گیا تھا۔
اس واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ نبی کریم ﷺ کے وصال کے بعد بھی حضرت ابوہریرہؓ آپ ﷺ کے فرامین و احکام پر کس قدر عمل پیرا تھے۔
علالت و وصال
حضرت ابوہریرہؓ 57 ہجری میں مدینہ میں بیمار ہوگئے بہت سے لوگ ان کی عیادت کے لیے آیا کرتے تھے۔ بیماری کی حالت میں صرف یہی خواہش کرتے کہ جلد از جلد اس فانی دنیا سے نکل کر بقا کے گھر میں داخل ہوجائیں۔
حضرت ابو سلمہ بن عبدالرحمنؓ ایک دن آپ کی عیادت کے لیے آئے اور دعا کی کہ اللہ آپؓ کو صحت عطا فرمائے تو آپؓ نے فرمایا کہ اے اللہ! مجھے اب دنیا میں نہ رکھ پھر حضرت ابو سلمہؓ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ زمانہ بہت جلد آنے والا ہے۔ جب انسان سونے کےذخیرے سے زیادہ موت کا طالب ہوگا۔ اگر تم زندہ رہو گے تو دیکھنا کہ جب آدمی کسی قبر پر گزرے گا تو خواہش کرے گا کہ کاش میں مردے کے بجائے اس قبر میں ہوتا۔
آپؓ اپنی بیماری کے دوران بہت رویا کرتے تھے۔ لوگوں نے رونے کی وجہ پوچھی تو بتایا کہ میں اس دنیا کی راحت و دلفریبی پر نہیں روتا بلکہ سفر آخرت کی طوالت اور اپنے زادِ راہ (اعمال) کی کمی پر آنسو بہاتا ہوں۔ اس وقت میں دوزخ اور جنت کے نشیب و فراز کے درمیان ہوں کچھ خبر نہیں کہ ان میں سے کون سا راستہ میرا مقدر ہوگا۔
آخری وقت میں اپنی تجہیز و تکفین کے متعلق ہدایات دیں کہ نبی کریم ﷺ کی طرح مجھے عمامہ اور قمیض پہناکر دفن کیا جائے اور عرب کے پرانے دستور کے مطابق میری قبر پر خیمہ نہ لگایا جائے اور نہ ہی جنازے کے پیچھے کوئی آگ لے کر چلے۔ جنازہ لے جانے میں جلدی کی جائے اگر میں نیک ہوں گا تو جلد اپنے رب سے ملوں گا اور اگر میں بدقسمت اور گناہگار ہوا تو ایک بوجھ تمھاری گردن سے دور ہوجائے گا۔
آپؓ نے 59 ہجری میں وصال فرمایا۔ آپ کی وصیت پر عمل کرتے ہوئے آپؓ کا جنازہ اٹھایا گیا ولید نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اس موقع پر اکابر صحابہؓ میں سے حضرت ابن عمرؓ اور ابو سعید خدریؓ موجود تھے۔ حضرت عثمان بن عفانؓ کے بیٹوں نے کندھا دے کر جنت البقیع پہنچایا اور وہیں آپ کو دفن کردیا گیا۔ انتقال کے وقت آپ کی عمر 78 سال تھی۔ آپ کے وصال کے بعد حضرت امیر معاویہؓ نے بیت المال سے دس ہزار درہم آپ کے ورثہ کو دلوائے اور حاکم مدینہ ولید کو ان کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا۔
تلامذہ و تعدد روایات
بہت سے صحابہ کرامؓ کو آپ کے تلامذہ ہونے کا شرف حاصل ہے۔ 800 صحابہ کرامؓ اور تابعین کو شاگردی کا شرف ملا۔ جن میں حضرت انس بن مالکؓ، طاؤس بن کیسان اور تابعین میں محمد ابن سیرین شامل ہیں۔
آپ سے پانچ ہزار تین چوہتر (5374) احادیث مروی ہیں جن میں سے 446 بخاری شریف میں موجود ہیں۔
زہد و تقویٰ
حضرت ابوہریرہؓ کی ساری زندگی زہد و تقویٰ کا اعلیٰ نمونہ تھی۔ ہر وقت صحبت مصطفی ﷺ میسر رہتی تھی۔ اسلام لانے کے بعد ہر غزوہ اور ہر سفرو حضر میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ رہتے تھے۔ آپ بہت عبادت گزار، متقی اور پرہیزگار تھے۔ حضرت ابوالدرداء بیان کرتے ہیں کہ روزانہ ایک ہزار رکعت نماز نفل ادا کیا کرتے تھے۔ دن کو روزہ رکھتے اور رات کا ایک تہائی حصہ عبادت میں مصروف رہتے پھر اپنی بیوی کو بیدار کرتے وہ رات کی دوسری تہائی عبادت میں مصروف رہتیں پھر وہ اپنی بیٹی کو بیدارکرتیں وہ رات کی تیسری تہائی میں عبادت کرتی اس طرح پوری رات ان کے گھر میں عبادت جاری رہتی تھی۔
الغرض یہ کہ نبی کریم ﷺ کے باقی تمام صحابہ کرامؓ کی طرح حضرت ابوہریرہؓ بھی علم و فضل اور زہد و تقویٰ کا چمکتا ہوا ستارہ تھے۔ جن سے امت مسلمہ قیامت تک فیضیاب ہوتی رہے گی۔