وہ دانائے سبل ختم الرسل مولائے کل جس نے
غبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادئ سینا
اگر نبی مکرم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی حیات ِطیبہ پر نگاہ ڈالی جائے تو معلوم ہو گا کہ مالکِ کل یعنی خدائے بزرگ و برتر نے آپ ﷺ کی ذاتِ بابرکت کو بنی نوع انسان کے لیے ہدایت کا آخری اور کامل ترین نمونہ قرار دیا ہے اور اس بات کا بارہا اعتراف کیا گیا ہے کہ فقط آپ ﷺ کی ذات اقدس ہی نہ صرف اس جہاں کے لیے بلکہ تمام جہانوں کے لیے اخلاقِ حسنہ کا اعلیٰ اورکامل نمونہ ہے جس سے ہر عمر، ہر طبقہ اور ہر دور کے لوگ ہر شعبۂ زیست میں رہنمائی لے کر کامیابی و کامرانی حاصل کر سکتے ہیں۔ آپ ﷺ نے زندگی کے ہر میدان عمل میں بہترین مثالیں فراہم کر کےبنی نوع انسان کی محدود سی عقل کو لامحدود ذات سے روشناس کرواکر جو احسان عظیم کیا ہے اس کی مثال نابغہ روزگار کی سی ہے۔ آپ ﷺ نے نہ صرف معلم کی حیثیت سے بلکہ بطور مبلغ بھی اس طرح خدمات انجام دیں کہ جس کی نظیر ملنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ اسی طرح محبوبِ خدا حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے اپنی زندگی میں جن جنگوں میں شرکت کی اور بہادری و شجاعت کا مظاہرہ کیا ان میں بھی ہمارے لئے شجاعت، دلیری، صبر و استقامت، حکمت و تدبیر، انسانیت کی خدمت اور نرم دلی و رحم دلی اور حالات کا مردانہ وار مقابلہ کرنے جیسے بہترین اسباق پوشیدہ ہیں بے شک حیاتِ نبی کریم ﷺ کاہراک پہلو اور قدم بھی حکمت سے خالی نہیں ہے۔ آپ ﷺ کے ہر عمل میں نوع انسانی کے لیے زندگی کے کسی نہ کسی مشکل شعبے میں رہنمائی کا عنصر موجود ہے جس سے استفادہ کر کے دنیاو آخرت کی زندگی کو بہترین بنایا جا سکتا ہے۔
حسنِ یوسف، دمِ عیسیٰ یدِ بیضا داری
آنچہ خوباں ہمہ دارند، تو تنہاداری
ویسےتوحضرت محمد ﷺ کی پوری حیات مبارکہ ہی ہمارے لئے ایک رول ماڈل ہے لیکن جو حکمتیں اور اسباق ان کی ہجرت، غزوات اور اسفار میں پنہاں ہیں وہ ہمارے لیے کسی مشعل راہ سے کم نہیں ہیں۔ نبی کریم ﷺ نےجن مختلف مقامات کےاسفار کیے ہیں ان میں مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ، طائف، بدر، احد، خیبر، حنین، حبشہ، خیبر، فتح مکہ، تبوک، سفر جعرانہ اور یمن شامل ہیں۔ ان کے علاوہ آپ ﷺ نے مختلف قبائل اور علاقوں کا بھی سفر کیا، جیسے کہ نجران اور غزوۂ تبوک کے دوران مختلف مقامات پر بھی تشریف لے گئے۔ آپ ﷺ کےیہ تمام اسفاردعوت و تبلیغ سے لے کر تجارت کی غرض پر مبنی تھے۔ یہ تمام اسفار آپ ﷺ کی نبوت کی تاریخ کا ایک اہم حصہ ہونے کے ساتھ امتِ مسلمہ کے لیے ایک سبق بھی ہیں۔ آپ ﷺ نے پہلا سفر تجارت کی غرض سے کیا تھا جس میں آپ ﷺ سیدہ خدیجہ طاہرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا سامانِ تجارت لے کر ملک شام کی طرف گئے تھے۔ یہ سفر نبی کریم ﷺ کی امانت، صداقت لین دین میں انصاف پسندی اور اخلاقی اقدار کی بہترین عکاسی کرتا دکھائی دیتا ہے اور یہ بھی بتاتا ہے کہ امانت و صداقت اور انصاف پسندانہ طبیعت کس طرح لوگوں کے دل میں مقام و مرتبہ پیدا کرتی ہے۔ اس سفر نے آپ ﷺ کو مختلف ثقافتوں اور لوگوں کے ساتھ ملنے کا موقع فراہم کیا، جس سے آپ کی بصیرت میں اضافہ ہوا۔ اس سفر سے تجارت کے اصول، اغراض و مقاصد، امانت و صداقت اور انصاف کو دیکھتے ہوئے اس بات کی ترغیب ملتی ہے کہ زندگی میں ابتدائی کام میں اصول پسند طبیعت کا انتخاب بعد کی زندگی میں بھی کام آتا ہے اور سفر میں شامل لوگوں اور ان سے منسلک دیگر لوگوں پر بھی دیر پا اثرات مرتب کرتا ہے۔ صداقت و امانت کوکسی بھی کاروبار اور رشتے میں بنیادی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ آپ ﷺ کی اسی بات سے حضرت خدیجہؓ بنت خویلد بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکیں۔
نبی کریم ﷺ نے ملک ِشام کے بعد ایک اہم اور قابل ذکر سفر مدینہ منورہ کی جانب کیا ۔ یہ سفر ہجرتِ مدینہ کے نام سے بھی مشہور ہے۔ جب آپ ﷺ کی محبوب سرزمین مکہ مکرمہ میں کفار کی اجارہ داری اور ظلم و ستم نے سر اٹھایا اورآپ ﷺ اور آپ ﷺ کے پیروکاروں پر زندگی تنگ کردی تو بحکم خدا آپ ﷺ نے مدینہ منورہ کا رخ کیا۔ یہ سفر صرف محض ایک جغرافیائی ہجرت اور منتقلی نہ تھا بلکہ اس کا مقصد ایک ایسی اسلامی ریاست کا قیام تھا جو مسلم ریاست کے تشخص کو اجاگر کرے۔ اس سفر سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ مشکلات کے باوجود ایمان اور عزم کے ساتھ اپنے مقصد کی طرف بڑھتے رہنا چاہیے۔ مذکورہ ہجرت نے ہمیں یہ سکھایا کہ جب بھی حالات مشکل ہوں اور دل غموں سے چور ہو تب بھی اللہ کی مدد پر یقین رکھنا چاہیے اور اپنے مقاصد کے لیے جدوجہد جاری رکھنی چاہیے۔ یہ قطعاً نہ سوچیں کہ مجھ سے محبوب چیزیں اور جگہیں چھینی جارہی ہیں اور راستے تاریک ہورہے ہیں۔ صرف اس بات کو مدِ نظر رکھیں کے ان تمام باتوں پر صرف اللہ تعالیٰ کوہی قدرت حاصل ہے اور بے شک وہ کبھی بھی کسی کو بے یارو مددگار بالکل بھی نہیں چھوڑتا کیوں کہ یہ وہی خدا ہے جس نے حضرت ابرہیم علیہ السلام کو آگ سے محفوظ رکھا، موسیٰ علیہ السلام کو دریائے نیل پار کرنے کی طاقت عطا فرمائی، یوسف علیہ السلام کو اندھے کنویں میں ہمت دی اور سر زمین مصر کا حاکم بنا ڈالا، یونس علیہ السلام کو مچھلی کے پیٹ میں زندہ رکھا اور عیسیٰ علیہ السلام کو تنہا نہیں چھوڑا۔ اسی طرح نبی کریم ﷺ کےاس سفر نے مسلمانوں کو ایک نئی زندگی، صبر، حکمت، اتحاد اور بھائی چارے کا درس دیا اور مومن مسلمانوں کے حوصلوں کو بلند کیا اور اللہ تعالیٰ پر یقین کو مزید پختہ کیا اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالی کی مصلحتوں اور فیصلوں پر سر تسلیم خم کرنے کا بہترین سبق بھی اس سفر میں پوشیدہ ہے۔ اس تاریخی سفر سے ہمیں یہ بھی سیکھنے کوملتا ہے کہ مشکلات کے باوجود ثابت قدم رہنا اور اپنے ایمان کی حفاظت کرنابہت ضروری ہے۔ ہجرت مدینہ کے ذریعے حضور نبی اکرم ﷺ نے ہمیں یہ بھی سکھایا کہ ایک مضبوط اور متحد معاشرہ قائم کرنے کے لیے جدوجہد کرنا اور ایک دوسرے کا ساتھ دینا کتنا اہم ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قیادت میں مسلمانوں نے ایک مثالی معاشرتی نظام قائم کیا، جو آج بھی ہمارے لیے رہنمائی کا ذریعہ ہے۔ بے شک اتحاد اور اتفاق کسی بھی قوم کو مضبوط و مستحکم بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
آپ ﷺ نے ایک اور اہم سفر طائف کی طرف کیا۔ اس سفر میں کفارنے آپ کی حق بات کا نہ صرف انکار کیا بلکہ آپ ﷺ کو اوباش لوگوں کے ذریعے ظلم وستم کا نشانہ بھی بنایا۔ یہاں تک کہ نبی کریم ﷺ کا بدن مبارک دعوت حق کے ردعمل کے نتیجے میں لہولہان ہوگیا لیکن پھر بھی حق کا راستہ نہیں چھوڑا۔ اس سفر میں ایک اہم بات اور سبق یہ ہے کہ حق کی راہ میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، لیکن صبر، استقامت اور اللہ کی رضا کے لیے کوشش کبھی بھی ترک نہیں کرنی چاہیے۔ حق کا علم ہمیشہ لہراتے رہنا چاہیے۔ حالات خواہ کیسے ہی ہوں، کبھی ہمت نہیں ہارنی چاہیے۔ نبی کریم ﷺ کا یہ سفر ہمیں سکھاتا ہے کہ ہمیں اپنے مشن کے لیے کبھی ہار نہیں ماننی چاہیے، چاہے حالات کتنے ہی کٹھن کیوں نہ ہوں۔ اللہ کی مدد پر کامل یقین رکھنا چاہیے اور بے شک وہ بہترین جاننے والا اور مدد کرنے والا ہےاور وہ ہمیشہ ان لوگوں کی مددکرتا ہے جو حق کےراستے پہ چلتے ہیں۔
آپ ﷺ کی زندگی کا سب سے اہم روحانی سفر " سفر معراج" تھا جس کی اہمیت اور مقام کا تعین محدودعقلِ انسانی کے بس کی بات نہیں۔ اس سفر میں نبی کریم ﷺ نے آسمانوں کی سیر کی اور خدائے بزرگ و برتر کا دیدار کیا۔ اس سفر سے ہم پر یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ اللہ رب العالمین کے لیے کوئی بات بھی مشکل نہیں یعنی اس کی قدرت کی کوئی حد نہیں۔ یہ سفر وہ ہے جس میں آپ ﷺ کو نمازوں کا تحفہ ملا۔ اس سفر سے یہ سبق ملتا ہے کہ بے شک اللہ پاک ہر بات پہ قادر ہےاور اپنے محبوب کو اپنا دیدار کروا کے محبوب کے مقام و مرتبہ کو ثابت کیا۔ اس کے علاوہ، یہ سفر ہمیں یہ بھی سکھاتا ہے کہ مشکلات کے باوجود اللہ کی طرف رجوع کرنا اور اس کی رضا کے حصول کی کوشش کرنی چاہیے۔ یہی وہ سفر ہے جس کی تصدیق نے ابو بکرؓ کو صدیق جیسے لقب سے سرفراز کیا۔ نبی کریم ﷺ نے سفر خیبر میں یہودی قبائل کے ساتھ مذاکرات کیے اور اسلامی ریاست کی تبلیغ کی اور ہمیں یہ درس دیا کہ جب کسی غیر مسلم سے ریاست و کاروباری معاملات کریں تو کس قسم کی حکمت عملی اپنائی جائے اور غیر مسلموں سے کس طرح کا سلوک روا رکھیں۔ حضرت محمد ﷺ نے سفر حبشہ کے ذریعے یہ درس دیا کہ حق کے راستے میں مشکلات ضرور آتی ہیں لیکن ان مشکلات کو کسی بھی طرح اپنے ایمان پر حملہ نہ کرنے دیں، ثابت قدم رہیں اور ہر ایک مشکل اور چیلنج کا دلیرانہ اور مردانہ وار مقابلہ کریں۔ جب کبھی مشکل میں اپنا گھر بھی چھوڑنا پڑے تو اللہ کی خاطر کسی دوسری محفوظ جگہ پر منتقل ہو جائیں اور دعوت حق کا کام جاری رکھیں۔
نبی کریم ﷺ کی زندگی کا ایک اہم موڑ سفر فتح مکہ ہے۔ یہ وہ سفر ہے جب حضور مکرم ﷺ نے نوع انسانی کی کایا پلٹ دی۔ دین کے دشمنوں اور قاتلوں کے لیے عام معافی کا اعلان کیا اور عالم انسانیت کو یہ پیغام دیا کہ اللہ کی رضا سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں ہےاور ایک مومن کے لیے خدا کی رضا ہی دنیا و آخرت میں اہم ہے۔ اس سے ہمیں رحم، عفو و درگزر اور انسانی عظمت و برتری کا سبق ملتا ہے۔ فتح مکہ کے ذریعے یہ بھی واضح ہوا کہ طاقت اور فتح کا اصل مقصد لوگوں کی رہنمائی اور ان کے دلوں کو جیتنا ہے، نہ کہ انتقام لینا۔ اس واقعے نے ہمیں یہ سکھایا کہ حقیقی کامیابی اس وقت حاصل ہوتی ہے جب ہم اپنے مقاصد پر قائم رہتے ہوئے دوسروں کے ساتھ حسن سلوک کرتے ہیں۔ آپ ﷺ نے اس سفر کے ذریعے اخوت و بھائی چارہ اور مساوات کا پیغام دے کر تمام انسانوں کو احترام سکھایا۔ اس کے علاوہ نبی کریم ﷺ نے جب حج کا سفر کیا اورخطبہ حجتہ الوداع کے موقع پر جو خطاب کیا اس میں اتحاد، اتفاق، ایثار و مساوات، بھائی چارہ، صبرو استقامت، عدل و انصاف اور عظمت انسانی کا پیغام دیا۔ بنیادی انسانی حقوق پر زور دیا۔ یہ تمام باتیں اس جانب اشارہ کرتی ہیں کہ آپ ﷺ نے ایک پر امن معاشرے کے قیام کے لیے بہترین اصول و قوانین فراہم کیے۔ آپ ﷺ کے اس خطبے کو میگنا کارٹا سے زیادہ اہمیت اسی بنا پر حاصل ہے کہ آپ نے عظمت انسانیت پر زور دیا تھا۔
بحیثیت مجموعی نبی کریم ﷺ نے جتنے بھی اسفار کیے ان کااولین مقصد دین اسلام کی تبلیغ و اشاعت ہی تھااور آپ ﷺ نے بنی نوع انسان کو اپنے ان تمام اسفار سے کامیاب زندگی گزارنے اور کاروبار کرنے کے بہترین اصول اور طریقے سکھائے ہیں۔ آپ نے ان اسفار کے توسط سے صبر، اتحاد، اتفاق، علم، اخلاقی اقدار، قیادت، تربیت اور امن و سلامتی کو فروغ دے کر بنی نوع انسان کو ان سے فیض حاصل کرنے کا موقع دیا۔ شعب ابی طالب میں محصور ہونے کا واقعہ ہو یا پھر سفر طائف کا واقعہ یہ سب آپ ﷺ کی ہمت و جواں مردی کی دلیل ہیں اور اس بات کا درس دیتے ہیں کہ مشکلات و مصائب ہمیشہ نہیں رہتیں۔ ان کا مقصد انسان کی تربیت ہوتا ہے اور بے شک اللہ پاک بہتر تربیت کرنے والا ہے۔