خدا کو کیوں مانیں؟ اورمذہب کو کیوں اپنائیں؟ (حصہ چہارم)

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

مرتبہ: نازیہ عبدالستار

آقا علیہ السلام کی حدیث مبارکہ میں درج ہے کہ جنس کا تعین پہلے ہی لمحے میں ہوجاتا ہے۔ قرآن میں اس کا بیان ہے:

وَ اَنَّهٗ خَلَقَ الزَّوْجَیْنِ الذَّکَرَ وَالْاُنْثٰی. مِنْ نُّطْفَۃٍ اِذَا تُمْنٰی.

(النجم، 53: 45-46)

’’اور یہ کہ اُسی نے نَر اور مادہ دو قِسموں کو پیدا کیا۔ نطفہ (ایک تولیدی قطرہ) سے جب کہ وہ (رَحمِ مادہ میں) ٹپکایا جاتا ہے۔‘‘

اللہ وہ ہے جس خالق نے مرد، عورت دونوں قسموں کو پیدا کردیا اسی نطفہ سے جب تولیدی قطرہ ماں کے رحم میں ٹپکا تھا۔ اس نطفہ کے بنتے ہی اس رب نے فیصلہ کردیا کہ بیٹا ہے یا بیٹی۔

اللہ فرماتا ہے کہ مجھے مان لو جس طرح تمھیں پیدا کرتا ہوں اس طرح مرنے کے بعد تمھیں زندہ بھی کروں گا۔ سورہ عبس میں ہے:

قُتِلَ الْاِنْسَانُ مَآ اَکْفَرَهٗ. مِنْ اَیِّ شَیْئٍ خَلَقَهٗ. مِنْ نُّطْفَۃٍ ط خَلَقَهٗ فَقَدَّرَهٗ.

(عبس، 80: 17۔ 19)

’’ہلاک ہو (وہ بد بخت منکر) انسان کیسا نا شکرا ہے (جو اتنی عظیم نعمت پا کر بھی اس کی قدر نہیں کرتا)۔ اللہ نے انسان کو نطفہ سے پیدا فرمایا، پھر ساتھ ہی اس کا (خواص و جنس کے لحاظ سے) تعین فرما دیا۔‘‘

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ انسان کتنا ناشکرہ ہے میں نے کتنا کچھ اس کے لیے کردیا پھر بھی وہ میری عظمت کی قدر نہیں کرتا۔ اے انسان! سوچ اللہ نے تجھے کس چیز سے پیدا کیا؟ تمھیں نطفہ زائیگوٹ سے پیدا کیا اور فوری، بغیر فاصلہ کے جنس کا تعین فرمادیا کہ بیٹا ہے، بیٹی ہے، کالا ہے، گورا ہے، قد لمبا ہے چھوٹا ہے عقل مند ہے یا نہیں ہے۔ جیسے ہی نطفہ ڈال دیا گیا ساتھ ہی خواص و اجناس کا فیصلہ کردیا۔ پوری منصوبہ بندی کردی۔ سپرم اور اووم ملے اس سے تخلیق ہوگی۔ کروموسومز ملے اس سے جینیٹک پروگرامنگ ہوگی۔ جب انسانی زائیگوٹ بنا تو سارے کروموسومز آدھے باپ، دادا دادی کی طرف سے ملے آدھے ماں، نانی، نانا کی طرف سے آئے۔ ننھیال کی طرف اور دادیال کی طرف جینیٹک کروموسومز آئے۔ جو خوبیاں جسم و دماغ میں، رنگ و قدو قامت، مزاج و طبیعت میں جو کچھ دینا تھی اسی لمحے ساری پروگرامنگ کردی۔ اللہ کو معلوم تھا کہ اس کو ڈاکٹر بنانا ہے، انجینئر بنانا ہے اسی پیشے کی صلاحیت دے دی، عالم بنانا ہے روحانی ذوق دینا ہے جو بعد میں اس فرد کی شخصیت میں ہمیں نظر آتا ہے۔ وہ زائیگوٹ بنتے ہی بغیر فاصلہ و وقفہ کے ساری جینیٹک پروگرامنگ کردی۔ یہ نقطہ سائنس کو آج معلوم ہوا کہ زائیگوٹ میں ننھیال و دادھیال کی ساری خصلتیں جمع ہوجاتی ہیں۔ سیل ایک ہی ہوتا ہے مگر ساری مطلوبہ خصلتیں جمع ہوجاتی ہیں۔ اس نقطہ نظر کا بیان بھی قرآن میں ہے۔

اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَۃٍ اَمْشَاجٍ.

(الدھر، 76: 2)

’’بے شک ہم نے انسان کو مخلوط نطفہ سے پیدا فرمایا جسے ہم (تولد تک ایک مرحلہ سے دوسرے مرحلہ کی طرف) پلٹتے اور جانچتے رہتے ہیں۔‘‘

ہم نے انسان کو ایسے نطفہ سے بنایا جس میں بہت ساری چیزوں کا اختلاط ہے۔ جو چیزیں سائنس کو اپنی تحقیق کے ساتھ آج معلوم ہوئیں ہیں۔ قرآن نے چودہ سال قبل اس کو بیان کردیا۔

ڈاکٹر کیتھ مور بیان کرتے ہیں کہ میں نے قرآن میں سورۃ الزمر، 39: 6 کو پڑھا تو میں چکرا گیا۔ میرے پاس چارہ نہ رہا یہ ماننے کے سوا قرآن اللہ کی سچی کتاب ہے۔

خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْھَا زَوْجَھَا وَاَنْزَلَ لَکُمْ مِّنَ الْاَنْعَامِ ثَمٰنِیَۃَ اَزْوَاجٍ یَخْلُقُکُمْ فِیْ بُطُوْنِ اُمَّھٰتِکُمْ خَلْقًا مِّنْ م بَعْدِ خَلْقٍ فِیْ ظُلُمٰتٍ ثَلٰثٍ ذٰلِکُمُ اللہُ رَبُّکُمْ لَہُ الْمُلْکُ لَآ اِلٰـہَ اِلاَّ ھُوَ فَاَنّٰی تُصْرَفُوْنَ.

(الزمر، 39: 6)

’’ اُس نے تم سب کو ایک حیاتیاتی خلیہ سے پیدا فرمایا پھر اس سے اسی جیسا جوڑ بنایا پھر اُس نے تمہارے لیے جانوروں میں سے آٹھ (نر اور مادہ) جوڑے مہیا کیے، وہ تمہاری ماؤں کے رحِموں میں ایک تخلیقی مرحلہ سے اگلے تخلیقی مرحلہ میں ترتیب کے ساتھ تمہاری تشکیل کرتا ہے (اِس عمل کو) تین قِسم کے تاریک پردوں میں (مکمل فرماتا ہے)، یہی تمہارا پروردگار ہے جو سب قدرت و سلطنت کا مالک ہے، اُس کے سوا کوئی معبود نہیں، پھر (تخلیق کے یہ مخفی حقائق جان لینے کے بعد بھی) تم کہاں بہکے پھرتے ہو۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک خلیہ سے پیدا کیا۔ بتایئے ایک خلیہ کا علم آقا علیہ السلام کو کس نے دیا تھا؟ کوئی ہے جو وحی بھیجتا اور اپنے پیغمبروں کو وہ علم دے دیتا ہے آنے والے صدیاں سائنسی تحقیقات کے بعد رفتہ رفتہ اس کی تصدیق کرتی چلی جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ تمھاری ماؤں کے پیٹوں میں تخلیقی مرحلہ کے ساتھ تمھاری تشکیل فرماتا ہے۔ مرحلہ وار پہلے ایک مرحلہ میں تمھاری شکل بناتا ہے پھر اس کے بعد اگلے مرحلے میں منتقل کرتا ہے۔ گویا بچہ ماں کے پیٹ میں مرحلہ در مرحلہ ارتقاء و تخلیق کے عمل سے گزرتا ہے۔

ڈاکٹر کیتھ مور کہتے ہیں: ’’بچہ کی تخلیق کا ارتقاء مرحلہ در مرحلہ ہوتا ہے یہ علم پندرھویں صدی تک پوری کائنات انسانی کو نہیں تھا۔ سائنس دان تصدیق کررہے ہیں کہ آقا علیہ السلام نے مرحلہ وار تخلیق کے علم کو سائنس کے علم سے 8 سو سال پہلے بیان کردیا‘‘۔ ڈاکٹر کیتھ مور کہتے ہیں کہ اس کا علم 20ویں صدی تک بھی کسی کو معلوم نہیں تھا جبکہ سٹیٹر نے مائیکرو سکوپ کے ذریعے پہلا سسٹم ڈویلپ کیا۔ 1941ء میں کہ وہ کون سے مرحلے ہیں جس سے بچہ گزر کر تشکیل پاتا ہے۔ جبکہ قرآن نے چودہ سو سال قبل تفصیل کے ساتھ ان مرحلوں کا ذکر کردیا۔ اسی آیت کے حوالہ سے ڈاکٹر کیتھ مور کہتے ہیں۔ جب بچہ تشکیل پاتا ہے تو تین پردوں میں ہوتا ہے۔ مائیکرو سکوپ سسٹم ایجاد ہونے سے پہلے پتہ نہیں تھاکہ کون سے تین پردے ہیں۔ 14 سو سال قبل اللہ کی کتاب اور اللہ کے نبی بتا رہے ہیں کہ بچہ ماں کے رحم میں تین پردوں میں تشکیل پاتا ہے۔ بعد ازاں سائنس نے ثابت کردیا کہ وہ تین پردے حق ہیں۔

ایک پردہ

ایک پردہ Interiar abdominal wall، دوسرا پردہ Uterine Wall، تیسرا پردہ Amniochorionic wall

ڈاکٹر کیتھ مور نے تین پردوں کے نام بتادیئے جس کے اندر بچہ تشکیل پاتا ہے۔ شیخ الاسلام کہتے ہیں کہ انھوں نے میرے سامنے اظہار کیا کہ تین پردوں کی خبر تو 50 سال پہلے تک دنیا میں کسی سائنسدان کو نہیں تھی۔ چودہ صدی پہلے مسلمانوں کا قرآن مذکورہ تین پردوں کا ذکر کرتا ہے۔ ڈاکٹر کیتھ مور کے ساتھ جو کو آتھرز ہیں انھوں نے بیان کیا کہ قرآن نے تخلیق کے درجات بیان کررہے ہیں۔

فَاِنَّا خَلَقْنٰـکُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُّطْفَۃٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَۃٍ ثُمَّ مِنْ مُّضْغَۃٍ.

(الحج، 22: 5)

’’پھر (حیاتیاتی ابتداء) ایک تولیدی قطرہ سے پھر (رِحمِ مادر کے اندر جونک کی صورت میں) معلّق وجود سے۔‘‘

یعنی پھر نطفہ کو علقہ بنادیا۔ علقہ کہتے ہیں جیسے جونک ہوتی ہے۔ قرآن نے کہا کہ لیچ (جونک) کو رحم مادر میں معلق کردیا endometrium جو یوٹرس کی لائننگ ہے اس کے ساتھ معلق کردیا۔ اس کی شکل لیچ کی طرح ہو اس کو علقہ کہتے ہیں۔ ڈاکٹر کیتھ مور نے جب اس تخلیق کا اعلان کیا تو کینیڈا کے اخبار نے بڑی دلچسپ طرح کی خبریں لگائیں۔ خبروں کی سرخیاں یہ تھیں۔ قرآن کو کہا کہ ’’دعاؤں کی ایک کتاب میں انسانی تخلیق کے بارے میں حیرت انگیز انکشا ف۔‘‘ آج کی سائنس کے مطابق قرآن کا نام نہیں لکھا تھا۔ ڈاکٹر کیتھ مور کے سارے پروفیسرز نے اکٹھے ہوکر ان کو کہا۔ آپ نے یہ کیا بات کردی؟ یہ سب مسیحی لوگ تھے۔ انھوں نے کہا اگر تم نے مسلمانوں کےقرآن سے یہ بات ثابت کردی ہے جس سے مسلمانوں کے مذہب کو تقویت پہنچ رہی ہے تو تم بائبل سے بھی ثابت کرو۔ اپنے مذہب کی بھی خدمت کرو۔

ڈاکٹر کیتھ مور نے کہا کہ میں سائنسدان ہوں میرا کام سچ بولنا ہے۔ قرآن میں سب کچھ ہے لیکن بائبل میں سائنسی حقائق نہیں ہیں۔ اس کے بعد اس کی یونیورسٹی کے ساتھی جو مذہب پر یقین نہیں رکھتے تھے جمع ہوگئے۔ آپ نے ان سے کہا مسلمانوں کے پیغمبر نے آج سے 14 سو سال پہلے سب کچھ قرآن میں بتادیا ہے۔ وہ کہنے لگے یہ بھی ممکن ہے کہ انھوں نے اس وقت کسی عورت کا پیٹ پھاڑ کر رحم مادر میں دیکھ لیا ہو اور دیکھ کر قرآن میں لکھ دیا ہو، وہ ہنس پڑا وہ کہنے لگا پیٹ پھاڑنا تو ممکن ہے مگر جب زائیگوٹ بنتا ہے، علقہ بنتا ہے اور اگلی سٹیجز بنتی ہیں اتنی چھوٹی ہوتی ہیں کہ ننگی آنکھ سے نظر ہی نہیں آتیں۔ اتنی باریک چیزوں کی آنکھ کو خبر نہیں ہوتی۔ ورنہ سائنسدان کسی عورت کا پیٹ پھاڑ کر خود نکال لیتے اور تحقیق کرلیتے۔ سائنسدان کیوں 14 سو سال تک بیٹھے رہے؟ وہ اس لیے بیٹھے رہے کیونکہ مائیکروسکوپ ایجاد نہیں ہوئی تھی۔ اس کے بغیر زائیگوٹ، علقہ نظر ہی نہیں آتے۔ 1941ء میں مائیکروسکوپ کے ساتھ نیا سسٹم متعارف ہوا۔ اس سسٹم نے تحقیق کرکے آج بتایا کہ اس طرح تخلیق ہوتی ہے وہ خاموش ہوگئے۔ اس نے کہا مان لو کہ اللہ کی ذات کے سوا اور اللہ کی وحی ربانی کے سوا محمد مصطفی ﷺ کے سچے پیغمبر ہونے کے سوا قرآن اللہ کی سچی کتاب ہونے کے سوا کوئی جواب نہیں۔

’’اور یہ کہ اُسی نے نَر اور مادہ دو قِسموں کو پیدا کیا۔ نطفہ (ایک تولیدی قطرہ) سے جب کہ وہ (رَحمِ مادہ میں) ٹپکایا جاتا ہے‘‘

ڈاکٹر کیتھ مور کہتا ہے کہ میں یونیورسٹی اور چرچز میں جاتا ہوں۔ قرآن مجید ہاتھ میں لے کر لیکچر دیتا ہوں۔ دنیا سنتی ہے اور دھنگ رہ جاتی ہے۔ آج تک کوئی سائنسدان، کوئی شخص اس کا انکار نہیں کرسکا۔ ڈاکٹر کیتھ مور نے اعراض کرنے والوں کو دلچسپ بات کہی یہ ہوسکتا ہے کہ مائیکروسکوپ کسی کے پاس 14 سو سال پہلے مکہ میں کسی کے گھر چھپی ہوئی پڑي ہو یا پھر وہ کسی سے ادھار لے آئے ہوں۔ اس کے ذریعے تحقیق کرکے قرآن میں معلومات لکھ دی ہوں۔ اس کے بعد مائیکرو سکوپ توڑ دی ہو پھر 14 سو سال لوگوں کو ملی نہیں پھر بعد میں ایجاد ہوئی ہو اس نے کہا اگر سچائی کو نہیں مانیں گے تو اس طرح کی گپ ہوگئی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: پھر ہم نے اس علقہ کو جو جونک کی طرح ہے اس کا لوتھڑا بنادیا جو دیکھنے میں یوں لگتا ہے کہ اس کو دانتوں سے چپایا گیا ہو۔ اب کس نے 14 سو سال قبل تاجدار کائنات ﷺ کو بتادیا تھا کہ نطفہ کے بعد علقہ پھر مضغہ کی شکل یہ ہوگئی۔ اگر اللہ کی ذات نہیں ہے تو بتانے والا کون تھا سمجھادیا جائے ؟اگر قرآن مجید اللہ کی سچی کتاب نہیں تو ان باتوں کو سوال کا جواب دے دیا جائے؟

اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک بہت بڑی کائنات علم، معرفت و حق کی دی ہے اس سے نہیں بھاگنا چاہیے جو لوگ مغالطے میں ہیں ان کا عالم تو یہ ہے میں نے سیکس ڈیئر مینیشن سمجھائی کہ پہلے لمحے ہی جنس متعین کردی جاتی ہے یہ قانون قدرت ہے۔ آپ کو کہتے ہیں کہ ناخدا کو مانیں نہ رسول کو مانیں۔ اسلام، مذہب اور دین اسلام کو سب کو چھوڑ دیں صرف قانون قدرت کو مانیں۔

یہاں پر ایک دلچسپ سوال ہے آپ کو کہتے ہیں کہ قانون قدرت کو مانیں میں نے آپ کو بتادیا کہ تخلیق پہلے ہی لمحے فیصلہ ہوجاتا ہے کہ لڑکا ہے یا لڑکی ہے۔ یہ قانون قدرت ہے آپ اور میں فیصلہ نہیں کرتے۔ مگر جو لوگ ایسا انتشار اور لادینیت پھیلارہے ہیں وہ پوری مغربی دنیا میں کیا پڑھا رہے ہیں وہ فکری فتنہ پاکستان، مسلمان ملکوں میں بھی پڑھایا جارہا ہے۔ چند سالوں کا انتظار کریں۔ میری آج کی بات کو لکھ کر رکھ لیں کہ یہ فتنہ موجود ہوگا۔ پاکستان کے سکولوں میں بچے یہ کفر سیکھ کر آئیں گے جو مغربی دنیا میں پڑھایا جارہا ہے کیونکہ ہم مغربی دنیا کے پیچھے پیچھے چلتے ہیں۔ ہم اندھے ہیں جو مغر ب سے ملتا ہے حق، سچ، جھوٹ، باطل دیکھے بغیر اس کی پیروی کرتے ہیں۔ ہم احساس کمتری کا شکار ہیں، گورے ہمیں اونچے نظر آتے محسوس ہوتے ہیں۔ ہم بھورے ہیں ہم سمجھتے ہیں کہ ہم کمتر ہیں۔ غلامی ابھی تک ہمارے ذہنوں سے نہیں نکلی جو یہاں سے بتایا جارہا ہے سمجھتے ہیں حق ہے جو اسلام نے بتادیا اس سے ہم نے توجہ ہٹادی۔

مغربی دنیا میں بچوں کو یہ پڑھایا جاتا ہے کہ یہ فیصلہ کرنا تمھارا اختیار ہے کہ تم مرد ہو یا عورت اپنی جنس خود متعین کرو۔ اس کو یہ پڑھایا جارہا ہے کہ اگر تم لڑکی بننا چاہتے ہو تو اپنے آپ کو لڑکی سمجھو ضرور ت نہیں ہے اپنے اعضا کو دیکھنے کی۔ ضرورت نہیں اپنی جنس کو دیکھنے کی وہ جنس جو قانون قدرت نے بنائی ہے۔ یہاں قانون قدرت کی مخالفت ہورہی ہے، کیا قانون قدرت ایک کھلونا ہے کہ اعضاء کو جس طرح چاہا لگادیا جہاں سے چاہا ہٹادیا؟ لڑکے کو کہا جاتا ہے کہ اگر آپ کو لڑکی ہونا پسند ہے تو آج سے اپنے آپ خود کو لڑکی سمجھو لیکن والدین کو بتانا ضروری نہیں۔ اپنے ذہن میں یہ بات پختہ کرنے لگ جاؤ کہ میں آج سے لڑکی ہوں۔ اس بات کا مطلب کیا ہے؟ لڑکی کو کہہ دیا جاتا ہے کہ اگر آپ کو لڑکا بننا پسند ہے تو آج سے لڑکوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا شروع کردو کہ تم لڑکا ہو۔ جب یہ آٹھ، دس سال کے بچے کے ذہن میں راسخ ہوجاتا ہے تو لڑکا اپنے آپ کو لڑکی سمجھتا ہے۔ لڑکی اپنے آپ کو لڑکا سمجھتی ہے۔ یاد رہے کہ اس فتنہ کے بعد حلال و حرام ختم ہوجائے گا، نہ قانون قدرت کی حرمت رہے گی، نہ جنس کی قدرت کی تقسیم رہے گی، نہ فیملی رہے گی، نہ شوہر و بیوی کی حیثیت رہی، نہ نکاح کا مقام برقرار رہے گا۔ سارا نظام اس فکر کے ذریعے تباہ کیا جارہا ہے۔

یہ بین الاقوامی ایجنڈا ہے خدا کے وجود کا انکار کیا جائے اور قرآن کا انکار کیا جائے۔ اللہ کے احکام کا انکار کرو تاکہ مذہب کا انکار ہو۔ حلال و حرام کا انکار ہو، جنس کے تعین کا انکار ہو۔ چاہے لڑکے لڑکیاں بنتے چلے جائیں۔ لڑکیاں لڑکے بنتے چلے جائیں۔ جو چاہے لباس پہنیں آپس میں اختلاط کریں۔ آہستہ آہستہ فیملی نظام ختم ہوجائے۔ شادیاں ختم ہوجائیں۔ معاشرے کو منظم انداز میں اس طرف لے جایا جارہا ہے۔ ابھی تو ناخدائیت ہے۔ اس سے آگے اپنی جنس کا بھی انکار آنے والا ہے۔ لڑکا کہے گا میں لڑکی ہوں خدا کےو جود کا انکار ہے۔ کون ہوتا ہے فیصلہ سنانے والا۔ میری مرضی، میں لڑکا بننا چاہوں یا لڑکی بننا چاہوں۔

مذکورہ بالا آیات میں تفصیل سے رحم مادر میں بچے کی تشکیل کے مراحل میں درجات کو بتادیا گیا ہے کہ دانتوں سے چبائی لمبی بوٹی دکھائی دے رہی ہے یہ علم کس نے میرے آقا علیہ السلام کو سیکھا دیا تھا۔ کس نے قرآن کو بتادیا تھا۔ اس کا جواب تاریخ انسانیت میں سوائے اللہ کی وحی اور پیغمبر ﷺ کی ذات کے کوئی دے سکتا ہے؟ تصاویر تو 1941ء میں مائیکروسکوپ نے اب دی ہیں۔ ایک ایک چیز کی تفصیل چودہ سو سال پہلے قرآن نے دے دی ہے۔

ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَۃَ عَلَقَۃً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَۃَ مُضْغَۃً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَۃَ عِظٰمًا فَکَسَوْنَا الْعِظٰـمَ لَحْمًاق ثُمَّ اَنْشَاْنٰـہُ خَلْقًا اٰخَرَ فَتَبٰـرَکَ اللہُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِیْنَ.

(المومنون، 23: 14)

’’ پھر ہم نے اس نطفہ کو (رحمِ مادر کے اندر جونک کی صورت میں) معلّق وجود بنا دیا، پھر ہم نے اس معلّق وجود کو ایک (ایسا) لوتھڑا بنا دیا جو دانتوں سے چبایا ہوا لگتا ہے، پھر ہم نے اس لوتھڑے سے ہڈیوں کا ڈھانچہ بنایا، پھر ہم نے ان ہڈیوں پر گوشت (اور پٹھے) چڑھائے، پھر ہم نے اسے تخلیق کی دوسری صورت میں (بدل کر تدریجاً) نشوونما دی، پھر (اس) اللہ نے (اسے) بڑھا (کر محکم وجود بنا) دیا جو سب سے بہتر پیدا فرمانے والا ہے۔‘‘

’’ اُس نے تم سب کو ایک حیاتیاتی خلیہ سے پیدا فرمایا پھر اس سے اسی جیسا جوڑ بنایا پھر اُس نے تمہارے لیے جانوروں میں سے آٹھ (نر اور مادہ) جوڑے مہیا کیے، وہ تمہاری ماؤں کے رحِموں میں ایک تخلیقی مرحلہ سے اگلے تخلیقی مرحلہ میں ترتیب کے ساتھ تمہاری تشکیل کرتا ہے (اِس عمل کو) تین قِسم کے تاریک پردوں میں (مکمل فرماتا ہے)، یہی تمہارا پروردگار ہے جو سب قدرت و سلطنت کا مالک ہے، اُس کے سوا کوئی معبود نہیں، پھر (تخلیق کے یہ مخفی حقائق جان لینے کے بعد بھی) تم کہاں بہکے پھرتے ہو۔‘‘

پھر ان ہڈیوں پر گوشت اور پٹھے چڑھادیئے یہ ترتیب کے ساتھ بیان ہورہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کس نے معلومات فراہم کیں کہ ا س طرح ترتیب سے بچے کی نشوونما ہوتی ہے۔ آج سے چودہ سو سال قبل کس خوردبین سے دیکھا گیا تھا کہ پورا ایک بچہ اس طرح وجود میں آتا ہے؟ قرآن کہتا ہے کہ ایسی سٹیج آتی ہے مضغۃ فخلۃ غیر مخلقۃ دو قسموں کی شکل ہوتی ہے۔ کچھ حصہ ایسا ہوتا ہے جو پہچانا جاسکتا ہے۔ کچھ اعضا نہیں پہچانے جاسکتے۔ ایک سٹیج ایسی آتی ہے کہ پہچان نہیں ہوتی کہ انسان کا ایمبریو ہے یا مرغی کے بچے کے کچھ اعضا کی طرح بکھرے ہوئے ہیں کچھ اعضا بند ہوتے ہیں جن کی شکل ابھی نہیں بننی ہوتی۔ آج مائیکروسکوپ نے وہ تصویر بھی دکھا دی ہے۔

ثُمَّ مِنْ عَلَقَۃٍ ثُمَّ مِنْ مُّضْغَۃٍ مُّخَلَّقَۃٍ وَّغَیْرِ مُخَلَّقَۃٍ.

(الحج، 22: 5)

’’پھر (رِحمِ مادر کے اندر جونک کی صورت میں) معلّق وجود سے پھر ایک (ایسے) لو تھڑے سے جو دانتوں سے چبایا ہوا لگتا ہے۔‘‘

ہم اسے علقہ سے مضغہ بناتے ہیں۔ اس پر ایک سٹیج ایسی آتی ہے اس پر دانتوں سے چبائے ہوئے لوتھڑے پر بعض اعضاء نمایاں ہوچکے ہوتے ہیں۔ بعض اپنی خلق میں نمایاں نہیں ہوئے ہوتے یہ جو اللہ رب العزت نے فرمایا کچھ اعضاء نمایاں ہوجاتے ہیں کچھ عرصہ ایسا گزرتا ہے جہاں پہچان نہیں ہوسکتی۔ اگر کوئی انسانی اعضاء نکال کر باہر رکھ دے تو مائیکروسکوپ بھی نہیں بتاسکتی کہ انسان کے بچے کا ایمبریو ہے یا فلاں فلاں چیز کا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ معلومات اللہ کے رسول اللہ ﷺ کو کس نے بتادی تھیں؟ اس پر ایمبریالوجسٹ ڈاکٹر کیتھ مور چونک اٹھے جب ان کی کتاب The development Human کا پانچواں ایڈیشن آیا اس کا مقدمہ لکھا اس کے اندر انھوں نے قرآن مجید کے سارے حوالے دے دیئے۔ ملاقات کے دوران مجھے اپنے پانچویں ایڈیشن کی کاپی دی اور اپنے آرٹیکل الگ سے دکھائے۔

مرحلہ وار انسان کی تشکیل ہوتی ہے۔ انسان کا ایمبریو چھوٹا ساانسان بنتا ہے۔ اس میں ایمبریونک ڈویلپمنٹ کی سٹیجز بیان کی اس میں جو دلچسپ چیز ہے جس پر مغربی دنیا کے سائنسدان حیران ہیں۔ ڈاکٹر کیتھ مور اور ان کے پروفیسرز نے لکھا یہ ایک آیت ہے اس میں جو جو مرحلے انسان کی تبدیلی کےا ٓتے ہیں وہ بیان کیے گئے ہیں۔ جو تبدیلیاں تھوڑے تھوڑے ٹائم کے بعد ہوتی ہیں اس کا ذکر ’’فا‘‘ کے ساتھ کیا ہے۔ مخلقنا العلقہ جو تیزی کے ساتھ تبدیلیاں ہوتی ہیں وہاں ’’فا‘‘ لگایا ہے۔ ’’فا‘‘ جب لگے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس کے فوری بعد ہم نے یہ بنادیا اس کے فوری بعد ہم نے اس کو اس مرحلے میں داخل کردیا۔ جن مرحلوں میں تبدیلی میں زیادہ ٹائم لگتا ہے۔ کئی ہفتے لگتے ہیں اس کا ذکر قرآن مجید نے ثم کے ساتھ کیا اس کے بعد ہم نے یہ بنایا :

ثُمَّ جَعَلْنٰـہُ نُطْفَۃً فِیْ قَرَارٍ مَّکِیْنٍ.

(المومنون، 23: 13)

’’پھر اسے نطفہ (تولیدی قطرہ) بنا کر ایک مضبوط جگہ (رحم مادر) میں رکھا۔‘‘

تین بار ایک ہی آیت میں ثم کہا۔ جس میں زیادہ وقت لگتا ہے اس کا بیان ثم جو مرحلے تیزی کے ساتھ تبدیل ہوتے ہیں۔ وہ تین مرحلے ہیں ان میں ’’فا‘‘ ’’فا‘‘ ’’فا‘‘ کہا مرحلہ وار نشوونما بڑھ رہی ہے۔ کہیں فا کے ساتھ بیان کیا ہے کہیں ثم کا ساتھ بیان کرنا فرق کرنے کے لیے کہ ان میں وقت فاصلہ بہت کم ہے۔ یہ یہ مرحلے وہ ہیں جہاں کافی دن اور ہفتے لگتے ہیں۔ اب سوچیئے کہ یہ تقسیم و تفریق قرآن مجید کو کس نے بتادی یہ وضاحت کے ساتھ معلومات اللہ کے رسول ﷺ کو کس نے بتادیں؟

ثُمَّ سَوّٰہُ وَنَفَخَ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِہٖ وَجَعَلَ لَکُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَلْاَفْئِدَۃَ قَلِیْلاً مَّا تَشْکُرُوْنَ.

(السجدہ، 32: 9)

’’پھر اس (میں اعضاء) کو درست کیا اور اس میں اپنی روحِ(حیات) پھونکی اور تمہارے لِئے (رحمِ مادر ہی میں پہلے) کان اور (پھر) آنکھیں اور (پھر) دل و دماغ بنائے، تم بہت ہی کم شکر ادا کرتے ہو۔‘‘

ارشاد فرمایا اللہ پاک نے جب اعضاء بنائے۔ اعضاء میں کانوں اور آنکھوں کا ذکر کیا۔ ہر جگہ ذکر کیا کان پہلے بنائے آنکھیں بعد میں بنائی۔ سورۃ النحل میں کہا۔ تمھیں تمھاری ماؤں کے پیٹوں میں بنایا اور تمھارے لیے کان اور آنکھیں بنائیں۔ سورۃ الملک میں فرمایا جو تمھیں ماں کے پیٹ میں درجہ بدرجہ آہستہ آہستہ نشوونما دیتی ہے جہاں بھی قرآن مجیدمیں ذکر کیا کان کا پہلے آنکھ کا بعد میں کیا۔ کسی ایک جگہ ترتیب نہیں بدلی۔ اس کا مطلب ہے ماں کے پیٹ میں بچے کے کان بننے کا عمل پہلے شروع ہوتا ہے۔ آنکھ بننا اس کے بعد شروع ہوتی ہے۔ تھوڑا سا فرق ہوتا ہے۔ جب کان کے اندرونی پردے بن رہے ہیں۔ آنکھ کا اندرونی پردہ بن رہا ہے، تھوڑا سا فرق ہے یہ کس نے تاجدار کائنات کو بتادیا کس نے بتادیا قرآن پاک کو اگر اللہ کی ذات نہیں ہے؟ آج کی ریسرچ بتاتی ہے کہ بچہ پانچویں مہینے میں ماں کے پیٹ میں سننا شروع کردیتا ہے۔ ماں کے دل کی دھڑکن سنتا ہے۔ انتڑیوں کی آواز سنتا ہے۔ تیسرے ہفتہ کےا ٓخری حصہ میں کانوں کے اندرونی پردے کا آغاز ہوجاتا ہے۔ اس کے برعکس آنکھوں کا پردہ چوتھے ہفتہ میں شروع ہوتا ہے۔ ایک ہفتہ کا فرق ہے اکٹھی نشوونما ہورہی ہے، کس نے بتایا یہ فرق میرے آقا علیہ السلام کو کس نے بتایا یہ فرق قرآن مجید کو اگر خدا کی ذات کا وجود نہیں ہے اگر علم اتارنے والی اللہ کی ذات نہیں کون ہے وہ جو اس چیز سے آگاہی دینے والا۔ آگے آگے کان، پیچھے پیچھے آنکھ چلتی ہے اپنی تشکیل و فعالیت کے اعتبار سے حتی کہ بچہ اپنے پیدا ہونے سے 16 ہفتہ پہلے آوازوں کو سننے لگ جاتا ہے۔ تقریباً 4 مہینے پہلے آج سے چودہ سو سال قبل سمع تقدم کا بصری رفتار پر کس نے علم دے دیا تھا؟

یہ سارا کچھ بیان کرکے ڈاکٹر کیتھ مور نے اپنا نتیجہ نکالا جتنی تفصیلات انسان کے وجود کی ترقی اور نشوونما کی ماں کے پیٹ میں قرآن نے بیان کردی ہے۔ ہم سائنسدان ہونے کے ناطے اس صدی میں جب قرآن آپ ﷺ نے انسانیت کو دیا اس کا جاننا ممکن نہیں تھا۔ 14 سو سال قبل کو چھوڑیں، آج سے 100 سال قبل بھی ممکن نہیں تھا۔ کوئی ذریعہ نہیں تھا۔

آج ہم بیان کرسکتے ہیں کیونکہ سائنس کی بدولت آج ہماری کتابوں میں علم آگیا ہے مگر کتابوں میں یہ علم آئے ہوئے 80 سال ہوئے ہیں۔ 14 سو سال پہلے معلومات کا اتنی وضاحت سے بتادینا ایک اہم سوال ہے۔ ڈاکٹر کیتھ مور کہتے ہیں: ’’یہ بات طے شدہ ہے جو قرآن میں بیان ہوئیں یہ تعلیمات کسی لحاظ سے بھی حضور علیہ السلام کی بعثت کے زمانے میں ساتویں صدی عیسوی میں سائنسی علم کے ذریعے ممکن نہیں تھیں۔ ایک ہی بات سمجھ میں آتی ہیں۔ کہ یہ وحی ربانی تھی جو اللہ نے اپنے پیغمبر حضرت محمد ﷺ پر نازل کی تھی۔ اگر یہ وحی نہ ہوتی تو کوئی یہ تفصیلات بتا نہیں سکتا تھا کیونکہ اس وقت سائنس کے آلات موجود ہی نہیں تھے۔ لہذا اللہ کی وحی حق ہے۔ اس کے پیغمبر نبی آخرالزمان برحق ہیں جوکچھ اللہ کے رسول ﷺ نے بتایا صحت کے ساتھ اس کی تصدیق و تائید آج سائنس نے کردی ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری فرماتے ہیں: میں سمجھتا ہوں جتنی خدمت سائنس نے کردی ہے دین، قرآن اور سنت نبوی ﷺ کی شاید ہی کسی اور سبجیکٹ نے کی ہو۔ سائنس شہادتیں دیتی جارہی ہے قرآن کے سچ ہونے کی اللہ اور اس کےر سول ﷺ کے حق ہونے کی، دین اسلام کے برحق ہونے کی۔

یہ مضمون شیخ الاسلام کی زبانِ شریں بیان میں سننے کیلئے ویڈیو ملاحظہ کریں