قرآن کریم میں ذرائع ابلاغ یا میڈیا کا مفہوم ادا کرنے کے لیے دعوت کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ دعوت بلیغ ترین اور بےمثل تعبیر ہے جو نہ صرف اپنے دامن میں جامعیت، ہمہ گیریت اور عالمگیریت کو لیے ہوئے ہے بلکہ جملہ ذرائع ابلاغ کے استعمال کو بھی محیط ہے۔ یہ دعوت محض پیغام رسانی یا متعین و محدود افراد تک ندا پہنچانا نہیں بلکہ اس میں قبولیت و مؤثریت کی صفت کا ہونا بھی لازم ہے تاکہ دعوت کو کامیابی بھی مل سکے۔
دعوتِ دین کی بنیادی طور پر دو قِسمیں ہیں:
- دعوتِ عامہ
- دعوتِ خاصہ
دعوتِ عامہ کا مفہوم یہ ہے کہ ہر مسلمان جو کسی بھی دوسرے مسلمان کو خیر، نیکی، فلاح اور بھلائی کی طرف بلاتا ہے وہ دعوت کا فریضہ انجام دے رہا ہے۔ دعوتِ عامہ کے لیے داعی کی کوئی مخصوص شرائط نہیں ہیں، اُمتِ محمدیہ کا ہر فرد اپنے علم، تفہیم اور صلاحیت کے مطابق داعی ہے اور دعوتِ دین سرانجام دیتا ہے۔
دعوت کی دوسری قسم دعوتِ خاصہ دراصل امتِ مسلمہ کی انفرادیت ہے۔ اسی بنا پر اس کی انجام دہی کے لیے ایک ایسی جماعت مطلوب ہے جو علومِ دینیہ میں راسخ ہو، مخاطبین کی ذہنی سطح، دعوت کی نزاکتوں اور اپنے عصری تقاضوں سے واقف ہو اور اپنی زندگی دعوت کے امر میں وقف کرنے کا جذبہ رکھتی ہو۔ دین کی تعلیم و تفہیم، تبلیغ و ارشاد اور اصلاحِ احوال کی دعوت دعوتِ خاصہ کہلاتی ہے۔
عملِ دعوت کے تین تقاضے
قرآنِ مجید نے دعوت کے طریقہ کار کی وضاحت درج ذیل آیت میں یوں فرمائی ہے:
ادْعُ إِلَی سَبِیلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُم بِالَّتِی هِیَ أَحْسَنُ.
’’(اے رسولِ معظّم!) آپ اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ بلائیے اور ان سے بحث (بھی) ایسے انداز سے کیجئے جو نہایت حسین ہو۔‘‘
(النحل، 16: 125)
اس آیتِ مبارکہ میں دعوت کا اولین اصول یہ بیان کیا گیا ہے کہ دعوت کی سمت اللہ کی طرف ہو، یعنی دعوت میں اخلاص اور للہیت ہو۔ مذکورہ آیت مبارکہ میں جن تقاضوں کا تذکرہ کیا گیا ہے، وہ درج ذیل ہیں:
- دعوت بالحکمت
- موعظہ حَسنہ
- جدالِ احسن
(1) دعوت بالحکمت
دعوت بالحکمت کا مطلب یہ ہے کہ داعی اپنے مدعو کی ذہنی سطح، ماحول اور اُس کے اوپر اثر انداز ہونے والے عوامل، قلبی کیفیت اور نفسیاتی صورت حال کو اچھی طرح سمجھے کہ وہ کیوں بھٹکا ہوا ہے؟ اُس کا سبب کیا ہے؟ کیا چیز اِس پراثر انداز ہو رہی ہے؟ داعی کو چاہیے کہ مدعو کے فہم اور عقل کے مطابق اُسے اس انداز سے دعوت دے کہ اُس کے دل و دماغ پر ہونے والے سابقہ اثرات زائل ہوجائیں اور وہ راہِ ہدایت کی طرف کھنچا چلا آئے۔ اُسے خبر اور احساس ہوجائے کہ وہ جہالت کی تاریکی میں تھا اور یہ دعوتِ حق ہے۔ اس کے بعد داعی معمولی چیزوں کے بجائے جو اس کے لیے زیادہ اَہم ہیں، ان کی حکمت کے ساتھ تدریجاً دعوت دے تاکہ اس میں طلب اور خواہش مزید بڑھے۔ یہ دعوت کے عمل میں حکمت کا بنیادی پہلو ہے۔
حکمت میں یہ بھی شامل ہے کہ داعی مخاطب کی ضرورت کو سامنے رکھے۔ قرآن مجید میں ہے کہ اللہ رب العزت نے جتنے انبیاء کو بھیجا، اُس قوم کی زبان میں بھیجا:
وَمَآ أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهِ لِیُبَیِّنَ لَهُمْ.
اور ہم نے کسی رسول کو نہیں بھیجا مگر اپنی قوم کی زبان کے ساتھ تاکہ وہ ان کے لیے (پیغامِ حق) خوب واضح کر سکے۔
(إبراهیم، 14: 4)
زبان سے مراد صرف لغت و ادب اور زبان و بیان نہیں، بلکہ لسان کے معنیٰ میں بڑی وسعت ہے، یہاں مراد یہ ہے کہ جس نبی کو کسی قوم میں مبعوث فرمایا، اُن کی نفسیات، ادبی زبان، شعور، معاشرت اور اس دور کے تقاضوں سے آراستہ کرکے بھیجا۔
(2) موعظہ حسنہ
جب داعی کا مخاطب عام آدمی ہو جسے سائنس، فلسفہ اور منطقی موضوعات سے غرض نہ ہو بلکہ اس پر جذبات کی بات اثر کرتی ہو تو ایسی صورت میں داعی موعظہ حسنہ کے اصول پر دعوت دے گا۔ یعنی داعی مدعو کو اچھی، عمدہ اور موثر نصیحت کے ساتھ اس طرح دعوت دے کہ اس کی بات نہ صرف مخاطب کے دل پر اثر انداز ہو بلکہ اس کے جذبات اور اَحوال کو بھی بدل دے۔
(3) جدالِ احسن
دعوت کے عمل میں کئی بار داعی کا مخاطب وہ طبقہ ہوتا ہے جو دین سے بُغض رکھتا ہے، جو دین کی دعوت کے خلاف ہے اور نصیحت کی بات نہیں سننا چاہتا۔ اس طبقے کو دعوت دینے کے لیے قرآن مجید فرماتا ہے:
وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ.
اور ان سے بحث (بھی) ایسے انداز سے کیجیے جو نہایت حسین ہو۔
(النحل، 16: 125)
اس طبقے کے ساتھ داعی عمدہ انداز کے ساتھ جدال (debate) کرے۔ مذکورہ آیت مبارکہ کے الفاظ ’’بِالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ‘‘ سے مراد بھی یہی ہے کہ صرف عمدہ طریقے سے نہیں بلکہ نہایت ہی اَحسن طریقے کے ساتھ مخالف سے بات کی جائے۔ کیونکہ قرآن مجید نے داعی کے لیے شرط لگا دی کہ جب وہ مخالف سے بات کرے تو اُس کو نہ تو للکارے، نہ جھگڑے کے اندازمیں بات کرے، نہ اُس پر تہمت لگائے، نہ فتویٰ بازی کرے، نہ اُس کی تذلیل و تحقیر کرے، نہ اُسے اسلام سے خارج کرے۔ اگر وہ غیر مسلم ہے تو بات کا آغاز یہاں سے نہ کرے کہ تم کافر ہو، مشرک ہو، تم تو سیدھے جہنم میں جاؤ گے، بلکہ ایسے افراد کے ساتھ بات کرنے کا انداز اور سلیقہ بھی قرآن مجید ہمیں سکھاتا ہے اور وہ جِدالِ احسن ہے کہ ایسے افراد سے صرف اچھے طریقے سے نہیں بلکہ بہت ہی اچھے طریقے سے، صرف عمدہ طریقے سے نہیں بلکہ بہت ہی عمدہ طریقے سے، صرف پیار بھرے انداز سے نہیں بلکہ بہت ہی پیارے انداز سے دعوت دی جائے۔
دعوت کی مؤثریت کیونکر ممکن ہے؟
یاد رکھیں! دعوت میں مسلسل جدوجہد، حرکت اور زندگی کا مفہوم شامل ہے اور فکری و نظریاتی اور اصلاحی و انقلابی تحریکوں کی زندگی میں دعوت کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ تحریکوں کی ناکامی اور کامیابی کا انحصار بہت حد تک دعوت کی مؤثریت و غیرمؤثریت پر ہوتا ہے۔ دعوت کی مؤثریت کے لیے ضروری ہے کہ اس کے ذرائع جدید اور جاذب ہوں، اس کے برعکس فرسودہ و دقیانوسی ذرائع بہت دلکش پیغام کو بھی غیرمؤثر بنا دیتے ہیں۔
اسلام ایک عالمگیر اور تا قیامت باقی رہنے والا دین ہے، اس لیے وقت کے ساتھ بدلتے ہوئے حالات کے نشیب و فراز، تہذیب و تمدن کا عروج و زوال اور معاشرے کے طرزِ زندگی کا سدھار و بگاڑ اس کو متاثر نہیں کرسکتا۔ اسلام جدید آلات و انکشافات کا استقبال کرتا ہے۔ یہ اشیاء میں جدت کو بلاتدبر و تفکر ممنوع قرار دیتا ہے اور نہ جدید سہولیات کا یک لخت انکار کرتا ہے بلکہ تعلیماتِ اسلام جدید سہولیات کے استعمال کی اخلاقی و شرعی حدود کاتعین کر کے ان کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔
دورِ حاضر سائنسی انکشافات و ایجادات کا دور ہے۔ انیسویں اور بیسویں صدی میں مغرب نے اخبار، ریڈیو، ٹیلی ویژن، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا جیسے جدید ذرائع ابلاغ ایجاد کیے جنہوں نے انسانی زندگی میں کئی انقلابات بپا کر دیے۔ بدقسمتی سے یہی دو صدیاں مسلمانوں کا مشکل ترین دور تھا۔ اہلِ مغرب نے اپنی سائنسی ایجادات، نت نئی تخلیقات اور مادی ترقی سے ایک طرف صنعت و حرفت اور ضرب و حرب کے اصول بدل دیے اور دوسری طرف پورے عالمِ اسلام پر سیاسی غلبہ حاصل کر کے انہی جدید ذرائع ابلاغ کو استعمال میں لاکر اسلامی عقائد میں تحریف و تشکیک کی کوششیں شروع کر دیں۔
ذرائع ابلاغ اخلاقی بے راہ روی، فحاشی و عریانی اور اسلام کے حسین و جمیل چہرے کو مسخ کرنے کے لیے استعمال ہونے لگے۔ اہلِ اسلام کے لیے یہ صورتحال بڑی مشکل تھی۔ وہ اس صورتحال میں مغرب کی ہر نئی ایجاد کو شک کی نگاہ سے دیکھتے اور اس کے استعمال سے گریز کرتے۔ برصغیر کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ اہلِ مذہب نصف صدی تک لاوڈسپیکر کی ایجاد کو قیامت کی نشانی قرار دے کر اس کے استعمال پر کفر کا فتویٰ جاری کرتے رہے، کیونکہ لاوڈ سپیکر مغرب کی ایجاد تھا۔ مساجد میں لاوڈسپیکر کے استعمال کی شدت سے مخالفت کی گئی۔ کیمرا، تصویر، ویڈیو، ٹیلی ویژن، کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی ممانعت کے فتاویٰ تو ماضی قریب میں بھی دیکھنے کو ملتے رہے ہیں۔
یہ علماء اگرچہ خلوصِ نیت کے ساتھ اخلاقی بے راہ روی اور فحاشی و عریانی روکنے کے لیے فتاویٰ جاری کر رہے تھے، مگر اس بات کا ادراک نہیں کر پائے کہ زمانہ چال قیامت کی چل گیا۔ انہیں احساس نہیں تھا کہ جدید ذرائع ابلاغ کے منفی استعمال اور فواحشات کے پیشِ نظر اس پر کفر کا فتویٰ لگانے سے فحاشی و عریانی کے سیلاب کے آگے بند نہیں باندھا جاسکتا، ٹیلی ویژن توڑنے کی ترغیب دینے سے اخلاقی بگاڑ سدھار میں نہیں بدل جائے گا، انٹرنیٹ کا استعمال ممنوع قرار دینے سے نسلِ نُو اس کا استعمال ترک نہیں کرے گی بلکہ اس اخلاقی بگاڑ، اس منفی استعمال اور اس فحاشی کے خاتمے کے لیے انہی جدید ذرائع ابلاغ کو دعوتِ دینِ حق اور اسلام کی حقیقی، اجلی اور خوبصورت تصویر دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لیے استعمال کرنا ہوگا۔ روز مرہ کی ایجادات و انکشافات کو اچھوت سمجھ کر ان سے گریز کرنے یا کہیں ایسا نہ ہوجائے، کہیں ویسا نہ ہوجائے کے وہم میں گھِرے رہنے سے سوائے افسوس کے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔
دعوتِ دین کے فروغ میں شیخ الاسلام کا منفرد کردار
1980ء میں تحریکِ منہاج القرآن کا آغاز ہوا۔ یہ دور وہ تھا جس میں مذہبی اجارہ دار عامۃ الناس کو مذہب کی من پسند تعبیر دے رہے تھے۔ دینی دعوت اور اصلاحِ احوال کا کام کرنے والوں کا سارا انحصار قرآن و سنت کے قوی دلائل کی بجائے ترنم، شاعری اور خوش آوازی پر قائم تھا۔ مذہبی اجارہ داروں کی پیش کردہ دینی تعبیر اس قدر غیرجاذب اور روکھی تھی کہ جدید تعلیم یافتہ نوجوان ان کاروباریوں کے کردار و احوال سے متنفر ہو کر دین سے ہی بیزار ہو رہے تھے۔ ان حالات میں قائدِ تحریک شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اپنی دعوت کا آغاز سلسلہ دروسِ قرآن سے کیا جو کہ عام روایتی انداز سے بالکل ہٹ کر تھا۔ آپ کے دروس علمی اعتبار سے قرآن و حدیث کے دلائل سے مزّین اور روحانی چاشنی سے بھرپور ہوتے تھے۔ جدید سائنسی حوالے سے دین کی تشریح و تعبیر اور دل میں اتر جانے والے اندازِ بیان نے پڑھے لکھے احباب کو بالعموم اور نوجوان نسل کو بالخصوص متاثر کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے بہت کم عرصہ میں یہ دعوت کوبہ کو پھیلنے لگی اورلوگ جوق در جوق تحریک میں شمولیت اختیار کرنے لگے۔
آج سے 40 سال قبل تحریک منہاج القرآن کا قیام عمل میں لایا گیا تو اس کا اولین فریضہ دعوتِ دینِ حق قرار پایا۔ تحریک کے عناصرِ خمسہ کی روشنی میں اس کا عملِ دعوت درج ذیل چار نکات پر مشتمل ہے:
- فکرِ آخرت، اصلاحِ باطن اور رضائے الہی کا حصول
- ایمان وعقیدہ کا تحفظ اور عشقِ رسالت ﷺ کا فروغ
- عصرِ حاضر میں اسلام کی تعبیرِ نَو
- اقامتِ دین کی دعوت
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری تحریک منہاج القرآن کے آغاز کے اولین دن سے ہی اپنے اِن دعوتی اہداف اور احیائے اسلام، تجدیدِ دین، دعوت و تبلیغ اور فروغِ پیغامِ تحریک کے لیے دستیاب جملہ ذرائع ابلاغ کو نہایت ہی مہارت کے ساتھ استعمال کرتے آرہے ہیں۔ آپ نے روایتی اور دقیانوسی سوچ و فکر کے حاملین کی طرح سائنسی ایجادات کو دین کے پیغام کے فروغ کے منافی تصور نہیں کیا بلکہ آپ نے ان جملہ ایجادات کو ایک Tool (آلہ؍ ذریعہ) سمجھا جو بذاتِ خود برے نہیں بلکہ ان کا استعمال انہیں اچھا یا برا بناتا ہے۔
ذیل میں اسلامی تعلیمات کے فروغ کیلئے جدید ذرائع ابلاغ کے استعمال کے حوالے سے شیخ الاسلام کے کردار، Vision اور Approach کے چند گوشے نذرِ قارئین ہیں:
(1) خطابات کی ریکارڈنگ
80ء کی دہائی میں شیخ الاسلام کی مؤثر دعوت اور اس کی قبولیت نے حاسدین اور دقیانوس طبقے کو پریشانی میں مبتلا کر دیا۔ ایک طرف ویڈیو اور کیمرے کی حرمت کے فتوے لگا کر عوام کو آپ سے بدظن کرنے کی کوششیں کی جا رہی تھیں تو دوسری طرف کردارکشی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا جاتا۔ یہاں تک ان علماء کو تحریک منہاج القرآن کے پروگرامز میں شرکت کی دعوت دی جاتی تو ان کی شرط ہوتی تھی کہ پروگرام میں ویڈیو کیمرا نہ لایا جائے۔ اس شدید مخالفت اور دقیانوسیت کے باوجود شیخ الاسلام کے خطابات کی آڈیو اور ویڈیو ریکارڈنگ جاری رکھی گئی۔ شیخ الاسلام کے خطابات کی ریکارڈنگ کا باقاعدہ آغاز 1982ء میں ہوا اور منہاج پروڈکشنز کے نام سے مرکز پر نظامت کا قیام عمل میں لایا گیا۔ منہاج پروڈکشنز کی ذمہ داری شیخ الاسلام کے خطابات کی آڈیو ریکارڈنگ، ویڈیو ریکارڈنگ، ایڈیٹنگ، تمام خطابات کی ماسٹر کاپیز کی تیاری، حفاظت اور خطابات ریلیز کرنا تھا۔ اس شعبے نے قائدِ تحریک کی ماہ و سال کی کاوشوں اور خطابات کا ریکارڈ آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ کیا اور آج الحمدللہ شیخ الاسلام کے ہزاروں خطابات کا ریکارڈ موجود ہے۔
(2) رسائل کا اجراء
الیکٹرانک میڈیا کے ساتھ ساتھ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے دینی اقدار و تعلیمات کے فروغ میں پرنٹ میڈیا کی اہمیت و ضرورت اور تقاضوں کے پیشِ نظر رسائل و جرائد کا بھی آغاز فرمایا۔ اس ضمن میں دو رسائل کا اجراء کیا گیا:
- ماہنامہ منہاج القرآن
- ماہنامہ دخترانِ اسلام
ماہنامہ منہاج القرآن کا اجراء اپریل 1987ء اور ماہنامہ دختران اسلام کا اجراء 1992ء میں کیا گیا ہے۔ یہ دونوں شمارے پاکستان کے کثیرالاشاعت جرائد میں شامل ہیں جن کی اشاعت ہزاروں میں ہے اور اپنی اشاعت کے اولین دن سے لے کر آج تک بلا انقطاع شائع ہورہے ہیں۔ ماہنامہ منہاج القرآن اور ماہنامہ دخترانِ اسلام تحریک منہاج القرآن کے علمی و تحقیقی جرائد کی ویب سائٹ www.minhaj.info پر پی ڈی ایف، تصویری اور تحریری روپ میں بھی شائع کیے جاتے ہیں۔ اس ویب سائٹ پر 2003ء سے اب تک شائع ہونے والے تمام شمارے استفادہ کے لیے دستیاب ہیں۔
(3) منظّم رکنیت سازی
تحریک کی رفاقت و رکنیت کا آغاز تحریک کے قیام کے دن (17 اکتوبر 1980ء) سے ہی ہو گیا تھا، تاہم رفقاء و اراکین کو ایک جامع ڈیٹابیس کی مدد سے منظم رکھنے اور تحریکی لٹریچر کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے 1984ء میں نظامتِ ممبرِشپ کا قیام عمل میں آیا۔ نوے کی دہائی سے نظامتِ ممبرشپ نے اپنا تمام ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کیا، بعد ازاں منہاج انٹرنیٹ بیورو نے اس نظامت کے لیے سافٹ ویئر تیار کیا جس کی مدد سے تحریک منہاج القرآن کی ممبرشپ کو منظم کیا گیا ہے۔
(4) تحقیق و تصنیف
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے دین اسلام کی حقیقی تعلیمات کے فروغ کے لیے جہاں الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا سے بھرپور استفادہ کیا وہاں تحقیق و تصنیف کے میدان میں بھی اپنا لوہا منوایا اور اس ضمن میں ہر قدم پر جدت کو مدنظر رکھا۔
80ء کی دہائی میں ہی اندرون و بیرونِ ملک شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے خطبات، دروس اور لیکچرز کا سلسلہ بفضلہ تعالیٰ کافی بڑھ چکا تھا۔ اس علمی و تحقیقی اور فکری مواد کی مستقل بنیادوں پر مطبوعہ صورت میں اشاعت کے لیے شیخ الاسلام کی زیر نگرانی 7 دسمبر 1987ء کو منہاج القرآن رائٹرز پینل کی بنیاد رکھی گئی اور بعد ازاں اس علمی و تحقیقی مرکز کو بانی تحریک کے والد گرامی فریدِ ملت حضرت ڈاکٹر فریدالدین قادری رحمۃ اللہ سے موسوم کرتے ہوئے فریدِ ملت ریسرچ انسٹیٹیوٹ (FMRi) کا نام دیا گیا۔ فریدِ ملت ریسرچ انسٹیٹیوٹ نے اسلام کے حقیقی پیغام کی تبلیغ و اشاعت اور تحریک منہاج القرآن کی فکر کی ترویج کے لیے جدید اندازِ تحقیق اپنایا اور نئی نسل کو بے یقینی، اخلاقی زوال اور ذہنی غلامی سے نجات دلانے کے لیے دورِ جدید کی ضروریات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اسلامی تعلیمات کی اشاعت کو اپنا اولین مقصد بنایا۔
اس کے مرکزی شعبہ جات میں شعبہ تحقیق و تدوین، ریسرچ ریویو کمیٹی، مرکزی لائبریری، شعبہ ترجمہ، شعبہ کمپوزنگ، شعبہ خطاطی، شعبہ مسودات و مقالہ جات، شعبہ ادبیات، دار الافتاء اور شعبہ تحقیقی تربیت شامل ہیں۔ ان شعبہ جات کے ریسرچ اسکالرز نے نہ صرف کئی اہم موضوعات پر تحقیقی مواد تیار کیا ہے بلکہ قائد تحریک کے مختلف دینی، سماجی، اقتصادی، سیاسی و سائنسی، اور اخلاقی و روحانی موضوعات پر فکر انگیز ایمان افروز خطابات کو کتابی صورت میں مرتب کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ جدید اسلوبِ تحقیق اور عصری تقاضوں کے عین مطابق اس شعبے کی وساطت سے اب تک 600 سے زائد علمی، تحقیقی اور فکری کتب شائع ہوچکی ہیں۔ شائع کردہ کتب www.minhajbooks.com پر پی ڈی ایف، تصویری، تحریری اور زِپ فارمیٹ میں استفادہ عام کے لیے مفت دستیاب ہیں۔
کمپیوٹر اور انٹرنیٹ نے دورِ حاضر میں تحقیق کا نہ صرف انداز بدل دیا ہے بلکہ اس میں بے شمار آسانیاں بھی پیدا کی ہیں۔ فریدِ ملت ریسرچ انسٹیٹیوٹ نے اِن جدید سہولیات سے بھرپور استفادہ کیا ہے۔ ہزارہا کتب کے مسودات کو ڈیجیٹل صورت میں محفوظ کیا گیاہے۔ اس کے علاوہ تحقیق کے لیے آن لائن؍آف لائن ڈیجیٹل لائبریریوں سے بھی استفادہ کیا جا رہاہے جس کے لیے ریسرچ سکالرز کو باقاعدہ ٹریننگ دی جاتی ہے اور اس سلسلے میں شیخ الاسلام بھی ریسرچ سکالرز کی مسلسل رہنمائی کرتے ہیں۔ شیخ الاسلام کے کینیڈا میں 2005ء سے مستقل قیام سے لے کر اب تک ذخیرہ حدیث پر بہت جامع کام ہوا اور احادیث سمیت دیگر موضوعات پر کئی نادر کتب منصہء شہود پر آئیں۔ اس دوران شیخ الاسلام کی سکالرز کے ساتھ کئی کئی گھنٹے طویل ٹیلی فونک اور ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے میٹنگز ہوتیں اور آپ ہر کتاب کے سر ورق سے لیکر پشتے تک ایک ایک چیز سے متعلق رہنمائی دیتے ہیں۔ علاوہ ازیں کتب کے مسودات سکین کر کے بذریعہ ای میل شیخ الاسلام کو ارسال کیے جاتے ہیں اور آپ نظرِثانی کرکے واپس بھجواتے ہیں۔ اس طرح شیخ الاسلام نے تحقیق و تصنیف کے معاملے میں جدید ذرائع سے استفادہ کیا ہے۔
(5) انٹرنیٹ سے استفادہ
بیسویں صدی کے دوسرے نصف سے ہی جدید ذرائع ابلاغ میں انٹرنیٹ کی اہمیت مسلّم ہوچکی تھی۔ انٹرنیٹ کی اسی اہمیت کے پیشِ نظر شیخ الاسلام کی رہنمائی سے 1994ء میں تحریک منہاج القرآن کی مرکزی آرگنائزیشنل ویب سائٹ www.minhaj.org کے نام سے منظر عام پر آئی۔ یہ وقت وہ تھا جب پاکستان میں پڑھا لکھا طبقہ بھی انٹرنیٹ سے شناسا نہیں تھا۔ 1996ء میں اشاعتِ اسلام کی غرض سے کی جانے والی تحریک منہاج القرآن کی جملہ مساعی کو سائبر سپیس پر پیش کرنے کے لئے پاکستان میں واقع تحریک کے مرکزی سیکرٹریٹ میں باقاعدہ ایک شعبہ وجود میں آیا، جسے منہاج انٹرنیٹ بیورو کے نام سے موسوم کیا گیا۔ تحریک منہاج القرآن کی مرکزی آرگنائزیشنل ویب سائٹ www.minhaj.org کو کسی بھی آرگنائزیشن کی پہلی پاکستانی ویب سائٹ ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔
منہاج انٹرنیٹ بیورو نے اس ویب سائٹ کو نئے تکنیکی تقاضوں کے مطابق از سر نو پروان چڑھانے کے ساتھ ساتھ بہت سی نئی ویب سائٹس موبائل فرینڈلی بھی لانچ کیں، جن میں ویب صارفین کے لئے بیش بہا نئی سروسز شروع کی گئیں۔ اس نئے لائحہ عمل سے جہاں عوام الناس کو تحریک کے پلیٹ فارم سے اسلام سے شناسائی کے گوناگوں مواقع ملے، وہاں ماہانہ لاکھوں کی تعداد میں نئے ویب صارفین کا اضافہ بھی ہوا، جو کسی بھی پاکستانی نژاد ویب سائٹ کے لئے ایک اعزاز سے کم نہیں۔
تحریک کا پیغام عالمی سطح پر عام کرنے کے لئے جہاں انگریزی ویب سائٹس بنائی گئیں، وہیں پاکستان اور بھارت سمیت دنیا بھر کے اردو دان طبقے کو تحریک سے روشناس کرانے کے لئے ہر ویب سائٹ کا اردو ورژن بھی تیار کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں آن لائن دنیا میں یونیکوڈ اردو کے فروغ میں منہاج انٹرنیٹ بیورو کا کردار اہمیت کا حامل ہے۔
اس شعبے نے تحریک منہاج القرآن کی تنظیمی، تعلیمی و ادبی اور ادارہ جاتی ویب سائٹس کو نہ صرف ڈیویلپ کیا ہے بلکہ ان کی اپ ڈیٹنگ کا فریضہ بھی یہی شعبہ سر انجام دیتا ہے۔
(6) ویب ٹی وی کا قیام
فروری 2003ء میں قائد ڈے کے مبارک موقع پر تحریک منہاج القرآن کی ملٹی میڈیا ویب سائٹ www.minhaj.tv کا قیام عمل میں آیا۔ اس ویب سائٹ پر شیخ الاسلام کے ہزاروں خطابات کی موجودگی اور ان کے لاکھوں ناظرین نے قائدینِ تحریک کی توجہ ایسا ویب ٹی وی چینل لانچ کرنے کی طرف دلائی جس پر شیخ الاسلام کے خطابات اور تحریکی سرگرمیاں نہ صرف براہ راست نشر کی جاسکیں بلکہ اس کی نشریات 24 گھنٹے جاری رکھی جائیں۔ چنانچہ 30 اپریل 2011ء کو تحریک منہاج القرآن کے ٹیلی ویژن چینل منہاج ٹی وی (www.minhaj.tv) کا قیام عمل میں لایا گیا۔ منہاج ٹی وی کا افتتاح منہاج اسلامک سنٹر پیرس (فرانس) میں منعقدہ تقریب میں ہوا جس میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے براہِ راست خطاب کیا۔ اس ویب ٹی وی کی نشریات 24گھنٹے چلتی ہیں اور شیخ الاسلام کے خطابات و تحریک منہاج القرآن کے پروگرامز براہ راست نشر کیے جاتے ہیں۔ ہر سال جامع المنہاج سے اعتکاف اور مینارِ پاکستان سے عالمی میلاد کانفرنس منہاج ٹی وی کے ذریعے ہی پوری دنیا میں نشر کی جاتی ہیں۔
(7) ای لرننگ (E-Learning)
بیرون ملک مقیم مسلمانوں اور ان کے بچوں کو اسلامی علوم سے آراستہ کرنے کے لیے شیخ الاسلام کی رہنمائی میں فاصلاتی تدریسی پروگرام کا آغاز دسمبر2009ء میں www.equranclass.com کی ویب سائٹ سے کیا گیا۔ اس شعبہ کے ذریعے بیرونِ ملک طلبہ و طالبات تحریک منہاج القرآن کے مرکز پر موجود ماہر اساتذہ سے آن لائن منسلک ہو کر علم و آگہی کا نور حاصل کرتے ہیں۔ 2017ء میں طالبات کے لیے www.femaletutor.com کے نام سے الگ کیمپس قائم کیا گیا ہے جس میں منہاج کالج برائے خواتین کی فاضلات تدریسی فرائض انجام دیتی ہیں۔ اس تدریسی پروگرام کے ذریعے ہونے والے کورسز میں ناظرہ قرآن کورس، تجوید و قرات کورس، عرفان القرآن کورس، ترجمہ قرآن کورس، حدیث لرننگ کورس، سیرت الرسول کورس، عقائد کورس، فقہ کورس، عربی قواعد کورس اور اردو زبان و ادب کورس شامل ہیں۔
(8) ویڈیو کانفرنسنگ
21ویں صدی کے پہلے عشرے میں ویڈیو کانفرنس کی سہولت منظرِ عام پر آئی تو بانی تحریک شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے بغیر کسی تذبذب کے اس سے استفادہ کا فیصلہ کیا۔ آپ بیرونِ ملک قیام کے دوران مرکزی عہدیداران اور مرکزی سٹاف سے ویڈیو کانفرنس کے ذریعے میٹنگ کرتے۔ تحریک منہاج القرآن پاکستان کی اول اور شائد واحد تنظیم ہے جس نے عالمی ورکرز کنونشن (World-Wide Workers Convention) کا نہ صرف خیال متعارف کروایا بلکہ عملاً اس کی مثال بھی پیش کی۔ اکتوبر 2012ء میں ایسے ہی عالمی ورکر کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے شیخ الاسلام نے پاکستان تشریف آوری کا اعلان کیا تھا جس کی مؤثریت کا اندازہ 23 دسمبر 2012ء کے عوامی استقبال کے جلسہ سے کیا جاسکتا ہے۔ اگست 2016ء میں تحریکِ قصاص کے عنوان سے پاکستان عوامی تحریک نے پاکستان کے سو سے زائد شہروں میں احتجاج کیے جن سے بذریعہ ویڈیو کانفرنس شیخ الاسلام نے خطاب کیا۔
پاکستان میں اور بیرونِ ملک تنظیم سازی اور مشاورت کے لیے مرکزی عہدیداران ویڈیو کانفرنس کا استعمال کرتے ہیں۔ بیرونِ ملک مختلف اسلامک سنٹرز پر ویڈیو کانفرنس کے ذریعے منہاجینز کے خطابات کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے۔
(9) سوشل میڈیا پیجز
تحریک منہاج القرآن نے دورِ جدید کے تیز ترین سمجھے جانے والے ذرائع یعنی سوشل میڈیا کو دعوتِ دین اور فروغِ مقاصدِ تحریک کے لیے استعمال کیا ہے۔ مرکزی سوشل میڈیا ٹیم ٹیوٹر، فیس بک، گوگل پلس، انسٹاگرام،وٹس ایپ، ساونڈ کلاوڈ، پِنٹرسٹ، یوٹیوب، ویمیو، ڈیلی موشن اور فلکر سمیت ہمہ قسم سوشل میڈیا پر بنے تحریک اور قائدین تحریک کے آفیشل اکاونٹس پر باقاعدہ اپ ڈیٹس دیتی ہے۔ ماضی میں یہ شعبہ سوشل میڈیا کے استعمال اور اس کی اخلاقیات سے متعلق رضا کاران کو تربیت دینے کے لئے ورکشاپس کا انعقاد بھی کرتا رہا ہے۔ مرکزی سوشل میڈیا میں سے چند پیجز کے روابط درج ذیل ہیں:
Youtube:
www.youtube.com/DrHussainQadri
www.youtube.com/MinhajTVOfficial
Facebook:
www.facebook.com/DrHussainQadri
www.facebook.com/PakistanAwamiTehreek
Twitter:
Official WhatsApp Groups
فہرست اہم مرکزی ویب سائٹس
تحریک منہاج القرآن کی جملہ مرکزی ویب سائٹس منہاج انٹرنیٹ بیورو کے زیرانتظام ڈویلپ اور اپ ڈیٹ کی جاتی ہیں۔ چند اہم ویب سائٹس کے روابط درج ذیل ہیں:
خلاصۂ کلام
بانی و سرپرستِ اعلیٰ تحریک منہاج القرآن شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری بلاشبہ نابغہء روزگار اور مجددِ دین و ملت ہیں، جنہوں نے اپنی دعوتی و تنظیمی مساعی کی بنیاد روایتی فکر کی بجائے عصرِ حاضر کے تقاضوں کے مطابق جدید اسلوب پر رکھی۔ یہی وجہ ہے کہ جدتِ فکر و نظر تحریک منہاج القرآن کے خمیر میں شامل ہے۔ 80ء کی دہائی میں ہی شیخ الاسلام نے اس بات کا احساس کر لیا تھا کہ جدید ذرائع سے منہ موڑنے کی بجائے اسلام کی ترویج و اشاعت اور دعوتِ دین کے لیے ان ذرائع ابلاغ کو استعمال میں لانے کی اشد ضرورت ہے، کیونکہ اسلام دشمن قوتیں اس محاذ پر حملہ آور تھیں اور اہلِ مذہب اسے شجرِ ممنوعہ قرار دے کر اس سے گریزاں تھے۔ اسی احساس کے پیشِ نظر آپ نے تبلیغِ دین اور فروغِ تحریک کے لیے جدید ذرائع ابلاغ کا بھرپور استعمال کیا۔ بانی تحریک کی اسی جدت پسندی اور جدید سہولیات سے استفادہ نے تحریک منہاج القرآن کو عصرِ حاضر کی تحریکوں میں منفرد مقام دیا ہے۔