یوں تو فضیلتِ مآب شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اپنی منفرد اور ممتاز علمی و فکری شخصیت کے باعث اپنی مثال آپ ہیں اور عمومی طور پر آپ کی ہمہ جہت شخصیت کے کئی پہلو ہیں لیکن اجمالی طور پر میں علم پرور فضیلتِ مآب عمیق و لطیف شخصیت کو نئی اصطلاح دیتے ہوئے ’’ہشت پہلو علمی اَلماس‘‘قرار دیتا ہوں۔ یعنی کہ شیخ الاسلام کی باکمال شخصیت کے علمی اعتبار سے منفرد آٹھ خصوصی نظریاتی گوشے اور پہلو ہیں۔ ذیل میں ان پہلوئوں کو بیان کرنے کی سعادت حاصل کررہا ہوں:
1۔ گوشۂ علمیت
شیخ الاسلام کے گوشۂ علمیت میں آٹھ جزویات کی جانب توجہ مبذول کروانا چاہتا ہوں۔ جس سے آپ کی علمیت کی وضاحت ہوسکے گی:
- علمِ اخلاق: جس کے ذریعے لوگوں کے اخلاقی اوصاف کی اصلاح ہوتی ہے۔
- علمِ حقیقت: وہ علم جو حقائقِ اشیاء سے بحث کرتا ہے۔ مثلا بساط، حیثیت، حالت، کیفیت، سچائی، اصلیت اشیاء کا باقاعدہ علم ہے۔
- علمِ معیشت: معاشیات اور اقتصادیات کا باقاعدہ علم میسر آتا ہے۔
- علمِ لدنی: وہ علم جو کسی کو خدا کی طرف سے براہ راست کسی استاد کے بغیر محض فضلِ الہٰی اور خیرات و فیض مصطفی ﷺ سے ملے۔
- علمِ کلام: بحث و مباحثے اور فن تقریر کا علم، فصاحت و بلاغت کا علم جو باقاعدہ آپ کا جزو لا ینفک ہے۔
- علمِ سخن وری: نظم، نثر اور علم انشاء پردازی کا باقاعدہ علم جس میں مضمون نویسی اور ادب نگاری ہے۔
- علمِ مجلس و آدابِ مجلس: تہذیب و ادبی ترغیب اور شرکائے مجلس کا نظم و ضبط قائم رکھنے کا علم۔
- علمِ تسخیر قلوب و اذہان: یہ دانشمندی، آگاہی اور عمل تسخیر قلوب و اذہان کا علم ہے۔ اس علم سے باقاعدہ لوگوں کے قلوب و اذہان پر اپنے جوہرِ علمی سے قبضہ کرنا نہ کہ جادو یا مختلف وظائف کے ذریعے۔
2۔ گوشہ انقلابیت
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدظلہ انقلابی، دلپذیر، پسندیدہ اور مقبولِ عام روحانی شخصیت ہیں۔ آپ نے ’’قرآنی فلسفہ انقلاب‘‘ قرآنی تعلیمات کی روشنی میں مکمل مرتب فرما کر انقلابی جدوجہد کا باقاعدہ آغاز تحریک منہاج القرآن کی صورت میں 1980ء میں لاہور سے کیا۔ شیخ الاسلام نے امتِ مسلمہ کو بالعموم اور تحریکی وابستگان کو بالخصوص انقلابی جدوجہد کے چودہ تقاضے عنایت فرمائے جنہیں ذیل میں بیان کیا جارہا ہے:
- بیداریِ شعور
- جہدِ مسلسل کا عہد
- مصائب، اِبتلاء و آزمائش پر صبر
- اُسوۂ حسنہ پر یقینی عمل داری
- قائد اور مشن سے غیر مشروط وفاداری
- ایثار و قربانی کا تسلسل
- شب و روز محنتِ شاقہ اور جانفشانی کی ضرورت
- نظم و ضبط میں سنجیدگی
- اعمالِ صالحہ پر گامزن رہنا
- جدوجہد پر استقامت
- بے لوث خدمتِ خلق
- کام چوری اور خود غرضی سے گریز کرنا
- ہمہ وقت نئے چیلنجز پر نظر رکھتے ہوئے آگے بڑھنا
- ظالم کے آگے سینہ سپر ہونا اور کمزور کی مدد کرنا
3۔ گوشۂ تصوف اور پابندیِ صوم و صلوٰۃ
شیخ الاسلام کے ہشت پہلو علمی اَلماس کاتیسرا گوشہ تصوف ہے۔ یوں تو تقویٰ اور پرہیزگاری شیخ الاسلام کا بچپن کا شیوہ رہا ہے۔ تاہم عنوان مذکورہ بالا کے تحت آپ اپنی جوانی تا حال سنتِ نبوی ﷺ پر عمل پیرا رہے۔ تزکیۂ نفس اور نورِ معرفت کے چراغ وابستگان کے قلوب میں منور کیے۔ بے جا دنیاوی خواہشات سے توجہ ہٹا کر رخ دیدارِ الہٰی اور عشقِ مصطفی ﷺ کی طرف موڑا۔ نوجوانوں کو نماز کی پابندی کا حکم دیا اور ہفتہ وار روزے رکھنے کی پابندی لگا دی تاکہ تزکیہ نفس کا تسلسل مؤثر انداز سے جاری رہے۔
4۔ گوشۂ عشقِ الٰہی اور عشقِ مصطفی ﷺ
شیخ الاسلام کے ہشت پہلو علمی اَلماس کا چوتھا گوشہ عشقِ الٰہی اور عشقِ مصطفی ﷺ ہے۔ یہ پہلو آپ کی پوری زندگی پر محیط و غالب ہے۔ آپ نے عشقِ الٰہی اورعشقِ رسول ﷺ لاکھوں نوجوانوں کے دلوں میں بھی جاگزیں کر دیا ہے۔ اسی طاقت کو آپ علمی، معاشی، معاشرتی اور نظریاتی سطح پر ہر برائی کے سدِ باب کا ذریعہ سمجھتے ہیں اور ہر سطح پر کامیابی کی ضمانت سمجھتے ہیں۔
5۔ گوشۂ قرآن و سنت کی کامل اتباع
شیخ الاسلام مدظلہ کی زندگی کاملاً قرآن اور سنت سے حقیقی طور پر مزیّن و آراستہ ہے اور ان کی تحریکی جدوجہد میں کامرانی اور نصرت کی واحد ضمانت ہے۔ آپ کے علم و عمل میں مکمل طور پر قرآنی تعلیمات، شریعتِ محمدی ﷺ اور احیائے اسلام کی جدوجہد کے جذبے کا مکمل عمل دخل ہے۔ اس کے بغیر شیخ الاسلام زندگی کو ایک ایسی عمارت سے تعبیر کرتے ہیں جس میں اندر جانے کا راستہ تو ہو مگر باہر جانے کا راستہ نہ ہو۔ اس میں روشنی اور ہوا کا دخل قطعی نہ ہو بلکہ مکمل اندھیرا اور گھٹن ہو اور زندگی کے آثار نہ ہونے کے برابر ہوں۔ آپ کے نزدیک قرآنی تعلیمات اور اتباع و متابعتِ رسالتِ مآب ﷺ کا فروغ وقت کا سب سے اہم تقاضا ہے۔
6۔ گوشۂ حکمت و بردباری
شیخ الاسلام کے ہشت پہلو علمی اَلماس کا چھٹا گوشہ حکمت و بردباری ہے۔ یہ در حقیقت آپ کی زندگی اور تحریکی جدوجہد میں جزو لا ینفک کی حیثیت سے غالب اور محیط ہے۔ یہ شیخ الاسلام کی خصوصی حکمتِ عملی اور بردباری کے علاوہ آقائے دو جہاں ﷺ کی عاطفتِ رحیمانہ اور نصرتِ الٰہی کا ثمر ۂ شیریں ہے۔ میرا ذاتی مشاہدۂ عمیق ہے کہ شیخ الاسلام کی نگاہ دوربیں، خصوصی حکمت اور بردباری، صبر و استقلال نے تجدید و احیاء دین کی اس جدوجہد کو نہ صرف چار چاند لگا دیئے ہیں بلکہ تمام ابتلاء و آزمائشیں بطریقِ احسن مشفق قائد کی ہم نشینی میں عبور ہوتی چلی گئیں اور آئندہ بھی ان شاء اللہ تمام دروازے وا ہوتے چلے جائیں گے۔
7۔ گوشۂ تعظیم اہلِ بیت اطہار اور ادبِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین
شیخ الاسلام کے ہشت پہلو علمی اَلماس کا ساتواں گوشہ تعظیمِ اہلِ بیت اطہار علیہم السلام اور ادبِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہے۔ شیخ الاسلام کی پوری زندگی تعظیمِ اہلِ بیت اور ادبِ صحابہ کرام اور محبتِ اولیائے عظام سے عبارت ہے۔آپ کے نزدیک اہلِ بیت کی مکمل اتباع اور محبت کا تقاضۂ اولین محبتِ رسول ﷺ ہے اور صحابہ کرام کی زندگیاں ہمہ وقت مشعلِ راہ ہیں۔ خلفائے راشدین، راشدین اس لئے ہیں کہ انہوں نے قربانیوں کی جو داستان رقم کی ہے، وہی در حقیقت حضورِ انور ﷺ کا بتایا ہوا صراطِ مستقیم ہے۔
8۔ گوشہ شجاعت اور جواں مردی
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدظلہ کے ہشت پہلو علمی الماس کا آٹھواں گوشہ شجاعت (بہادری) اور جواں مردی ہے۔ شیخ الاسلام تحریکی جدوجہد میں اغیار کے لیے ہمیشہ شجاعتِ علوی کے امیں اور استقامت میں طریقِ حسین علیہ السلام پر گامزن رہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ میں مسافرِ کربلا ہوں اور میری منزل مدینہ ہے۔
میرا روزِ اوّل سے ذاتی مشاہدہ ہے کہ آپ نے اپنی جواں مردی اور بلند حوصلگی سے ہر کوہِ گراں کو شجاعتِ علوی اور استقامتِ حسینی سے پاش پاش کر دیا۔