انبیائے کرام علیہم السلام، محبوبانِ الٰہی اور راہِ حق کے مسافروں کو حصولِ منزل کے لیے آزمائش و امتحان کی سخت ترین منزلوں اور خاردار راہوں سے گزرنا اور قدم قدم پر تسلیم و رضا کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے، حتیٰ کہ انبیائے کرام علیہم السلام جو قربِ الٰہی میں صفِ اوّل میں کھڑے ہوتے ہیں، ان کو بھی راہِ حق میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
زیرِ نظر مضمون میں صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین، اہلِ بیت اطہار علیہم السلام، اولیائے عظام، محدثین و فقہاء کی مشکلات کی چند مثالیں اختصار کے ساتھ پیش کر کے اس مسئلے کو واضح کرنے کی کوشش کی جائے گی کہ حصولِ منزل، عزت و رفعت اور راہِ حق میں درپیش مشکلات، تکالیف، مخالفتیں اور آزمائشیں لازم و ملزوم ہوتی ہیں۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ بندۂ خدا سفرِ حق پر گامزن ہو اور اس کا سفر تکالیف اور مخالفتوں کے بغیر ہو۔
اس موضوع پر بات کرنا اس لیے ضروری ہے کہ بعض لوگ کم علمی اور تاریخی حقائق سے نابلد ہونے کی بنا پر ناقدین کے کلام کو مبنی بر صداقت سمجھتے ہوئے نابغۂ روزگار شخصیات کے علم و عرفان سے دور رہ کر اُن کے علمی و روحانی فیض سے محروم ہو جاتے ہیں اور بعد ازاں جب اُن کی آنکھیں کھلتی ہیں، حقیقت اُن پر عیاں ہوتی ہے اور انہیںایسی نایاب شخصیات کو سمجھنے کا موقع ملتا ہے تو وقت بیت چکا ہوتا ہے۔ اپنی کم علمی، ضد، ہٹ دھرمی اور انانیت کی وجہ سے ناقدین و معترضین صرف اپنا نقصان ہی نہیں کرتے بلکہ دیگر سادہ لوح عوام کو بھی حق سے محروم رکھتے ہیں۔
دین اور تاریخ سے شغف رکھنے والے خاص لوگ تو ان واقعات اور ان کے پسِ منظر سے آگاہ ہوتے ہیں مگر عامۃ الناس کی اکثریت ان واقعات اور ان کے اسباب سے لاعلم ہوتی ہے۔ یوں عامۃ الناس علماء حق پر لگنے والے فتوؤں کی حقیقت اوراُن کاتاریخی پس منظر معلوم نہ ہونے کے باعث حاسدین کے فتنے کا شکارہو کر ایسے علماء کے جدید افکار سے مستفید ہونے سے محروم رہتے ہیں۔ جن لوگوں نے امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام احمد بن حنبل، امام بخاری، امام غزالی، شیخ عبد القادر جیلانی، حضرت ذوالنون مصری اور ان جیسے سیکڑوں علماء و صوفیائے کرام سے اس وقت کے حاسدین کے فتووں کی وجہ سے استفادہ نہ کیا تو بالآخر نقصان اُن کا اپنا ہوا۔
اس موضوع پر بات کرنے کی ضرورت اس لیے بھی ہے کہ راہِ حق میں استقامت کی وجہ سے ائمہ سلف کو اپنے اپنے زمانے کے سیاسی حکمرانوں، ججوں، عدالتوں اور حکمرانوں کے حامی معاصر علماء کی طرف سے جس طرح کے مصائب و آلام برداشت کرنا پڑے، ان کی نوعیت بھی واضح ہوسکے۔
اس تمام امر کا مطالعہ اس حقیقت کو عیاں کردے گا کہ تجدیدِ دین کا یہ عمل اتنا آسان نہیں کہ ہر کوئی اسے برداشت کرسکے۔ اس کے لیے صبرِ ایوب اور توکلِ خلیل کی ضرورت ہوتی ہے۔ راہِ عزیمت میں پیش آنے والی ہر مشکل کو خندہ پیشانی سے برداشت کر کے تجدیدِ دین کا یہ عمل جاری رکھنا ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ مصائب کے سبب اپنی جاں بھی جہان آفرین کے سپرد کر کے ہمیشہ کے لیے امر ہونا ہوتا ہے۔
تاریخ کے اوراق نے ان فقہائے کرام، ائمہ و محدثین اور صوفیائے عظام پر ڈھائے جانے والے مظالم کو اپنے دامن میں محفوظ رکھا تاکہ قیامت تک اعلائے کلمۃ الحق کے لیے کوشاں ہستیوں کے لیے ان کا یقین و استقامت ایک استعارہ بن جائے اور معاصرین کی مخالفت سے کسی مجدّد کے پایۂ استقلال میں لغزش نہ آئے اور تاریخ کی ان برگزیدہ ہستیوں کے کردار کو سامنے رکھتے ہوئے وہ اپنے اوپر ڈھائے جانے والے مصائب و آلام کو رضائے الٰہی کے لیے برداشت کرتا چلا جائے۔ یاد رہے کہ راہِ عزیمت میں ہی عظمت پوشیدہ ہوتی ہے۔ تاریخ گواہ ہے جتنی بڑی شخصیت ہوگی۔ اُس کی مخالفت اور آزمائش بھی اتنی ہی زیادہ ہوگی۔ جہاں ایمان ہوگا، وہاں مشکلات بھی ضرور آئیں گی اور ایمان جتنا قوی ہوگا، مشکلات بھی اتنی ہی سخت ہوں گی۔
ذیل میں اللہ تعالیٰ کے ان چند محبوبین کا تذکرہ کرتے ہیں جنہیں اپنی زندگیوں میں طرح طرح کی آزمائشوں، امتحانات، مصائب و آلام اور مشکلات سے گزرنا پڑا مگر بایں ہمہ وہ راہِ حق میں اِستقامت کے ساتھ گامزن رہے اور ان کے پاے استقلال میں کوئی لغزش نہ آئی۔
خلفائے راشدین اور پیش آمدہ مصائب و تکالیف
حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضور نبی اکرم ﷺ تک تمام انبیائے کرام کو تبلیغِ دین اور اعلائے کلمۃ الحق کی پاداش میں مصائب و آلام برداشت کرنے پڑے اور پھر انبیاء کی یہی سنت اُن کی امتوں میں بھی جاری و ساری رہی۔ اللہ رب العزت نے اہلِ ایمان کو ممیز و ممتاز کرنے کے لیے ایمان اور ابتلاء کو اکٹھا کیا ہے۔ جیسے جیسے ایمان کا درجہ اونچا ہوتا چلا جاتا ہے، ویسے ویسے ابتلاء بھی بڑھتا چلا جاتا ہے۔ ہر دور کے حق پرست آزمائشوں کے سمندر سے ہنس کر گزرتے رہے اور حیاتِ جاودانی پاتے گئے۔ آزمائشوں کا یہ سلسلہ حضور نبی اکرم ﷺ کے اَصحاب رضوان اللہ علیہم اجمعین و اہلِ بیت علیہم السلام نے اپنا خون دے کر جاری رکھا۔ رسالتِ مآب ﷺ کے چاروں خلفاے راشدین میں سے تین اصحاب سیدنا فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ، سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ اور مولائے کائنات سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو شہید کیا گیا۔
- سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا مقام یہ تھا کہ آپ رضی اللہ عنہ کے نکاح میں آقائے دو جہاں ﷺ کی یکے بعد دیگرے دو صاحبزادیاں تھیں مگر باغیوں نے اس نسبت کا بھی لحاظ نہ کیا اور چالیس دن تک حضرت ذوالنورین رضی اللہ عنہ کی رہائش گاہ کا محاصرہ کرتے ہوئے پانی بند رکھا۔ اسی محاصرہ کے دوران میں خلیفۂ سوم انتہائی مظلومانہ انداز سے شہید کر دیے گئے۔
- مولیٰ علی شیرِ خدا رضی اللہ عنہ اور ان کی پوری آل رضوان اللہ علیہم اجمعین راہِ حق کے مسافر تھے۔ انہیں حق کے سفر میں ہمیشہ مصائب و آلام اور ابتلاؤں کا سامنا رہا۔ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں روزِ اوّل ہی سے مشکلات اور مصائب و آلام کا دروازہ کھل گیا۔ وہ لوگ جنہوں نے سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا محاصرہ کر کے انہیں شہید کیا تھا، وہ فتنہ پرور لوگ اس وقت بھی اسلام کے ٹکڑے کرنا چاہتے تھے۔ فتنے کی آگ جلا دی گئی تھی، مقاتلہ ہوا اور مولیٰ علی شیرِ خدا رضی اللہ عنہ کی خلافت کی ابتدا ہی میں دس ہزار صحابہ اور تابعین شہید ہوگئے مگر چونکہ اسلام حق پر تھا، اس لیے اس کا چراغ مسلسل تابانیاں بکھیرتا رہا۔ آخر میں آپ فتنۂ خوارج کی بھینٹ چڑھے اور آپ کو شہید کر دیا گیا۔ خارجیوں کے ڈر سے کہ کہیں آپ کے جسدِ مبارک کی بے حرمتی نہ کریں، خاندان کے چند افراد نے رات کے اندھیرے میں خلیفۂ وقت کی میت کی کسی نامعلوم جگہ (موجودہ نجفِ اشرف) تدفین کر دی۔ الغرض ایمان میں جو جتنے بلند مرتبے پر فائز ہیں، اللہ تعالیٰ نے انہیں اتنا ہی آزمایا ہے۔
- امام حسن مجتبیٰ کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بعد چھ ماہ کے لیے خلافت ملی۔ بعد ازاں آپ رضی اللہ عنہ کو بھی زہر دے کر شہید کر دیا گیا۔
سیدنا امام حسین علیہ السلام اور واقعہ کرب و بلاء
معرکۂ کربلا بھی شہادتِ علی رضی اللہ عنہ ہی کا ایک تسلسل ہے۔ خانوادۂ رسول ﷺ کے سر کاٹ کر نیزوں پر چڑھائے گئے۔ راکبِ دوشِ رسول ﷺ، مولیٰ علی شیرِ خدا رضی اللہ عنہ کے شہزادے امام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے گھرانے کے سر کٹوا دیے لیکن شہادتوں اور مصائب و آلام اور مشکلات سے نہیں گھبرائے اور اللہ کے دین کی سرفرازی کے لیے راہِ حق کے مسافروں کی تسلی و تشفی کے لیے مثال قائم کر دی۔
امام یحییٰ بن زید علیہ السلام اور امام ابراہیم بن عبد اللہ علیہ السلام
اَہلِ بیتِ اَطہار علیہم السلام کی قربانیوں اور آزمائشوں کی داستان میں ایک نام امام حسن مجتبی علیہ السلام کے پوتے امام یحییٰ بن زید کا بھی ہے۔ انہیں شہید کرنے کے بعد بدبختوں نے قبر سے نکال کر کفن اتار کر ستر برہنہ کیا اور ان کے جسدِ خاکی کو سُولی پر لٹکا دیا۔ ان کا یہ جسدِ مقدس اسی حالت میں مسلسل چھ مہینے تک سرِ بازار لٹکتا رہا اور بالآخر ابو مسلم خراسانی نے سولی سے اُتار کر آپ کا جنازہ پڑھا۔
- امام نفس ذکیہ کے بھائی حضرت ابراہیم بن عبد اللہ بن حسن مجتبیٰ کا بھی سر کاٹ کر بازار میں سولی پر لٹکایا گیا۔
امامِ اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ
حضرت نعمان بن ثابت جنہیں دنیا امام ابو حنیفہؒ امام اعظمؒ (سب سے بڑے امام) کے طور پر جانتی ہے، آپ تدوینِ فقہ اِسلامی کی بنیاد ڈالنے والے تھے۔ امام ابو حنیفہؒ کے بارے میں امام شافعی لکھتے ہیں: قیامت تک جو بھی شخص دین کی سمجھ حاصل کرنا چاہے گا وہ ابو حنیفہ کے فیضانِ علم کا محتاج ہوگا۔ چار دانگِ عالم میں پھیلی علمی شہرت کے حامل امام ابو حنیفہؒ جیسی عظیم شخصیت پر ڈھائے جانے والے مظالم کی بھی ایک داستان ہے۔
- امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ پر ضعیف فی الحدیث ہونے کا الزام لگایا گیا۔۔۔ عمرو بن علی نے کہا کہ ابو حنیفہ نعمان بن ثابت صاحب الرائے تھے اور حافظِ حدیث نہیں تھے۔
- امام اعظم ابو حنیفہ پر ایک الزام یہ بھی تھا کہ آپ اپنی رائے کو حدیث پر ترجیح دیتے اور اپنی رائے سے حدیث کا ردّ کرتے۔ ابن عدی ’الکامل‘ میں حماد بن سلمہ کا قول نقل کرتے ہیں کہ ابو حنیفہ اقوال النبی ﷺ یعنی احادیث مبارکہ کو اپنی رائے سے ردّ کرتے تھے۔
- خطیب بغدادی ’تاریخِ بغداد‘ میں نقل کرتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ کو عربی زبان پر بھی عبور حاصل نہیں تھا۔۔۔ اعلام المسلمین کی سیریل نمبر پانچ کے صفحہ نمبر 25۷ پر مذکور ہے کہ امام صاحب سے حضور نبی اکرم ﷺ کے والدین کریمین کے اسلام کے حوالے سے ہونے والے اِستفسار میں کتابت کی غلطی کی بنا پر امام صاحب پر کفر کا فتویٰ لگا اور آپ کی طرف سے تصریح آنے کے باوجود کہ غلطی میری نہیں بلکہ کاتب کی ہے، اس فتوے کو قائم رکھا گیا۔
- امام اعظم کے تجدیدی کام اور خدمتِ دین کو ابلیسی فتنہ سے تشبیہ دی گئی۔۔۔ امام صاحب پر دین اسلام میں حیلہ کے تحت حلال چیزوں کو حرام قرار دینے اور حرام اشیاء کو حلال قرار دینے کا بھی الزام لگا۔۔۔ یزید بن ہارون کہتے ہیں: میں نے کسی قوم کو نصاریٰ کی مشابہت میں ابو حنیفہ اور اُن کے ساتھیوں سے زیادہ مشابہ نہیں دیکھا۔
اس داستان کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ وہ شخصیت جن کے فقہی مسائل پر آج کثیر دنیا عمل پیرا ہے، انہیں اپنے زمانے میں کن کن مسائل اور مصائب سے گزرنا پڑا مگر اُن کے پایۂ استقلال میں لغزش نہ آئی اور اسی استقامت کی وجہ سے آج دنیا اُن کی گرویدہ ہے۔
گویا علمی حسد اتنا شدید ہوتا ہے کہ حاسدین اپنے حق میں فضا سازگار کرنے کے لیے کسی بھی سطح تک جاسکتے ہیں اور مسائل کو یوں توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں کہ وہ کثرتِ بیان کی وجہ سے سچ معلوم ہونے لگتے ہیں۔ کام کرنے والے بندے کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ وہ اس پراپیگنڈے کا توڑ کرسکے، نتیجتاً مصائب و آلام برداشت کرنے پڑتے ہیں مگر خدمتِ دین میں خلوص اور نیک نیتی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اُن کے کام کے ذریعہ ہمیشہ اُن کو زندہ رکھ کر حاسدین کو انجام تک پہنچاتا ہے۔
بنو امیہ کے دورِ حکومت میں سرکاری عہدہ قبول نہ کرنے اور حکومتِ وقت کے اقتدار کو مذہبی سپورٹ مہیا نہ کرنے پر کوفہ کے گورنر ابن عبیرہ کے کہنے پر آپ کو قید کر کے آپ پر کوڑے برسائے گئے۔ آپ کو جیل سے رہا کر کے ساتھ ہی ملک بدر کردیا گیا۔ آپ کوفہ چھوڑ کر مکہ مکرمہ چلے گئے۔
عباسی دورِ حکومت میں منصور کے زمانۂ خلافت میں دوبارہ کوفہ آئے اور اب کی مرتبہ حضرت زین العابدین کے صاحبزادے حضرت زید بن علی الشہید کی حمایت کرنے اور سرکاری عہدہ قبول نہ کرنے کی پاداش میں آپ کو جیل میں ڈال دیا گیا، جہاں ہر روز آپ کو دس کوڑے مارے جاتے تھے۔ بالآخر آپ کو زہر دے کر شہید کیا گیا۔
امام مالک بن انس رضی اللہ عنہ
فقہ مالکی کے بانی 93ھ میں شہرِ رسول ﷺ میں پیدا ہوئے۔ آپ نے بہت جلد اپنی ذہانت، حافظے اور تقویٰ کی بنا پر مجالسِ عام میں شہرت پائی۔ آپ سے طلاق بالجبر کے وقوع پذیر ہونے کا مسئلہ پوچھا گیا تو آپ نے ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت لَیْسَ لِمُکْرَہٍ وَلَا لِمُضْطَرٍّ طَلَاقٌ اور لیس علی المکرہ الطلاق سے استنباط کرتے ہوئے یہ فتویٰ دیا کہ جبراً لی گئی طلاق واقع نہیں ہوتی۔ یہ وقت وہ تھا جب محمد بن عبد اللہ بن حسن علیہ السلام نے خلیفہ ابو جعفر منصورکی حکومت کے خلاف خروج کیا تھا کیوں خلیفہ زبردستی لوگوں سے اپنی بیعت کروا رہا تھا۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی اس روایت سے زبردستی بیعت کے وقوع پذیر نہ ہونے پر بھی استدلال ہو رہا تھا۔ اس مسئلہ کے بتانے پر امام مالک کو ننگا کر کے کوڑے لگانے کا حکم دیا، کوڑوں سے آپ کو اتنا مارا گیا کہ آپ کا بازو کندھے سے نکل گیا، آپ کو شدید عذاب میں مبتلا کیا گیا تاکہ آپ کی منزلتِ علمی اور امام المدینہ ہونے کے ناطے آپ کی ہیبت علمی اور وقار ختم ہوجائے۔ اِس کے بعد امام مالک کو مجلس العام سے روک دیا گیا تھا، آپ تنہا بیٹھے رہتے تھے اور آپ کو حدیث شریف کا درس دینے سے منع کیا گیا حتیٰ کہ آپ کو 25 سال تک گھر میں نظر بند رکھا گیا۔
امام شافعی رضی اللہ عنہ
آپ یمن میں قاضی کے عہدے پر فائز تھے، وہاں کے گورنر حماد البریری نے علویوں کے خروج کے خطرے سے اور امام شافعی کی علویوں کے لیے محبت کی وجہ سے خلیفہ ہارون الرشید کو خط لکھ کر امام شافعی کو یمن کے امن کے لیے خطرہ قرار دے دیا۔ یوں آپ کو شیعیت کے الزام میں گرفتار کر کے، لوہے کی زنجیر سے باندھ کر بغداد لا کر خلیفہ ہارون الرشید کے دربار میں پیش کیا گیا اور (معاذ اﷲ) دائرہ اسلام سے بھی خارج قرار دیا گیا۔ اس پر امام شافعی نے وہ مشہور اشعار کہے جن میں سے ایک شعر یہ ہے:
اِنْ کَانَ رِفْضًا حُبُّ آلِ مُحَمَّدٍ
فَلْیَشْهَدِ الثَّقَلاَنِ اَنِّیْ رَافِضِیٌّ
’’اگر آلِ محمد سے محبت کرنے کا نام رافضی ہو جانا ہے تو سارا جہان جان لے کہ میں رافضی ہوں۔‘‘
امام شافعی کے مقام و مرتبہ سے اس وقت کے کچھ معاصرین نے حسدکی بنیاد پر مخالفت کی۔ وہ برداشت نہ کر سکے کہ ایک یتیم و مسکین شخص جو محنت مزدوری کر کے پڑھتا تھا، آج اتنا اعلی مقام حاصل کر جائے گا اور غزہ سے ہجرت کر کے آنے والا یہ شخص قاضی کے عہدے پر فائز ہو کر عوام میں خوب قبولیت حاصل کرلے گا۔ اُن کے حسد نے امام شافعی کو قید میں ڈلوا دیا اور انہیں لوہے کے زنجیر سے باندھ کر یمن سے شمالی عراق کا سفر کرایا گیا اور خلیفہ ہارون الرشید کے دربار میں پیش کیا گیا۔
امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ
امام احمد بن حنبل 164ھ میں بغداد میں پیدا ہوئے۔ وہیں آپ نے حدیث و فقہ کے علوم حاصل کیے۔ مذہبِ حنبلی کے بانی ہیں۔مشارق و مغارب کے اس امام فی الفقہ والحدیث پربھی کمر توڑ مظالم ڈھائے گئے۔ خلقِ قرآن کے مسئلے پر خلیفہ مامون کے حکم پر آپ کو اور محمد بن نوح دونوں کو باندھ کر ایک ہی اونٹ پر ڈال کر خلیفہ کے پاس بھیجا گیا۔ مامون کی موت کے بعد معتصم نے اپنے بھائی مامون کی ظلم و تشدد کی اِس روایت کو برقرار رکھا اور امام احمد کے انکار پر آپ کو جیل میں ڈالنے کا حکم دیا گیا۔ آپ کو تقریباً 39ماہ جیل میں رکھا گیا۔ جیل کی جس کوٹھری میں آپ کو قید کیا جاتا تھا وہ اتنی تنگ تھی کہ آپ ٹانگیںلمبی کر کے سو بھی نہیں سکتے تھے۔ شاباص التائب کہتے ہیں کہ امام احمد بن حنبل کو 80 کوڑے مارے گئے۔ اگر اتنے کوڑے ہاتھی کو مارے جاتے تو وہ بھی ختم ہو جاتا مگر صبر و استقامت کے پہاڑ نے جس انداز میں انہیں برداشت کیا راہِ حق کے مسافروں کے لیے وہ آج تک مثال بنا ہوا ہے۔
امام محمد بن اسماعیل بخاری رضی اللہ عنہ
194ھ کو ما وراء النہر کے شہربخارا میں پیدا ہونے والے امام بخاریؒ بالاتفاق امیر المؤمنین فی الحدیث ہیں۔ آپ نے صحیح احادیث کا مجموعہ پیش کیا جو بالاتفاق قرآن کے بعد سب سے معتبرکتاب ہے۔ نیشاپور کی علمی سلطنت کے مالک محمد بن یحیٰ الذُھَلی جن کی قیادت میں اہلِ نیشاپور کے جمِ غفیر نے امام بخاری کا استقبال کیا تھا، اب امام بخاری کی علمی شہرت سے حسد کرتے ہوئے خلقِ قرآن کے مسئلے پر اُن سے اختلاف کرنے لگے اور تشنگانِ علم کو آپ کی مجلسِ علم میں بیٹھنے سے منع کر دیا اور بالآخر خلقِ قرآن کے مسئلے کو بنیاد بناتے ہوئے آپ کو نیشاپور سے ہجرت پر مجبور کیا۔
آپ نے واپس بخارا آکر علمی مجلس قائم کی جو تھوڑے ہی عرصے میں اطراف و اکناف میں مشہور ہو گئی مگر حاسدین کو بخارا میں بھی آپ کی شہرت پسند نہ آئی اور وہاں بھی خطوط کے ذریعے لوگوں کو آپ کے خلقِ قرآن کے فتنے سے بچنے کی تلقین کی گئی۔
امام بخاری فرماتے ہیں کہ ’’کوئی بھی اجلّ عالمِ دین اپنے معاصر کی تین چیزوں سے نہ بچ سکا: جاہل ہم عصروں کی طعن و تشنیع، دوستوں کی ملامت اور معاصر علماء کا حسد۔‘‘
یہی وہ تین امور ہیں جن کا سامنا آج کے دور میں راہِ حق پر چلنے والوں کو بھی کرنا پڑتا ہے۔
حاکمِ بخارا خالد بن احمد الذھلی کو شاہی محل میں اُس کے بیٹے کو پڑھانے سے انکار پر امام صاحب پر پہلے سے غصہ تھا، لہٰذا وہ بھی امام صاحب کو ملک بدر کرنے کے بہانے تلاش کرنے لگا۔ اس اثناء میں جب اسے آپ کے امام ذھلی کے ساتھ نزاع کا پتہ چلا تو اس نے اپنے علاقے کے کچھ درباری مولویوں سے فتوی لے کر امام بخاری کو اپنا وطن چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔
آپ نے اپنا وطن چھوڑ کر سمرقند کا قصد کیا مگر راستے میں آپ کو علم ہوا کہ حسد کی آگ نے آس پاس کے تمام علاقوں کو اپنے گھیرے میں لے لیا ہے، جس کی وجہ سے اہلِ سمرقند بھی امام بخاری کے حوالے سے دو گرہووں میں تقسیم ہو چکے ہیں۔ لہٰذا امام بخاری نے سمرقند کے راستے میں خرتنگ نامی ایک بستی میں قیام کیا۔
’تاریخِ بغداد‘ اور ’سیّر اعلام النبلاء‘ میں عبد القدوس بن عبد الجبار السمرقندی سے روایت ہے کہ ایک رات انہوں نے امام بخاری کو یہ دعا کرتے سنا کہ: ’’اے اللہ! لوگوں نے میرے اوپر تیری زمین تنگ کر دی ہے، اب تو مجھے اپنے پاس بلا لے۔‘‘
راوی کہتے ہیں کہ اس دعا کے ایک ماہ بعد اسی بستی میں آپ کا وصال ہو گیا۔اس واقعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اہلِ علم کس طرح اپنے معاصر علماء کے لیے حسد رکھتے ہیں اور کس انداز میں مدِ مقابل کو دبانے کے لیے دینی مسائل کا سہارا لیتے ہیں۔
امام نسائی رضی اللہ عنہ
آپ 215ھ میں خراسان کے شہر نساء میں پیدا ہوئے۔ آپ راسخ العقیدہ امام الحدیث اور صحاح ستہ میں شامل کتاب ’السنن‘ کے مؤلف ہیں۔ امام نسائی اپنی عمر کے آخری حصے میں مصر سے دمشق منتقل ہوگئے۔ وہاں کے لوگ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی شان و فضلیت میں غلو کرتے اور سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے لیے علی الاعلان بد گوئی کیا کرتے تھے۔ امام نسائی نے جب وہاں بد عقیدگی کا ایسا ماحول دیکھا تو اصلاح اور حق گوئی کے بغیر رہ نہ سکے۔ آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مناقب میں ایک کتاب ’خصائص سیدنا علی‘ تالیف کی۔ جب آپ نے یہ کتاب دمشق کے لوگوں کو سنائی تو آپ پر رافضی ہونے کا فتوی لگا اور آپ پر مصائب کا دور شروع ہو گیا، لوگوں نے آپ کو مارنا شروع کر دیا اور مار مار کر آپ کو بے ہوش کر دیا۔ حتی کہ آپ کی شہادت بھی اِسی سبب سے ہوئی۔
شیخ ذو النون مصریؒ
امام ذہبی لکھتے ہیں کہ حضرت ذو النون مصری پر مصر کے علماء نے کافر، زندیق اور ملحد ہونے کا فتویٰ لگایا۔ اُس وقت کے مفتیانِ کرام مختلف فتوے لگا کر عمر بھر انہیں پریشان کرتے رہے اور ان کے خلاف پورے زور و شور سے تحریک جاری رہی۔ انہیں خلیفہ واثق یا خلیفہ متوکل کے زمانے میں مصر سے قید کر کے بغداد لایا گیا۔امام ذہبی نقل کرتے ہیں کہ ذوالنون مصری کی وفات پر ستر اولیاء و علماء کو حضور نبی اکرم ﷺ کی زیارت ہوئی، سب نے تشریف لانے کی وجہ پوچھی تو فرمایا:
’’ہمارا دوست ذو النون فوت ہوگیا ہے، اس کے استقبال کے لیے آئے ہیں۔‘‘
جب ان کا جنازہ اٹھایا گیا تو پرندے انہیں خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے پروں سے پر ملا کر سایۂ فگن ہوگئے اور انہوں نے تدفین مکمل ہونے تک سائبان تانے رکھا۔ لوگوں کو اُس دن معلوم ہوا کہ یہ ہستی کس قدر اعلیٰ مرتبے کی حامل تھی۔ پھر لوگ روتے تھے کہ کاش ان کی حقیقت ہم پر پہلے آشکار ہو جاتی۔
داتا گنج بخش علی ہجویریؒ
حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری کے نام سے بھلا کون واقف نہیں؟ برصغیر کی سر زمین جن کے قدموں کے توسط سے اسلام کے نور سے منور ہوئی۔ وہ جب لاہور میں وارد ہوئے تو ان کے خلاف نام نہاد مفتیوں کی جانب سے فتوؤں کی بوچھاڑ کی گئی۔ بعض حلقوں کی طرف سے یہ اعلان کیا گیا کہ جو ان کی مسجد میں نماز پڑھے گا، اس کی نماز نہیں ہوگی۔ کیونکہ ان کی مسجد کے محراب کی سمت قبلہ رُخ نہیں ہے۔ فتویٰ لگاتے وقت یہ نہ سوچا گیا کہ قبلہ کا رخ تو ٹھیک ہے، البتہ مخالفین کی سوچ کا رخ ضرور غلط ہے۔ آپ نے ان سب علماء کرام کو اپنی مسجد میں بلایا اور انہیں نماز کی دعوت دی۔ جب وہ سب نماز کے لیے کھڑے ہو گئے تو فرمانے لگے: بھئی دیکھو تو سہی قبلہ کی سمت درست ہے یا نہیں؟ حضرت داتا گنج بخش نے اشارہ کیا، تمام پردے ہٹ گئے اور کعبہ معظمہ کو وہیں کھڑے کھڑے سب نے دیکھ لیا۔ ان کی اس کرامت سے سب علماء تائب ہوگئے۔
امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ
امام غزالی ؒ جو آج پوری دنیا میں حجۃ الاسلام کے لقب سے مشہور ہیں اُن کی شہرۂ آفاق تصنیف ’احیاء علوم الدین‘ ہے۔ جو کوئی اہلِ حق شریعت کے اسرار و رموز جاننا چاہتا ہے، اس کے لیے اسے یہ شہرۂ آفاق تصنیف پڑھے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے۔ تاج الدین السبکی طبقات الشافعیہ الکبریٰ میں لکھتے ہیں کہ جب یہ کتاب تحریر کی گئی تو اُس وقت کے علماء نے مفتیِ اعظم ابو الحسن ابن حرزم کی قیادت میںیہ کہتے ہوئے ’’کہ یہ کتاب بدعت اور مخالفِ سنت ہے‘‘ اسے جلانے کا حکم دیا حتیٰ کہ اس کتاب کے تمام نسخے جلانے کے لیے بحقِ سرکار ضبط کر لیے گئے۔ جس دن انہیں نذرِ آتش کیا جانا تھا، اس سے گزشتہ شب جمعرات کو انہی مفتیِ اعظم ابو الحسن نے خواب میں دیکھا کہ حضور ﷺ تخت پر جلوہ افروز ہیں اور امام غزالی نے اپنی یہ تصنیف آپ ﷺ کی خدمت میں پیش کی اور عرض کی: حضور اسے ملاحظہ فرمائیں کیوں کہ بعض معاصرین اسے جلانا چاہتے ہیں۔ آپ ﷺ نے احیائے علوم الدین کو ملاحظہ فرمانے کے بعد اُس بدبخت کو حاضر کرنے اور کوڑے لگانے کا فرمایا جس نے اسے جلانے کا حکم دیا تھا۔ خواب میں انہیں ابھی پانچ ہی کوڑے لگے تھے کہ مفتی ابو الحسن ابنِ حرزم چیخ کر اٹھ کھڑے ہوئے۔ بعد ازاں وہ مفتی صاحب اپنے رفقا کے ہمراہ تائب ہو گئے۔ تاریخ کی کتب میںتحریر ہے کہ دس سال بعد جب ان مفتی صاحب کا انتقال ہوا تو ان کوڑوں کے نشان ان کے جسم پر بدستور موجود تھے۔
غوث الاعظم شیخ عبد القادر الجیلانی رضی اللہ عنہ
سیدنا غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ کا زمانہ آیا تو ہر طرف ان کی ولایت کا سکہ چلنے لگا۔ ان کے عقیدت مندوں کے ساتھ ساتھ حاسدین کی بھی کوئی کمی نہ تھی۔ ان حالات میں بہت سے لوگ ان کی مخالفت پر تُل گئے۔ آج دنیا جنہیں پیرانِ پیر اور غوثِ اعظم کے نام سے یاد کرتی ہے اور جب تک ان کا قدم مبارک ولایت کی سند کے طور پر گردن پر ثبت نہیں ہو جاتا تب تک شرق سے غرب تک کسی کو ولایت نہیں مل سکتی۔ اندازہ کریں! اتنی عظیم شخصیت کے خلاف بھی شدید مخالفت کی تحریک چلائی گئی۔بغداد شہر کے ایک سو علماء کا وفد تیار ہوا اور انہوں نے شاہِ جیلان پر اعتراضات اٹھاتے ہوئے ایک سوال نامہ تیار کیا۔
علماء کے اس وفد نے طے کیا کہ شیخ عبد القادر جیلانی پر اس طرح تابڑ توڑ سوالات کیے جائیں کہ وہ جواب دینا ہی بھول جائیں۔ وہ پے در پے سوالات کر کے (معاذ اللہ) آپ کو خاموش کرا دینا چاہتے تھے۔ وہ لوگ جب سوالات کے لیے آئے تو آپ نے اپنی نگاہِ ولایت اُن علماء کے سینوں پر ڈالی جس سے وہ تمام علماء سوالات کرنا ہی بھول گئے۔ آپ ان سے بار بار فرماتے رہے کہ پوچھو کیا پوچھتے ہو؟ مگر کسی کی کیا مجال کہ وہ کچھ بولیں، تمام کے تمام علماء ایک سوال تک نہ کر سکے۔
آپ نے پھر انہیں فرداً فرداً متوجہ کرتے ہوئے فرمایا کہ تمہارا سوال یہ تھا اور اس کا جواب یہ ہے۔ پھر دوسرے سے یہی فرمایا کہ تمہارا سوال یہ تھا اور اس کا جواب یہ ہے۔ اس طرح تمام علماء کرام کو ان کے سوالات اور جوابات سے آگاہ فرما دیا۔ یہ سن کر سب کے سب علماء کرام بے ہوش ہو کر گر پڑے۔
محترم قارئین! اگر تمام ائمہ، اولیاء و صلحاء پر ڈھائے جانے والے مصائب و آلام کا تذکرہ کرنا شروع کردیں تو کئی کتب معرضِ وجود میں آجائیں، لہذا اختصار سے کام لیتے ہوئے ہم نے چند ائمہ کا تذکرہ کیا ہے۔
راہِ عزیمت کے عظیم مسافر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری
محترم قارئین! مذکورہ تمام عظیم ہستیاں عظمت، ایمان، یقین اور استقامت کے کوہِ گراں تھے اور ہم ذرۂ بے نشاں ہیں۔ کُجا وہ عظمت کے مینار اور کُجا ہم گناہوں کی تحت الثریٰ گھاٹی کے اسیر! درحقیقت ہمیں اَعمال میں اُن سے کوئی نسبت نہیں ہے۔ اگر ہم ان کی پیروی میں راہِ حق پر چلتے چلے جائیں تو بڑی بات ہے۔ اگر کسی کو ان کی روش پر چلنے کا موقع ملے تو اس پر پریشانی کی ضرورت نہیں بلکہ فخر کرنے کا مقام ہے۔
راہِ حق کے مسافر، تحریک منہاج القرآن کے بانی و سرپرستِ اَعلیٰ، مجدّدِ رواں صدی شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کو پاکستان سمیت پوری دنیا میں پذیرائی و مقبولیت ویسے ہی نہیں ملی بلکہ انہیں یہ مقام انبیاء، صحابۂ کرام اور اولیائے عظام کی طرح خار دار راہوں پر چل کر،کٹھن مراحل اور مصائب کی ندیاں عبور کر کے، حاسدین کے فتوؤں اور طعنوں کو سہہ کر اور دن رات حصولِ مقصد کی جدوجہد سے نصیب ہوا ہے۔ اس بلند پروازی کے دوران شیخ الاسلام کی شاہین صفت اُڑان سے پریشان کئی حاسدین سر جوڑ کر بیٹھ گئے اور ہر طرح کے وسائل و ذرائع استعمال کرتے ہوئے صداے حق و صداقت کو ہمیشہ کے لیے دبانے کی سعی لاحاصل میں مصروف رہے مگر وہ یہ بھول گئے کہ حق و صداقت کی روشنی بکھیرنے والے نورانی و مصطفوی چراغ کفر کی پھونکوں سے کب بجھتے ہیں۔
اللہ رب العزت نے حضور نبی اکرم ﷺ کے نعلین پاک کے تصدق سے انہیں جن علمی اور روحانی منازل اور رفعتوں سے نوازا ہے، اس راہ پر اُن کا سفر کرنا پھولوں کی سیج نہیں تھا بلکہ انہیں شدید محنت و ریاضت، مشکلات، آزمائشوں اور امتحانات کے ایک بحرِ عمیق سے گزرنا پڑا۔ راہِ حق کے اس سفر میں اُن کی کامیابی محدثین، فقہاء، اولیاء اور مجددین کی طرز پر معاصرین کے فتووں، حسد اور منزل سے دور رکھنے کے لیے درپیش شدید مشکلات پر صبر و استقامت کا نتیجہ ہے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں بلکہ قانونِ قدرت ہے کہ عظمت راہِ عزیمت پر چل کر نصیب ہوتی ہے۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کو بھی اپنے وقت کے حاسدین و مخالفین سے ہر اُس الزام کا سامنا کرنا پڑا جس سے ہمارے اَسلاف کو سابقہ پڑا تھا۔ ذیل میں چند ایسے واقعات کا انتہائی اختصار کے ساتھ ذکر کیا جائے گا کہ کس کس طرح مصطفوی مشن کے اس چراغ کو بجھانے کی کوشش کی گئی:
1۔ خوابوں کے حوالے سے سازشی طوفان
4 جولائی 1993ء کو ایک قومی اخبار نے کچھ ذاتی مقاصد کے پیشِ نظر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری پر ایک نجی محفل میں خوابوں کے حوالے سے کی گئی گفت گو کو توڑ مروڑ کر پیش کر کے ایک خوفناک سازش کا طوفان برپا کر دیا اور کچھ حاسد علماء کرام جنہیں شیخ الاسلام کی بڑھتی شہرت اور تحریک منہاج القرآن کا عروج پسند نہ تھا، وہ بھی اس سازش کا حصہ بن گئے اور اس خواب کو حضور نبی اکرم ﷺ کی شان میں گستاخی قرار دیا۔ بعد ازاں بعض جید علماء کرام نے اپنے بیان سے رجوع کر لیا اور آہستہ آہستہ وہ سازش ختم ہوگئی۔ اس سازش کے بانیان بعد میں اپنے کیے پر اظہارِ ندامت کے لیے کئی بار شیخ الاسلام کی خدمت میں پیش بھی ہوئے۔
2۔ شیخ الاسلام کے گھر پر قاتلانہ حملہ
25 رمضان المبارک مطابق 21 اپریل 1990ء رات کے پچھلے پہر جب کہ اہلیانِ ماڈل ٹاون محوِ خواب تھے، اُس وقت کی مقتدر قوت کی ایما اور انعام و اکرام کی لالچ میں آکر کچھ گماشتے شیخ الاسلام کے گھر پر حملہ آور ہوئے اور تقریبا ایک گھنٹہ تک فائرنگ ہوتی رہی۔ جب لاہور ہائی کورٹ میں اس کا مقدمہ درج کیا گیا تو دشمنانِ تحریک نے اپنی مرضی کا فیصلہ کرانے کے لیے انتہائی مہارت سے انکوائری ٹربیونل کو تبدیل کر کے یک رکنی انکوائری ٹربیونل مقرر کروا لیا۔ جج کی موجودگی میںایڈوکیٹ جنرل پنجاب نے مقدمہ سے ہٹ کر جس انداز میں گواہان اور مدعیان کی ذاتی زندگی میں مداخلت کی اور کیس بگاڑنے کے لیے ہتک آمیز رویہ اختیار کیا، اس پر حکومتی جانب داری کے باوجود جج کو مداخلت کرنا پڑی۔ جج کے منع کرنے کے باوجود نازیبا گفتگو کا سلسلہ جاری رکھا گیا اور قانون سے ہٹ کر شیخ الاسلام کے بیان کو توڑ مروڑ کر اخباری نمائندوں کے ذریعے مختلف اخبارات میں چھپوایا گیا۔ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب، جج کی سرزنش پر وقتی طور پر معذرت کر لیتا اور پھر ویسے ہی رویے کا مظاہرہ کرنا شروع کردیتا۔ اس سازش کو بھانپتے ہوئے شیخ الاسلام نے یہ کہتے ہوئے مقدمہ سے علیحدگی اختیار کرلی کہ ’’میں اپنا مقدمہ اللہ پر چھوڑتا ہوں‘‘۔
اُس کے بعد یک طرفہ کارروائی کرتے ہوئے حاسدین کے ان بیانات کو بھی مقدمہ کی کارروائی کا حصہ بنا کر من و عن فیصلے کا بھی حصہ بنایا گیا کہ جن کا اس مقدمے سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ اس طرح اس مقدمہ کا چہرہ مسخ کر کے اُس کا رُخ موڑا گیا، کردار کُشی کی گئی اور شیخ الاسلام کی بڑھتی شہرت و مقبولیت کو ختم کرنے اور آپ کے شخصی کردار کو متنازع بنانے کی سعی لاحاصل کی گئی، مگر افسوس حاسدین اس بات کو بھول گئے کہ اللہ جسے چاہتا ہے عزتوں سے نوازتا ہے اور جس کے مقدر میں عزت و عظمت لکھ دی جائے، پھر ساری کائنات مل کر بھی اُس میں کوئی کمی نہیں کر سکتی۔
تاریخ گواہ ہے کہ شیخ الاسلام کو اس کے بعد بھی اللہ رب العزت نے عزتوں و بلندیوں سے نوازا اور حاسدین آج بھی اپنے حسد و انتقام کی آگ میں جل کر پستی کا شکار ہو رہے ہیں۔جو حربے انہوں نے شیخ الاسلام کی عزت و شہرت کو داغ دار کرنے کے لیے استعمال کیے تھے، انہی حربوں اور ویسے ہی مقدمات کی چکی میں وہ خود پس رہے ہیں اور پوری دنیا کے سامنے ذلیل و خوار ہو رہے ہیں۔ اللہ کا وعدہ سچ ہوا کہ جو میرے ولی (دوست) کے ساتھ دشمنی کرے گا میں اُس کے ساتھ اعلانِ جنگ کرتا ہوں۔ آج شیخ الاسلام عزت اور چین کی زندگی جی رہے ہیں اور دشمن پوری دنیا کے سامنے تماشہ بنے ہوئے ہیں۔ یہ اللہ کی پکڑ نہیں تو اور کیا ہے!
3۔ قاتلانہ حملے اور دھمکیاں
شیخ الاسلام کو اس راہِ حق میں کئی مرتبہ قاتلانہ حملوں کا بھی سامنا کرنا پڑا اور جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی دی گئیں۔ ذیل میں ان میں سے چند ایک کا تذکرہ کیا جارہا ہے:
(1) ساؤتھ افریقہ
حاسدین کی چالوں کے باوجود جب تحریکِ منہاج القرآن اور شیخ الاسلام کی شہرت و عظمت پاکستان کی حدود پار کرتے ہوئے دیگر برِّاعظموں تک پہنچی اور جنوبی افریقہ میں بھی یہ آوازِ حق گونجنے لگی اور مفاد پرست گروہ کے پیٹ پر لات پڑی تو وہاں بھی تمام تر مفاد پرست سازشی ٹولے شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ کے خلاف یکجا ہو گئے اور انتقام کی آگ میں اندھے ہو کر اُن کی جان کے درپے ہو گئے۔ ہر طرح کی سازش سے بے نیاز اعلائے کلمۃ الحق کے لیے جب اللہ کا یہ مجاہد پہلی بار جنوبی افریقہ تبلیغی دورے پر پہنچا تو ٹونی آدم نامی ایک شخص کو جسے اَن جانے میں شیخ الاسلام کی شخصیت کے بارے میں متنفر کر دیا گیا تھا، آپ کے قتل پر آمادہ کیا گیا اور وہ اپنے پستول کے ساتھ اُس پروگرام میں آیا جس میں شیخ الاسلام کو خطاب فرمانا تھا، مگر اللہ کو کچھ اور منظور تھا۔
اُس شخص نے فوری کارروائی کرنے کے بجائے پہلے شیخ الاسلام مدّ ظلہ العالی کو سنا اور یہ آوازِ حق سنتے ہی اُس کی دنیا کی کایا پلٹ گئی اور وہی پستول جسے وہ آپ کے قتل کے لیے لے کر آیا تھا، اب آپ کی حمایت اور نصرتِ دین میں بلند ہو گئی اور حاسدین کو منہ کی کھانی پڑی۔ اس نیک بخت ٹونی آدم کا وصال بھی تحریکِ منہاج القرآن کے خاد م (فاروق آدم) کی حیثیت سے خدمتِ دین میں دورانِ سفر ہوا۔
(2) دہشت گردی کے خلاف فتویٰ پر دھمکیاں
جب دہشت گردوں کی وحشت نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور سپر پاورز بھی ان کے سامنے سجدہ ریز نظر آنے لگے۔ عالمی طاقتوں نے دہشت گردوں کے اس عمل کو اسلام سے جوڑ کر مسلمانوں کو بدنام کرنا شروع کر دیا اور پھر عالمِ اسلام میں بھی کسی میں یہ جرأت نہ ہوئی کہ وہ اسلام کا دفاع کرتے ہوئے اس کا جواب دے سکے مگر ایسے مشکل حالات میں بھی شیخ الاسلام نے دین اسلام کے چہرے پر پڑی اس گرد کو دور کرنے کے لیے 600 صفحات پر مشتمل فتویٰ جاری کیا جس میں واضح کیا کہ دہشت گردی کا اسلام یا کسی بھی مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔ اس عظیم فتوے کے جواب میں آپ کو جان سے مار دینے، آپ کی اولاد اور تحریک منہاج القرآن کو نقصان پہنچانے کی دھمکیاں دی گئیں مگر راہِ حق کے اس مسافر نے ان دھمکیوں کے باوجود ترقی کا یہ سفر جاری رکھا۔
(3) سانحہ ماڈل ٹاؤن
دسمبر 2012ء میں جب شیخ الاسلام پاکستان تشریف لائے اور 23 دسمبر کو مینارِ پاکستان میں آپ کے استقبال کے لیے آنے والوں نے وہ تاریخ رقم کی جس کی مثال برصغیر پاک و ہند میں شاید ہی ملتی ہو۔ بعد ازاں جنوری 2013ء کے دھرنے نے حکمرانوں کی نیندیں اڑا دیں اور انہیں اپنی کرسیِ اقتدار خطرے میں نظر آئی۔ اسی اثنا میں شیخ الاسلام نے نظام کی تبدیلی کے لیے 23 جون 2014ء کو وطن واپسی کا اعلان کیا۔ اس اعلان نے حکمرانوں کو جھنجوڑا، انہوں نے انتقام میں باؤلا ہو کر پنجاب پولیس کے سہارے 17 جون 2014ء کو ماڈل ٹاون میں شیخ الاسلام کے گھر پر آپ کے خاندان کو جانی نقصان پہنچانے کے لیے دھاوا بول دیا۔ آپ کے تربیت یافتہ کارکنانِ تحریک منہاج القرآن آپ کے گھر کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئے۔ دس گھنٹے کی طویل سعیِ لا حاصل کے بعد ظالموں نے دن دیہاڑے اور میڈیا کی موجودگی میں نہتے کارکنان پر گولیاں چلا کر 14 کارکنان کو شہید کر دیا۔
4۔ فقرو فاقہ اور وسائل کی کمی کا سامنا
قابلِ غور بات یہ ہے کہ اَئمہ اَہلِ بیت اَطہار اور ہمارے اسلاف پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے۔ کُنْ فَیَکُوْن کی طاقت کا مالک رب اگر چاہتا تو اَئمہ اَہلِ بیت اَطہار کے ساتھ ظالموں کو ظلم نہ کرنے دیتا، لیکن اللہ تعالیٰ اپنے محبوب بندوں کے صبر و استقامت کو دکھانا اور اُنہیں مومنین کے لیے اُسوہ بنانا چاہتا ہے کہ اتنی تکالیف کے باوجود اُن کی زبان پر کبھی گلہ و شکوہ جاری ہی نہیں ہوتا۔
گویا یہ قرآنی اصول ہے کہ عظمت، عزیمت کے بعد نصیب ہوتی ہے۔ قرآنی ارشاد ولنبلونکم کے مصداق شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو بھی اس راہِ حق پر چلتے ہوئے اور حصولِ منزل میں بہت آزمائشوں سے گزرنا پڑا جن میں فقر و فاقہ اور قلتِ مال و متاع بھی تھا مگر کسی موقع پر بھی آپ کے قدم نہ لڑکھڑائے۔
5۔ اولاد کے حوالے سے تکالیف کا سامنا
تبلیغِ دین اور اعلائے کلمۃ الحق کے لیے آپ کو کئی کئی دن بچوں سے دور رہنا پڑتا حتیٰ کہ بچوں میں سے کسی کو شدید بیماری کی صورت میں بھی ہسپتال داخل کروا کے طے شدہ تحریکی و تنظیمی دوروں پر تشریف لے جاتے بلکہ ایک بار حاسدین اور دشمنوں میں سے کسی نے آپ کی بیٹی کو زہر دے دیا، آپ نے اپنی بیٹی کو زندگی اور موت کی اسی کشمکش میں ہسپتال بھیج دیا اور خود تنظیمی معاملات کی ادائیگی میں مصروف رہے۔
ایک مرتبہ آپ کی ایک صاحبزادی شدید بیمار ہو گئیں اور اُن کے فیملی ڈاکٹر کے کلینک پر بچی بے ہوش پڑی تھی اور بالآخر ڈاکٹر نے بچی کو بے جان سمجھ کر چھوڑ دیا، اس دوران میں شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ کسی میٹنگ میں تھے۔ وہاں سے فراغت کے بعد آپ اسپتال پہنچے اور ڈاکٹر کو ایک اور کوشش کرنے اور ٹانگ میں ڈرپ لگانے کا کہا۔ اللہ رب العزت نے ڈاکٹر کی اس کاوش کو قبول کیا اور بچی کو دوبارہ جان ملی۔ گویا آج تحریک منہاج القرآن اور شیخ الاسلام کا جو مقام و مرتبہ ہمیں نظر آ رہا ہے یہ ویسے ہی نہیں بلکہ بڑی قربانیوں اور آزمائشوں سے گزر کر ملا ہے۔
6۔ کردار کشی
حسد کی آگ کبھی نہیں بجھتی بلکہ حاسد اس آگ میں خود جلتا رہتا ہے۔ حاسدین نے شیخ الاسلام دامت برکاتہ العالیہ کے خلاف کئی مرتبہ اپنا زورِ قلم بھی آزمایالیکن بے سود۔ بعض ایسے قلم فروش لکھاری لکھتے ہیں کہ ان کی ایسی تحریروں کا مقصد یہ ہے کہ تحریک منہاج القرآن کے کارکن ان تحاریر کو پڑھ کر اس شخصیت اور تحریک کو چھوڑ کر کسی اور تحریک یا سیاسی جماعت کا انتخاب کر سکیں۔ گویا ایک عرصہ سے لوگ اس تحریک اور اس کے سربراہ کو زیر کرنے کے لیے تگ و دو کر رہے ہیں مگر اُن کی کوشش کے باوجود تحریک منہاج القرآن بجائے ختم ہونے کے بڑھتی چلی گئی اور قائد کے لیے کارکنان کے جذبۂ محبت میں اضافہ ہوتا چلا گیا جس کی ایک مثال 17 جون 2014ء کو شیخ الاسلام کے گھر پر پنجاب پولیس کی یلغار کے نتیجے میں دیکھنے میں آئی۔
اِسی طرح شیخ الاسلام کے خلاف کسی تحریر میں آپ کے علمی اور فکری تفردات، اجتہادات اور آپ کی مجدّدانہ کاوشوں کو بے دینی، گمراہی اور سوادِ اعظم سے علیحدہ ہونا قرار دیا گیا۔۔۔ کہیں آپ کو خوابوں کی وجہ سے گستاخِ رسول کہا گیا (معاذ اللہ)۔۔۔ دیگر ادیان کے ساتھ ہم آہنگی کی بنیاد پر آپ کو یہودیوں اور عیسائیوں کا ایجنٹ اور یورپ میں پھیلتے اسلام کے لیے رکاوٹ ڈالنے کی سازش قرار دیا گیا۔۔۔ کبھی اہل سنت کے عقائد کے برخلاف چلنے والا۔۔۔ کبھی نہ صرف سنیّت بلکہ اسلام سے ہی خارج قرار دیا گیا۔۔۔ اور کبھی محبتِ اہلِ بیت کی پاداش میں رافضی قرار دیا گیا۔
کم علمی، جہالت، حسد، لالچ اور اپنی نااہلی کا پول کھلنے سے خائف طبقہ بے دھڑک الزامات لگاتا رہا مگر یہ تمام الزامات اور ظاہری رکاوٹیں شیخ الاسلام کے پایۂ استقلال کو متزلزل نہ کرسکیں اور آج اُن کی قیادت میں منہاج القرآن انٹرنیشنل اپنا 40 سالہ فقیدالمثال سفر طے کرچکی ہے اور آئے روز کامیابیوں سے ہمکنار ہورہی ہے۔
راہِ حق کے مسافروں کو منزلیں ویسے نصیب نہیں ہو جاتیں بلکہ طعن و تشنیع اور الزمات کی ندیاں عبور کرنا پڑتی ہیں۔ الزام تراشی کرنے والے اُن لوگوں میں سے تو کئی تائب ہو گئے، کئی شیخ الاسلام کی کامیابی و شہرت کے معترف ہو گئے اور کئی ایسے ہیں کہ ہدایت آج بھی ان کا مقدر نہیں بن سکی اور وہ مستقل حسد کی آگ میں جلے جا رہے ہیں۔
مصائب کا نزول: کامیابی کا نقارہ
علماء حق کے توسط سے ہی دین کی میراث ہم تک پہنچی ہے۔ انہی علماء حق کے بارے میں فرمایا گیا ہے:
اِنَّمَا یَخْشَی اللهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰٓؤُا.
’’بس اﷲ کے بندوں میں سے اس سے وہی ڈرتے ہیں جو (ان حقائق کا بصیرت کے ساتھ) علم رکھنے والے ہیں۔‘‘
(فاطر، 35: 28)
یہی لوگ خشیتِ الٰہی کے پیکر اور دین کے سچے خادم ہوتے ہیں۔ انبیاء کے ان ورثا کے توسط سے ہی دین کی میراث ہم تک پہنچی ہے۔ اس کے برعکس ہر دور میں ایسے لوگ بھی رہے ہیں جن کا کام اہلِ حق کو پریشان کرنا، فتویٰ زنی اور فتنہ برپا کرنا رہا ہے۔ مگر یاد رکھیے! جس مشن کے اندر اللہ کی سچی محبت ہو۔۔۔ آقاے دو جہاں ﷺ کا سچا عشق ہو۔۔۔ اخلاص ہو۔۔۔ ظاہری و باطنی طہارت ہو۔۔۔ سمت گنبد خضری کی طرف ہو۔۔۔ اللہ رب العزت کی رحمتوں پر بھروسہ ہو۔۔۔ مقاصد اعلیٰ اور نیک ہوں۔۔۔ حصولِ منزل کا یقین ہو۔۔۔ تو پھر ساری مخالفانہ تحریکیں مل کر بھی اس تحریک کا بال بیکا نہیں کر سکتیں۔
جھوٹے فتوؤں اور مخالفین کے اوچھے ہتھکنڈوں سے بھلا کون سا حق کا علم بردار بچا ہے؟ ہمارے اسلاف اور اکابرین کے ساتھ یہ سب کچھ ہوتا رہا ہے۔ ان حالات میں سوائے صبر کے کوئی اور راستہ نہیں ہے۔ تاریخِ انسانیت گواہی دیتی ہے کہ جو حق کی راہ پر گامزن رہے ہیں، یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ ان کے خلاف فتنہ، فساد اور ظلم مسلط نہ کیا گیا ہو۔ یہ حق کی پہچان ہے اور کامیابی صبر میں مضمر ہے۔
شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ کو پیش آمدہ مصائب و آلام کے حوالے سے بہت کچھ تحریر کیا جاسکتا ہے، مگر صفحات کی تنگی نے ہمارا قلم روک دیا ہے۔ شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ کو جہاں انبیاے کرام علیہم السلام، ائمہ اور اولیاء عظام کا علمی و روحانی فیض نصیب ہوا، وہاں اُن کی اقتداء میں مصائب و آلام پر صبر کا فیض بھی وافر ملا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں صحیح معنوں میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری دامت برکاتہم العالیہ کی شخصیت، علمیت اور روحانیت کو سمجھنے، استفادہ کرنے اور اُن کی اس فکری تحریک میں اس مصطفوی مشن کا دست و بازو بننے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین ﷺ
یہ شہادت گہہِ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آساں سمجھتے ہیں مسلماں ہونا