دنیا کی نامور شخصیات کا مطالعہ کرنے سے یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ کوئی بھی معروف و مشہور شخصیت جہاں دیگر خوبیوں سے مالا مال ہوتی ہے، اُن میں سے ایک اہم خوبی ان کا معاملات کو اَحسن انداز میں منظم کرنا ہے۔ کوئی بھی شخصیت انتظامی صلاحیتوں کے بغیر زمانے کے تقاضوں کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ اس مسلّمہ حقیقت سے کوئی بھی شخص انکار نہیں کرسکتا کہ زندگی میں درپیش معاملات کو نظم و نسق کے سانچے میں ڈھالے بغیر کوئی بھی اعلی کارنامہ سر اَنجام نہیں دیا جا سکتا۔ انفرادی نوعیت کے اہم معاملات بھی نظم و نسق کے متقاضی ہوتے ہیں۔ کسی بھی کام کو منظم کرنے کے لیے پہلے اس پر کار بند ہونے کی ضرورت ہوتی ہے اس لیے کہ اَفراد کی قوت تنظیم میں ہے۔ جو اس راز کو پالیتا ہے وہ اپنی انفرادیت کو اجتماعیت کے لیے قربان کر دیتا ہے۔
قرآنِ کریم وہ آفاقی کتاب ہے جو ہمیں ہر مسئلہ اور مشکل میں رہنمائی فراہم کرتی ہے۔ نظم و نسق انسانی زندگی کی ایک اہم ضرورت اور ناقابلِ گریز خوبی ہے جس سے بے اعتنائی برتنا ممکن نہیں۔ قرآن کریم جہاں دیگر معاملات میں امتِ مسلمہ کی راہنمائی کرتا ہے وہیں پر انتظام و تنظیم کی اہمیت و اِفادیت کے متعلق درس بھی دیتا ہے۔ ذیل میں چند آیات ملاحظہ فرمائیں:
1۔ اللہ رب العزت نے فرمایا:
فَاَرْسَلَ فِرْعَوْنُ فِی الْمَدَآئِنِ حٰشِرِیْنَo اِنَّ هٰٓـؤُلَآءِ لَشِرْذِمَةٌ قَلِیْلُوْنَ.
’’پھر فرعون نے شہروں میں ہرکارے بھیج دیے۔ (اور کہا) بے شک یہ (بنی اسرائیل) تھوڑی سی جماعت ہے۔‘‘
(الشعراء، 26: 53-54)
لغتِ عرب کے مطابق شرذمۃ: سے مراد یہ ہے کہ
’’هي المجموعة المتفرقة وغیر المنظمة‘‘
’’ایسی جماعت جو متفرق اور غیر منظم ہو۔‘‘
(ابن منظور افریقی، لسان العرب، ج: 12، 322 )
2۔ دوسرے مقام پر اللہ رب العزت نے فرمایا:
وَحُشِرَ لِسُلَیْمٰنَ جُنُوْدُهٗ مِنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ وَالطَّیْرِ فَهُمْ یُوْزَعُوْنَ.
’’اور سلیمان (علیہ السلام) کے لیے ان کے لشکر جنوں اور انسانوں اور پرندوں (کی تمام جنسوں) میں سے جمع کیے گئے تھے، چنانچہ وہ بغرضِ نظم و تربیت (ان کی خدمت میں) روکے جاتے تھے‘‘۔
(النمل، 27: 17)
اس آیت میں بھی مذکورہ جن و انس اور پرندوں کی اَنواع واَقسام کے حُسنِ نظم و نسق کے بارے میں بتایا جارہا ہے کہ کس طرح وہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے سامنے حاضر کئے جاتے تھے۔
3۔ تیسرے مقام پر اللہ رب العزت نے فرمایا:
اِنَّ اللهَ یُحِبُّ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِهٖ صَفًّا کَاَنَّهُمْ بُنْیَانٌ مَّرْصُوْصٌ.
’’بے شک اللہ ان لوگوں کو پسند فرماتا ہے جو (ظلم کے خاتمے اور حق کی مدد کے لیے) اُس کی راہ میں (یوں) صف بستہ ہوکر لڑتے ہیں۔ گویا وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہوں‘‘
(الصف، 61: 4)
اس آیت میں بھی واضح طور پر جماعت کے نظم و نسق کے ساتھ دشمن کے مقابلے میں یکجا ہونے کے متعلق بیان کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ اللہ رب العزت ایسے لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اپنے جانوں کو جہاد کے مختلف مراحل میں منظم رکھتے ہیں اور ایک مضبوط دیوار کی مانند یکجا ہوتے ہیں۔
- قرآن مجید کی طرح احادیثِ نبویہ ﷺ میں بھی ’’نظم و ضبط‘‘ کی اہمیت و افادیت کی طرف توجہ مبذول کروائی گئی ہے:
1۔ سیدہ عائشہ الصدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ سے پوچھا گیا: یارسول اللہ ﷺ ! اللہ تعالی کے ہاں سب سے افضل عمل کونسا ہے؟ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
أَدْوَمُهَا وَإِنْ قَلَّ.
’’کسی بھی کام کو مداومت، مواظبت اور تسلسل کے ساتھ جاری رکھنا اگرچہ وہ تھوڑا ہی کیوں نہ ہو۔ ‘‘
(بخاری، الصحیح، ج: 5، ص: 2373، رقم: 6100)
اس حدیث کی روشنی میں کسی بھی کام کو نظم کے ساتھ کرنے اور تسلسل کے ساتھ انجام دینے کی اہمیت و فضیلت کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس حدیث کے دوسرے اور آخری حصے میں اس بات پر توجہ مرکوز کروائی گئی ہے کہ اگرچہ کام مقدار میں تھوڑا ہو مگر تسلسل کے ساتھ کیا جائے تو اُس کے ثمر آور اَثرات مرتب ہوتے ہیں۔
2۔ روز مرہ معاملات کو ایک خاص نظم سے انجام دینا ہمارے اَسلاف کے نزدیک ناگزیر عمل تھا۔ سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ کا جب آخری وقت آیا تو آپ نے سیدنا حسن وسیدنا حسین علیہما السلام کو بلایا اور فرمایا:
أُوْصِیْکُمَا بِتَقْوَی اللهِ... وَالتَّثَبُّتُ فِي الْأَمْرِ.
’’میں تم دونوں کو اللہ سے ڈرنے اور معاملات میں تسلسل و تثبّت کی وصیت کرتا ہوں۔‘‘
(محمد بن جریر الطبری، تاریخ الرسل و الملوک، ج: 5، ص: 147)
3۔ علامہ ابن الحدید نے سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ کی آخری وصیت کو نقل کرتے ہوئے لکھا ہے:
أُوْصِیْکُمَا بِتَقْوَی اللهِ... وَنَظْمِ أَمْرِکُمْ.
’’میں تم دونوں کو اللہ سے ڈرنے اور معاملات کو منظم کرنے کی وصیت کرتا ہوں ‘‘۔
(ابو حامد عز الدین عبد الحمید بن هبة الله، شرح نهج البلاغة، ج: 17، ص: 5)
مولائے کائنات سیدنا علی المرتضی کرم اللہ وجہہ کی اس نصیحت پر غور و خوض کرنے سے بھی ہم پر عیاں ہوتا ہے کہ کوئی بھی کام اُس وقت تک فائدہ مند نہیں ہوتا جب تک مستقل مزاجی کے ساتھ منظم ہو کر اُسے سر انجام نہ دیا جائے۔
کسی اَمر کے منظّم ہونے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ کامیاب لوگ وہی ہوتے ہیں جو اپنے معاملات کو منظم کرنا جانتے ہیں۔ ایک عام آدمی بھی اگر اپنی زندگی میں نظم و ونسق کا پابند نہ ہو اور اُس کے لباس، افکار، گفتگو اور معاملاتِ زندگی میں نظم و ترتیب اور اعتدال و توازن نہ ہو تو ایسا فردِ واحد بھی معاشرے میں اپنی شخصیت برقرار نہیں رکھ سکتا اور نہ اُس کی قدر و منزلت ہوتی ہے۔
اسی طرح تحریکوں کے نظم و ضبط کے لیے بھی پہلے شخصیت کا منظم ہونا ضروری ہوتا ہے کیوں کہ کارکنان قائد و لیڈر ہی کی شخصیت کا عکس ہوتے ہیں۔ ایک منظم قائد کی یہ بھی خوبی ہوتی ہے کہ وہ اپنے کارکنان کو اپنے ہی سانچے میں ڈھالتا اور اُنہیں نظم و نسق پر کاربند کرتا ہے۔ گویا حقیقی لیڈر کی خصوصیات میں سے ایک اہم اور اعلیٰ خصوصیت ’’منظّم‘‘ ہونا ہے۔
اس پہلو سے اگر ہم شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی عبقری اور علمی شخصیت کا مطالعہ کریں تو یہ بات بغیر کسی اِلتباس و اِرتیاب کے واضح ہوتی ہے کہ آپ کی زندگی میں نظم و نسق کو انتہائی اہمیت حاصل ہے۔ آپ نے ہمیشہ نظم و نسق کے ساتھ اپنے معاملات کو بخوبی انجام دیا۔ ایک فردِ واحد نے کس طرح پہلے دن سے خود کو منظم کر کے اَن تھک محنت کرنا شروع کی اور اندرون ملک ، بیرون ملک، مرکز کے انتظامات، یہاں پر موجود نظامتیں، ان میں موجود احباب کی ٹریننگ سب کچھ انتظامی صلاحیتوں ہی کی بدولت کیا۔دنیا کی بڑی اور کامیاب کمپنیاں اپنے ورکرز میں ماہرانہ انتظامی صلاحیت پیدا کرنے کے لیے ہائی پروفائلڈ سکلز ڈویلپر کمپنیز کی خدمات حاصل کرتی ہیں مگر شیخ الاسلام کا کمال یہ ہے کہ آپ نے اپنی تحریک اور اُس کے ذیلی اداروں میں کام کرنے والے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں ورکرز کو خود تیار کیا ہے۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے احیائے اسلام، تجدیدِ دین، اصلاحِ احوال، فروغ و تبلیغ اسلام اور انسانیت کی بھلائی کے لیے جس مصطفوی مشن کا آغاز کیا تھا، آج دنیا کے 90 سے زائد ممالک میں اس تحریک کا کام جس خوبصورتی اور کامیابی کے ساتھ جاری و ساری ہے، یہ تمام آپ کی انتظامی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
شیخ الاسلام نے جب اپنے تنظیمی معاملات کی ابتداء کی تو آپ کے ذہن میں پہلے سے ایک نظم و نسق موجود تھا اور اس پر چلتے ہوئے آپ نے اتنی بڑی تحریک قائم کی جس کی تنظیمات یو سی کی سطح تک موجود ہیں۔ آپ کی انتظامی صلاحیتوں کا کمال ہے کہ دنیا کے نوے سے زائد ممالک اور پاکستان کی تمام تنظیمات 365 ایم بلاک ماڈل ٹاون یعنی مرکزی سیکرٹریٹ منہاج القرآن کی ایک ہی چھت تلے ڈیل کی جاتی ہیں۔ اگرچہ ہر فورم جیسے علماء کونسل، نظامتِ دعوت و تربیت، ویمن لیگ، مصطفوی سٹودنٹس موومنٹ، یوتھ لیگ، منہاج ایجوکیشن سوسائٹی، منہاج ویلفیئر فائونڈیشن وغیرہ اپنی حیثیت میں خود مختار ہیں مگر سب کے سب شیخ الاسلام اور آپ کی ٹیم کے وضع کردہ ایک دستور کے پابند ہیں۔
شیخ الاسلام نے ایک ورکر کی انفرادی زندگی کے نصب العین، حصولِ نصب العین کے محرکات، طریق کار ، عملی اساس، جدوجہد کا نمونہ کمال، جدوجہد کا معیارِ عمل، قواعدوضوابط، باقاعدہ ادارتی تنظیم، اس کا مفصل لائحہ عمل، تفصیلی پروگرام اور قومی زندگی میں رونما ہونے والے مختلف تغیرات، بگاڑ اور اس کی اصلاح کا مکمل نصابِ تعلیم وتربیت اپنی کتب و خطابات کے ذریعے دیا اور پھر اپنی نگرانی میں مختلف پراجیکٹس کے ذریعے اس کی عملی صورت کو بھی دنیا کے سامنے پیش کردیا۔
مرکزی تنظیم کو متعدد نظامتوں اور ڈائریکٹوریٹس پر قائم کیا، جن کے عہدیدار اعلیٰ کوالیفائیڈ، تجربہ کار اور پیشہ ور تحریکی احباب ہیں۔ مالیاتی اور انتظامی امور کو بطریقِ احسن نبھانے کے لئے مالیاتی اور انتظامی نظام العمل میں مناسب قواعد وضوابط پوری طرح منضبط ہیں۔ مالیات کے علاوہ ایک مرکزی نظامت مالیات کام کر رہاہے جس کی محاسباتی نگرانی کا فریضہ شعبہ احتساب (Audit wing) سرانجام دیتا ہے۔
ہنرمند افرادی قوت کی فراہمی (Human Resourse Development) کا عمل نظامتوں اور ڈائریکٹوریٹس کی سطح پر ہونے کے علاوہ شعبہ تربیت (Traning wing) کی ذمہ داریوں میں بھی شامل ہے جو اپنے گوناگوں اور متنوع کورسوں کے ذریعے، تحریکی اور غیرتحریکی ایکسپرٹس اور مختلف یونیورسٹیوں کے پروفیسروں کے ذریعے پیشہ وارانہ تعلیم اورعملی تربیت کا بندوبست کرتی ہے۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ کی براہ راست نگرانی میں تحریک منہاج القرآن کا عظیم الشان HRD پروگرام جاری ہے جس کا مقصد وحید مذہبی گروہ بندی، فرقہ بازی، تفرقہ پرستی اور دہشت گردی سے پاک ایک ایسے پاک صاف اور صالح معاشرہ کی تشکیل ہے کہ جس کی بنیاد احترامِ انسانیت اور تکریمِ آدمیت پر قائم ہو اور جو موجباتِ غم، بھوک اور بلا تفریقِ رنگ و نسل اور زبان و مذہب، جہالت سے معاشرے کو پاک کرنے کی جدوجہد کا عزم رکھتا ہو۔
فطرتِ اسلامی کے زریں اصولوں اور خصائص میں سے اعلی درجہ یہ ہے کہ برائی کا قلع قمع کیا جائے اور کم اَزکم یہ کہ اُس برائی کو دِل سے برا سمجھا جائے۔ جب ہر طرف اندھیروں کا راج اور اطراف و اَکناف میں قنوط و یاس پھیل چکی ہو، تعصّب، مادیت پرستی، لادینیت اور فرقہ واریت کا پرچار ہو تو ایسے نازک لمحات میں کوئی ایسی صاحبِ دعوت وعزیمت شخصیت ہونی چاہیے جو ان معاملات کو سلجھانے کے لیے اپنی فکری،علمی، روحانی اور دعوتی اور انتظامی صلاحیتوں کے ذریعے امتِ مسلمہ کے مستقبل کو درست سمت کی طرف گامزن کرے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس عبقری شخصیت کے ساتھ اَفراد کی ایک ایسی منظم جماعت ہو جو اُس کے شانہ بشانہ چلے اور لوگوں کی قنوط و یاس کو یقین کی دولت سے ۔۔۔ گم کردہ راہوں کو منزل سے آشنا کرے۔۔۔ متلاشیانِ حق کو ہدایت۔۔۔ اور جمود کو تحرک و روشنی عطا کرے۔ بلا شک و شبہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ان تمام خوبیوں وممیزات سے متّصف ہونے کے ساتھ دورِ جدید کے لوگوں کو بیک وقت اپنی اعلیٰ ذہانت اور عمدہ انتظامی صلاحیتوں کے ذریعے امید کی کرن،علم کی روشنی اور حق کی طرف راہنمائی عطا کی ہے۔