علمِ حدیث کا چراغ حیاتِ رسول ﷺ کے ساتھ ہی روشن و تاباں ہوا ہے۔ حدیثِ رسول ﷺ کبھی قول سے ظاہر ہوئی اور کبھی فعلِ رسول ﷺ سے حجت بنی اور کبھی حالِ رسول ﷺ سے امت کے لیے برہان بنی۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنے اصحاب کے ذریعے پوری امت کو حدیث کے ساتھ تمسّک کی تعلیم دی ہے اور حدیثِ رسول ﷺ میں مشغول ہونے والوں کو بالخصوص اور عام امت کو بالعموم تبلیغِ حدیث کا حکم دیا ہے اور علمِ حدیث میں مشغول رہنے والوں کو خاص قلبی دعائیں دی ہیں۔ ارشاد فرمایا:
نَضَّرَاللّٰهُ اِمْرأً سَمِعَ مَقَالَتِیْ ووعاها و اداها.
’’باری تعالیٰ اس شخص کو خوش و خرم رکھے جس نے میری بات کو سنا اور پھر اسے یاد رکھا اور اسے آگے پہنچایا۔‘‘
(ترمذی، السنن، کتاب العلم، باب ماجاء فی الحث علی تبلیغ السماع)
اس حدیثِ مبارکہ میں رسول اللہ ﷺ نے نَضَّرَاللّٰہ کے کلمات کے ساتھ اس علم کے راوی سے لے کر مروی، سامع سے لے کر مسموع، شاہد سے لے کر مشہود، طالب سے لے کر عالم تک سب کو سدا خوش و خرم رہنے، ہمیشہ آباد و شاد رہنے اور دائماً اللہ کی نعمتوں سے معمور رہنے کی دعا دی ہے۔ ’سَمِعَ مَقَالَتِیْ‘ میں علمِ حدیث کی ہر نوع شامل کردی ہے۔
دوسری روایت میں فرمایا:
نَضَّرَاللّٰهُ سَمِعَ مِنَّا حَدِیْثاً فحفظه حتی یبلغه.
’’باری تعالیٰ اس شخص کو خوش و خرم رکھے جس نے مجھ سے کسی حدیث کو سنا اور اسے یاد رکھا پھر اسے دوسروں تک پہنچادیا۔‘‘
(ابوداؤد، السنن، کتاب العلم، باب فضل نشر العلم، 3: 322، رقم: 3660)
علم حدیث کی نشرو اشاعت، اس کا فروغ، تعلیم اور ابلاغ مضبوط اور ثقہ روایات پر قائم ہے۔ صحابہ کرامؓ کا سب سے بڑا تعارف یہ ہے کہ وہ پیکرِ عمل تھے، وہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے ہر حکم کے عامل تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے علم کے پھیلاؤ اور بڑھاؤ کی عقلی حکمت کو بیان کیا ہے اور تبلیغِ حدیث میں کارفرما علّتِ بالغہ کو بھی واضح کیا ہے۔ مختلف احادیث میں اس کی توجیہہ یوں واضح کی ہے۔ فرمایا:
فَرُبَّ مبلغ اوعی من سامع.
’’پس بہت سے لوگ جن تک حدیث کو پہنچایا گیا ہے، وہ حدیث روایت کرنے والے سے زیادہ حدیث سے اخذ و استدلال اور حفظ کی صلاحیت رکھنے والے ہوتے ہیں۔‘‘
(ترمذی، السنن، کتاب العلم، باب ماجاء فی الحث علی تبلیغ السماع، 5: 34، رقم: 2557)
دوسری روایت میں اس تبلیغِ حدیث کی حکمت فقہ الحدیث کو بیان کیا ہے۔ ارشاد فرمایا:
فَرُبُ حاملٍ فقہ الیٰ من هو افقه منه.
’’بعض لوگ جن تک روایت پہنچائی گئی ہے، وہ روایت کرنے والے سے زیادہ سمجھ بوجھ کے مالک ہوتے ہیں۔‘‘
(ترمذی، السنن، کتاب العلم، باب ماجاء فی الحث علی تبلیغ السماع، 5: 34)
اس حدیث میں راوی حدیث کو حاملِ فقہ کہا گیا اور جس تک حدیث پہنچائی گئی ہے، اس کو اس راویِ حدیث سے زیادہ فقہی فہم و فراست رکھنے والا اور اس سے زیادہ روایت و حدیث کی فقاہت اور علمیت رکھنے والا بیان کیا گیا ہے۔
تبلیغِ حدیث اور صحت و ثقاہت کے اصول
رسول اللہ ﷺ نے خطبہ حجۃ الوداع کے عظیم اور تاریخ ساز اجتماع میں موجود ہر شخص کو اس مجلس سے غیر موجود تک اپنی حدیث کی تبلیغ و ابلاغ کا تاکیدی حکم دیا، ارشاد فرمایا:
فلیبلغ الشاهد الغائب.
’’تم میں سے ہر حاضر شخص میرے اس پیغام کو ہر غائب تک پہنچادے۔‘‘
(بخاری، الجامع الصحیح، کتاب الحج، باب الخطبة ایام منیٰ، 2: 620، رقم الحدیث: 1654)
اس حدیثِ مبارکہ میں صراحتاً رسول اللہ ﷺ نے ہر شاہد کو ہر غائب تک حدیث روایت کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔ اسی حکمِ رسول ﷺ کو صحابہ کرامؓ نے اپنی اپنی حیات میں مکمل ایمانی جذبے کے ساتھ اختیار کیے رکھا۔ تابعین کا زمانہ آیا تو انہوں نے صحابہ کرامؓ کو دیکھا اور اپنے قول و فعل کو اُن کے اسوۂ کے تابع کیا۔ تبع تابعین نے تابعین کے نقوشِ پا سے اور اُن کے طریقِ حیات سے نعمتِ علم کی روشنی پائی اور یوں درجہ بدرجہ یہ سلسلہ تاریخِ اسلام کے مختلف ادوار میں اپنا علمی اور تحقیقی سفر طے کرتا رہا۔
تبلیغِ حدیث کی تعلیم و تاکید کے ساتھ ساتھ رسول اللہ ﷺ نے صحت و ثقاہتِ حدیث کا اہتمام اور حدیث کی روایت کے لیے اس امر کی دائمی حفاظت کا انتظام کرنے کے لیے پوری امت کو یوں راغب کیا ہے:
ان کذباً علی لیس ککذب علی احد، من کذب علی متعمدا فلیتبوا مقعدہ من النار.
’’مجھ پر جھوٹ باندھنا ایسا نہیں ہے جیسا کسی عام فرد پر جھوٹ باندھنا۔ جو میرے متعلق جان بوجھ کر جھوٹ بولے، وہ اپنا ٹھکانہ جہنم بنالے۔‘‘
(بخاری، الجامع الصحیح، کتاب الجنائز، باب مایکرہ من النیاحۃ علی المیت)
دوسری روایت میں آپ ﷺ کی طرف جھوٹ کا انتساب کرنے والے کو ساقط الاعتبار و اعتماد ٹھہرایا ہے اور اس کا شمار کاذبین اور مجہولین لوگوں میں کیا گیا ہے۔ ارشاد فرمایا:
من حدث عنی حدیثاً وھو یری انه کذب فهو احد الکاذبین.
جس نے میری طرف منسوب کرکے کوئی حدیث بیان کی اور وہ جانتا ہے کہ یہ جھوٹ ہے تو وہ جھوٹوں میں سے ہے۔‘‘
(ترمذی، السنن، کتاب العلم، باب ماجاء فیمن روی حدیثاً، 5: 36، رقم الحدیث: 2662)
مذکورہ بالا تمام روایات سے تبلیغِ حدیث کے لیے صحت و ثقاہت کے راہنما اصول و ضابطے جہاں رسول اللہ ﷺ نے بیان کردیئے ہیں، وہاں آپ ﷺ کی طرف منسوب کی جانے والی موضوع روایات سے بھی متنبہ اور خبردار کردیا گیا ہے۔ ائمہ حدیث اور ائمہ اصولیین نے اصولِ حدیث کے اخذ و استنباط میں معیارِ صحت اور ثقاہتِ روایت و درایت کے سارے ضابطوں اور اصولوں کا اہتمام کیا تھا۔
علمِ حدیث کے فروغ کا ارتقائی سفر
رسول اللہ ﷺ کی احادیث کو صحابہ کرامؓ نے ضبط بالصدر کے ذریعے محفوظ کیا، صحابہ کرامؓ جو کچھ رسول اللہ سے سنتے تھے اس کو اپنے ذہن و قلب اور سینے و دماغ میں محفوظ کرلیتے تھے اور اگر کسی کو احادیث ضبط کرنے میں رکاوٹ پیش آتی تو دعائے رسول ﷺ سے مرضِ نسیان کا علاج کرالیتا۔ اس سلسلہ میں حضرت ابوہریرہg کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ اسی طرح صحابہ کرامؓ احادیث کو لکھا بھی کرتے تھے۔ ایک انصاری صحابی نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں اپنے حافظے کی خرابی اور کمزوری کا ذکر کیا تو آپ ﷺ نے اس کو حکم دیا:
استعن بیمینک واوما بیده الیٰ لخط.
’’اپنے دائیں ہاتھ سے مدد لو اور ساتھ ہی آپ ﷺ نے اپنے دستِ مبارک سے لکھنے کی طرف اشارہ کیا۔‘‘
(جامع ترمذی، 2: 95)
ایک اور حدیث مبارکہ میں حضرت ابوہریرہؓ صحابہ کرامؓ کے احادیث کو یاد کرنے اور لکھنے کے مسئلے کو واضح کرتے ہوئے یوں فرماتے ہیں:
مامن اصحاب رسول اللہ ﷺ احداً اکثر منی الا ماکان من عبداللہ بن عمرو بن العاص فانه کان یکتب ولا اکتب.
’’حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ کے سوا صحابہ کرامؓ میں سے کوئی بھی مجھ سے زیادہ احادیث محفوظ کرنے والا نہیں تھا کیونکہ وہ احادیث لکھا کرتے تھے اور میں نہیں لکھتا تھا۔‘‘
(جامع ترمذی، ج: 2: 224)
غرضیکہ حضرت ابوہریرہ، حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت جابر بن عبداللہ، حضرت عمرو بن العاص، ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ اور دیگر کثیر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے پاس انفرادی طور پر بہت زیادہ ذخیرہ حدیث کتابت شدہ صحائف کی شکل میں موجود تھا، جن سے جماعت تابعین، تبع تابعین اور بعد کے اہلِ علم نے خوب استفادہ کیا ہے۔ علم حدیث کی تدوین و تحقیق اور تصحیح و توثیق کے لیے صحابہ کرامؓ کا جذبہ و عمل ایک مینارہ نور تھا جو بعد کے سارے زمانوں میں ائمہ و محدثین کی ذواتِ اقدس اور ان کے کردار و سیرت میں ایک مضطرب روح کی صورت میں دکھائی دیتا ہے۔ تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ صحابہ، تابعین اور تبع تابعین رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرب کے تپتے ہوئے صحراؤں کو تلاشِ حدیث کے لیے ایک ایک مہینے کی مسافت کرکے طے کیا ہے، صرف اتنی بات کی خاطر کہ رسول اللہ ﷺ کی طرف کوئی غیر مصدقہ بات منسوب نہ ہوجائے۔
علم حدیث کا یہ سفر صحابہ کرام کے بعد تابعین نے بھی ان ہی جذبوں کے ساتھ آگے بڑھایا۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ نے حکومتی سطح پر اور امام محمد بن شہاب زہری نے عوامی سطح پر علم حدیث کو بہت زیادہ فروغ دیا۔ اب احادیث ’قیدوالعلم بالکتابہ‘ (جامع بیان العلم، ج: 1، ص: 120) ’علم کو ضبط تحریر میں لاؤ‘ کے حکم کی پیروی میں دفاترِ زہری، کتبِ ابی بکر، ابواب الشعبی اور رسائلِ سالم کے ناموں کے ساتھ مدون ہونے لگیں۔
(محمد انور مگھالوی، ضیاء علم الحدیث، ص: 61)
حضرت عمر بن عبدالعزیزؓنے سب کی سب احادیث کے جمع کرنے کو ایک حکومتی تحریک بنادیا اور یہ صریحی حکم تمام اہل علم کو سب بلادِ اسلامی میں جاری کیا:
انظروا الیٰ حدیث رسول اللہ فاجمعوه.
’’احادیث نبویہ کو خوب تلاش کرو اور انہیں جمع کردو‘‘۔
(الوسیط: 22)
جس کے نتیجے میں کتب جوامع، کتب موطا، کتب السنن اور کتب المسانید لکھی گئیں، غرضیکہ علمِ حدیث عہدِ تدوین سے گزر کر عہد ترتیب میں آیا اور پھر اس سے آگے عہدِ انتخاب میں آیا اور پھر اس کے ساتھ ساتھ مختلف علومِ حدیث میں ائمہ فن کی اجتہادی کاوشیں منصہ شہود پر آتی رہیں، عدالتِ صحابہؓ پر تمام امت کا اجماع ہوا۔
- بعد ازاں متنِ حدیث کو سندِ حدیث کی صحت کی اساس پر مختلف مدارج میں مانا گیا۔ سند حدیث کو یہ بنیاد رسول اللہ ﷺ کے اس قول سے حاصل ہوئی:
عن النبی قال یا ابن عمر! دینک دینک انما هو لحمک و دمک فانظر عمن تاخذ و خذ عن الذین استقاموا ولا تاخذ عن الذین مالوا.
’’رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے ابنِ عمرؓ! تمہارا دین، تمہارا دین ہے، بے شک وہ دین تمہارا گوشت اور خون ہے۔ اس بنا پر تم غور کیا کرو کہ اپنا دین کس سے لے رہے ہو اور اپنا دین اُن لوگوں سے لو جو ثابت قدم رہیں اور اپنا دین اُن لوگوں سے نہ لو جو پھر جائیں۔‘‘
(خطیب بغدادی، الکفایه فی علم الروایہ، 121)
اسی حدیثِ مبارکہ سے اخذ کرتے ہوئے امام محمد بن سیرین نے سندِ حدیث کے بارے میں کہا:
ان هذا العلم دین فانظروا عمن تاخذون دینکم.
’’علم السند، علم دین ہے، پس تم ضرور دیکھا کرو کہ تم کس شخص سے اپنا دین لیتے ہو۔‘‘
(مسلم بن حجاج القشیری، الجامع الصحیح، المقدمه، باب بیان ان الاسناد من الدین، 1: 14)
اسی بات کو عبداللہ بن مبارک نے یوں کہا:
الاسناد من الدین ولو لا الاسناد لقال من شاء ماشاء.
’’سندِ حدیث امورِ دین میں سے ہے، اگر اسناد نہ ہوتیں تو ہر کوئی اپنی مرضی سے جو چاہتا کہتا پھرتا۔‘‘
(مسلم بن حجاج القشیری، الجامع الصحیح، المقدمه، 1: 15)، (ابن ابی حاتم الرازی، الجرح والتعدیل، 1: 16)
- ان ہی اقوال کی بنا پر علمِ حدیث اپنے ارتقائی سفر میں فنِ اسماء الرجال میں ڈھلتا ہے:
هو یعرف رواة الحدیث من حیث انهم رواة الحدیث.
’’ (فنِ اسماء الرجال) وہ علم ہے جو رواۃ حدیث کو بطورِ راویِ حدیث متعارف کراتا ہے۔‘‘
(صبحی صالح، علوم الحدیث، 145)
اسی علم کے ذریعے ’’معرفۃ الصحابہ‘‘، ’’کتبِ طبقات‘‘، ’’کتب التواریخ‘‘، ’’رجال کتب الصحاح الستہ‘‘، ’’کتب الجرح والتعدیل‘‘ اور دیگر کتب تصنیف کی گئیں۔ان سب کا مقصد سند حدیث کی صحت کا اہتمام و انتظام کرنا تھا کہ سندِ حدیث ہر معیارِ صحت، معیارِ ثقاہت اور معیارِ استناد پر پوری اترے۔
ہر دور کا ایک نیا چیلنج
ہر زمانے کے محدثین نے اپنے اپنے زمانے کے چیلنجز کا سامنا کیا ہے اور اپنی علمی استعداد اور خداداد صلاحیت و قابلیت سے اس کا بھرپور جواب دیا ہے۔ کوئی بھی زمانہ علمی اور تحقیقی چیلنج سے خالی نہیں ہوتا۔ انسانی زندگی کے ارتقاء کے ساتھ علم و فن، تحقیق و ایجاد اور ہر شعبۂ حیات میں ارتقا ہوتا رہتا ہے۔ اکیسویں صدی میں عصرِ حاضر میں علمِ حدیث کو درج ذیل مختلف چیلنجز درپیش تھے:
- تخریجِ حدیث
- نقدِ حدیث
- فقہ الحدیث
- ذخیرۂ حدیث کی تدوینِ نو
- تراجمِ حدیث کی تشکیلِ نو
- منکرینِ حدیث اور مستشرقین کے شبہات کا ازالہ
علمِ حدیث کے عصرِ حاضر کے ان سب چیلنجز کا جواب عالمِ اسلام کے محدثِ اعظم اور عصرِ حاضر کے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے دیا ہے۔ آپ نے نہ صرف علومِ اسلامی کی ہر نوع کے حوالے سے لکھا ہے بلکہ حدیث کی ہر صنف اور علمِ حدیث کی ہر جہت پر اپنی قلم کو تصنیفی و تالیفی صورت میں حرکت پذیر کیا ہے۔ اس امر پر گواہ و شاہد آپ کی تصنیفی خدماتِ احادیث ہیں، جن کو جاننے کے لیے ایک طویل فہرست کا مطالعہ لازمی ہے۔
اگر ہم اپنے عقیدے کی اصلاح اور اپنے اعمال و اخلاق اور افعال و احوال کو سنوارنا چاہتے ہیں تو المنہاج السوی من الحدیث النبویکا مطالعہ کریں۔۔۔ اگر حدیثِ رسول ﷺ کو ضابطۂ رشد و ہدایت کے اعتبار سے دیکھنا چاہتے ہیں تو ہدایہ الامۃ علی منہاج القرآن والسنہ کو پڑھیے۔۔۔ اگر مناقبِ انبیاء، فضائلِ صحابہ، مناقبِ اہل بیت اور صفاتِ اولیاء جاننا چاہتے ہیں تو جامع السنہ فیما یحتاج الیہ آخرالامۃ کو پڑھیے۔۔۔ اگر زندگی کو رشد و ہدایت سے معمور کرنا چاہتے ہیں اور صراط مستقیم کو اپنی شناخت بنانا چاہتے ہیں تو معارج السنن للنجاۃ من الضلال والفتن سے تمسّک اختیار کریں۔
الغرض شیخ الاسلام کی حدیث مبارکہ کے حوالے سے لکھی گئی جس بھی تصنیف کا مطالعہ کریں، وہ ہمیں نہ صرف عقائد، عبادات، معاملات، معاشرت اور روحانیت کے حوالے سے واضحیت دیتی نظر آتی ہیں بلکہ مختلف جہات اور پہلوؤں سے حدیث مبارکہ پر ہونے والے اعتراضات و اشکالات کا ازالہ بھی کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ ان ساری کتابوں کی ایک طویل فہرست ہے، جن کا ذکر اس مختصر مقالے میں ممکن نہیں ہے۔
اس مقالہ میں علمِ حدیث کے حوالے سے درپیش ان چیلنجز کا ذکر کریں گے جو موجودہ دور میں ہمیں درپیش ہیں اور پھر اس تناظر میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی خدمات کا تذکرہ کریں گے کہ انہوں نے اِن چیلنجز کا جواب کس طرح دیا۔۔۔؟
1۔ تخریجِ حدیث (پہلا چیلنج)
علمِ حدیث کے حوالے سے عصرِ حاضر میں شیخ الاسلام کے سامنے پہلا چیلنج تخریجِ حدیث کا تھا۔ تخریجِ حدیث سے مراد یہ ہے کہ ہر وہ حدیث جسے بیان کیا جارہا ہے، اُس کے حوالے میں ان تمام کتبِ حدیث کا ذکر کیا جائے جن کتب میں وہ حدیث موجود ہے۔ اُن احادیث کو اصل کتب کی طرف منسوب کیا جائے جن میں وہ بیان ہوئی ہیں اور اُن کے درجۂ صحت و ضعف کو بھی پرکھا جائے اور صحت کے اعتبار سے اُن کے استنادی معیار کی صحیح اور درست نشاندہی بھی کی جائے۔ یہ سارا جامع مفہوم تخریجِ حدیث کہلاتا ہے۔
(عبدالرؤف ظفر، علوم الحدیث، نشریات اردو بازار لاهور، ص: 244)
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے اپنے خطبات اور اپنی کتب میں تخریجِ حدیث کا کاملاً اہتمام فرمایا ہے۔ علم کے اعلیٰ معیارِ ثقاہت کو قائم کرنے کے لیے اس حد تک اہتمام میں اوّلیت کا اعزاز شیخ الاسلام کو حاصل ہے۔ جب تخریج کے جدید ذرائع انٹرنیٹ، سوفٹ ویئر، مکتبہ شاملہ وغیرہ اور دیگر کا بھی دور دور تک نام بھی سننے کو میسر نہ تھا، اس وقت شیخ الاسلام نے اپنے لیکچرز اور کتب میں بھی ایک ایک حدیث کی صحت اور اُس کی استنادی حیثیت پر بات کی اور ایک ایک حدیث کے متعدد حوالہ جات معتبر اور مستند کتب سے ذکر کیے۔ اس انداز و اسلوب نے جہاں اُن کے اچھوتے و منفرد طرزِ استدلال و استنباط کو بھی علمی اور تحقیقی قوت فراہم کی وہاں اُن کے مؤقف کو مستند بنانے میں بھی مدد و اعانت فراہم کی۔ اُن کے ہزاروں لیکچرز اور سیکڑوں کتب فنِ تخریج کے جملہ اصولوں کی پیروی کرتے ہوئے حوالہ جات کے ساتھ محقّقہ نظر آتی ہیں بلکہ یہ کہنا بھی بے جانہ ہوگا کہ وہ تحقیق و حوالہ جات کی کثرت میں تمام عصری مصنفین اور مؤلفینِ تحقیقات سے ممتاز اور منفرد حیثیت رکھتے ہیں۔
شیخ الاسلام کا سب سے بڑا کمال اور اُن کا سب سے بڑا حوالہ یہ ہے اُن کی ہر بات دلیل کے ساتھ ہے اور ہر قول حوالے کے ساتھ ہے۔ وہ اپنی بات کو دلیل کی قوت سے دوسروں پر حجت بناتے ہیں، وہ اپنے مؤقف کو ہمیشہ برہان سے مزیّن کرتے ہیں اور اپنے قاری اور سامع کو درجۂ ایقان میں لاتے ہیں۔ علماء و مدرسین، محققین و مبلغین اور مصنفین و مؤلفین کی مجلس میں اُن کی علمی و تحقیقی طبع زاد اپنے کمال کی حدوں کو چھوتی نظر آتی ہیں۔
2۔ نقدِ حدیث (دوسرا چیلنج)
علمِ حدیث کے باب میں شیخ الاسلام کے سامنے دوسرا بڑا چیلنج نقدِ حدیث کا تھا۔ نقد حدیث سے مراد یہ ہے کہ:
هو تمیز الاحادیث الصحیحة من السقیمه والحکم علیٰ رواتها تجریحاً او تعدیلاً بالفاظ مخصوصیة و دلائل معلومة.
’’احادیثِ صحیحہ کو احادیثِ ضعیفہ سے الگ تھلگ کرنا اور اس کے رواۃ پر مخصوص الفاظ جرح و تعدیل کے ساتھ علمی دلائل کے ساتھ حکم لگانا، نقدِ حدیث کہلاتا ہے۔‘‘
(عصام احمد بشیر، اصول منهج النقد عند اهل الحدیث موسسة الریان، بیروت، ص: 57)
نقدِ حدیث اکثر و بیشتر سند پر ہوتا ہے جس کو خارجی نقدِ حدیث اور نقد السند کہتے ہیں۔ جس کی بنا پر کسی حدیث کے مرفوع، موقوف، مقطوع، صحیح، حسن، ضعیف، شاذ، منکر، مرسل، معضل، معلق اور مدلس وغیرہ ہونے کا حکم لگاتے ہیں۔ جبکہ داخلی نقدِ حدیث متنِ حدیث پر ہوتا ہے یہ ’’نقد المتن‘‘ کہلاتا ہے۔ نقدالمتن کی پہچان کے ضابطے بھی محدثین نے وضع کیے ہیں کہ وہ حدیث عام انسانی عقل کے خلاف نہ ہو، متن لفظی اور معنوی رکاکت، پیشوں کی برائی، کسی خاندان اور قبیلے کی رسوائی اور بے ڈھنگی باتوں سے محفوظ ہو۔ اس طرح کلامِ انبیاء سے ہلکی اور سطحی ہونے سے محفوظ ہونا بھی نقد المتن کے اصول میں شامل ہے۔
شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ نے اپنے دروسِ علمِ حدیث میں اور اپنے متعدد لیکچرز میں نقدِ حدیث کی بحث کو عملی بنیادوں پر امت پر واضح کیا ہے۔ امت کے بعض طبقات نے تمییز الصحیح کے باب میں خود ساختہ تصور قائم کیا ہے کہ حدیث صحیح وہی ہے جو فقط صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ہی آئے۔ آپ نے ائمہ حدیث کے مضبوط دلائل کے ساتھ اس مؤقف کی اصلاح کی کہ حدیث صحیح کسی کتاب کے ساتھ خاص نہیں بلکہ اپنی شرائط کے ساتھ مخصوص ہے۔ شرائطِ صحت کا پایا جانا ہی اس کی صحت کے قیام کا باعث بنتا ہے۔ اس مؤقف میں مخصوص کتاب کی شرط اضافی ہے۔
آپ نے نقدِ حدیث کے باب اپنی تحقیقاتِ میں یہ بات بھی ثابت کی ہے کہ عالمِ عرب میں ایک معروف عالم ناصرالدین البانی نے اپنے مسلکی اور اعتقادی اختلاف کی بنا پر بعض احادیثِ صحیحہ کو احادیث کے معروف اور معتبر ذخیروں سے اس لیے نکال دیا ہے کہ وہ احادیث اُن کے عقیدے اور مسلک کے موافق اور اس سے ہم آہنگ نہ تھیں۔ تاریخِ اسلام میں اتنا بڑا فعل اور اتنی بڑی جسارت پہلے کسی سے بھی سرزد نہ ہوئی مگر بدقسمتی سے ایک مخصوص ایجنڈے کے فروغ کے باعث ایسا ہوسکا جو امت کے اہلِ علم و فکر اور اہلِ دانش کے لیے نقدِ حدیث کے باب میں ایک عجیب سوالیہ نشان ہے۔
بہر حال شیخ الاسلام کی بیدار فکری کے باعث امت ایک بہت بڑا ذخیرہ حدیث کو اصل حالت میں محفوظ کرنے کے لیے آمادہ ہوئی ہے اور اسی تناظر میں عالمِ اسلام کی مختلف یونیورسٹیز میں احادیثِ صحیحہ اور احادیثِ ضعیفہ کے حوالے سے Ph.D کی سطح پر کام بھی ہوچکا ہے۔ شیخ الاسلام مدظلہ کے دروسِ علوم الحدیث سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ حدیث کی صحت اور ضعف کا وہی حکم معتبر اور مستند ہے جو ثقہ اور مستند ائمہ حدیث کے اجماعی موقف کے مطابق ہو۔ کسی شاذ رائے کی بنا پر کسی حدیث پر ضعف کا حکم نہیں لگایا جاسکتا۔ نقدِ حدیث کے ان سارے حقائق کو شیخ الاسلام مدظلہ نے پاکستان بھر کے علماء، مدرسین، محققین اور طلبہ کے سامنے تین روزہ دروسِ علمِ حدیث بمقام عالمی اعتکاف گاہ جامع المنہاج بغداد ٹاؤن، ٹاؤن شپ میں واضح کردیا تھا۔
3۔ فقہ الحدیث (تیسرا چیلنج)
علمِ حدیث کے حوالے سے شیخ الاسلام مدظلہ کے سامنے تیسرا چیلنج فقہ الحدیث کے حوالے سے تھا۔ فقہ الحدیث اپنے لغوی مفہوم میں جاننے اور سمجھنے کے معنی میں صریح ہے اور اپنے اصطلاحی مفہوم میں حدیث کی واضح مراد اور اس سے مستنبط ہونے والے احکام اور اس سے استدلال کیے جانے والے فوائد کو صائب طریقے سے جاننے کا نام ہے۔
(عبدالماجد غوری، علوم الحدیث، پبلشرز اردو بازار لاهور، ص: 278)
فقہ الحدیث میں حدیث کے اُن معانی و مطالب کو جاننا اور سمجھنا ہے جن کو عمل میں لانے کا ہم سے شارع کا مطالبہ ہے یا اُن پر عمل ہمارے لیے پسندیدہ ہے۔ فقہ الحدیث کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے امام حاکم نیشاپوری فرماتے ہیں:
’’ یہ علم تمام علوم الحدیث کا ثمر ہے اور اُن کا حاصل ہے اور یہی علم مدارِ شریعت ہے۔‘‘
(حاکم نیشاپوری، معرفة علوم الحدیث، ص: 79)
شیخ الاسلام مدظلہ نے علمِ حدیث کے اس بحرِ عظیم میں بھی غواصی کی ہے اور اس اسلوب پر بڑے ہی انمول موتی اخذ کیے ہیں اور اپنی استدلال کی قوت اور ثقاہت کی بنا پر اپنی رائے اور اپنے موقف کو قائم کیا ہے۔ اپنے استدلال و استنباط کو ائمہ و محدثین کے اقوال اور ان کی ثقہ آراء کے ذریعے مؤید اور مصدق کیا ہے اور سیکڑوں احادیث مبارکہ سے وہ معانی اور مطالب اخذ کیے ہیں جنہوں نے ہمارے عقائد و اعمال کی بنیاد کو حکایات سے بلند کرکے نصوصِ شرعی پر قائم کرنے کا حوالہ فراہم کیا ہے۔ اگر کسی عقیدے پر عمل تھا اور کسی نظریے پر ہماری ثابت قدمی تھی تو اس کی دلیل فقط موجودہ اخلاف کا اسوہ و عمل تھا۔ شیخ الاسلام نے فقہ الحدیث کے ذریعے جہاں ہمیں متعدد مسائل میں نصِ شرعی کی دلیل دی ہے وہاں اسلاف کے عمل سے بھی ہمارے لیے دلیل لائے ہیں۔ فقہ الحدیث کے حوالے سے اُن کی کتب و تصانیف اور خطبات و لیکچرز میں آنے والی اکثر احادیث ایک منفرد استدلال اور ایک مضبوط استنباط کے ساتھ ہمیں معانی و مطالب کے ایک نئے جہاں سے روشن و منور کرتی ہیں۔
قرآن و حدیث کے فہم میں شیخ الاسلام کا خداداد ملکہ و استعداد فقہ الحدیث کے کئی نئے گوشوں کو عیاں کرتا ہے۔ احادیث کے وہ متون جو ہماری نظروں سے اکثر و بیشتر گزرتے رہتے ہیں مگر معانی ومطالب کی جدّت اور انفرادیت ہماری نظروں اور ہمارے دماغوں سے اوجھل ہوتی ہے، وہ صرف شیخ الاسلام کے اظہارِ تکلم سے ظاہر ہوتی چلی جاتی ہے۔
فقہ الحدیث کے حوالے سے منعقد ہونے والے آپ کے دورہ صحیح بخاری اور دورہ صحیح مسلم کے لیکچرز، احادیث کے معانی ومطالب کا ایک نیا جہاں ہمارے اوپر منکشف کرتے ہیں۔ اُن لیکچرز کے ذریعے آپ نے امتِ مسلمہ کے ہاں مروّجہ عقائد و اعمال کی علمی اور فنی بنیادیں فراہم کی ہیں اور اسلاف کے طرزِ حیات اور اُن کے اسوہ و کردار کو احادیث کے موافق اور مطابق ثابت کیا ہے۔ اسی طرح فقہ الحدیث کے تناظر میں آپ نے مختلف موضوعات پر متعدد یادگاری اور تاریخی حیثیت کے حامل لیکچرز بھی امت کو عطا کیے ہیں اور آپ کی کتب کا ایک ایک جملہ ہمارے اوپر فقہ الحدیث کے نئے جہاں اور نئے آفاق روشن کرتا چلا جاتا ہے۔
4۔ ذخیرۂ حدیث کی ترتیبِ نو (چوتھا چیلنج)
علم الحدیث کے تناظر میں چوتھا چیلنج جس کا قابلِ رشک جواب شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے دیا ہے وہ ذخیرۂ حدیث کی ترتیبِ نو ہے۔ شیخ الاسلام مدظلہ نے علوم حدیث پر اپنے کام کو مختلف اصناف کے حوالے سے پھیلایا ہے۔ کچھ ذخیرہ حدیث کو وہ ’’اربعینات‘‘ کے نام سے جمع کرکے امت تک پہنچاتے ہیں۔ عقائد و اعمال اور اخلاق کے حوالے سے بڑے سے بڑا کوئی ایک موضوع بھی ایسا نہیں ہے جس کو شیخ الاسلام مدظلہ کی قلم نے ذخیرۂ حدیث میں سے ’’اربعین‘‘ کی شکل و صورت نہ دی ہو۔ جس موضوع پر بھی احادیث کو ڈھونڈنا چاہیں، اُس پر ایک منفرد اسلوب کے ساتھ آپ کی تالیف شدہ ’’اربعینات‘‘ اپنے قارئین کا استقبال کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ یہ ’’اربعینات‘‘ اپنی تعداد میں مسلسل اضافے کے عدد سے گزر رہی ہیں۔ اگر ان ’’اربعینات‘‘ کی بنیادی تقسیم کریں تو یہ اربعینات؛ عرفانِ الہٰی، قرآنیات، ایمانیات، اعتقادیات، عبادات، فضائلِ نبوی ﷺ ، مناقبِ صحابہ، مناقبِ اہل بیت، مناقبِ اولیاء اللہ و صالحین اور فکریات و عصریات کے بڑے بڑے عناوین کے تحت ہیں۔ جن کے نیچے متعدد ذیلی موضوعات اور عنوان درج ہیں۔
اسی طرح اصول حدیث پر آپ کی متعدد تصانیف میں سے ’الخطبة السدیده فی اصول الحدیث و فروع العقیده‘اسی طرح ’ازالة الغمه عن حجیة الحدیث والسنه‘ ’ترغیب العباد فی فضل روایة الحدیث و مکانة الاسناد‘ ’القول الحثیث فی فضل الروایة و فقه الحدیث‘ ’الارشاد فی مکانة الاسناد‘ اور اسی طرح کی متعدد کتب قابلِ ذکر ہیں۔
اس وقت علمِ حدیث میں اپنی نوعیت کا بڑا ہی منفرد اور بہت ہی عظیم الشان پراجیکٹ 40 ضخیم جلدوں پر مشتمل انسائیکلو پیڈیا آف حدیث تیار ہوکر جلد منظر عام پر آرہا ہے، جسے تمام علمی اور فنی بنیادوں پر تیار کیا جارہا ہے۔ اس میں علوم الحدیث کی تمام مباحث کو پیش نظر رکھا جارہا ہے اور ائمہ حدیث کے نقدِ حدیث کے تمام اصولوں اور ضابطوں کو اختیار کیا جارہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کو تصحیح و تنقیح کے اصولِ حدیث کے اطلاقی پہلوؤں سے گزارا جارہا ہے تاکہ اہلِ علم کے ہاں اس کی قبولیت ہو اور عامۃ الناس کے ہاں اُس کی مقبولیت ہو اور تمام میزانِ نقد سے وہ آراستہ و پیراستہ ہو،۔ یقینا جہاں یہ اس 21 ویں صدی کا عظیم الشان اور تاریخ ساز کام ہے، وہیں یہ پوری تاریخِ علمِ حدیث کا بھی ایک انوکھا اور منفرد کام ہے۔
5۔ تراجمِ حدیث کی تشکیلِ نو (پانچواں چیلنج)
علمِ حدیث کے باب میں پانچواں چیلنج تراجمِ حدیث کی تشکیلِ نو کے متعلق ہے۔ متنِ حدیث کو جو چیز ہر دور کے تقاضوں کے مطابق اور موافق کرتی ہے وہ احادیث کے تراجم ہیں، جس کو اصطلاحی زبان میں ’’تراجم الابواب‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔ حدیث رسول ﷺ سے اخذو استدلال اور استنباطِ احکام میں امام بخاری کو یدِ طولیٰ حاصل ہے۔ اُن کے تراجم الابواب کو امت میں تلقی بالقبول کا درجہ حاصل ہے اور اُن کے تراجم الابواب کو احادیثِ رسول ﷺ سے اخذ و استنباط اور استدلال و استخراج کے باب میں ائمہ محدثین نے صحت و ثقاہت کا ایک معیار اور میزان قرار دیا ہے۔
شیخ الاسلام مدظلہ العالی نے اپنی تمام تر اربعینات، تمام مجموعہ ہائے حدیث اور تمام متفرق موضوعاتِ حدیث کی جملہ کتب میں ہر جگہ نئے سے نئے تراجمِ ابواب قائم کیے ہیں۔ باری تعالیٰ نے قرآنی آیات اور احادیثِ نبویہ ﷺ سے اخذ و استنباط اور استدلال و استخراج میں آپ کو بڑی ثقاہت اور امامت کی نعمت عطا کی ہوئی ہے۔ باری تعالیٰ نے آپ کو یہ صلاحیت اس کمال کے ساتھ عطا کی ہے کہ اپنے اور غیر سبھی اُن کی علمی حیثیت، تحقیقی صلاحیت اور استدلالی قابلیت کے اپنی خلوت و جلوت ہر جگہ معترف ہیں۔ آپ کے قائم کردہ تراجمِ ابواب کی خاصیت یہ ہے کہ ان ابواب کے عناوین کو پڑھ کر ہی ساری حدیث کا نفسِ مضمون، محلِ استدلال اور محورِ استنباط بآسانی سمجھ آجاتا ہے۔ یوں انسان کو علم کی وہ پختگی اور اپنے قول کی وہ مضبوطی حاصل ہوجاتی ہے جس کا وہ مطالعۂ علم حدیث کے ذریعے طالب ہوتا ہے۔
6۔ منکرینِ حدیث اور مستشرقین کے شبہات کا ازالہ (چھٹا چیلنج)
عصرِ حاضر میں علمِ حدیث کے باب میں شیخ الاسلام مدظلہ کو چھٹا چیلنج منکرینِ حدیث اور مستشرقین کے شبہات و اعتراضات کے ازالے کا تھا۔ رسول اللہ ﷺ کی احادیث کا انکار سب سے پہلے یہود نے کیا۔ ان کی مخالفت کی بنیاد محض اسلام دشمنی، بغض و عناد اور تعصب تھا۔ انکار حدیث کا یہ فتنہ اسلامی لبادے میں ہوا۔ بعض یہود نے اسلام کا لبادہ پہنا اور خود کو مسلمان ظاہر کیا، اسی طرح فتنہ ارتداد میں بھی یہودیوں کا بڑا کردار رہا ہے۔
(علوم الحدیث، رؤف ظفر، ج: 2، ص: 792)
عبداللہ بن سبا جس کا اصل نام جمہود تھا، صنعانی الاصل یہودی تھا، اس نے عہدِ عثمانی میں اسلام قبول کیا۔ یہ وہ پہلا سازشی شخص ہے جس نے پیغمبر اسلام ﷺ اور صحابہ کرامؓ کی عیب جوئی کی۔
پھر پہلی صدی ہجری کے آخر پر واصل بن عطا فرقہ معتزلہ کا بانی ظاہر ہوا، جس نے عقل کے ہتھیاروں سے ذخیرہ حدیث کو عیب دار کرنے کی کوشش کی اور دوسری صدی ہجری میں امام شافعی نے فتنہ انکار حدیث کو کچل دیا۔
معتزلہ کے بعد برصغیر میں نیچریوں نے فتنہ انکارِ حدیث کا ارتکاب کیا، انہوں نے علمی شبہات کی اوٹ میں اس فتنے کو پروان چڑھایا۔
انکارِ حدیث کے دوسرے فتنے ’’استشراق‘‘ کی بنیاد علم اور حقیقت سے نا آشنائی نہ تھی بلکہ عناد اور دشمنیِ اسلام تھی۔ اس فتنۂ استشراق کا وارداتی اسلوب بظاہر علمی تھا مگر اس فتنے کے ذریعے ہندوستان سے بعض لوگوں کو دعویٰ نبوت کے لیے تیار کیا گیا اور بعض کو حدیث کے انکار کے لیے آمادہ کیا گیا۔
منکرینِ حدیث حقیقت میں حدیث کا انکار کرکے خود قرآن کے انکار کے مرتکب ہوتے ہیں اور قرآنی آیات کو احادیث کے بغیر آزادانہ اور من پسند معانی کا لباس پہناتے ہیں۔ منکرین اور مستشرقین انکارِ حدیث کے باب میں ایک جیسا مؤقف اور الزام رکھتے ہیں کہ ’’حدیث کو شروع میں نہیں لکھا گیا تھا بلکہ حدیث دو اڑھائی سو کے بعد مرتب ہوئی اور حدیث قرآن کی طرح حجت نہیں ہے۔‘‘
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ’الخطبة السدیدة فی اصول الحدیث‘ میں اُن اعتراضات کا بڑا جامع جواب دیا ہے۔ آپ لکھتے ہیں:
’’باری تعالیٰ نے جو کلام نازل کیا ہے اُس کی دو قسمیں ہیں: ایک قسم جس میں باری تعالیٰ جبرئیل امین سے کہتا ہے کہ جاؤ میرے نبی کو یہ پیغام دو کہ ’’افعل کذا‘‘ اس طرح کرو۔ جبرائیل امین یہ پیغام سمجھ کر رسول اللہ ﷺ کی طرف آتے ہیں اور رسول اللہ ﷺ کے پاس بغیر الفاظ کی تلاوت کے معنی کی صورت میں پیغام پہنچادیتے ہیں۔ جبکہ دوسری قسم وہ ہے جس میں باری تعالیٰ جبرائیل امین سے فرماتا ہے کہ ’’اقرأ علی النبی‘‘ رسول اللہ ﷺ پر ان آیات کی تلاوت کرو۔‘‘ جبرائیل امین ان الفاظ و کلمات کو لے کر آتے ہیں، ان میں کوئی معمولی سی تبدیلی بھی نہیں کرتے۔ پس اس اعتبار سے قرآن کلام اللہ کے الفاظ کی روایت کا نام ہے جبکہ سنتِ رسول ﷺ ، کلام اللہ کے معنی کی روایت کا نام ہے۔ پس معلوم ہوا کہ قرآن و سنت دونوں وحی ہیں۔
امام ابنِ حزم اس حوالے سے لکھتے ہیں: باری تعالیٰ نے اپنے رسول کو دو طرح کی وحی عطا کی ہے: ایک وحی متلو ہے اور دوسری وحی مروی اور غیر متلو ہے۔ یہ دونوں وحی حقیقت میں ایک ہی چیز کے دو رخ ہیں اور دونوں کا اصل منبع و سرچشمہ اللہ کی ذات ہے۔ اسی بناء پر ان دونوں کے مابین نسبت وحدت کی ہے اور دونوں کا حکم ایک ہے۔
(ڈاکٹر طاهرالقادری، الخطبة السدیده، منهاج پبلی کیشنز لاهور، ص: 19)
اسی لیے ذکر کرتے ہیں کہ اطاعتِ رسول ﷺ ؛ اطاعتِ الہٰی ہے، رضائے رسول، رضائے الہٰی ہے، عطائے رسول؛ عطائے مولا ہے، معصیتِ رسول؛ معصیتِ الہٰی ہے۔ شیخ الاسلام ان سارے دلائل کا نکتۂ کمال علامہ ابن تیمیہ کے نصوصِ قرآنی سے ماخوذ اس قول کو بناتے ہیں:
وقد اقامه الله مقام نفسه فی امره و نھیه واخباره وبیانه فلا یجوز آن یفرق بین الله ورسوله فی شئی من هذه الامور.
’’اللہ رب العزت نے آپ کو کسی چیز کا امر دینے، منع کرنے، کسی چیز کی خبر دینے اور کسی چیز کو بیان کرنے میں نسبت وحدتِ حکمی کی عطا کی ہے۔ اس بنا پر اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے درمیان ان چیزوں میں فرق کرنا روا نہیں ہے۔‘‘
(ڈاکٹر طاهرالقادری، الخطبة السدیدة، ص: 21)
اسی طرح آپ نے تدوینِ احادیث کے باب میں ذکر کیا ہے کہ صحابہ کرامؓ ضبط بالصدر کے میدان کے بھی شہسوار تھے اور اُن کے حافظے احادیث کی یاد داشت کے باب میں بھی ضرب المثل تھے اور کتابتِ حدیث کی عہدِ صحابہ کی معلوم اور مصدقہ تاریخ کے مطابق 55 کے قریب صحابہ کرامؓ کے احادیث کے صحائف ملے ہیں جو تفتیش و تحقیق کے میزان پر پرکھ کر اڑھائی سو سال کے بعد حدیثِ رسول ﷺ کے لکھے جانے کے تمام شکوک و شبہات اور اعتراضات کے خاتمے کا اعلان کرتے ہیں۔
اس طرح شیخ الاسلام نے علوم حدیث کی مختلف جہات کے حوالے سے وارد تمام تر اعتراضات اور شکوک و شبہات کا بڑا ہی مدلل جواب اپنے دروسِ علم حدیث، لیکچرز اور کتب کی صورت میں دیا ہے۔
خلاصۂ کلام
قرآن مجید کے بعد حدیث و سنت کی اہمیت و ضرورت اور حجیت و افادیت کے پیشِ نظر شیخ الاسلام مدظلہ نے اپنی تصنیفات اور خطابات میں علمِ حدیث کو خصوصی اہمیت دی ہے۔ انہوں نے اپنے زمانے کے اجازتِ حدیث کے اعلیٰ اور افضل ترین سلسلوں کو اپنی ذات میں مرتکز کیا ہے۔ عرب و عجم کے شیوخِ حدیث کی اجازاتِ حدیث میں اعلیٰ نسبتوں اور واسطوں کے آپ حامل ہوئے ہیں اور جلیل القدر ائمہ حدیث کی اُن عظیم نسبتوں کے فیضان نے آپ کو اپنے زمانے میں ان کی عظیم صفات کا مرقع بنادیا ہے۔ ہر امام حدیث کا فیض آپ کی ذات و شخصیت میں اور آپ کے علم حدیث کے تحقیقی کام میں نمایاں اور عیاں دکھائی دیتا ہے۔ آپ کی ایک ہی کتاب المنہاج السوی آج لاکھوں کی تعداد میں تحریک کے تمام رفقاء، وابستگان اور عام اہل ایمان کے گھروں اور دفتروں میں پہنچ چکی ہے۔ ہر مسلمان اپنے عقیدہ و عمل اور خلق میں ایک آئینے کی طرح اس کتاب سے راہنمائی لیتا ہوا نظر آتا ہے۔
ایک وقت تھا کہ علمِ حدیث تک رسائی صرف علماء و طلبہ تک محدود تھی مگر شیخ الاسلام کے علمِ حدیث پرہمہ جہت کام نے ایک عام مسلمان دماغ و ذہن تک بآسانی اور اُس کی فہم و سمجھ کے عین مطابق اس علم حدیث کو پہنچادیا ہے جس کی وجہ سے ہر مسلمان اپنے اندر ایک علمی اعتماد اور تحقیقی تیقن کی کیفیت رکھتا ہے۔ اس مقصد کے لیے آپ نے بڑے پیمانے پر سہ روزہ علوم الحدیث کے اجتماعات اندرون ملک اور بیرون ملک وقتاً فوقتاً منعقد کیے ہیں۔ جس میں علماء و طلبہ کے ساتھ ساتھ ہزاروں کی صورت میں عام مسلمانوں کو بھی شرکت کی خصوصی اجازت دی گئی تھی۔ ان اجتماعات کے بعد علماء و طلبہ کو حدیث رسول ﷺ کی اجازتِ خاصہ اور عام مسلمانوں کو اجازتِ عامہ کی اسانید جاری کی گئیں۔ ان ہی دروسِ علم حدیث میں دورۂ صحیح بخاری و صحیح مسلم کو آفاقی شہرت حاصل ہوئی ہے۔
علمِ حدیث میں آپ کے تحقیقی کام کی منفرد شان یہ ہے کہ آپ نے ہر مسلمان کے عقیدہ، عمل اور خلق پر ذخیرہ احادیث کے انبار در انبار مواد کو کتب کی صورت میں فراہم کیا ہے۔ علمِ حدیث میں عصرِ حاضر کے شیوخِ حدیث نے صرف اور صرف طلبہ کو پڑھایا ہے جبکہ شیخ الاسلام مدظلہ نے علماء کو علمِ حدیث پڑھایا ہے، طلبہ کو علمِ حدیث سکھایا ہے اور عامۃ الناس کو علمِ حدیث سمجھایا ہے۔ یہ اعزاز، یہ انفرادیت اور یہ تفرّد آپ ہی کا خاصہ ہے، اس لیے اس دور کے اور اس عالم کے محدثِ اعظم آپ ہی ہیں۔
اہل سنت والجماعت کے لوگ اپنا بہترین عقیدہ اور افضل عمل رکھتے ہیں مگر جب ان سے ان کے عقیدہ پر کوئی دلیل مانگتا تو لاجواب ہوجاتے اور علماء کی طرف دیکھتے اور ان کی طرف سے جو جواب ملتا اُس پر اکتفا کرتے۔ شیخ الاسلام مدظلہ نے علم حدیث میں اپنے علمی اور تحقیقی کام کے ذریعے سارے براہین و دلائل کو آسان اور سہل کتابوں کی صورت میں عوام تک براہِ راست پہنچادیا ہے، جس کی وجہ سے اہلسنت والجماعت میں دلائل کی تشنگی اور عقائد و اعمال کی علمی سند کی کمی کا ازالہ اور خاتمہ ہوا ہے۔ اب ٹوٹنے، بکھرنے، منتشر ہونے اور اپنے مسلک و عقیدے کو شک و تردّد میں چھوڑنے کا رجحان کم ہوا ہے اور ہر ہر اہلِ علم اور ہر دلیل کے طالب سے بات کرنے کا یقین و ایقان ذہن و دل میں راسخ ہوا ہے۔
بلاشبہ شیخ الاسلام نے اہلِ اسلام کے صائب عقیدہ و عمل کے باب میں ایک نئی سحر پیدا کی ہے۔ یہ تجدیدِ دین اور احیائے اسلام کی ایک عظیم کاوش ہے۔ آپ نے دینِ اسلام کے روشن چہرے کو راسخ عقیدہ و عمل سے پھر روشن کیا ہے۔ ہر صاحبِ نظر، سلیم الفطرت، ذی فہم، صاحبِ شعور، اہلِ دانش و بصیرت، صاحبِ فراست، صاحبِ فہم و ادراک اور صاحبِ ویژن نے دیکھا ہے، جانا ہے اور مانا ہے کہ شیخ الاسلام مدظلہ نے تجدیدِ دین، احیائے اسلام اور اقامتِ دین کی اذاں شبستانِ وجود میں اس طرح دی ہے کہ ایک نئی سحر اور اک نئی فجر طلوع ہوچکی ہے۔ یقینا یہ سحر، سحرِ اسلام ہے اور یہ فجر، فجرِ اسلام ہے۔ جس کا سہرا اسی مردِ حق اور اسلام کے اس بطلِ جلیل اور عصرِ حاضر کے اسی بندہ مومن کے نام ہے جس کو دنیا شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ کے پُرعظمت نام سے جانتی ہے جن کی عصرِ حاضر کی اذانِ سحر کا ذکر اقبال یوں کرتا ہے:
وہ سحر جو کبھی فردا ہے کبھی امروز
نہیں معلوم ہوتی ہے کہاں سے پیدا
وہ سحر جس سے لرزتا ہے شبستانِ وجود
ہوتی ہے بندۂ مومن کی اذاں سے پیدا
غرضیکہ جس کسی نے بھی شیخ الاسلام مدظلہ العالی کو علوم و فنون کے جس میدان میں بھی دیکھا ہے، پڑھا ہے اور سنا ہے اک تعجب اور حیرت کا سوال اُن کی شخصیت نے ضرور پیدا کیا ہے۔ اُن کی عظیم شخصیت نے اپنے ہر دیکھنے، سننے اور پڑھنے والے کو یہ سوچنے پر مجبور کیا ہے کہ: مولا! ان کے ذہن و قلب میں علم کے سوتے۔۔۔ فکر کے سرچشمے۔۔۔ زورِ قلم کے سلسلے۔۔۔ اور قوت و طاقتِ گفتار کے دھارے۔۔۔ اپنے اور غیروں پر حیرت انگیزی اور اثر آفرینی کے جذبے۔۔۔ علمِ ظاہری و علمِ لدنی اور علمِ دینی و علمِ آفاقی کے یہ سارے منابع کہاں سے پھوٹتے ہیں۔۔۔؟ ہمارے اس سوال کا جواب اقبال کی فکر دیتی ہے:
یہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیل کو آدابِ فرزندی
یہاں بھی معاملہ مکتب کی کرامت سے بڑھ کر فیضانِ نظر کا محسوس ہوتا ہے۔ مکتب کا فیضان عقلوں کی سرحدوں کو مَس کرتا ہے جبکہ نظر کا فیضان دلوں میں اترتا ہے اور روحوں کو سرشار کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم جب بھی اُن کو دیکھتے ہیں، وہ عالمِ نو میں نظر آتے ہیں اور اُن کی آشنائی اور شناسائی ایک طویل سفر طے کرنے کے بعد بھی تشنگی کی کیفیات سے لبریز نظر آتی ہے۔ اُن کی شناسائی کے باب میں کسی نے کیا بہت عمدہ کہہ کر ہمارے جذبات و احساسات کی خوب ترجمانی کی ہے:
جب بھی دیکھا اک عالمِ نو دیکھا
سلسلہ طے نہ ہوسکا تیری شناسائی کا