تاریخِ اسلام میں مجددین اور مصلحین کی خدمات کا تجزیاتی مطالعہ کرنے کے لیے اس امر کو جاننا ضروری ہے کہ اُن مجددین اور مصلحین کو اپنے اپنے دور میں کیا کیا چیلنجز درپیش تھے، جن سے نبرد آزما ہونے کے بعد ان سلیم الفطرت اور اعلیٰ فکر و بصیرت کے حامل بلند پایہ مفکرین نے تجدیدِ دین اور احیائے اسلام کے عظیم مشن کو اپنے اپنے دور میں پایۂ تکمیل تک پہنچایا۔ ذیل میں مختلف ادوار میں تشریف لانے والے مجددین اور اُن کی خدمات کا احاطہ کیا جارہا ہے۔ بعد ازاں اس امر کا جائزہ لیا جائے گا کہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو تجدید دین اور احیاء اسلام کے عظیم مصطفوی مشن کے حوالے سے کیا کیا چیلنجز درپیش تھے اور آپ نے ان سے نبرد آزما ہونے کے لیے کیا کیا کارہائے نمایاں سرانجام دیئے:
1۔چھٹی صدی ہجری: امام غزالیؒ
چھٹی صدی ہجری(گیارہویں صدی عیسوی) تک کا دور یونانی علوم اور اسلامی علوم میں تصادم کا دور ہے۔ اسلام تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہا تھا اور اپنے اثرات سے دیگر تہذیبوں کو پسپا کر رہا تھا ۔اسی دوران یونانی علوم کے ساتھ اسلامی علوم کا تصادم ہوا۔ مجتہدینِ اسلام نے قرآنی تفکر و تدبر سے حاصل شدہ اجتہادی بصیرت کے ساتھ یونانی علوم کا مطالعہ کیا۔ ان علوم کی صحیح تحصیل کے بعد اشتراک فی العلم کے ذریعے‘ ان کے مقرر کردہ اصولوں پر اسلامی علوم و عقائد کی حقانیت ثابت کی۔ اس طرح اسلامی تعلیمات نے یونانی افکار سے متاثر اذہان میں اپنا مقام پیداکیا۔ انہوں نے قرآن و حدیث کا عقل کی گہرائیوں سے مطالعہ شروع کیا اور ذہنوں میں عظمتِ اسلام کا نور جاگزیںہوا۔
اس تطبیق کے ذریعے جہاں فوائدِ کثیرہ حاصل ہوئے وہاں مخفی تسامحات اور فکری مغا لطوںکی صورت میں نقصانات بھی سامنے آئے۔ عام مسلمان بھی یونانی علوم کی حقانیت کی طرف مائل ہوا اور اسلامی لٹریچر میں روح کی نسبت عقل کو زیادہ اہمیت حاصل ہوگئی۔ جس کا نتیجہ روحانی زوال کی صورت میں سامنے آیا اور امت کا رجحان بے عملی کی طرف ہوگیا۔
اس فکری انتشار کے دور میں امام غزالیؒ کی شخصیت سے اللہ پاک نے اپنے دین کی حفاظت و سربلندی کا کام لیا۔ آپ نے یونانی فلسفے کا تنقیدی جائزہ لیا۔ آپ نے فلسفہ کو رد کرنے سے پہلے یونانیوں کے اصول کے مطابق فنونِ فلسفہ پر کتابیں لکھیں جس سے یہ ثابت کرنا مقصود تھا کہ آئندہ ان مسائل پر وہ جو ردو قدح کریں گے ‘ آشنائے فن ہو کر کریںگے ۔ اس مقصد کیلئے ’’مقاصد الفلاسفہ‘‘ لکھی ۔ اس میں دقیق سے دقیق اور پیچیدہ سے پیچیدہ مسائل کو آسان بنا کر پیش کیا ۔جب آپ یہ ثابت کر چکے کہ فلسفے کا کوئی راز ان سے پوشیدہ نہیں رہا تو انہوں نے اصل مقصد یعنی فلسفہ کے رد پر توجہ دی ۔ اسی بحث پر بعدازاں آپ نے ایک کتاب لکھی جس کا نام ’’ تہافۃ الفلاسفہ ‘‘ ہے۔
یونانی اثرات کی وجہ سے عقل کو علم بالوحی کے مقابلے میں جو اہمیت حاصل ہوگئی تھی، آپ نے اس پر جو اعتراضات کئے‘ عقل کی حدودِ رسائی کا تعین کیا اور اس سے ماوراء حقائق کی دریافت کیلئے ’’حسِ باطنی‘‘ کو متعارف کروایا اور اس تک رسائی پانے کے طریقے بتائے جواحیاء ا لعلوم ‘کیمیا ئے سعادت‘ مکاشفۃ القلوب اور منہاج العابدین جیسی ضخیم کتب میں بکثر ت دیکھے جاسکتے ہیں۔ آپ کے ان تجدیدی کارناموں کی برکت سے امتِ مسلمہ روحانی بالیدگی کی طرف متوجہ ہوئی اور عمل کی طرف رجحان بڑھنے لگا۔
2۔ گیارہویں صدی ہجری: مجدد الف ثانیؒ
گیارہویں صدی ہجری (سولہویں صدی عیسویں) تک کا دور ہندو تہذیب کے اثرات اور اسلامی تشخص کے تصادم سے تعلق رکھتا ہے۔ ہندو دھرم نے مسلمانوں کے خلاف ایک متعصبانہ تحریک شروع کی جس نے بہت جلد پورے برصغیر کو عناد و نفرت کی لپیٹ میں لے لیا اور ایوان ِاقتدار تک اپنے اثرات مرتب کئے۔ اکبر جیسے نو عمر اورجلد باز بادشاہ نے نہ صرف دینِ الہٰی کی جگہ دینِ اکبری کو متعارف کرایااور اس کے ذریعے ان کے اثرات کو قبول کیابلکہ ان کے مطالبات کی تکمیل شروع کردی۔ مسلمانوں کے تشخص کو ختم کرنے کیلئے اسلامی تعلیمات اور ہندومت میں کاملاً ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ۔اس منصوبے کو مذہبی جواز دینے کیلئے ان ناقص تعبیرات کو درجہ استناد دیا گیا جووحدتِ ادیان کی صورت میں مذہبی فراخدلی کا عملی مظاہرہ کررہی تھیں۔ اس کے ساتھ مذہبی و درباری ملاؤں نے ہزار سال کے بعد نئے دین کی ایجاد کی ضرورت پر زور دیا۔
تاریخِ اسلام کے اس نازک موڑ پر شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانیؒ نے آگے بڑھ کر نعرہ تکبیر بلند کیا اور خدا داد فہم و بصیرت کے ساتھ اس مہلک ترین فتنے کاسر کچلا۔ ہندوؤں کے بڑھتے ہوئے اثرات کو ختم کرنے کیلئے ایک طرف امراء کو خطوط لکھے جن میںان کے ناپاک عزائم کے بارے میں ان کو بتایا اور دوسری طرف خلفاء کی جماعت تیار کی اور ان کو مختلف جگہوں پر متعین کیا تاکہ وہ اپنے روحانی اور تبلیغی اثرات مسلمانوں میں دوبارہ پیدا کریں اور ان کو اسلامی تشخص کی بحالی کی طرف متوجہ کریں۔
3۔ بارھویں صدی ہجری: شاہ ولی اللہؒ
بارہویں صدی ہجری (اٹھارویں صدی عیسوی) تک کا دور برصغیر میں مسلمانوں کے سیاسی زوال اور مذہبی اختلاف کا دور ہے۔ اس دور میں مغلیہ سلطنت زوال کا شکار ہوگئی اور مغرب کے معاشی‘ تہذیبی‘ نفسیاتی اور سیاسی غلبے کے نمو پذیر ہونے کے واضح امکانات روشن ہوگئے تھے۔
اس وقت مسلمانوں کے گرتے ہوئے وجود اور بکھرتی قوت کو پھر سے سمیٹنے کیلئے شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ تمام ترتوانائیاں بروئے کار لائے۔ آپ نے وقت کے بادشاہوں ‘ امیروں ‘ پیشہ وروں ‘ لشکریوں‘ حکومتی عہدے داروں ‘ علماء و صوفیاء اور عوام کے حالات کا پورا جائزہ لیااور ان سب کو ان کی غلط روی کے خوفناک نتائج سے آگاہ کیا اور عقیدہ و عمل کی کئی خرابیاں دور کرنے کی کوشش کی۔
امیروغریب کے درمیان جس طبقاتی کشمکش کا آغاز ہوچکا تھا، شاہ ولی اللہؒ نے اسے رفع کرنے کیلئے کتاب و سنت سے اقتصادی ومعاشی نظریے پیش کئے۔ مغلیہ سلطنت کے سیاسی زوال کے اثرات ختم کرنے کیلئے آپ نے صحیح حکمرانی کے اصول بیان کئے اور اسلامی نظام ِحکومت کی توضیح ایسے انداز میں کی جس سے حاکم ومحکوم کے درمیان خوشگوار تعلقات استوار ہوں اور کوئی تلخی باقی نہ رہے۔
مذہبی فرقہ واریت کو ختم کرنے کیلئے آپ نے مسلمانوں کے مختلف علمی اور فقہی طبقوں کے افکار میں مطابقت کے پہلو نمایاں کر کے ان کے درمیان صلح و آشتی پیدا کرنے کی کوشش کی اور اختلافی مسائل میں الجھے رہنے کی بجائے انہیں متفق علیہ مسائل کی طرف مائل کیا۔
4۔ چودھویں صدی ہجری: اعلیٰ حضرت احمد رضا خاںؒ
تیرہویں اور چودھویں صدی ہجری (انیسویں اور بیسویں صدی عیسوی) تک کا دور توحید اور بالخصوص تحفظِ ناموسِ رسالت ﷺ کی نازک حدود پر اعتذالی و خوارجی دلائل سے حملہ آور ہونے کا دور ہے جس کے تدارک کیلئے اس وقت کے بے شمار علماء کرام، صوفیائے عظام اور راست فکر مفکرین نے ممکنہ محاذوں پر بھرپور جہاد کیا۔ اس دور کے اوائل میں برصغیر میں جنہوں نے تاریخی خدمات سرانجام دیں، ان میں سے علامہ محمد اقبالؒ، پیر مہر علی شاہ ؒاور اعلیٰ حضرت شاہ احمد رضاخان محدث بریلی ؒخاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ ان راسخ العقیدہ شخصیات نے قوم کو یہ حقیقی فکر دی کہ تحفظِ ناموسِ رسالت ﷺ ہی تحفظِ دین و ایمان ہے۔
ناموسِ رسالت ﷺ پرحملہ آوروں میں دو طبقات پیش پیش تھے: ایک نام نہاد توحید پرست طبقۂ علماء تھا جس نے اپنے دعوتی مقاصد کو استعمال ہی اسی طرف کیا اور ’’ خالص توحید‘‘ کے نام سے اہانتِ رسول ﷺ کا فتنہ کھڑا کیا۔ دوسرا خطرناک ترین فتنہ غلام احمد قادیانی جیسے خبیث الفطرت شخص کا بتدریج دعویٰٔ نبوت تھا۔
خوارجی اور قادیانی فتنوںکا زور توڑنے اور اہلِ اسلام کے ایمان کی حفاظت کیلئے مذکورہ بالا تینوں شخصیات نے بھرپورکاوشیں کیں لیکن اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خانؒ کی خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے پوری زندگی اپنی علمی‘ فکری اور تحقیقی کاوشیں محبت و عشقِ رسول ﷺ پھیلانے میں وقف کردی۔ آپ نے عشقِ رسول ﷺ کو ایمان و اسلام کی جان قرار دے کر ‘ ہر سو عشقِ رسول ﷺ کے چراغ جلائے۔ آپ نے قوم کو یہ فکر دی کہ عشقِ رسول ﷺ ہی وہ معیار ہے جس پر اسلامی افکار و نظریات کی صحت اور مسلمان مفکرین و مصلحین کے قدو قامت کی پرکھ کی جاتی ہے۔ جو فکر و فلسفہ عشقِ رسول ﷺ سے خالی ہو اس کی عملی بنیادیں کھوکھلی ‘ اس کے اثرات ناقص اور اس کے نتائج ناپائیدار ہوتے ہیں۔
امام احمد رضاؒ نے تنقیصِ رسالت کی غرض سے دیئے گئے سب اعتزالی و خوارجی دلائل کامحاکمہ کیا اور علمی دلائل سے ان کے جوابات دیئے۔ رسالت جیسے اسلامی امتیاز کو مخالفین تنقیص کا نشانہ بنا کر ایک طرف اسلامی عزت و وقار کو ختم کرنا چاہتے تھے تو دوسری طرف ہندو مسلم اتحاد پیدا کر کے اسلامی تشخص کو مٹا دینا چاہتے تھے۔ اعلیٰ حضرتؒ نے نگاہِ بصیرت سے اس مخفی سازش کو جان لیا اور دو قومی نظریے کے تحفظ کیلئے کوششیں کیں اور آپ نے ہندو مسلم امتیازات پر بھی دلائل دیئے۔
5۔ 15 ویں صدی ہجری: شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری
پندرہویں صدی ہجری (بیسویں اور اکیسویں صدی عیسوی) موجودہ دور ہے۔ اس دور میں سائنسی ترقی اور اس میں مغربی افکار کی کوکھ سے جنم لینے والے مختلف نظاموں کے نفاذ سے جدید مسلم ذہن پر جو اثرات مرتب ہوئے اور اسلام کے نتیجہ خیز اور قابلِ عمل نہ ہونے اور موجودہ نظاموں کا مقابلہ نہ کرسکنے کی افواہیں تجدد پسند طبقے کی طرف سے اٹھیں۔
ان تمام کا تحقیقی جائزہ لینے کیلئے اسلامی مفکرین متوجہ ہوئے، کچھ نے مغربی افکار کے تضادات کو واضح کیا، کچھ نے اس کے مثبت نتائج سمیٹنے کی کوشش کی اور کچھ نے اسلامی نظام کے قابلِ عمل ہونے کے متعلق دلائل دیئے لیکن ان افکار و نظریات سے متعین ہونے والے مثبت اور منفی اثرات کا صحیح جائزہ اور اسلام کو پیش کرنے کی صحیح تعبیر کی سعادت شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو حاصل ہوئی۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے انقلابی نقطۂ نگاہ سے قرآن کا مطالعہ کیا اور تمام نظاموں کی اصل قرآن سے ڈھونڈنے کی کوشش کی۔ مختلف معاشی سیاسی اور عمرانی اصولوں کو اخذ کر کے ان سے اسلامی انقلاب کے فکر کا ڈھانچہ تدوین کیا اور دلائل سے قرآنی اصولوں کی آفاقیت اور عالمگیریت کو ثابت کیا۔
شیخ الاسلام ڈاکٹرمحمد طاہر القادری کی جاندار‘ بیدار مغز اور متحرک شخصیت نے قرآن و حدیث‘سیرت اور تاریخِ اسلام کا وسیع انقلابی مطالعہ کیا۔ خداداد عملی صلاحیتوں کی بنیاد پر اس انقلاب کو عملاً نافذ کرنے کیلئے کوششوں کا آغاز کیا جو آج تیز تر اثرات کے ساتھ منزل کی طرف بڑھ رہاہے۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی تجدیدی کاوشوں کی اہمیت و افادیت کو کماحقہٗ جاننے کے لیے ضروری ہے کہ ہم آج کے چیلنج سے آگاہی حاصل کریں کہ کن حالات میں شیخ الاسلام نے کیا تجدیدی کردار ادا کیا:
مسلم ذہن کے فکری رجحانات
آج مسلم ذہن میں دو قسم کے فکری رجحانات پائے جاتے ہیں ۔ ایک مائل بہ راسخ العقیدہ ذہن ہے، ان کے نزدیک تمام اقدار کامل اور ناقابلِ تغیر ہیں۔یہ ذہن مسلمانوں کے اپنے شعور سے حاصل شدہ علوم کو بھی کامل اور نقص سے پاک سمجھتا ہے جبکہ دوسرا جدید ذہن ہے جس کی معذوری یہ ہے کہ ایک طرف تو وہ اقدارِ کاملہ کو بھی تغیر پذیر اور ارتقاء پذیر سمجھتا ہے اور دوسرا یہ کہ اپنی معذوری کی بناء پر جدید ترین کو کامل ترین بھی سمجھتا ہے۔
مدعا یہ کہ ایک راسخ العقیدہ مذہبی ذہن ہے اور دوسراجدید تعلیم یافتہ ذہن جو یورپ سے متاثر ہو رہا ہے۔ اسی طرح علماء اور جدید لوگوں میں فکری انتشار کی وجہ سے معاشرے میں انفرادیت اور اجتماعیت کے نظریات میں تصادم ہے۔ معیشت میں انفرادی حقوق و مفادات اور اجتماعی حقوق و مفادات میں تضادو تصادم ہے۔ سیاست میں دو متضاد موقف اختیار کیے جاتے ہیں ۔ ایک یہ کہ ریاست کا وظیفہ صرف اخلاق ہے، یعنی جان ومال اور آبرو کو قوت سے محفوظ کر کے لوگوں کو اخلاقی کمال حاصل کرنے کے مواقع فراہم کرنا۔ دوسرا یہ کہ ریاست کا وظیفہ صرف معاشی ہے یعنی اپنی منصوبہ بندی کے تحت معاشی تخلیق کا نظام پیدا کرنا۔اسی طرح عالمی فکر بھی تضاد در تضاد کا شکار ہے ۔ وہ ابھی تک معاشرت‘ معیشت اور سیاست میںنہ تضاد و تصادم کو رفع کر سکا ہے اور نہ واضح سمت متعین کر سکا ہے۔
فکرِ اقبالؒ کے امین: شیخ الاسلام
بیسویں صدی عیسوی میں ان فکری تضادات اور ان کے اثرات کا بغور مطالعہ اور موازنہ کرنے کیلئے کافی افراد میدان میں آئے لیکن اس کی کامل تشخیص اور اس کے مکمل علاج تک پہنچنے کی اہلیت کسی میں نہ تھی، کیونکہ ان میں سے کوئی بھی بیک وقت مغربی اور اسلامی فکر کا صحیح عالم موجود نہیں تھا ۔ کوئی ان دونوں کو جانتا بھی تھا تو وہ اجتہادی بصیرت سے محروم تھا کہ ان دونوں کے تضادات اور اشتراکات کی درجہ بندی کرتا۔
اس نازک موڑ پر حضرت علامہ محمد اقبالؒ کی شخصیت ابھر کر سامنے آئی جنہوں نے اقوام ِمشرق کے سامنے مغربی تہذیب کا تنقیدی جائزہ اور تحقیقی مطالعہ پیش کیا۔ اقبال ؒنے اپنے تجدیدی افکار’’ تشکیلِ جدید الہٰیات‘‘ اور منظوم کلام میں پیش کیے ہیں۔ اس موقع پر علامہؒ کی پانچ بنیادی فکری باتوں کا ذکر کیا جاتا ہے جو پورے خطبات میں مغز کی حیثیت رکھتے ہیںتاکہ حکیم الامت کی ان بنیادوں کے تناظرمیں بھی عصرِحاضر کی احیائی کاوشوں کو پرکھا جاسکے:
- روحانی الذہن افراد کی تیاری
- اسلامی الٰہیات کی تشکیلِ جدید
- مذہب کی ناگزیر یت
- اسلام اور مغربی علوم میں اصولی تطبیق
- مسلمانوں کو بین الاقوامی سطح پر منظم و مستحکم کرنے کی ضرورت
مغربی علوم کی نشاۃ ِثانیہ سے جو فکری و علمی اثرات مرتب ہو رہے تھے اور اسلامی تہذیب کا حامل ذہن اپنے تجدیدی دور میںان سے جومثبت اور منفی اثرات قبول کر رہا تھا‘اس کی نشاندہی حکیم الامت علامہ اقبال نے کی۔ علامہ محمد اقبال کے بعد مغربی علوم و افکار کا تنقیدی مطالعہ کر کے راست اسلامی فکر سے متعارف کروانے والے معاصر مفکرین میں ایک بڑا نمایاں نام ڈاکٹر برہان احمد فاروقی کا ہے۔ ان دونوں کے انقلابی اثرات کو شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے باحسن و خوبی سمیٹا اور اس فیضان کو امتِ مسلمہ میں منتقل فرمایا۔
شیخ الاسلام کی فکر کے نمایاں پہلو
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ایک جید عالمِ دین اور محقق ہونے کی حیثیت سے قرآن و حدیث اور سیرت و تاریخِ اسلام کی روشنی میں انقلابیت کا مطالعہ کیا اور انقلابی افکارو نظریات کا وافر ذخیرہ مرتب کیا۔ آپ کی تصانیف قرآنی فلسفہ انقلاب، اسلامی فلسفہ زندگی اور بیسیوں خطابات اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ اس کے ساتھ ان انقلابی افکار کو ایک منظم فکر اور زندہ نظام میں بدل کر ایک تحریک کی شکل دے دی۔ قرآنی فلسفہ انقلاب کی فکر کو قائدِانقلاب نے کئی پہلوئوں سے حدِ تکمیل تک پہنچایا:
- آپ نے مصادرِ شرعیہ کی حیثیت سے قرآنی وسعت و جامعیت کو دلائل و برا ہین سے بیان کیا تاکہ تمام انقلابی اصول براہ ِراست قرآن مجید سے اخذ ہوں ۔
- آپ نے قرآن حکیم سے ماخوذ اصطلاحات کا سیرتِ نبوی اور اسوۂ انبیاء کی روشنی میں اطلاق کرکے ان کی مقصدیت کو منتہائے کمال تک پہنچادیا ۔ غلبۂ دینِ حق کی جدوجہد کو انبیاءf کی جدوجہد کی روشنی میں بعثتِ دعوت اور اس کے نتائج کے حوالے سے مربوط کرکے واضح کیا کہ قرآن حکیم کس طرح دینی جدوجہد کی نتیجہ خیزی کی ضمانت دیتا ہے ۔
- انسان کے علم و عمل میں ربط پیدا کرنے ‘ حقیقتِ اولیٰ کے ساتھ تعلق کی بحالی، وارد شدہ تجلیات کی روشنی میں انسانی اور کائناتی ربط کی نوعیت جاننے اورذہنی و جسمانی سکون اور یقین و ایمان کی تکمیل کیلئے جس ’’حسِ باطنی‘‘ کی طرف غزالی، اقبال اور فاروقی نے توجہ دلائی، شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے اس پر عملی جدوجہد کی ۔ آپ حضور پیر سیدنا طاہر علائو الدین الگیلانی البغدادیؒ کے روحانی فیض یافتہ ہیں۔ آپ نے اس فیض کو عام کرنے ا ور جدید دور میں تصوف کے احیاء کیلئے خانقاہی نظام کا اجراء کیا اور اس کیلئے باقاعدہ عملی دستور مرتب کرکے ہر سال ہونے والے سالانہ اجتماعی اعتکاف میں اس پر عمل درآمد کا آغاز کردیا۔
- کوئی بھی انقلابی تحریک اور جدوجہد اس وقت تک کامیاب اور باثمر نہیں ہوسکتی جب تک وہ فکر و عمل کے تمام تقاضے پورے نہ کرے۔ صرف فکری محاذ پر دادِ شجاعت دینا اور عملاً انقلاب کیلئے تیاری کا فقدان انقلابی تحریک کی ثقاہت کو ختم کر دیتا ہے۔ شیخ الاسلام نے صرف انقلابی جدوجہد کے فکر و فلسفہ پر غور نہیں کیا بلکہ اس فکر کو عملاً رائج کرنے کیلئے اسلام کے نظامِ حیات کی عملی جدوجہدپر بھی کام کیاجو تین پہلوئوں پر مشتمل ہے:
(1) معاشرت
(2) معیشت
(3) سیاست
(1) معاشرت
معاشرت میں انقلاب بپا کرنے کیلئے آپ نے تین سطحوں پر عملی کاوشیں انجام دیں:
- اصلاحِ احوال
- رفاہ و بہبود عامہ
- بیداریٔ شعور
(i) اصلاح ِاحوال: آپ نے اپنی جدوجہد کا آغاز دعوت سے کیا اور دعوت کے ذریعے جہاں قرآن و سنت کے پیغام کو عامۃ الناس کے سامنے رکھا، وہاں انہیں قرآن و سنت کی انقلابی تعلیمات اور اس کے مقابل معاشرے میں موجود ظالمانہ‘ فاسقانہ اور استبدادی ڈھانچوں اور قدروں سے بھی عوام کو آگاہ کیا۔ اس سے لوگوں کی معاشرت میں نہ صرف تعلق باللہ اور ربطِ رسالت کی روشنی پیدا ہوئی بلکہ ان میں ملک پر مسلط غیر عادلانہ اور ظالمانہ نظام کے خلاف بھی شعور و جذبہ پیدا ہوا۔
(ii)۔ رفاہ ِعامہ: منہاج ویلفیئر فائونڈیشن کے نام سے آپ نے تحریک کا رفاہی اور بہبودی ونگ قائم کر کے معاشرے کے ضرورت مند افراد کی معاونت کیلئے عملی راستہ پیدا کیا تا کہ حتی الامکان معاشرے میں عملی اخوت اور ہمدردی کے ماحول کو پروان چڑھایا جاسکے۔
(iii) بیداریٔ شعور: دنیا بھر کا غیر سرکاری (NGO) سطح پر سب سے بڑا تعلیمی پروگرام شروع کیا گیا تا کہ عامۃ الناس کو دولتِ شعور سے بہرہ ور کیا جائے ۔
(2) معیشت
اسلامی نظام ِمعیشت کا عملی نظام ’’بلا سود بنکاری‘‘ کی شکل میں دیا جس میں آپ نے بتایا کہ دورِ حاضر میں بھی نہ صرف بلا سود بنکاری کا نظام قابلِ عمل ہے بلکہ اسی کو اپنانے میں ملک و ملت کی فلاح ہے۔قرآن و حدیث کی روشنی میں نئے معاشی تصورات دیئے جن کے نفاذسے معاشرتی تفاوت کا خاتمہ ممکن ہے اس سلسلے میں آپ کی کتاب ’’اقتصادیاتِ اسلام ‘‘ ایک انقلابی معاشی انسائیکلو پیڈیا ہے۔
(3) سیاست
ملک میں رائج دجل و فریب کی سیاست کی اصلاح کیلئے 25 مئی 1989ء سے عملی سیاسی جدوجہد کا آغاز کیا اور اس فرسودہ انتخابی و سیاسی نظام کی تبدیلی کے لیے نعرہ بلند کیا۔ شیخ الاسلام کی ہدایات کی روشنی میں پاکستان عوامی تحریک آج بھی اس ضمن میں اپنا کردار ادا کررہی ہے۔
تحریک منہاج القرآن کے امتیازات اور اہداف
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے تحریکِ منہاج القرآن کو درج ذیل امتیازات پر قائم کیا:
- جامعیت
- خالصیت
- صالحیت
- انقلابیت
- آفاقیت
- شیخ الاسلام نے فرد اور قوم کو قرآن وسنت کی انقلابی تعلیمات سے بہرہ ور کرنے کیلئے تحریک کو پانچ اہداف دیے:
- تعلق باللہ کی دعوت جس میںذکرِ الہٰی‘ محبت ِالہٰی‘ خشیتِ ِالہٰی ‘ اطاعت ِالہٰی اور عبادتِ الہٰی کی ترغیب دی۔
- ربطِ رسالت کی دعوت میں عشقِ رسول ‘ اتباعِ رسول ‘ادب و تعظیمِ رسول‘ معرفتِ رسول اور نصرتِ رسول ﷺ کو لازمی قرار دیا ۔
- رجوع الی القرآن کی دعوت میںقرآنِ مجید سے حبی تعلق‘تلاوت‘ تدبر و تفکر‘ عمل بالقرآن‘ تبلیغ و اشاعت ِقرآن کے رشتوں کا شعور دلایا۔
- اتحادِ امت کی دعوت سے مرادسنت ِمحمدی ﷺ کا فروغ‘ امت کے تشخص کا فروغ‘ اجتماعی مفادات کا تحفظ‘ داخلی وخارجی حملوں کا تدارک اور عالمگیر دعوت کا احیاء ہے۔
- غلبۂ دینِ حق کی بحالی کی دعوت میں فکری وذہنی انقلاب‘ اخلاقی و روحانی انقلاب‘ معاشی و سماجی انقلاب‘ تعلیمی و ثقافتی انقلاب اور ملکی سطح پر سیاسی انقلاب شامل ہے۔
شیخ الاسلام کے فکری و عملی کارناموں کا اجمالی خاکہ
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی ہمہ جہتی کارناموں میں سے ہر کارنامہ نہایت تفصیل طلب ہے، تاہم ذیل میں ہم آپ کے فکری و علمی کارناموں کا ایک اجمالی خاکہ نذرِ قارئین کررہے ہیں:
1۔ تجدیدی کاوشیں
تجدیدِ دین کا مطلب ہے‘ دین کی طاقت و تاثیر کو فعالیت و تحرک کی صورت میںبرقرار رکھنا تاکہ دین‘ غالب اورنتیجہ خیز رہے۔ خدا کی طرف سے رہنمائی کا اصلی ماخذ ہونے کی حیثیت سے انسانیت اس کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق امن و سکون سے زندگی بسر کرے۔بعض اوقات نادان انسان اپنے عقلی اور وجدانی حاصلات سے راہنمائی لینا شروع کر دیتا ہے۔ خیالات کو عقائد اور اپنی تحقیقات کو علم کا نام دیتا ہے اور اس سے اپنی زندگی کی تمام مشکلات حل کرنا چا ہتاہے جس سے وہ فکری انتشار اور عملی تضادات کا شکار ہوتا ہے۔ اسی دوران کوئی مردِ حق آگاہ اٹھتا ہے اور انسانیت کی راہنمائی کرتا ہے اور دین کی طرف اس کو مائل کرتا ہے۔
آج کا دور چونکہ سائنسی علوم کی ترقی کا دور ہے اس زمانے میں مغربی نظاموں کی پیروی کی جا رہی ہے اور اپنی فلاح و نجات کے لئے اس کوحرفِ آخر سمجھا جانے لگا ہے۔ آپ نے اس چیلنج کو قبول کیا اور تاریخی کارنامہ سر انجام د یتے ہوئے نہ صرف اسلامی افکار کے مطالعے کی طرف توجہ دلائی بلکہ ان افکار کو عملًانافذ کرنے کی جدوجہد کا آغاز کیا۔
2۔ تاویلاتِ باطلہ کا رد
قرآن و حدیث کی تعلیمات انتہائی جامع اور ہر اعتبار سے کامل ہیں اور زندگی کے ہر ہر شعبے اور پہلو پر اس میں راہنمائی موجود ہے۔ اس میں اعتقادی، فکری، فقہی و عملی، اخلاقی و اصلاحی، معاشی و معاشرتی، عمرانی و ثقافتی اور سیاسی اصلاح کے لئے را ہنمائی کے اصول و قواعد ہیں اور ایک دوسرے سے باہم مربوط لیکن وقت کے ساتھ ان قوائد میں کجی واقع ہو جاتی ہے۔ ایک مصلح اور داعی ٔ حق کا یہ کام ہوتا ہے کہ وہ حالات کے تقاضے اور زمانے کے بدلتے ہوئے پیمانوں پر اس کو دوبارہ نافذ اور رائج کر دیتا ہے۔ اسی مذکورہ اصول کی روشنی میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے قرآن و حدیث کی صداقت و اعتدال پر مبنی تعلیمات میں غور و خوض کرتے ہوئے امت کو قرآن و حدیث سے صحیح تاویل و تعبیر کی راہ دکھائی۔
آج جب ہر طرف صداقت و دیانت زوال کا شکار ہے اور تاویلاتِ باطلہ کے ذریعے مزید اندھیرا کیا جارہا ہے اور عقائد و اعمال تفرقہ پروری سے دھندلا چکے ہیں تو آپ نے عقائد و معاملات ہر دو سطح پر باطل تاویلات کا رد کرتے ہوئے امت کو دین اسلام کے ہر پہلو کی حقیقی تاویل سے آشنا کیا۔
3۔ اجتہادی بصیرت
اجتہادی بصیرت وہ ملکہ ہوتا ہے جو قرآن و حدیث کے علوم میں وجدان کی حد تک رسوخ سے حاصل ہوتا ہے۔ جس سے حقائق کو صحت کے ساتھ جانا و پہچانا جاتا ہے اور معروضی حالات کی نوعیت کا تعین کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے اعلیٰ اجتہادی بصیرت سے فکری و نظری محاذ پر تاریخی کارنامہ سر انجام دیا۔ آپ نے قرآن و حدیث، سیرت اور خلافتِ راشدہ کے مطالعہ سے امت ِمسلمہ کے درپیش مسائل کا حل دیا۔ آپ کی تصنیف ’’قرآنی فلسفہ انقلاب‘‘ کا ایک ایک باب آپ کی اجتہادی بصیرت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
4۔ اعتدال و تطبیق
اعتدال و تطبیق سے مراد… افراط و تفریط سے ہٹ کر فکر ونظر اور اخلاق و عمل کو باہم مربوط کرنا ہے، اسی اعتدال کی برکت سے انتشار ، تضاد اور فرقہ واریت ختم ہو جاتی ہے، علم و عمل میں وسعت، جامعیت اور ثقاہت پیدا ہوتی ہے۔ مفکرین ہر ز مانے میںاعتدال سے کام لیتے رہے ہیں۔ جو مفکر اعتدال و تطبیق سے کام لے وہ مختلف افکار و نظریات کو کھنگالتا ہے۔ ان کے صحیح اور غلط پہلوؤں کی نشاندہی کرتا ہے ان کے مابین صحیح پہلوؤں کی تطبیق کرتا ہے غلط پہلوؤں کی اصلاح کا راستہ متعین کرتا ہے۔ تاریخ کے نازک موڑ پر علمی و عملی تضادات کے زور کو توڑنے کے لئے اور فکر و عمل کو متوازن کرنے کے لئے مجددینِ اسلام اعتدال و تطبیق سے کام لیتے ہیں۔ یہی اعتدال ان کے زمانے کے انتشار کو ختم کرتا ہے اور فکری وحدت اور عملی یکسانیت کا ماحول پیدا کرتا ہے۔
اسی تطبیقی رویے کی وجہ سے آپ نے شیعہ و سنی تضادات کو ختم کیا اور فقہاء کے گرہوں کے درمیان اختلاف کو حد اعتدال تک پہنچایا۔ الغرض شیخ الاسلام نے عقائد، اعمال، معاملات، معاشرت اور ہر شعبۂ زندگی کے حوالے سے اعتدال و توازن کو فروغ دیا اور ہر سطح پر دہشت گردی، انتہاء پسندی اور افراط و تفریط کے سدِ باب کے لیے علمی و فکری خدمات سرانجام دیں۔ قیامِ امن، بین المسالک رواداری اور بین المذاہب ہم آہنگی کا فروغ بھی آپ کے معتدل و متوازن رویوں کا عکاس ہے۔
علاوہ ازیں شیخ الاسلام نے فکری، مذہبی اور سیاسی تضادات کو بھی ختم کرنے کی کوشش کی اور ان کے درمیان اعتدال و تطبیق پیدا کی۔ آپ کی 600 سے زائد کتب اور ہزاروں لیکچرز آپ کے معتدل و متوازن مزاج اور اسلام کی حقیقی تعلیمات کے آئینہ دار ہیں۔
5۔ احیائے تصوف
اصحابِ صفہ رضوان اللہ علیھم ا جمعین کا طرزِ حیات اپنا کر زہد، ورع، خلوصِ عبادت، للھیت، صبر و رضا کے میدانوں میں خیمہ زن ہونا تصوف کہلا تا ہے۔’’ یریدون وجھہ‘‘ کی صفت سے متصف لوگ کبھی عجمی عادات ، رہبانی رسومات اور غیر اسلامی یوگیانہ نظریات سے متاثر ہو کر ان عادات کو اپنانے لگے تو اسلاف کو ضرورت پیش آئی کہ خالص اسلامی تصوف کو ان بدعات و توہمات سے پاک کرکے اس دور کے تقاضوں کے مطابق قابل عمل بنایاجائے یہی عمل احیائے تصوف تھا۔
شیخ الاسلام بھی عشق رسول ﷺ کو تصوف و طریقت کی بنیاد قرار دیتے ہیں اور اسے ہر سعادت کی اصل سمجھتے ہیں ۔ان کے نزدیک ا دبِ رسول ﷺ ہی عینِ روحانیت ہے، تزکیہ نفس اور تصفیہ قلب کے بغیر اس کا حصول ممکن نہیں۔ آپ نے تزکیہ نفس کی طرف لوگوں کی توجہ دلائی۔ موجودہ مادی ترقی کی دوڑ میںاکیسویں صدی میں تصوف و روحانیت کی پاکیزہ اور شخصیت ساز قدریں مجروح ہو چکی ہیں اور خانقاہوں میں زندہ تصوف کی بجائے جامد، رسمی، غیر عملی اور حصول جاہ ومنصب پر مبنی تصورات رہ گئے ہیں، شیخ الاسلام نے تصوف کو دوبارہ زندہ تحریک بنانے کے لیے علمی اور عملی دونوں میدانوں میں کوششیں کیں۔ تصوف کے قابلِ عمل لٹریچر اور سیکڑوں خطابات کے ذریعے امتِ مسلمہ کوحقیقت اولیٰ کے ساتھ روحانی ربط پیدا کرنے کی ترغیب دی۔
خلاصۂ کلام
تجدیدِ دین اور احیائے اسلام کے عظیم مقصد کے حصول کے لیے بلاشبہ دورِ حاضر کے چیلنجز سے ہر سطح پر نبرد آزما ہونے کے لیے ایسی جامع شخصیت کی ضرورت تھی، جن کی طبیعت خواجہ نظام الدین ؓ کی تاثیر، حضرت غوث اعظمؓ کی دعوت و خطابت، غزالی ؒ کی تحقیق ‘ مجدد الف ثانی ؒ کی دینی حمیت‘ شاہ ولی اللہؒ جیسی وسعتِ نظر اور اعلیٰ حضرت جیسی کیف ومستی ہو، جو عشق کو کائنات کی جان سمجھے۔عصرِ حاضر میںایسی ہی جامع شخصیت شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی ہے جہاں روایت و درایت باہم بغلگیر ہیں۔۔۔ جہاں عقل و نقل ہم آہنگ ہیں۔۔۔ جہاں فکر و مذہب یکجا ہیں۔۔۔ جہاں تضادات کی تطبیق ہے۔۔ جہاں دائرہ اطلاق کا تعین ہے۔۔۔ جہاں جزوکل میں مماثلت اجاگر ہوتی ہے۔۔۔ یہ تمام اوصاف ہمیں جس ایک قالب میں ڈھلے نظر آتے ہیں اور جہاں تمام علمی، فکری اور تحقیقی دھارے ایک سمندر کی شکل اختیارکرلیتے ہیں، اس شخصیت کا نام شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری ہے۔