پیغمبرِ اسلام حضرت محمد مصطفی ﷺ کے اعلانِ نبوت سے قبل سابقہ مذاہب کے ذریعہ شریعتیں وجود میں آ چکی تھیں، انسانی عقل استقرا کی تلاش میں تھی، فلسفہ و حکمت عروج پر تھے، انسان نے تہذیب و تمدن کو بہت قریب سے دیکھ لیا تھا اور انسان اپنی عقلی و بدنی صلاحیت و استعداد کو بروئے کار لاکر ترقی کرنا سیکھ چکا تھا، مگر اس کے باوجود انسان نہ صرف روحانی بلکہ عقلی اعتبار سے بھی اس اضطراب میں تھا کہ مجھے کوئی ایسی ہدایت ملے جو میرے ہر مسئلہ کو حل کرے، جسے مکمل ہدایت کہا جاسکے، جو انسانی زندگی کے ہر پہلو پر راہنمائی فراہم کرے۔ ایسے میں خدا تعالیٰ نے اس رُوحِ مقدس کو کرّہ ارضی پر ظہور عطا فرمایا جو ہدایتِ کاملہ کے ساتھ تشریف لائے اور انسان کے ہر اضطراب کو دور کر کے ہر سوال کا جواب دینے والا نسخہ کیمیا لائے۔ ایسا پیغام لائے جو سراپا رحمت اور سراپا سعادت ہے۔ سیرتِ طیبہ میں بے شمار ایسی مثالیں موجود ہیں جن سے یہ روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتا ہے کہ پیغمبرِ اسلام ﷺ کی پوری حیاتِ مبارکہ مذاہب کے درمیان رواداری و ہم آہنگی کی کاوشوں سے عبارت ہے۔
اسلام کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ مذہب اور اعتقاد کا معاملہ ہر انسان کے اپنے ذاتی فیصلے اور اختیار پر مبنی ہے اور اس معاملے میں زور و زبردستی کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ خدا نے یہ دنیا انسانوں کے علم و عقل اور عمل کی آزمائش کے لیے بنائی ہے، جس کے لیے انسانوں کو عقیدہ و عمل کی آزادی کا حاصل ہونا لازم ہے۔ اس لیے دنیا میں ہمیشہ مذہبی اختلافات رہے ہیں اور قیامت تک ہوتے رہیں گے۔ قرآن حکیم نے مکالمہ و مباحثہ کے لیے احسن انداز کو اختیار کرنے کا حکم دیا ہے اور معاشرتی انتشار کے خطرناک عواقب اور نتائج سے خبردار کیا ہے۔ اس سلسلے میں میثاقِ مدینہ، نجران کے مسیحیوں اور کوہِ سینا کی خانقاہِ مقدسہ کیتھرین کے راہبوں کے ساتھ معاہدات جیسی سیرتِ طیبہ کی روشن مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔
بین المذاہب رواداری کیلئے شیخ الاسلام کی عملی کاوشیں
حضور نبی اکرم ﷺ کی حیات و سیرت مبارکہ ہی سے روشنی لیتے ہوئے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے 1980ء میں جب اپنی فکری، نظریاتی اور سماجی تحریک کی بنیاد وحدتِ امتِ مسلمہ، بین المسالک ہم آہنگی، ادیانِ عالم کے مابین سماجی و ثقافتی تعلقات اور پرامن بقائے باہمی کو فروغ دے کر ایک مثالی معاشرہ کی تشکیل جیسے سنہری اصولوں پر رکھی۔
اکیسویں صدی کے آغاز میں رونما ہونے والے واقعات کے بعد شیخ الاسلام نے ادیانِ عالم کے مابین مشترکات کی بنیاد پر بین المذاہب مکالمہ کی فضا کو قائم کرنے اور ان کے مابین ثقافتی ٹکراؤ کو روکنے کیلئے قیامِ امن، انسانی اقدار کے تحفظ، مذہبی رواداری، تحمل و برداشت اور انتہاپسندی و دہشت گردی کے خاتمے کا عَلم اٹھایا اور دنیا کو اسلام کی حقیقی تعلیمات سے روشناس کرایا۔ بین المذاہب رواداری کا اسلام میں ایک وسیع تصور ہے جس سے مراد یہ ہے کہ معاشرے میں رہنے والے تمام انسان اپنے اپنے مذہبی تشخصات کو برقرار رکھتے ہوئے دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ مشترکہ اقدار کی بناء پر اتفاق رائے، یکجہتی اور دوسرے کے وجود کو تسلیم کرتے ہوئے اپنی سماجی، معاشرتی، ثقافتی، علاقائی اور قومی زندگی کو بہتر طور پر گزاریں۔
شیخ الاسلام نے بین المذاہب رواداری اور بین المسالک ہم آہنگی کے فروغ کے لیے نہ صرف اپنی تقریر و تحریر کے ذریعے کاوشیں کی ہیں بلکہ عملی طور پر بھی کئی ایسے اقدامات کیے جن سے نہ صرف بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ میں قابلِ قدر اضافہ ہوا بلکہ اسلام کی حقیقی اور واضح تعلیمات بھی نکھر کر سامنے آئی ہیں۔ آیئے ان کاوشوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں:
نظامتِ بین المذاہب تعلقات کا قیام
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے بین المذاہب تعلقات کے قیام کے لیے 2006ء میں منہاج القرآن انٹرنیشنل کے مرکزی سیکرٹریٹ پر باقاعدہ نظامتِ بین المذاہب تعلقات تشکیل دی۔ اس نظامت کا بنیادی مقصد مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان خوشگوار تعلقات قائم کرنا اور ان کی مذہبی و ثقافتی تقاریب میں شریک ہو کر انہیں اسلام کے تصورِ امن و محبت، اخوت و بھائی چارے، انسانی اقدار کی عظمت اور احترامِ انسانیت کے عظیم تصور سے روشناس کرانا ہے۔ نیز منہاج یونیورسٹی لاہور میں School of Religion and Philosophy کا شعبہ قائم کیا گیا ہے جس کے تحت ہر سال انٹرنیشنل انٹر فیتھ کانفرنس کا اہتمام کیا جاتا ہے جس میں تمام مذاہب کے عالمی سطح کے دانشوروں کو مدعو کیا جاتا ہے۔
مسلم کرسچئین ڈائیلاگ فورم (MCDF) کا قیام
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے 1998ء میں دنیا کے سب سے بڑے دو مذاہب اسلام اور مسیحیت کے درمیان مکالمہ کے فروغ کیلئے مسلم کرسچئین ڈائیلاگ فورم (MCDF) تشکیل دیا جو مسلم اور مسیحی راہنماؤں پر مشتمل ہے۔ اس میں مسیحیت کے تمام فرقوں کی مؤثر نمائندگی کو یقینی بنایا گیا ہے۔ اس کا مقصد بین المذاہب ہم آہنگی اور مکالمہ کو فروغ دینا ہے۔ یہ فورم بین المذاہب رواداری کے فروغ کے لیے دو دہائیوں سے زائد عرصہ سے سرگرمِ عمل ہے۔
جذبہ خیرسگالی کے تحت مذہبی تہواروں میں شرکت
بین المذاہب رواداری کے فروغ کے لیے نہ صرف دیگر مذاہب کی مذہبی تقریبات میں شرکت کی جاتی ہے بلکہ انہیں بھی تحریک منہاج القرآن کے پروگراموں بالخصوص عالمی میلاد کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی جاتی ہے۔ اس سے دیگر مذاہب کے پیروکاروں کو اِسلام اور اَہلِ اِسلام کی رواداری اور حسنِ سلوک کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملتا ہے۔
شیخ الاسلام کی اَمن اور برداشت کی تعلیمات کے ساتھ ساتھ تحریک منہاج القرآن کی طرف سے پاکستان میں بالخصوص باقاعدگی کے ساتھ ایسے اجتماعی پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں جن سے مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان تحمل و برداشت اور رواداری کو فروغ ملے اور مذاہب کے درمیان ہم آہنگی کی فضا پیدا ہو۔
یومِ ولادتِ حضرت مسیح ابنِ مریمe مسیحیوں کا عظیم تہوار ہے، اس موقع پر شیخ الاسلام کی طرف سے نمایاں مسیحی شخصیات اور تنظیموں کو کرسمس کارڈ بھجوائے جاتے ہیں، جو بذاتِ خود مسلمان عالمِ دین کی طرف سے ایک عظیم مثال ہے۔ اسی طرح تحریک منہاج القرآن کے دنیا بھر میں موجود مراکز اور منہاج یونیورسٹی میں یومِ ولادتِ مسیحe کی تقاریب کا انعقاد کیا جاتا ہے، جن میں نمایاں مسیحی شخصیات اور مذہبی رہنماؤں کو مدعو کیا جاتا ہے۔
اِسی طرح ہندو، سکھ اور پارسی برادری کے مختلف تہواروں میں شرکت کرکے انہیں اِسلام کے امن و محبت اور رواداری پر مبنی پیغام سے روشناس کروایا جاتا ہے۔ شیخ الاسلام کے یہ اقدامات مسلم معاشرے میں غیرمسلموں سے حسنِ سلوک کا عملی مظاہرہ ہیں۔ ان مذہبی اقلیتوں کو تحریک منہاج القرآن کے تحت ہونے والے مختلف مذہبی تہواروں کی تقاریب میں شرکت کی دعوت بھی دی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر ہر سال مینارِ پاکستان کے سبزہ زار میں منعقد ہونے والی عالمی میلاد کانفرنس میں مختلف مذاہب کے ماننے والے بھرپور شرکت کرکے پیغمبرِ رحمت ﷺ کی اَمن و باہمی رواداری پر مبنی تعلیمات کا قریب سے مشاہدہ کرتے ہیں۔
- تحریک منہاج القرآن کی انہی کاوشوں کا نتیجہ ہے کہ گرجا گھروں میں بھی محافلِ میلاد کا انعقاد کیا گیا ہے۔ فروری 2010ء میں لاہور بپٹسٹ چرچ میں میلادِ مصطفی ﷺ کانفرنس منعقد ہوئی جس میں مسلم و مسیحی برادری کے کثیر اَفراد نے شرکت کی۔
- بالمک سوامی مندر نیلا گنبد لاہور میں ہندو برادری نے بھی اپنی عقیدت اور احترم و رواداری کا عملی ثبوت دیتے ہوئے میلاد پاک کا اہتمام کیا۔
- اسی طرح امسال بھی لاہور کیتھولک کیتھڈرل چرچ میں بھی محفل میلاد مصطفی ﷺ منعقد کی گئی۔
بین المذاہب رواداری کے فروغ کے لیے اِس طرح کے مشترکہ پروگرامز کا اِنعقاد اور ان میں شرکت ایک معمول ہے۔
قیامِ امن کے لیے شیخ الاسلام کی خدمات
نائن الیون (امریکہ کے ٹریڈ سنٹر پر خود کش حملوں کی ہولناک تباہی) کے واقعہ سے اہلِ مغرب نے مسلمانوں پر دہشت گردی اور انتہا پسندی کا جو داغ لگایا تھا شیخ الاسلام نے کمال دانشمندی اور خدا داد صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے دنیا کے مختلف ممالک میں امن کانفرنسز اور سمینارز منعقد کر کے یہ باور کرایا کہ اسلام امن و محبت کا دین ہے۔
- اسلام کا دہشت گردی سے اور دہشت گردوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ آپ نے خود کش بمباری اور دہشت گردی کے خلاف دہشت گردی اور فتنہء خوارج کے عنوان سے 600 صفحات پر مشتمل مبسوط تاریخی فتویٰ شائع کیا جو اپنی نوعیت کا واحد فتویٰ اور مستند و معتبر علمی و تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔ عالمِ اسلام کی معروف یونیورسٹی جامعۃالازہر (مصر) نے اس کی توثیق کی ہے۔ اس فتویٰ کی تقریبِ رونمائی 2 مارچ 2010ء کو لندن میں ہوئی۔ برطانوی میڈیا کے علاوہ عالمی میڈیا کے درجنوں نمائندے تقریب میں موجود تھے۔ بعد ازاں دنیا کے دیگر ممالک میں بھی سرکاری طور پر اس فتویٰ کی تقریبات رونمائی منعقد ہوئیں اور پوری دنیا میں اس کی پذیرائی ہوئی۔
- منہاج القران انٹر نیشنل برطانیہ کے زیر اہتمام ویمبلے ارینا لندن میں عالمی امن کانفرنس (امن برائے انسانیت) کے عنوان سے 24 دسمبر 2011ء کو منعقد ہوئی جس میں شمالی امریکہ سے لے کر جنوبی افریقہ، یورپ اور دنیا کے تمام خطوں سے مسلم، عیسائی، یہودی، ہندو، بدھ مت، سکھ اسکالرز اور دیگر مذاہب کے پیروکار اور موثر شخصیات سمیت گیارہ ہزار سے زائد شرکاء نے شمولیت کی۔ مندوبین کے خطابات اور دنیا بھر سے ارسال کردہ پیغامات کے بعد شیخ الاسلام نے ’’محمد ﷺ : رسولِ رحمت‘‘ کے موضوع پر خصوصی خطاب کیا جسے سامعین و حاضرین میں بہت زیادہ سراہا گیا۔
- توہین آمیز فلم کی مذمت کرتے ہوئے آپ نے عالمی راہنماؤں کے نام مراسلہ بھی جاری کیا ہے۔
- شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے دہشتگردی اور دہشتگرد نظریات کے خاتمے کیلئے ہر طبقہ ہائے فکر کے لوگوں کیلئے 46کتابوں پر مشتمل امن نصاب مرتب کر کے عظیم کارنامہ سرانجام دیا جسے مسلم و غیر مسلم معاشروں میں پذیرائی ملی۔ دنیا میں امن و سلامتی کے لیے منہاج القرآن انٹرنیشنل اور شیخ الاسلام کی یہ کاوشیں آج بھی جاری و ساری ہیں۔
دیگر مذاہب کے رہنماؤں کا شیخ الاسلام کو خراج تحسین
بین المذاہب رواداری کے فروغ کے لیے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی خدمات کو نہ صرف عالمی سطح پر پذیرائی ملی بلکہ مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنی والی ممتاز شخصیات نے اس کا برملا اعتراف بھی کیا۔ اِختصار کے پیشِ نظر ذیل میں چیدہ چیدہ شخصیات کے تاثرات پیشِ خدمت ہیں:
1۔ ڈاکٹر مارٹن ڈینیل کرکوف
معروف قانون دان، امریکی اٹارنی اور امریکن کرسچئن کونسل کے ممبر ڈاکٹر مارٹن نے 1989ء میں منہاج القرآن انٹرنیشنل کے مرکزی سیکرٹریٹ پر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔ قبول اسلام کے بعد اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا:
’’میں محض سیر و تفریح کی غرض سے پاکستان آیا تھا۔ یہاں پر اپنے دوست کے ذریعے شیخ الاسلام سے ملاقات ہوئی، ان کی سنگت میں کچھ وقت گزرا تو انہوں نے میرے دل کی دنیا بدل دی۔ اللہ کے ذکر سے میرے اندر ایک عجیب سی کیفیت پیدا کر دی اور مجھے چاروں طرف سفید روشنی نظر آنے لگی۔ یقینا یہ حق کی روشنی تھی۔ میں ان کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے مجھے خدا کا صحیح راستہ دکھایا۔‘‘
2۔ ڈاکٹر کرسٹوفر کریب
لندن سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر کرسٹوفر کریب جنہوں نے مانچسٹر یونیورسٹی سے سرامکس انڈسٹریز میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ اپنے ایک پاکستانی دوست کے ساتھ لاہور آئے تو ان کے دوست جو کہ منہاج القرآن سے وابستہ تھے، انہوں نے ان کی ملاقات شیخ الاسلام سے کرائی۔ دو تین طویل نشستوں اور شیخ الاسلام کی مختلف کتب اور وڈیو خطاب دیکھنے کے بعد ڈاکٹر کرسٹو فر کریب نے اسلام قبول کر لیا۔ قبولِ اسلام کے بعد اپنے تاثرات میں انہوں نے کہا:
’’ میں خدا کی ذات پر یقین نہیں رکھتا تھا لیکن پروفیسر صاحب نے اپنے مضبوط عقلی دلائل سے مجھے قائل کرلیا اور میرا دل خدا کی صداقت و حقانیت اور وجود کا قائل ہو گیا۔ مجھے خوشی ہے کہ میں ڈاکٹر طاہرالقادری کے سبب اسلام قبول کر لیا ہے۔ میں اللہ کی مدد سے ایک اچھی اور خوشحال زندگی کا متلاشی رہوں گا۔‘‘
3۔ برائن ڈی ہنٹ
عوامی تحریک کے زیراہتمام مسلم کرسچئین ڈائیلاگ فورم کے تحت 27 دسمبر 2007ء کو تحریک کے مرکزی سیکرٹریٹ پر کرسمس کی تقریب کے موقع پر اپنے خطاب میں کہا کہ:
’’مجھے آج یہاں اس تقریب میں شرکت کر کے بہت خوشی ہوئی۔ ہمیں اپنے مذاہب میں باہمی برداشت اور رواداری کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ آج ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی سربراہی میں منہاج القرآن مذاہب عالم میں اتحاد اور باہمی رواداری کو فروغ دے رہا ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری ایک روشن خیال رہنما ہیں، جن کے فکر سے دنیا میں قیامِ امن میں مدد مل رہی ہے۔ عالمی امن کے قیام کے لئے ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی کاوشوں کو ہمیشہ سراہا جائے گا۔‘‘
4۔ بشپ اینڈریوفرانسس
15 مارچ 2002 ء کو مسلم کرسچیئن ڈائیلاگ فورم کا 40 افراد کا وفد قائد تحریک سے ملنے آیا۔ اس موقع پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے بشپ کا کہنا تھا کہ:
’’آج نہ صرف پاکستان بلکہ برصغیر کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی مسلمان مذہبی سکالر نے مسیحی حضرات کے ساتھ وہ حسنِ اخلاق کا عملی مظاہرہ کیا ہے جس کی مثال نہیں ملتی۔ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے منہاج القرآن کی جامع مسجد کے دروازے ہمارے لیے عبادت کرنے کیلئے کھول دیئے۔ ڈاکٹر صاحب نے پاکستان میں روحانی طور پر ایک نئے باب کا آغاز کیا ہے۔ دورِ حاضر میں اس امر کی شدید ضرورت ہے کہ مسیحی بائبل مقدس اور مسلمان قرآن مجید کی تعلیمات کی روشنی میں امن و رواداری کے پیامبر بن جائیں۔ تحریک منہاج القرآن کے سرپرست اعلیٰ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری فروغِ امن و محبت اور سلامتی کے عظیم مشن کے قابلِ فخر رہبر و راہنما ہیں۔ آپ نہ صرف مسلمانوں کے انقلابی راہنما ہیں بلکہ مسیحی برادری بھی انہیں اپنا انقلابی قائد تسلیم کر چکی ہے۔ آج انہوں نے جرأت و اخلاص کے ساتھ ہمارے لئے مسجد کے دروازے کھول کر اور ہمیں اپنے مذہب کے مطابق عبادت کرنے کی دعوت دے کر مذہبی رواداری کی اعلیٰ مثال قائم کر دی ہے۔‘‘
5۔ ڈاکٹر جوئیل ہاورڈ
ڈاکٹر جوئیل ہاورڈ 8 مارچ 2011ء کو لندن میں شیخ الاسلام سے چار گھنٹے طویل ملاقات کے دوران اِس قدر متاثر ہوئے کہ اُنہوں نے مغربی دنیا میں اِسلام سے متعلق پائے جانے والی غلط فہمیاں دُور کرنے کیلئے رضا کارانہ طور پر اپنی خدمات پیش کرنے کی خواہش کا اِظہار کیا۔ شیخ الاسلام نے انہیں اپنا Strategic Policy Adviser مقرر کر دیا۔ اُنہوں نے کہا:
’’یہ میرے لیے بہت بڑا اِعزاز ہے کہ مجھے شیخ الاسلام کے لیے اپنی خدمات پیش کرنے کا موقع مل رہا ہے، جو دُنیا بھر میں بین المذاہب اِعتدال اور میانہ روی کے فروغ اور اِنسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے اپنے آپ کو وقف کر چکے ہیں۔ اُن کی تنظیم دُنیا کو امن کا گہوارہ بنانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔‘‘
6۔ پروفیسر جان ایسپوسیٹو
پروفیسر جان ایسپوسیٹو نے شیخ الاسلام کی عالمی سطح پر فروغِ امن و رواداری کے لیے کی گئی کاوِشوں سے متاثر ہو کر اُنہیں 8 نومبر 2010ء کو امریکہ کی Georgetown یونیورسٹی میں خطاب کی دعوت دی۔ شیخ الاسلام کے لیکچر کے دوران امریکی آرمی، نیوی اور ائیرفورس کے کیڈیٹس، تھنک ٹینکس اور دیگر سرکاری اور غیرسرکاری معروف شخصیات بھی موجود تھیں۔ شیخ الاسلام کی اِنتہائی پراثر گفتگو کے بعد پروفیسر John Esposito نے کہا:
’’میں آج سمجھا ہوں کہ دُنیا آپ کو شیخ الاسلام کیوں کہتی ہے۔‘‘
7۔ جان ویئر
بی بی سی اور گارجیئن سے وابستہ صحافی جان ویئر (JOHN WARE) نے لندن میں شیخ الاسلام سے طویل ملاقات کے بعد کہا کہ:
’’میں اپنی صحافتی زندگی میں سربراہانِ مملکت سمیت سیکڑوں بڑی شخصیات کے اِنٹرویوز کر چکا ہوں، مگر جس قدر شیخ الاسلا م ڈاکٹر محمد طاہرالقادری سے متاثر ہوا ہوں اُتنا کسی اور شخصیت سے نہیں ہوا۔‘‘
8۔ ڈاکٹر سردار گنگا سنگھ ڈھلوں
امریکہ کے معروف دانشور ڈاکٹر سردار گنگا سنگھ ڈھلوں واشنگٹن ڈی سی میں سکھ کمیونٹی کے عظیم راہنما ہیں، وہ انٹرنیشنل پولیٹیکل سائنس میں Ph.D ڈاکٹر ہیں۔ 29 جون 2008ء کو محترمہ علینا عزیر ٹوانہ کی رہائش گاہ پر تحریک کے وفد سے ملاقات کے موقع پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا:
’’ میں جناب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری سے عرصہ دراز سے شناسا ہوں اور بین الاقوامی سطح پر جن شخصیات نے علمیت کی بنیاد پر اپنا تشخص قائم کیا ہے، ان میں ڈاکٹر طاہرالقادری بھی شامل ہیں۔ ڈاکٹر صاحب بھی امریکہ تشریف لاتے ہیں تو مجھے بھی میزبانی کا شرف بخشتے ہیں۔ مجھے ان کے ساتھ ایک خاص قلبی لگاؤ ہے، وہ تاریخ کی ایک عظیم انقلابی شخصیت ہیں۔ وہ تمام مذاہب کا علم بھی رکھتے ہیں اور ان کا احترام بھی کرتے ہیں۔ ان کی تحریک بین الاقوامی سطح پر مذاہبِ عالم کے درمیان ہم آہنگی رواداری اور باہمی رابطوں کیلئے موثر کردار ادا کر رہی ہے۔ میں ڈاکٹر طاہرالقادری کے خطابات اور تصانیف سے استفادہ کرتا ہوں۔ انسانی حقوق کے تحفظ اور دیگر بین الاقوامی مسائل پر ان کا موقف بڑا مدلل اور مذہبی تعصبات سے پاک ہوتا ہے۔ وہ ایک عظیم اسلامی راہنما اور سکالر ہیں، دیگر مذاہب کے ماننے والے بھی ان کی قدر اور عز ت کرتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایسی شخصیت انسانیت کیلئے خدا کا بہت بڑا انعام ہوتا ہے۔‘‘
9۔ پنڈت بھگت لال
پنڈت بھگت لال نے مارچ 2012 میں بالمیک مندر نیلا گنبد (لاہور) کے صحن میں محفلِ میلادِ مصطفی ﷺ کے شرکاء سے گفتگو کرتے ہوئے کہا:
’’شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اسلام کا پیغامِ محبت و سلامتی عام کر رہے ہیں۔ اسلامی دنیا کے اس عظیم سکالر نے ہم تک حقیقی اسلامی تعلیمات پہنچائی ہیں جس میں نفرت، انتہا پسندی اور تشدد کا نہیں بلکہ سلامتی، امن اور مذاہب کے احترام کا پیغام ہے۔ شیخ الاسلام نے ویمبلے کانفرنس لندن میں 12 ہزار افراد کے اجتماع میں6 مذاہب کے رہنماؤں اور پیروکاروں کو ایک چھت تلے جمع کر کے ہمارے دل جیت لیے ہیں۔ منہاج القرآن کی کاوشوں کا نتیجہ ہے کہ آج ہم نے مندر میں میلادِ مصطفی ﷺ کرانے کی سعادت حاصل کی ہے۔‘‘
10۔ عرفان جمیل
بشپ آف لاہور عرفان جمیل نے31 اگست 2013 کو منہاج القرآن کے وفد سے ملاقات میں گفتگو کرتے ہوئے کہا:
’’بین المذاہب مکالمہ کے فروغ اور کامیابی کے لیے برداشت اور دوسرے مذاہب کے وجود کو دل سے تسلیم کرنا بہت ضروری ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری اسلام کے پیغامِ امن و محبت اور رواداری کو بڑی خوبصورتی اور مؤثر دلائل کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔ ان کی گفتگو مذاہب کے مابین خلیج کو کم کرنے اور ہم آہنگی کے فروغ میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ ان کا نظریۂ برداشت عالمِ انسانیت کو امن کا گہوارہ بنانے کے حوالے سے قابلِ ستائش ہے۔‘‘
حاصلِ کلام
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری بین الاقوامی پہچان کی نمایاں شخصیت ہیں جنہیں اتحاد، امن اور فلاحِ انسانیت کے سفیر کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔ انسانیت کے لیے آپ کے علمی، فکری، اصلاحی اور سماجی اقدامات کا عالمی سطح پر اعتراف کیا گیا ہے:
- امریکی بائیو گرافیکل انسٹی ٹیوٹ نے آپ کو بیسویں صدی کی نمایاں شخصیت قرار دیا ہے۔ دنیا کے نمایاں مفکر اور دانشور کے طور پر آپ کا نام میلینیم بائیو گرافیکل ڈکشنری میں شامل کیا ہے۔
- انٹرنیشنل بائیوگرافیکل سنٹر کیمبرج نے آپ کو سال 99-1998ء کی شخصیت قرار دیا ہے۔
- تعلیم کے فروغ، فلاحِ عامہ، بین المذاہب رواداری، امن، تحمل، برداشت و بردباری اور اسلام کے پیغامِ امن کے لیے عالمی خدمات میں Universal Peace & Harmony فورم نے آپ کو امن ایوارڈ دیا۔
- آپ کو تحقیق و تصنیف اور انسانی بہبود کے لیے کی گئی کاوشوں پر دوسرے میلینیم کے خاتمے پر 500 مؤثر ترین راہنماؤں میں شامل کیا گیا۔
- منہاج القرآن اور شیخ الاسلام کی عالمی سطح پر قیامِ امن کے لیے مثالی خدمات کے اعتراف پر اقوامِ متحدہ کی اکنامک اینڈ سوشل کونسل نے منہاج القرآن کو خصوصی مشاورتی درجہ دیا ہے۔
- ولادتِ حضرت مسیح علیہ السلام کی تقاریب کے انعقاد پر پاکستان کی مسیحی تنظیموں نے آپ کو Christ of Earth کا لقب دیا۔
- مسیحوں کی نمائندہ تنظیم NCIDE نے آپ کو امن ایوارڈ دیا۔
- برطانوی فارن آفس اور یورپی یونین نے مل کر استنبول میں مسلم آف یورپ کانفرنس کا اہتمام کیا جس کا مقصد یورپ میں رہنے والے مسلمانوں کے چیلنجز اور مسائل کو زیرِ بحث لانا تھا۔ پوری دنیائے اسلام کے جید علماء اور امریکہ و یورپ کی یونیورسٹیز کے ساٹھ سے زائد پروفیسرز میں سے جس شخصیت کا انتخاب بطور Key Note Speaker کیا گیا تھا وہ شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہرالقادری ہی تھے۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری گزشتہ چار دہائیوں سے بین المذاہب رواداری و انسانیت دوستی کے فروغ اور قیامِ امن و محبت کا فریضہ کماحقہ انجام دے رہے ہیں۔ شیخ الاسلام کی جملہ تصنیفات اور خطابات اس بات کے عکاس ہیں کہ آپ نے شدت پسندی و دہشت گردی کے رویوں کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے اور اسلام کے عمومی اصول ’’میانہ روی‘‘ کو اپنایا اور رسول اللہ ﷺ کے عطاکردہ مثبت رویوں، تحمل مزاجی، بردباری، رواداری، انکساری، حلم اور حسنِ اخلاق کو فروغ دیا۔
شیخ الاسلام کی اسی فکر کا نتیجہ ہے کہ آج منہاج القرآن انٹرنیشنل دنیائے اسلام کا سب سے بڑا نیٹ ورک رکھنے والی، 100 سے زیادہ ممالک میں وجود رکھنے والی اور دنیا بھر میں لاکھوں رفقاء ، وابستگان اور محبین کی حامل تنظیم ہے۔ اس ساری مقبولیت اور تنظیمی نیٹ ورک کے باوجود اِس پُرآشوب دور میں احیائے اسلام کی فکر پر سودے بازی کیے بغیر کسی بھی تصادم، انتہا پسندی کا شکار نہیں ہوئی بلکہ امن و محبت، رواداری، بقائے باہمی اور تحمل و برداشت کے روّیوں کو پروان چڑھانے والی تحریک کے طور پر تسلیم کی جاتی ہے، جس کی کاوشوں کی بدولت دنیا کے سامنے اسلام بطورِ دینِ امن و محبت اور اس کی تعلیمات کا ہر پہلو روزِ روشن کی طرح عیاں ہورہا ہے۔