حمد باری تعالیٰ
غبارِ وقت میں گُم قافلوں کو جاننے والا
وہ آنکھوں میں نہ آتی منزلوں کو جاننے والا
پسِ اظہار کی ہر صَوت و صُورت سے شناسا وہ
وہ دل سے ہونٹ تک، سب فاصلوں کو جاننے والا
حصارِ خوف میں وہ کھولتا ہے دَر سکینت کے
بھنور کی تہہ میں مخفی ساحلوں کو جاننے والا
نہیں پہنائی اوجھل اُس سے کوئی بھی تمنا کی
ہمارے سب دکھوں، سب مشکلوں کو جاننے والا
وہ ہم سے بڑھ کے واقف ہے ہماری ہر ضرورت سے
وہ ہم سے بڑھ کے ہے غافلوں کو جاننے والا
تجسّس کے ہیں سارے گوشوارے سامنے اُس کے
وہ خیر و شر کے سارے حاصلوں کو جاننے والا
بھرم رکھتا ہے وہ خاموش لہجوں کی نِدامت کا
ہجومِ شور میں چُپ سائلوں کو جاننے والا
عقیدت سے عقیدہ تک میں حیرت گر۔۔ وہی تو ہے
وِلاساماں ہنر کے محملوں کو جاننے والا
وہی ہے اِک ریاضؔ اُس کے سوا حقّا نہیں کوئی
دلوں کی جاننے والا، دلوں کو جاننے والا
{پروفیسر ڈاکٹر ریاض مجید}
نعتِ رسولِ مقبول ﷺ
آیتیں پڑھتا چلوں اور سراپا لکھوں
سارے لمحوں کی جبیں پر ترا اسوۂ لکھوں
میرے لفظوں کو اگر اذنِ حضوری دے دیں
میں بھی اشکوں میں پرو کر تیرا سہرا لکھوں
ان کی توصیف میں ہوں جتنے بھی جملے موزوں
آبِ کوثر سے دھلے ہوں تو قصیدہ لکھوں
ہے ارادہ کہ دکھائوں وہ جمالِ سیرت
مخفی نظروں سے جو رہتا ہے وہ قُدوَہ لکھوں
فکرِ امروز کی شبِ تار کو روشن کرنے
ترے افکار کی کرنوں کا اجالا لکھوں
ہو عطا فرصت و اخلاص و محبت آقاa
تیرے کردار کی عظمت کا حوالہ لکھوں
خالقِ ارض و سماء کھاتا ہے قسمیں جن کی
اُن ادائوں کو بھلا کیسے مرے شاہا لکھوں
میں نہ جامی ہوں نہ رومی ہوں نہ سعدی نہ رضا
خود کو عُشاق کے کوچے کا میں ذرّہ لکھوں
اے مرے شاہِ اُممؐ نظرِ کرم ہو مجھ پر
ہو اجازت تو میں خود کو ترا منگتا لکھوں
کاش چمکے تری قسمت کا ستارا ’’بندے‘‘
لفظ مل جائیں تو بوصیری سا قصیدہ لکھوں
ڈاکٹر علی اکبر الازہری}