تعلیم و تربیت ہر اِنسان کی تعمیرِ شخصیت اور تشکیلِ کردار کے لیے اِنتہائی ضروری ہے۔ ہر اِنسان اپنی زندگی میں تعلیم و تربیت کے مختلف مراحل سے گزرتا ہے۔ تعلیم و تربیت کا تعلق براہِ راست اِنسان کے ماحول سے ہے۔ اس کے گرد و پیش کا ماحول اس کی شخصیت پر مثبت اور منفی اَثرات مترتب کرتا ہے۔ ہر اِنسان کی تعلیم و تربیت کا پہلا مدرسہ ماں کی گود اور گھر کا ماحول ہوتا ہے۔ تعلیم و تربیت کو اُس وقت چار چاند لگ جاتے ہیں، جب ماں باپ خود اَعلیٰ تعلیم و تربیت یافتہ ہوں اور دنیوی مناصب کے ساتھ ساتھ نہ صرف روحانیت کے بھی اَعلیٰ مقام پر فائز ہوں بلکہ مختلف اساتذۂ کرام کے مختلف نظریات اور مشارب و مسالک کے جامع ہوں تو پھر ایسے گھر میں جب کسی کی علمی و روحانی تربیت ہو تو وہ دُنیا کی مؤثر و محبوب شخصیت بن جاتی ہے۔ ایسا فرد جب والدین کی عطا کردہ وُسعتِ نظری و قلبی کولے کر اِصلاحِ معاشرہ کے لیے نکلتا ہے تو وقت کے اکابر اساتذہ ایسے شخص کو اپنا شاگرد بنانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔
19 فروری 1951ء مطابق 12 جمادی الاوّل 1370ھ بروز پیر جھنگ جیسے مردم خیز شہر میں پیدا ہونے والے گوہرِ نایاب کو آج دنیا شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے نام سے جانتی ہے۔ 19 فروری کا یہ عظیم دن ملتِ اِسلامیہ کی تاریخ میں اَعلیٰ ترین دنوں میں شامل رہے گا، کیونکہ اس دن ایسی ہستی نے جنم لیا جو اُمت کی مسیحا ہے اور آئندہ صدیوں تک اَہلِ علم و فن نے اس کی فکرِ رسا سے رزقِ شعور لینا ہے۔
سینکڑوں جہات کو اپنی شخصیت میں سمیٹ کر تجدید و اِحیاء دین کی منزل کی طرف بڑھنے والی یہ عظیم المرتبت ہستی زندگی کی 70 بہاریں دیکھ چکی۔ داڑھی کے بالوں کی سیاہی؛ سفیدی میں بدل چکی مگر اس کا عزم و حوصلہ پہاڑوں سے زیادہ مضبوط اور غیر متزلزل دکھائی دیتا ہے۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدظلہ العالی کی یہ خوش قسمتی ہے کہ آپ کو حضرت فرید ملّت ڈاکٹر فرید الدین قادریؒ جیسے دینی و دنیوی علوم میں ماہر اور سلوک و تصوف میں روحانی مراتب پر فائز، مختلف مشارب کو یکجا کرنے والے بلند پایہ استاد ملے کہ جنہوں نے اپنے فرزند کی تعلیم و تربیت کو وہ مستحکم اور اَعلیٰ بنیادیں فراہم کی کہ جن پر اَہلِ علم و فن اور اَہلِ تصوف و روحانیت میں سے ان کا ہر استاذ اور مربی اپنے حصے کی عمارت تعمیر کرتا چلا گیا اور آج اُسی بنیاد پر اُستوار یہ شخصیت شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری بانی و سرپرستِ اعلیٰ تحریک منہاج القرآن کے نام سے جانی جاتی ہے۔
حضرت فریدِ ملّت ڈاکٹر فرید الدین قادریؒ کی علمی و روحانی تربیت کا ہی نتیجہ تھا کہ زمانۂ طالب علمی میں جب شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ اپنے مرشد و مربی حضور قدوۃ الاولیاء سیدنا طاہر علاء الدین القادری الگیلانی البغدادیؒ سے ملنے جاتے تو حضور پیر صاحبؒ معمول سے ہٹ کر آپ کے لیے قیام فرماتے اور آپ کو گلے لگاتے۔ آپ کے مریدوں میں سے جو آپ کے زیادہ قریب تھے، وہ پیر صاحب سے عرض کرتے کہ حضور! آپ حسبِ معمول نوجوانوں، عمر رسیدہ مریدوں اور علماء کرام سب سے کرسی پر مصافحہ فرماتے ہیں اور کسی سے بھی معانقہ نہیں فرماتے مگر یہ نوجوان کون ہیں جن کے لیے آپ کھڑے بھی ہوجاتے ہیں اور اُن سے معانقہ بھی فرماتے ہیں؟ حضور پیر صاحبؒ بس اتنا فرما دیتے کہ ہاں! ہم کسی سے معانقہ نہیں کرتے مگر یہ نوجوان جس کے بارے میں آپ پوچھتے ہو کہ یہ کون ہے، اس کے بارے میں آپ کو بعد میں پتہ چلے گا کہ یہ کون ہے؟ یعنی آپ کا اشارہ شیخ الاسلام مدظلہ کے تابناک و روشن مستقبل اور چار دانگِ عالم میں آپ کی علمی و روحانی شہرت کی طرف ہوتا کہ مستقبل میں اللہ رب العزت آپ کو انتہا درجہ عزت و اکرام اور علمی و روحانی مقام سے نوازے گا اور دُنیا آپ کو مجدّدِ دین اور شیخ الاسلام کے القاب سے جانے گی۔ یہ سب آپ کے والدِ گرامی حضرت فریدِ ملتؒ کی تربیت کا نتیجہ تھا جو آج آپ کی شخصیت میں نظر آتا ہے۔
ابتدائی تعلیم اور اساتذہ کرام
تاریخ میں شاذ ہی ایسی ہستیاں ہوں گی جن کی علمی اور فکری تربیت اُن کے گھر سے ہوتی ہے۔ بچپن ہی سے حضور شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ میں وہ علمی جرأت پیدا کر دی گئی تھی کہ آپ پرائمری سطح کے طالبِ علم کے طور پر جھنگ شہر میں تقاریر کیا کرتے اور جھنگ کے زمانۂ طالبِ علمی میں ہی باقاعدہ مناظر کے طور پر متعارف ہوئے کیوں کہ آپ وسیع المطالعہ تھے اور ابتدائی ایام سے ہی ہر موضوع پر خوب دسترس رکھتے تھے۔ انہی معلومات کی بنیاد پر زیرِ مطالعہ مضمون میں اُن کتب کی تفصیل دی جارہی ہے جس سے بخوبی اندازہ ہوسکتا ہے کہ شیخ الاسلام نے اپنے بچپن اور لڑکپن میں کس قدر اَعلیٰ درجے کی کتب کا مطالعہ فرما لیا تھا۔
حضور شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ نے مختلف فنون میں ابتدائی درسی کتب 1959ء سے پڑھنا شروع کیں اور تقریبا 11 سال میں یعنی 1970ء میں دورہ حدیث مکمل کیا۔
- 1963ء میں اپنے والدین ماجدین کی معیت میں حج بیت اللہ اور زیارتِ روضہ اَطہر کی سعادت حاصل کی۔ 1963ء ہی میں مدینہ طیبہ میں قطبِ مدینہ حضرت مولانا ضیاء الدین مدنی ؒ(1297ھ-1401ھ/1879ء-1983ء)، خلیفہ مجاز حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی ؒ(1272ھ- 1340ھ/1856ء-1921ء)، کے ہاں آپ کی رسمِ بسم اللہ بروز پیر بعد نمازِ فجر ادا ہوئی۔ اس طرح آپ کی باقاعدہ تعلیم کا سلسلہ بابِ جبریل کے بالمقابل مدرسۃ العلوم الشرعیہ سے ہوا۔
- سات آٹھ ماہ حرمین شریفین کے قیام کے دوران مکہ معظمہ کے عظیم شیوخ میں سے محدثِ حرم حضرت علوی بن عباس المالکی جو صحنِ کعبہ شریف میں صحاح ستہ کے اسباق پڑھاتے تھے، ان کے حلقہ درس میں اپنے والدِ گرامی کے ہمراہ شریک ہوئے اور اُن سے براہِ راست سماع کیا۔
- اِسی طرح اپنے والدِ گرامی کی معیت میں حضرت مولانا عبد الشکور مہاجر مدنی سے ’’شفاء شریف‘‘ اور کتبِ احادیث کے سماع کا بھی موقع ملا۔
- اِسی قیام کے دوران میں حضرت مولانا بدر عالم میرٹھی کے حلقات میں بھی شریک ہوئے اور ان سے براہِ راست سماع کیا۔
- حضور شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ نے صرف، نحو، فقہ، فلسفہ، معانی اور عربی ادب کی کئی ابتدائی کتب اپنے والدِ گرامی حضرت فریدِ ملّت ڈاکٹر فرید الدین قادریؒ اور حضرت مولانا عبد الرشید رضویؒ سے مشترکہ طورپر پڑھی تھیں، یعنی کچھ ابواب والد گرامیؒ سے گھر میں اور کچھ اَبواب 1963ء سے 1970ء تک 7 سال کے مختلف اوقات میں حضرت مولانا عبد الرشید صاحب رضویؒ سے جامعہ قطبیہ رضویہ (جھنگ) میں پڑھے۔ مولانا رضوی صاحب علی الصبح تہجد کے بعد سے لے کر رات گیارہ بجے تک مختلف وقفوں کے ساتھ مسلسل آپ کو پڑھاتے تھے۔ آپ کی تعلیم و تدریس کے دوران وہ دیگر تمام طلبہ کے دوسرے اَسباق معطل اور جملہ مصروفیات ترک کر دیتے تھے۔ روزانہ دس سے بارہ فنون کے اَسباق ہوتے تھے۔ تاہم زیادہ تر کتب تفسیر، حدیث، فقہ اور معقولات و منقولات کے جملہ فنون پر مشتمل ہوتی تھیں۔ یوں درسِ نظامی کے جملہ علومِ دینیہ متداولہ کی تکمیل کی گئی۔ جب کہ دورۂ حدیث آپ نے اپنے والدِ گرامیؒ سے 7 سال کے عرصہ میں مکمل کیا۔
- 1966ء میں جب آپ فیصل آباد گورنمنٹ کالج میں داخل ہوئے تو جامعہ رضویہ مظہر الاسلام جھنگ بازار میں شیخ الحدیث حضرت علامہ غلام رسول رضوی سے کچھ اسباق پڑھے۔
زیرِ مطالعہ اِبتدائی کتب
1967ء-1968ء کا عرصہ دو سال آپ فیصل آباد سے روزانہ جھنگ 150 کلومیٹر کا فیصلہ طے کرتے اور اپنے والدِ گرامی سے اِکتسابِ علم کرتے رہے۔ آپ نے صرف، نحو، ادب اور منطق کی تمام کتب و رسائل اپنے والد گرامی ڈاکٹر فرید الدین قادری، مولانا عبد الرشید صاحب رضوی، مولانا عبدالرحمن رضوی، مولانا سعد الدین سیالوی، مولانا اسماعیل قریشی اور مولانا سید محمود الحسن سے پڑھی ہیں۔ ان کتب کے نام درج ذیل ہیں:
1۔ صرف
کتاب الصرف؛ علم الصرف؛ صرف میر؛ علم الصیغہ؛ میزان الصرف؛ منشعب؛ مراح الارواح اور شافیہ۔
2۔ نحو
شرح ابنِ عقیل؛ المفصل؛ کتاب النحو؛ علم النحو؛ نحو میر؛ ہدایۃ النحو؛ شرح مائۃ عامل؛ کافیہ؛ شرح ملا جامی اور شرح شذور الذھب۔
3۔ ادب
مرقاۃ الادب (حصہ اَوّل و دوم)؛ مقاماتِ حریری؛ دیوانِ متنبی؛ دیوانِ حماسہ؛ سبعہ معلقات؛ قصیدہ بردہ اور دیوانِ حسان (منتخب)۔
4۔ منطق و حکمت
ایساغوجی؛ صغریٰ/اَوسط/ کبریٰ؛ تعریف الاشیاء؛ تیسیر المنطق؛ مرقات؛ میزان المنطق؛ تہذیب؛ شرح تہذیب؛ قطبی مع میر قطبی (الرسالۃ الشمسیۃ)؛ سُلّم العلوم؛ کتاب الاشارات۔
5۔ علم المعانی و البیان (بلاغہ)
تلخیص المفتاح؛ مختصر المعانی؛ المطوّل، یہ کتب حضرت فریدِ ملّت ڈاکٹر فرید الدین قادریؒ اور حضرت مولانا عبد الرشید صاحب رضویؒ سے مشترکہ طورپر پڑھی تھیں۔
6۔ اُصول الفقہ
اُصول الشاشی؛ نور الأنوار؛ حسامی؛ سراجی؛ اُصول البزدوی (کنز الوصول اِلیٰ معرفۃ الأصول)؛ التوضیح والتلویح؛ مسلّم الثبوت۔ یہ کتب حضرت فریدِ ملّت ڈاکٹر فرید الدین قادریؒ اور حضرت مولانا عبد الرشید صاحب رضویؒ سے مشترکہ طورپر پڑھی تھیں۔
- درج ذیل کتب کا اپنے والد گرامی حضرت فریدِ ملّت ڈاکٹر فرید الدین قادریؒ کی نگرانی میں شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ نے خود مطالعہ کیا جب کہ حضرت فریدِ ملّتؒ نے خاص مقامات کی توضیح و تشریح بیان فرمائی:
الأشباه والنظائر؛ بدایة المجتهد؛ الرسالة للإمام الشافعی؛ المستصفٰی للإمام الغزالی؛ الإحکام؛ البحر المحیط.
7۔ الفقہ
ما لا بُدَّ منہ؛ مُنیۃ المصلّی مع شرح کبرٰی؛ نور الإیضاح؛ حاشیۃ الطحطاوی؛ قدوری؛ کنز الدقائق؛ شرح الوقایہ؛ الھدایۃ: أوّلین وآخرین (منتخب)۔ یہ کتب حضرت فریدِ ملّت ڈاکٹر فرید الدین قادریؒ اور حضرت مولانا عبد الرشید صاحب رضویؒ سے مشترکہ طورپر پڑھی تھیں۔
8۔ عقائد و علم الکلام
اِس مضمون کی بعض کتب جیسے تکمیل الإیمان؛ بغیۃ الرائد فی شرح العقائد (فارسی)، شرح المواقف اور شرح المقاصد کو علامہ کاظمی شاہ صاحبؒ سے پڑھا۔ جب کہ درج ذیل کتب اپنے والدِ گرامی حضرت فریدِ ملّت ڈاکٹر فرید الدین قادریؒ کی نگرانی میں آپ نے خود پڑھیں اور انہوں نے خاص مقامات کی توضیح و تشریح بیان فرمائی:
مقالات الإسلامیین؛ العقیدة النسفیة؛ شرح العقائد النسفیة؛ حاشیه خیالی؛ حاشیه نبراس (علی شرح العقائد النسفیة)؛ العقیدة الطحاویة؛ شرح العقیدة الطحاویة؛ الفتاوی الحدیثیة؛ الحاوی للفتاوٰی؛ الیواقیت والجواهر فی بیان عقائد الأکابر؛ المعتقد المنتقد مع المستند المعتمد.
9۔ اُصول الحدیث
مقدمۃ المشکٰوۃ اور شرح نخبۃ الفکر یہ دونوں کتب مذکورہ بزرگ ہستیوں سے مشترکہ طورپر پڑھی تھیں۔ جب کہ درج ذیل کتب اپنے والد گرامی حضرت فریدِ ملّت ڈاکٹر فرید الدین قادریؒ کی نگرانی میں آپ نے خود پڑھیں اور انہوں نے خاص مقامات کی توضیح و تشریح بیان فرمائی:
مقدمة ابن الصلاح مع شرح العراقی (التقیید والإیضاح)؛ الرسالة المستطرفة؛ نظم المتناثر فی الحدیث المتواتر؛ ألفیة فی مصطلح الحدیث؛ التقریب للنووی؛ التدریب علی التقریب للسیوطی.
10۔ الحدیث
مشکوة المصابیح؛ ریاض الصالحین؛ الموطأ (للإمام مالک) مع المسوّٰی (للشاه ولی الله الدهلوی)، الموطأ للإمام محمد؛ معانی الآثار؛ مشکل الآثار؛ صحیح البخاری مع فتح الباری؛ عمدة القاری؛ إرشاد الساری، صحیح مسلم مع شرح النووی وإکمال المعلم؛ جامع الترمذیمع شرح العرف الشذی؛ تحفه الأحوذی؛ سنن أبی داود؛ سنن النسائی؛ سنن ابن ماجه مع انجاح الحاجه، شمائل الترمذی؛ بلوغ المرام مع شرح سبل السلام.
مذکورہ کتب آپ نے حضرت فریدِ ملّت ڈاکٹر فرید الدین قادریؒ اور حضرت مولانا عبد الرشید صاحب رضویؒ سے مشترکہ طورپر پڑھی تھیں۔ جامع المسانید (مسانید الإمام الأعظمؒ) کا مطالعہ والد گرامی کی نگرانی میں خود کیا اور انہوں نے خاص مقامات کی توضیح فرمائی۔
11۔ ترجمہ اور تفسیر
ترجمہ کنز الایمان مع خزائن العرفان، شاہ ولی اللہ کا فارسی ترجمہ فتح الرحمان، تفسیر الجلالین مع حاشیۃ الصاوی، تفسیر البیضاوی (منتخب)
یہ کتب حضرت فریدِ ملّت سے پڑھی تھیں جبکہ درج ذیل کتب کو اپنے والد گرامی کی نگرانی میں آپ نے خود پڑھا اور انہوں نے خاص مقامات کی توضیح و تشریح بیان فرمائی:
تفسیر البغوی؛ تفسیر ابنِ کثیر؛ تفسیر الکشاف؛ تفسیر الخازن؛ تفسیر المدارک للنسفی؛ تفسیر المظہری؛ عرائس البیان؛ تفسیر ابن العربی۔
علاوہ ازیں مولانا محمود الحسن اور مولانا اشرف علی تھانوی کے ترجمہ قرآن کا تقابلی مطالعہ کیا تھا۔
12-13۔ علوم القرآن اور اُصول التفسیر
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی ’الفوز الکبیر‘ اور امام سیوطی کی ’الاتقان‘ حضرت فریدِ ملّتؒ سے پڑھی تھیں۔ جب کہ البرھان فی علوم القرآن اور التفسیر والمفسرون کو اپنے والدِ گرامی حضورفریدِ ملّت ڈاکٹر فرید الدین قادریؒ کی نگرانی میں خود پڑھا اور انہوں نے خاص مقامات کی توضیح و تشریح بیان فرمائی۔
14۔ الفضائل والسیرۃ النبویۃ
قاضی عیاض کی ’الشفا‘ اور ملا علی قاری کی ’شرح الشفا‘ حضرت فریدِ ملّت سے پڑھی تھیں۔ جب کہ امام سیوطی کی الخصائص الکبریٰ (منتخب)، المواہب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی اور جواہر البحار للنبہانی اپنے والدِ گرامی حضورفریدِ ملّت ڈاکٹر فرید الدین قادریؒ کی نگرانی میں خود پڑھیں اور انہوں نے خاص مقامات کی توضیح و تشریح بیان فرمائی۔
15۔ التصوف
الرسالۃ القشیریۃ، منازل السائرین، المنقذ من الضلال، التعرّف (فارسی) مع شرح التعرّف (4 جلدیں) اور عوارف المعارف حضرت فریدِ ملّت ڈاکٹر فرید الدین قادریؒ سے پڑھی تھیں۔ جب کہ طبقات الصوفیۃ؛ کشف المحجوب؛ الحکم العطائیۃ؛ إیقاظ الھمم فی شرح الحکم؛ البرھان المؤید اور کتاب اللمع اپنے والدِ گرامی حضورفریدِ ملّت ڈاکٹر فرید الدین قادریؒ کی نگرانی میں خود پڑھیں اور انہوں نے خاص مقامات کی توضیح و تشریح بیان فرمائی۔
16۔ السلوک والمعرفۃ
فتوح الغیب؛ سرّ الأسرار؛ فصوص الحکم؛ القول الجمیل؛ سطعات؛ ھمعات؛ لمحات؛ الخیر الکثیر وغیرہ حضرت فریدِ ملّتؒ سے پڑھی تھیں۔ جب کہ غنیۃ الطالبین؛ شرح الجامی علی الفصوص؛ جواہر النصوص فی حل کلمات الفصوص؛ الإنسان الکامل فی معرفۃ الأواخر والأوائل؛ الإبریز؛ مثنوی مولانا روم؛ مکتوباتِ امام ربانی اور انفاس العارفین اپنے والدِ گرامی فریدِ ملّت ڈاکٹر فرید الدین قادریؒ کی نگرانی میں خود پڑھیں اور انہوں نے خاص مقامات کی توضیح و تشریح بیان فرمائی۔
17۔ الحکمۃ الشرعیۃ والمقاصد الإسلامیۃ والعلوم المختلفۃ
کتاب الخراج اور کتاب الأموال حضرت فریدِ ملّتؒ سے پڑھی تھیں۔ جب کہ إحیاء علوم الدین؛ الأحکام السلطانیۃ؛ مقدمۃ ابن خلدون؛ حجۃ اللہ البالغۃ (منتخب) اور رحلۃ ابن بطوطۃ (متفرق مقامات) اپنے والدِ گرامی حضرت فریدِ ملّت ڈاکٹر فرید الدین قادریؒ کی نگرانی میں خود پڑھیں اور انہوں نے خاص مقامات کی توضیح و تشریح بیان فرمائی۔
کثیر غیر نصابی کتب کا مطالعہ
درسیات کے زمانے میںاِنہی چودہ سالوں میں حضرت شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ نے اپنے والد گرامی حضرت فرید ملتؒ کے حکم سے کتبِ کثیرہ کا مطالعہ کیا۔ ایک نشست میں حضرت شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ نے خود فرمایا:
’’ابا جی قبلہ کتابیں منتخب کرکے مجھے دیتے اور میں اَسباق کے علاوہ اُن کا مطالعہ خود جاری رکھتا یعنی اس بارہ سالہ زمانہ طالب علمی میں بعض ایسی کتب بھی زیر مطالعہ رہیں جو باقاعدہ نصاب میں شامل نہیں تھیں۔ عام طور پر ایسی کتب زمانہ طالب علمی میں اس طرح باقاعدہ سبقاً نہیں پڑھتے جیسے کتبِ درسیات پڑھ رہے ہوتے ہیں۔‘‘ شیخ الاسلام مزید فرماتے ہیں:
قبلہ ابا جی نے مجھے اِن کتب کا مطالعہ کرنے کا حکم دے رکھا تھا۔ چھوٹی کتابیں ہوتیں تو خود ہی ساری پڑھ لیتا لیکن اگر کثیر مجلدات پر مشتمل بڑی کتاب ہوتی تو اُس میں قبلہ ابا جی خود خاص آیات، رکوعات، اور عقائد، توحید و رسالت، اخلاق، تصوف، روحانیت اور معاشرتی معاملات کے مخصوص موضوعات اور منتخب مقامات کی نشان دہی فرما دیتے تو میں اُن چنیدہ مقامات کا مطالعہ کرتا تھا۔ جہاں کہیں کوئی اشکال ہوتا تو نشان لگا لیتا اور شام کو قبلہ ابا جی وضاحت طلب مقامات کی توضیحات فرماتے اور اشکال بھی رفع کرتے۔ مطالعہ خود کرتا تھا مگر مقامات وہ تجویز کرتے تھے۔ پھر خاص مقامات پر نشان لگا دیتے کہ یہ ضرور پڑھیں اور ان کے علاوہ بھی میں اپنے چناؤ سے پڑھتا تھا۔ اِس طرح میں اُن کی براہ راست نگرانی میں اُن کتب کا مطالعہ کرتا تھا تاکہ صرف درسی کتب پر ہی انحصار نہ رہے بلکہ اُس کے ساتھ اور دیگر کتب کے مطالعہ سے علم میں وسعت آئے، بنیاد بنے کہ تشریحات اور توضیحات کیسے ہوتی ہیں۔ [ان تمام کتب کا تذکرہ گزشتہ سطور میں کر چکے ہیں۔]
’’اِس طرح بہت سی کتب پڑھانے کا یہ اُسلوب تھا۔ یہاں یہ بات بھی بطور خاص قابل غورہے کہ حدیث کی کتب ’صحیح بخاری‘ اور ’صحیح مسلم‘، ’سنن اربعہ‘ اور ’موطا‘ میں نے تین بار پڑھی ہیں۔ پہلی مرتبہ بارہ سال کے عرصے کے آخری تین چار سال میں متداول اُسلوب کے مطابق پورے اسباق پڑھے اور پوری کتب ختم کی تھیں۔ اُس وقت اباجی قبلہ اور مولانا عبدالرشید رضوی صاحب نے پورا دورہ کرایا۔‘‘
مختلف علماء کے دروس میں شامل ہو کر سماعِ کتب
شیخ الاسلام نے 1970ء میں دورۂ حدیث ختم کرلینے کے بعد صحاح ستہ کی کتب کے منتخب اَسباق دو مرتبہ مختلف اساتذہ سے پڑھے اور کئی دیگر سے سماع بھی کیا۔
- لاہور میں 1972ء-1973ء کے دو سالہ قیام کے دوران میں ابو البرکات حضرت علامہ سید احمد قادریؒ (1344ھ-1399/1906ء-1978ء) کے درسِ حدیث میں شریک ہوتے رہے اور ان سے ’صحیح بخاری‘، ’صحیح مسلم‘ اور ’سنن اَربعہ‘ کے بعض اسباق دہرائے۔
- اسی دوران میں جامعہ اشرفیہ کے شیخ الحدیث مولانا ادریس کاندھلوی کے دروس میں بھی جا کر وقتا فوقتا صحاح ستہ کا سماع کیا۔
- بعد ازاں غزالی زماں حضرت علامہ سید احمد سعید کاظمی امروہی (1331ھ-1413ھ/ 1913ء-1995ء) کی صحبت اور شاگردی اختیار کی۔ 1973ء کے اواخر اور 1974ء کے اوائل میں کچھ ماہ علامہ کاظمی شاہ صاحب کے گھر شام کو ’بخاری‘ و ’مسلم‘ اور ’سنن اربعہ‘ کے بعض ابواب دہرائے اور ان سے اکتسابِ فیض کیا۔ جہاں سے آپ کی دینی قابلیت اور علمی استعداد و بصیرت کے پیش نظر طریقِ محدثین پر آپ کو سندِ حدیث عطا کی گئی۔
نامور شیوخ سے سماعِ کتب اور حصول اِجازات و اسانید
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے بعد کے زمانوں میں نامور شیوخ کے پاس جاکے اُن سے کچھ مقامات کی قرأت کی اور سماع کیا۔ کچھ احادیث اُنہوں نے قرأت کی اور شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ نے سماع کیا اور پھر اُنہوں نے شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ کو اجازات و اسانید دیں۔
شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ نے علم الحدیث، علم التفسیر، علم الفقہ، علم التصوف والمعرفۃ، علم اللغۃ والادب، علم النحو والبلاغۃ اور دیگر کئی اِسلامی علوم و فنون اور منقولات و معقولات کا درس اور اَسانید و اِجازات اپنے والد گرامی سمیت ایسے جید شیوخ اور کبار علماء سے حاصل کی ہیں، جنہیں گزشتہ صدی میں اِسلامی علوم کی نہ صرف حجت تسلیم کیا جاتا ہے بلکہ وہ حضور نبی اکرمa تک مستند و معتبر اَسانید کے ذریعے منسلک ہیں۔ آپ نے اپنے سلسلۂ سند کی دو کتبِ اَسانید (الاثبات) ’’اَلْجَوَاہِرُ الْبَاہِرَۃ فِی الْأَسَانِیْدِ الطَّاہِرَۃ‘‘ اور ’’اَلسُّبُلُ الْوَہْبِیَۃ فِی الْأَسَانِیْدِ الذَّہَبِیَۃ‘‘ میں اپنے پانچ سو سے زائد طُرقِ علمی کا ذِکر کیا ہے۔
- آپ کے اساتذہ میں عرب و عجم کی معروف شخصیات شامل ہیں، جن میں الشیخ المعمّر حضرت ضیاء الدین احمد القادری المدنی، محدّث الحرم الامام علوی بن عباس المالکی المکی، الشیخ السید محمد الفاتح بن محمد المکی الکتانی، محدثِ اَعظم علامہ سردار احمد قادری، علامہ سید ابو البرکات احمد محدث الوری، علامہ سید احمد سعید کاظمی امروہی، علامہ عبد الرشید الرضوی اور ڈاکٹر برہان احمد فاروقی رحمہم اللہ جیسے عظیم المرتبت علماء شامل ہیں۔
- آپ کو اِمام یوسف بن اِسمٰعیل النبہانیؒ سے الشیخ حسین بن احمد عسیران اللبنانیؒ کے صرف ایک واسطے سے شرفِ تلمذ حاصل ہے۔
- اِسی طرح آپ کو حضرت حاجی اِمداد اللہ مہاجر مکیؒ سے اُن کے خلیفہ الشیخ السید عبد المعبود الجیلانی المدنیؒ کے صرف ایک واسطے سے شرفِ تلمذ حاصل ہے۔
- اِمام الہند حضرت الشاہ احمد رضا خانؒ کے ساتھ صرف ایک واسطہ سے تین الگ طُرق کے ذرِیعے شرفِ تلمذ حاصل ہے۔
علاوہ اَزیں آپ نے بے شمار شیوخِ حرمین، بغداد، شام، لبنان، طرابلس، مغرب (مراکش)، شنقیط (موریطانیہ)، حضرموت (یمن) اور پاک و ہند سے اِجازات حاصل کی ہیں۔ اِس طرح شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی ذاتِ گرامی میں دُنیا بھر کے شہرہ آفاق مراکزِ علمی کے لامحدُود فیوضات ہیں۔
گویا 1970ء میں بارہ سال کا دورہ حدیث بالالتزام درسیات مکمل کر لینے کے بعد پھر منقطع نہیں کیا۔ مختلف اساتذہ اور شیوخ کے ساتھ دنیا بھر سے اِکتسابِ علم کا یہ سلسلہ 2003ء-2004ء تک جاری رکھا۔ یعنی تیس سال تک جہاں جہاں اساتذہ و شیوخ ملے، علم و معرفت کے فیوض و برکات اپنے دامن میں سمیٹتے رہے۔
یہ وہ کتب تھیں جن کا مطالعہ شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ اپنی ابتدائی زندگی میں فرما چکے تھے۔ جس طرح میں نے عرض کیا کہ بعض ایسے خوش قسمت شاگرد ہوتے ہیں کہ اساتذہ جنہیں اپنا شاگرد بنانے میں فخر محسوس کرتے ہیں اور روحانی شیوخ انہیں اپنا مرید بنانے میں ایک خاص روحانی لذت و فرحت اور کیف و سرور محسوس کرتے ہیں۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری بھی ایسے لوگوں کی فہرست میں ہمیں نہایت اعلیٰ مقام پر فائز نظر آتے ہیں کہ آپ کے اساتذہ بھی آپ پر جا بجا فخر کا اظہار فرماتے اور آپ کے روحانی شیخ حضور قدوۃ الاولیاءؒ بھی آپ کے روحانی اور علمی مقام کے پیشِ نظر آپ سے حد درجہ محبت و شفقت کا اظہار فرماتے۔ اللہ تعالیٰ اس نابغۂ روزگار شخصیت کا سلسلہ ہم پر تادیر سلامت رکھے اور ہمیں ان کے علمی، فکری اور روحانی فیض سے مستفیض فرمائے۔