19 فروری: پاکستان سمیت دنیا بھر میں آباد شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری دامت برکاتہم العالیہ کے لاکھوں چاہنے والے ان کی سالگرہ منانے کا اہتمام کرتے ہیں اور تحدیثِ نعمت کے طور پر ان کی علمی، تحقیقی، اصلاحی و تربیتی خدمات کا تذکرہ کرتے ہیں۔ اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا حضور نبی اکرم ﷺ کے فرامین اور سنت مبارکہ میں سے ہے۔ اللہ رب العزت جب کسی قوم کی حالتِ زار کو سدھارنے کا ارادہ فرماتا ہے تو وہ اپنے فضل اور نعمتوں کا نزول اسی سماج کے بہترین افراد کے ذریعے کرتا ہے اور پھر وہی چنیدہ افراد اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی عطا کردہ بصیرت، فہم و ذکاء، علم و تقویٰ سے راہ گم گشتہ افرادِ معاشرہ کے نظریات اور غور و فکر کے زاویوں کو بدل دیتا ہے۔ سچ کو جھوٹ سے جدا کرتا ہے، نظریہ کے نام پر دجل و فریب کی بیخ کنی کے ساتھ ساتھ امت کی اخلاقی گراوٹ کو پستی سے بلندی اورزوال کو کمال میں بدل دیتا ہے۔ شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ انہی چنیدہ و مقرب بندگانِ خدامیں سے ہیں جنہیں اللہ نے رواں صدی میں خدمتِ دین، اصلاحِ احوال و اصلاحِ معاشرہ اور خدمتِ انسانیت کے لئے چن لیا۔
شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ نے منہاج القرآن کی صورت میں امتِ مسلمہ کو ایک ایسا تجدیدی، تعلیمی، تحقیقی، اصلاحی ادارہ دیا ہے جس کی اہمیت اس دورِپُر فتن میں Compass کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں سیدھے اور بھلائی والے راستے کو صراطِ مستقیم کہا ہے اور صراطِ مستقیم سے ہٹ جانے والوں کی رہنمائی کا ایک الوہی نظام بھی روزِ ازل سے وضع کر دیا ۔ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ تک پیغبمرانِ خدا بندگانِ خدا کو صراطِ مستقیم پر گامزن رکھتے چلے آرہے ہیں۔ دینِ اسلام قیامت تک کے لئے راہِ ہدایت اور ضابطہ ٔ حیات ہے۔ یہ کس طرح ممکن تھا کہ پیغمبروں کی آمد کے سلسلے کے انقطاع کے بعد بندگانِ خدا کو دجالی فتنوں کے سپرد کر دیا جاتا اور ان کی الوہی رہنمائی کا کوئی نظام وضع نہ کیا جاتا؟
حضور نبی اکرم ﷺ کے ارشاد گرامی کی روشنی میں ہر صدی میں قیامت تک ایک مجدد آتا رہے گا، اللہ اُسے حقیقت کے بیان اور بنائے دین کو درپیش چیلنجز اور فتنوں کا مقابلہ کرنے کی علمی صلاحیت اور استعداد عطا کرتا رہے گا۔ اسلام کی تعلیمات کو مسخ کرنے والے فتنوں کا آغاز پہلی صدی ہجری سے ہو گیا تھا۔ پہلے مجدد حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ تھے۔ جب حجاج بن یوسف ثقفی کے ظلم سے دنیا لرز اٹھی تھی، حکمرانی ملوکیت کی بدترین شکل اختیار کر چکی تھی، بیت المال حکمرانوں کی ذاتی جاگیر کی طرح استعمال ہونے لگا تھا، اسلام کا اخلاقی وروحانی پیغام مسخ کیا جانے لگا اور اہل بیتِ اطہار کی ناموس پر اعلانیہ حملے ہونے لگے ، بدعات ومنکرات اور خرافات کا دور دورہ تھا، اسلام کے نام پر قائم اقتدار کو خاندانی بادشاہت میں بدل دیا گیا تو ان خرافات کے قلع قمع کے لئے پہلی صدی ہجری میں اللہ رب العزت نے حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کی صورت میں تجدیدِ دین کا اہتمام فرمایا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ نے اپنے اقتدار کے محض اڑھائی سالوں میں تمام خرافات اور فتنوں کا سدِباب کیااور معاشرہ کو ازسرنو صراطِ مستقیم پر گامزن کیا۔ اسی طرح امام غزالی ؒ، حضرت مجدد الف ثانی ؒاور اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خانؒ اپنے اپنے ادوار میں تجدیدی فریضہ انجام دیتے رہے۔
اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ گزشتہ 4 دہائیاں اسلام کی بنیادی تعلیمات کے خلاف فتنوں سے بھری ہوئی تھیں، اسلام کے نام پر قتال کو جائز قرار دیا گیا اور لاکھوں کلمہ گو مسلمانوں کو تہِ تیغ کر دیا گیا۔ فقہی و شرعی اختلافِ رائے کو ایمان اور کفر کا معاملہ بنایاگیا۔ بین المذاہب رواداری، بین المسالک ہم آہنگی کے لئے قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق علمی، اصلاحی، عملی کردار کی ادائیگی بھی کفر و الحاد کے فتوئوں کی زد میں آگئی، خودساختہ مذہبی نظریات کے تحت ریاست کے اندر ریاست قائم کرنے کے جواز گھڑ لیے گئے ۔ فلسفۂ جہاد کی من پسند تعبیر وتفسیر کے ذریعے خون ریزی کی سند حاصل کی گئی۔ خواتین کی تعلیم و تربیت پر بھی فتوئوں کے نشتر چلنے لگے، امت کو عملاً فرقہ واریت کی آگ میں جھونک دیا گیا۔ عدمِ برداشت، فکری تنگ نظری اور انتہا پسندی اپنی خوفناک شکل کے ساتھ ظاہر ہوئی۔ قرآن و سنت کی حقیقی تعلیمات کے برعکس خودساختہ روایات کے ذریعے دینِ مبین کی تشریحات کا چلن عام تھا۔ سب سے بڑھ کر جس خوفناک مذہبی رویے نے جنم لیا وہ رویہ آقائے دو جہاں حضرت محمد ﷺ سے اظہارِ محبت و عقیدت کو خودساختہ روایات کے تحت محدود کرنے پر مبنی تھا۔ بین المذاہب و بین المسالک مکالمہ شجر ممنوعہ تھا۔فقہی اختلافات کی بنیاد پر سماجی تعلقات کو ختم کر دینا عام سی بات تھی۔ اس ماحول میں مجددِرواں صدی شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے 600صفحات پر مشتمل فتویٰ کے ذریعے اپنوں اور اغیار کو باور کروایا کہ اسلام جبر وتشدد نہیں بلکہ دینِ امن و سلامتی ہے اور آپ نے شد و مد کے ساتھ اس قرآنی فکر کو عام کیا کہ اسلام میں ایک انسان کا قتلِ ناحق پوری انسانیت کا قتل ہے اور یہ کہ اسلام کی تعلیمات عالمگیر قیامِ امن کی سب سے بڑی محرک و داعی ہیں۔ آپ نے بین المذاہب مکالمہ اور بین المسالک ہم آہنگی کے لئے دلائل و براہین کے انبار لگائے اور عملاً منہاج القرآن کے پلیٹ فارم کو بین المذاہب رواداری اور بین المسالک ہم آہنگی کا مرکز بنایا۔
الحمدللہ آج ہر مذہب اور ہر مسلک کے افراد پورے اعتماد اور احساسِ تحفظ کے ساتھ منہاج القرآن کی تقریبات میں شریک ہوتے ہیں۔عالمی میلاد کانفرنس، سیرت النبی ﷺ کانفرنسز، گوشہء درود اور حلقاتِ درود قائم کر کے آقائے دو جہاں حضور نبی اکرم ﷺ سے اظہارِ عقیدت و محبت کا 24گھنٹوں پر محیط ایک سلسلہ قائم کر دیا۔ شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ نے ہر شعبہ میں اصلاحات کا ویژن دیا۔ انتہا پسندی اور تنگ نظری کے خاتمے کے لئے مدارس کے انتظام اور نصاب میں اصلاحات کی جامع فکر دی۔ اس سے پہلے اس موضوع پر کوئی بات کرنے کے لئے تیار نہیں تھا۔ الحمدللہ آج ریاست بھی اس اصلاحاتی ایجنڈے کو اپنارہی ہے اور اس ضمن میں سنجیدہ پیش رفت بھی ہورہی ہے۔ شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ کی عالمگیر دعوتی مساعی سے آج ہر فکری مسئلہ پر مناظرہ یا مباہلہ کی بجائے مکالمہ کا کلچر رائج ہے۔ شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ نے ایک ہزار تصانیف اور ہزار ہا لیکچرز کے ذریعے امتِ مسلمہ کو درپیش سیکڑوں فکری مسائل پر جامع اور مؤثر رہنمائی مہیا کی ہے۔
انسانی زندگی اور علوم و فنون کا کوئی گوشہ اور شعبہ ایسا نہیں ہے جس پر آپ نے خامہ فرسائی نہ کی ہو اور امت کو ایک نئی سوچ اور فکر سے ہم آہنگ نہ کیا ہو۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ آپ نے اپنے تجدیدی کام کو اپنی ذات تک محدود نہیں رکھا بلکہ اسے ایک ادارے کی شکل میں امت کی وراثت بنا دیا۔ آپ نے اپنی فکر کو فقط کتابوں تک محدود نہیں رکھا بلکہ اسے عمل کے قالب میں ڈھالتے ہوئے Institutionalize کیا۔ منہاج یونیورسٹی لاہور، کالج آف شریعہ اینڈ اسلامک سائنسز، منہاج ویمن کالج، منہاج ایجوکیشن سوسائٹی، لارل ہوم سکولز انٹرنیشنل، جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن کے انسٹی ٹیوشنز کے ذریعے علم کا احیاء کیا۔ ریاست مدینہ کے فلاحی نظام کو منہاج ویلفیئر فائونڈیشن اور آغوش آرفن کیئر ہوم کے ذریعے دستیاب وسائل کے تحت عملی جامہ پہنایا۔ آئندہ نسلوں کو علم و فکر کے تحریری خزانوں کا وارث بنانے کے لئے سیکڑوں کتب تحریر فرما دیںاور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے ۔اسی طرح منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹریٹ کی شکل میں ایک ایسا انتظامی اور مالیاتی نظم قائم کیا ہے اگراس ماڈل پر افراد کی تیاری اورریاستِ پاکستان کا مالیاتی نظم قائم ہو جائے تو وطن عزیز سے کرپشن اوربدعنوانی کی لعنت کا خاتمہ ہو جائے۔
دعا ہے اللہ رب العزت ہمارے قائد کو صحت و تندرستی اور عمرِ خضر عطا فرمائے اور وہ اسی آن، بان اور شان کے ساتھ امت کو علمی اور فکری رہنمائی مہیا کرتے رہیں اور ان کا دستِ شفقت کارکنان کے سروں پر ہمیشہ قائم و دائم رہے۔
(محترم شفقت اللہ قادری صاحب نے زیرِ نظر شمارہ کے لئے ایک خصوصی تحریر فراہم کی ہے جس کا عنوان ’’گل سے گلستاں تک خوشبو کا سفر ‘‘ ہے۔ ان کے اس عنوان کو شکریہ کے ساتھ اس اداریے کا عنوان بنایا گیا ہے)۔