سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ورثاء اور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی حصولِ انصاف کی جدوجہد 9 سال کے بعد بھی پوری طاقت، عزم، استقامت کے ساتھ جاری ہے اور حصولِ انصاف کی اس جد و جہد میں شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء کا شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری پر غیر متزلزل یقین اور اعتماد کا اظہار قابلِ فخر اور قابلِ تقلید ہے۔ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے گزشتہ 9 سالوں کا ہر دن حصولِ انصاف کی جدوجہد میں گزارا۔ الحمدللہ اس جدوجہد میں نہ قیادت کے عزم میں کوئی شکن آئی اور نہ ہی شہدائے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ورثاء کے عزم و ہمت اور حوصلے کو وقت کی نمرودی، فرعونی اور قارونی قوت متزلزل کرسکی۔
سانحہ ماڈل ٹاؤن ایک سوچی سمجھی منصوبہ بندی کا نتیجہ تھا اس لیے سانحہ کے فوری بعد قتل و غارت گری میں ملوث افسران و اہلکاران کے خلاف کوئی کاروائی نہ کی گئی بلکہ سانحہ میں حصہ لینے والے تمام افسران و اہلکاران کو بہترین عہدوں سے نوازا گیا، انہیں آؤٹ آف ٹرن ترقیاں دینے کے ساتھ ان کی پسند کی تقرریاں بھی کی گئیں۔
موجودہ صورتحال یہ ہے کہ مورخہ 10-05-23 کو انسداددہشت گردی عدالت نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے مرکزی ملزمان سابق آئی جی پنجاب مشتاق احمد سکھیرا،سابق ڈی آئی جی آپریشن رانا عبدالجبا ر، سابق ایس پی ماڈل ٹاؤن طارق عزیز، سابق TMO نشتر ٹاؤن لاہور علی عباس بخاری کو بھی استغاثہ کیس میں 265-Kکے تحت بری کردیاہے۔ اب ان ملزمان کی بریت کے خلاف بھی شہدا کے وکلاء کی جانب سے لاہور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کردی گئ ہے۔
ظالم کو جو نہ روکے وہ شامل ہے ظلم میں قاتل کو جو نہ ٹوکے وہ قاتل کے ساتھ ہے
جسٹس باقر نجفی کمیشن رپورٹ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے متاثرین کو مل تو گئی تھی لیکن جس میں سانحہ ماڈل ٹاؤن میں قتل وغارت گری کرنے کا ذمہ دار2014کی پنجاب حکومت اور پنجاب پولیس کو ٹھہرایا ہوا ہے لیکن باقرنجفی کمیشن رپورٹ کے ساتھ منسلکہ دستاویزات جس میں ملزمان کے بیان حلفی، ٹیلی فون ڈیٹا ریکارڈ، حساس اداروں کی رپورٹس ودیگردستاویزات شامل ہیں وہ تمام دستاویزات جو جسٹس باقر نجفی کمیشن رپورٹ کے ساتھ منسلکہ تھیں افسوس صد افسوس کہ تمام دستاویزات سانحہ کے متاثرین کو آج تک فراہم نہ کی گئیں ہیں ان تمام منسلکہ دستاویزات کے حصو ل کے لئے 2018 سے لاہور ہائی کورٹ میں رٹ دائر ہوئی ہے جو کہ ابھی تک زیر سماعت ہے جسکا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔
نواز، شہباز حکومت کا قتل و غارت گری کروانا اور بعد ازاں اپنے آپ کو تحفظ دینے کیلئے قانونی منصوبہ بندی کرنے پر تمام اقدامات، نئی تقرریاں، برطرفیاں، تبادلے، خصوصی مراعات، توسیع ملازمت، آرڈینینس اور ترمیمات یہ سب واضح کرتے ہیں کہ شہباز شریف بطور وزیر اعلیٰ پنجاب اس پورے سانحہ کے ذمہ دار ہیں۔ وقوعہ سے پہلے تیاری اور اس کے بعد تحفظ دینے کے اقدامات ان کے جرم کو ثابت کرتے ہیں۔ اس وقوعہ کی پولیس ہی صر ف ذمہ دار نہیں ہے بلکہ حکومت پنجاب اور وفاقی حکومت بھی اتنی ہی ذمہ دار ہے جس کی ایما پر یہ وقوعہ پیش آیا ہے۔
سانحہ ماڈل ٹاؤن برپا کئے جانے کے پس پردہ ایک ہی مقصد تھا کہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو پاکستان میں ظلم کے نظام کے خلاف سیاسی جدوجہد کرنے سے ہر صورت روکنا ہے۔ آج بھی شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی غیر جانبدار تفتیش مکمل کروائی جائے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے متاثرین حصولِ انصاف کے لئے مسلسل قانونی چارہ جوئی کر رہے ہیں۔ ہمیں قوی امید ہے کہ بے گناہوں کو قتل کرنے والے ایک نہ ایک دن اپنے عبرت ناک انجام سے ضرور دو چار ہوں گے اور سانحہ ماڈل ٹاؤن کے متاثرین کو انصاف ملے گا۔