مرتبہ: نازیہ عبدالستار
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ.
(القلم، 68: 4)
’’اور بے شک آپ عظیم الشان خلق پر قائم ہیں (یعنی آدابِ قرآنی سے مزّین اور اَخلاقِ اِلٰہیہ سے متّصف ہیں)۔‘‘
قرآن مجید اور سنت نبوی ﷺ پر اگر گہرائی کے ساتھ نظر ڈالی جائے تو پتہ چلتا ہے۔
اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کا دیا ہوا تصور روحانیت اخلاق حسن پر قائم ہے۔
یعنی جتنی روحانیات قرآن شریف میں اور اسلامی تعلیمات میں مذکورہ ہیں ان کی ساری کی ساری بنیاد و اساس اخلاقیات پر ہے اسی طرح قرآن حکیم کے جس مقام کا مطالعہ کیا جائے جہاں اخلاقیات کا ذکر آیا ہے۔ خلق حسن کے جس پہلو کو بھی بیان کیا ہے اس کی روح اور مغز روحانیت ہے۔ روحانیت، اخلاقیات سے جدا نہیں ہے یہ دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ دین میں عبادت کا کوئی پہلو بھی ایسا نہیں ہے جس میں اخلاقیات نہ ہو۔ عبادت کے اس عمل روحانیت میں کوئی خلق ایسا نہیں جو روحانیت سے معمور نہ ہو مگر ہم ان چیزوں کو اس لیے سمجھ نہیں پاتے کیونکہ ہمارے تصورات درست نہیں ہیں اس میں ابہامات وشہبات ہیں، درست اور غلط کی حدود معلوم نہیں کہ کونسی عبادات ہیں جو اس عمل کو مقبول بناتی ہے۔ کون سی نیات ہیں جو داخل ہوجائیں تو عبادت کا عمل عبادت نہیں رہتا۔ بجائے عبادت کے وہ گناہ میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ ہمارے پاس کیونکہ حدودوقیود نہیں ہیں اور نہ ہی تعلیم ہے، اس لیے ہم اس تعلیم و تربیت کے لئے وقت صرف نہیں کرتے اور جن کی ذمہ داری تھی کہ وہ سمجھیں اور سمجھائیں وہ ذمہ داری نبھانے سے قاصر ہیں جس کی وجہ سے ہم نے امت مسلمہ کو نئی نسلوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا ہے۔ ہماری آنکھیں بیدار ہیں مگر در حقیقت ہم سوئے ہوئے ہیں۔
اس لیے انسان پر لازم ہے کہ وہ بیدار ہو۔ آقا علیہ السلام کا امتی ہونے کا دم بھرنے والے توحید کا دعوی کرنے والے آقا علیہ السلام کی نبوت و رسالت پر اعتقاد رکھنے والے کو چاہیے کہ وہ بیدار ہوجائے۔ آج بیدار ہونا اس کے اختیار میں ہے اگر آج وہ بیدار نہ ہوا تو ایک دن آنے والا ہے اس کی خواہش کے بغیر اس کو بیدار کردیا جائے گا۔ اس دن کی بیداری اس کے کسی کام نہیں آئے۔ میرااشارہ موت کے بعد یوم حشر کی طرف ہے۔ اس وقت بیدار ہو کر فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے۔ کیونکہ پلٹ کر آنا نہیں ہوگا۔ لہذا ضروری ہے کہ عقل مند بنیں ہم نے دانشمندی کےمعیار غلط کرلیے ہیں۔ اللہ اور اس کے رسول کی ہاں عقلمند وہ ہے جو اس کے احکامات کی پیروی کرتا ہے جو نافرمان ہیں وہ نادان ہے کیوں کہ وہ اپنا نفع اور نقصان بھول گیا۔ جس کو حق اور باطل کی پہچان نہ رہے وہ نادان ہوتا ہے جسے یہ سمجھ آ جائے وہ دانشمند ہے۔ ہم یہ دعوی کرتے ہے ہمیں علم ہے یہ مغالطہ ہے۔ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے ہاں جو علم عمل میں منتقل نہیں ہوتا وہ علم نہیں ہے۔ جو علم نافع نہیں ہے اس کو اللہ اور اس کے رسول کے یہاں علم کا درجہ نہیں دیا جاتا۔ کیونکہ اللہ رب العزت کہ ہاں علماء کی تعریف یہ ہے انما یخشی اللہ من عبادہ العلماء عالم وہ لوگ ہوتے ہیں جن کو خشیت مل جاتی ہے۔ عمل کے بغیر جتنا بوجھ اپنے کندھوں پر لاد لیں ایک قدم اللہ کی راہ پر نہیں چل سکتے۔ اے بندے ! تیری رفتار قلب کی حد سے متعین ہوتی ہے۔ زبان اور کلام سے متعین نہیں ہوتی۔ تو اللہ سے کتنا دور ہےاور قریب ہے۔ تیرے قرب کا فیصلہ اللہ کے ہاں کبھی تیرے ظاہر سے نہیں ہوتا۔ خواہ ظاہری طور پر کتنی نیکیاں دکھا رہا ہو۔ یہ فیصلہ ہوتا ہے کہ تیرا دل سے کتنا اللہ کے قریب ہے۔ قرب کا فیصلہ باطن سے ہوتا ہے۔ تیرا دل کرے تو اللہ کی بارگاہ میں ہے تو اللہ کو دیکھ رہا ہے۔ اگر تو یہ نہ پا سکے ہر لمحہ ہر قدم پہ اللہ تجھے دیکھ رہا ہے۔ تصور حضوری کا کتنا قائم ہے اور اس پر تو کتنا نگہبان ہے یہ تیرے قرب و بُعد کومتعین کرتی ہے۔ اللہ کے ہاں بُعد مسافتوں کے نہیں ہوتے۔ دل کی حالتوں کے ہوتے ہیں۔ اس لیے تیرے اعضاء شریعت کی حدود میں رہیں۔ تیرا جسم شریعت کی حدود کا پابند ہو۔ اگر آپ کے اعمال شریعت کے خلاف ہوں۔
پھر وہ انسان کو راہ دیتے ہیں۔ نفس کبھی بھی اللہ کے قریب نہیں ہونے دے گا، نفس کبھی بھی آپ کے قلب و باطن میں اللہ کے قرب کا احساس اور شعور بیدار نہیں ہونے دے گا۔ نفس کا گٹھ جوڑ شیطان کے ساتھ ہے۔ شیطان نے اللہ کے حضور قسم کھائی ہوئی ہے۔ تیرے بندوں کو بہکاؤں گا، گمراہ کروں گا، راہ ہدایت سے ہٹاؤں گا، سوائے ان کے جو نفس کے چنگل سے نفس کی قید سے آزاد ہوئے۔ اس کا ادراک شیطان کو بھی ہے جو نفس سے دور ہوگئے ہیں ان پر میں حملہ آور نہیں ہوسکتا کیونکہ اس نے حملہ کرنا نفس کے ذریعے سے اور دوسری قسم اس نے یہ کھائی تھی باری تعالیٰ کی بارگاہ میں کہ میرا ہتھکنڈا اور طریقہ یہ ہوگا کہ تو اپنے بندوں میں اکثریت کو شکر نہ کرنے والا پائے گا۔ اکثریت ایسے لوگوں کی بنادوں گا کہ وہ کسی نہ کسی طور پر شاکر نہیں ہوں گے۔
ہر وقت شکوہ کرنے والے ہوں گے۔ مال کی کمی ہے، بے روزگاری ہوگی۔ پیسے کم ہیں، خرچے زیادہ ہیں رشتہ دار اچھے نہیں ہیں، دوست زیادتی کرتے ہیں مجھ سے حسد کرتے ہیں۔ مجھے عزت نہیں دیتے، مجھے قدرو منزلت نہیں دیتے، میرے صحیح مقام پر نہیں بٹھاتے۔ میرا درجہ اوپر نہیں کیا جاتا، تنظیم میں جماعت میں فیملی میں رشتہ داروں میں، بیمار ہوں خدا جانے میں ہی بیماری کے لیے ہوں، کیوں صحت نہیں ہے۔ توانا نہیں اولاد خیال نہیں رکھتی آپ گنتے چلے جائیں کوئی حد نہیں شیطان نے کہا تھا۔ اے باری تعالیٰ! تو اپنے اکثر بندوں کو ناشکر گزار پائے گا۔ یہ جو ناشکر گزاری ہے بہت بڑا ہتھیار ہے شیطان کا جس کے ذریعے وہ بندوں کو اللہ سے دور کرتا ہے جونہی وہ ناشکر گزار ہوتا ہے اس کا ہر عمل بے کار ہوجاتا ہے، اس کا تعلق توحید اللہ سے ٹوٹ جاتا ہے۔ نفس کے ذریعے حملہ کرتا ہے جو نفس سے دور ہوگئے شیطان کا بھی اقرار ہے کہ میں ان پر حملہ نہیں کرسکوں گا۔ اس لیے ضروری ہے کہ تو نفس کی قدر ومنزلت کا اہتمام نہ کر نفس کی قدرو منزلت کوئی قدر نہیں ہے جبکہ ہماری ساری فکر اپنی ذات کو عزت دینے کی ہے۔
اپنے ظاہر کو عزت دینا۔ اسی کو مقام اور مرتبہ دینا اسی کو پہچاننا جہاں سے خود پسندی جنم لیتی ہے۔ ہماری پوری کوشش یہ ہے کہ شاید قدر و منزلت کی جگہ نفس ہے اللہ کے ہاں قدرو منزلت کی جگہ نفس نہیں ہے قلب اور روح ہے جس شخص نے کوئی عمل مخلوق کے لیے کیا کہ مخلوق کی نگاہ میں اس کو قدر و منزلت ملے گی یا کوئی منفعت ملے گی اس کا اللہ کے ہاں کوئی عمل مقبول نہیں ہے وہ عمل نامقبول ہوگیا۔
سوائے فرائض اور واجبات کے۔ فرائض اور واجبات جلوتوں میں ہوتے ہیں یا شریعت کے مقرر کردہ اعمال و حدود جلوتوں میں ہوتے ہیں۔ نماز باجماعت پڑھنی ہے تو جلوت میں ہوگی حج کرنا ہے جلوت میں ہوگا۔ اعتکاف بیٹھنا ہے تو جلوت میں ہوگا جو احکام فرائض اور واجبات ہیں وہ جلوت لوگوں کے سامنے ہوتے ہیں مگر اصل اعمال کی جو روح ہے وہ خلوت میں ہوتی ہے کیونکہ اللہ خلوت میں ملتا ہے۔ اللہ آپ کی خلوتوں کو دیکھتا ہے خلوت کا وجود آپ کا دل ہے سلف صالحین میں سے کئی نے کہا اللہ رب العزت اپنے بندوں کے دل کو ایک دن میں ستر سے لے کر ستر ہزار تک اپنے بندوں کے دل پر نگاہ ڈالتا ہے۔ اسے اپنے بندے کی خلوت گاہ اتنی مقبول ہے وہ دیکھتا ہے کہ اس کی خلوت گاہ میں ’’میں‘‘ ہوں یا کوئی اور ہے۔
اس لیے اعمال کی قدر و منزلت دل کی خلوت گاہ میں بنتی ہے جب آپ نے دل کا حال بدلنے میں محنت نہ کی۔ پوری کوشش ظاہر کو سنوارنے کی تو اعمال صالح اور قرب الہٰی کی طرف جانے کی جتنی کاوش تھی اس کی پہلی بنیاد خراب ہوگئی۔ اس لیے آقا علیہ السلام نے فرمایا:
انما الاعمال بالنیات.
اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے۔
اور نیت کا تعلق آپ کے جسمانی اعضاء کے ساتھ نہیں نیت کا تعلق آپ کے دل سے ہے۔ نیت کا محل قلب ہے آپ دلوں کے باب میں جیسا سوچتے ہیں وہ سوچ کسی کو نظر نہیں آتی۔ آپ ہاتھ سے چھو نہیں سکتے کوئی دیکھ کے نہیں کہہ سکتا بری نیت ہے کہ اچھی نیت ہے۔ نہ وہ محسوس ہوتی ہے نہ اس کی کوئی تپش ہے نہ ٹھنڈک ہےنہ کان سے سنائی دیتی ہے نہ ہاتھ سے چھوئی جاسکتی ہے۔
نیت آپ کے قلب اور دماغ کے اندر ایک کیفیت ہے ایک ارادہ ہے۔ ایک خیال ہے، ایک خواہش ہے وہ چھپی ہوئی ہے وہ خود خلوت ہے اور آقا علیہ السلام نے فرمایا وہ سارے اعمال جو دکھائی دیتے ہیں جن کا آپ ارتکاب کرتے ہیں ان کی قبولیت کا مدار اس نیت پر ہے جو دکھائی دیتا ہے۔ عمل کی قبولیت کا مدار اس شے پر ہے جو دکھائی نہیں دیتی جو باطن میں ہے۔ اپنی نیتوں کی اصلاح کریں قلبی تصورات کی اصلاح کریں اپنے اندر کے خیالات کی اصلاح کریں۔ باہر کے سارے اعمال ختم کردیئے جائیں گے۔ اگر ان کے پیچھے نیتیں نور کے ساتھ مضبوط نہیں ہیں اگر بنیاد خراب ہوجائے اوپر جتنی تعمیر کرلیں۔ قابل اعتماد نہیں ہوتی وہ گر جاتی ہے۔
آپ اس گھر کی بنیاد کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں اس لیے اعمال سیرت و کردار نیکیاں اطاعتیں ان سب کی بنیاد خشت اول نیت قلب کی کیفیت اور دل و باطن کا حال ہے۔ اگر بنیاد مضبوط ہو اور تعمیر میں بعد میں کوئی نقص بھی آجائے اس کی تلافی ہوسکتی ہے، کھڑکی میں نقص آجائے گا دیوار میں نقص آجائے گا، اوپر چھت کے کناروں میں کوئی نقص آجائے گا، چنائی میں تعمیر میں جہاں بھی نقص آجائے اس کا ازالہ ہوسکتا ہے، تلافی ہوسکتی ہے۔چند اینٹیں ہٹائیں پتھر ہٹائیں دوبارہ تعمیر کرلیا مگر بنیاد خراب ہوجائے اس کا ازالہ نہیں ہوسکتا۔ اس لیے اپنے اعمال کی بنیاد خالصتاً لوجہ اللہ، اللہ کے اخلاص پر رکھو اور اللہ کے اخلاص کے بغیر جو عمل بھی کریں گے اور عمل کی جتنی بڑی عمارت کھڑی کریں گے وہ کام نہیں آئے گی۔
وہ کیوں نہیں آئے گی چونکہ اخلاص نہیں ہے تو پھر عمل کی عمارت کا دوسرا نام بدل جاتا ہے اس کو ریاء کہتے ہیں جس عمل میں اخلاص نہ رہا۔ نیت کے اندر للہیت نہ رہی خواہ آپ عبادت کرلیں نماز پڑھ لیں اس میں خالصتاً للہیت نہیں ہے اس میں مخلوق کا خیال آگیا تو اس کا نام ریاء رکھ دیا جاتا ہے۔ اس طرح انسان کا انسان کے ساتھ کوئی بھلائی کا عمل ہو اس میں اللہ کے علاوہ کسی اور کا خیال آگیا تو اس کا نام تبدیل کردیا جاتا ہے۔
قیامت کے دن اللہ رب العزت ایک عالم کو کھڑا کریں گے ایک امیر تاجر کو کھڑا کریں گے ایک شہید کو ایک غازی کو کھڑا کریں گے عالم سے پوچھیں گے تو نے میرے لیے کیا کیا؟ وہ کہے گا باری تعالیٰ میں نے تیری خاطر علم حاصل کیا۔ میں عالم دین بنا۔ میں نے تیرے دین کے علم کو پھیلایا۔ پوری عمر دین کی خدمت کی۔ اللہ رب العزت نے فرمایا حدیث قدسی ہے اللہ پاک فرمائیں گے تو نے جھوٹ بولا تو نے میرے دین کا علم اس لیے پھیلایا کہ لوگ تجھے عالم جانے، تیری عزت کریں تیری تکریم کریں۔ اپنے نفس کے لیے کیا جو تو چاہتا تھا وہ تجھے مل گیا فرشتوں کو حکم ہوگا۔ لے جاؤ اس ریاکار کو جہنم میں ڈال دو۔
پھر تاجر کھڑا ہوگا اس سے پوچھا جائے گا تو نے میرے لیے کیا کیا وہ کہے گا باری تعالیٰ! میں نے کما کر غریبوں پر اتنا خرچ کیا یتیموں پر اتنا رشتہ داروں پر اتنا سوسائٹی پر پروجیکٹ کیے مدرسے بنائے ،مسجدیں بنائیں یہ سن کر اللہ پاک فرمائے گا تو جھوٹ بولتا ہے تو نے سارا کچھ اس لیے کیا۔ لوگ تجھے سخی جانے۔ پورے معاشرے میں تیری عزت ہو، تیری تکریم ہو، ٹیکس کی چھوٹ ملے۔ مطلب یہ کہ تم نے ان مفادات کے لیے کیا جو جو تو چاہتا تھا مل گیا۔ آج کے لیے تیرا کچھ نہیں بچا۔ حکم ہوگا اس ریا کار کو اٹھاؤ اور جہنم میں لے جاؤ۔ ایک جان دینے والا۔ دنیا جس کو شہید کہتی ہے اس کو اٹھایا جائے گا تو نے میرے لیے کیا کیا وہ کہے گا باری تعالیٰ میں نے تیرے دین کا نام بلند کرنے کے لیے وطن کی حفاظت کے لیے میں نے جنگ لڑی حتی کہ میں نے جان دے دی۔ اللہ پاک فرمائیں گے تو جھوٹ بولتا ہے۔ تو نے جنگ اس لیے لڑی شاید بچ کے آگیا غازی ہوں گا، تو میڈل ملیں گے، تمغے ملیں گے، زمینیں ملیں گی، پلاٹ ملیں گے، مفادات ہوں گے اور بڑی شہرت ہوگی ترقی ہوگی۔ تیری موت واقع ہوگئی۔ فرمایا جائے گا اس ریا کار کو جہنم میں پھینک دو۔ وہ عمل جو دیکھنے میں نیک عمل دکھائی دیتا ہے جو نیک عمل کی ماہیت کو تبدیل کررہی ہے وہ نظر نہیں آتی لیکن صاحب نیت کو پتہ ہے کہ میری نیت کے اندر کیا کیا پوشیدہ ہے۔ ہم عبادت اور نیکی اللہ کے لیے کررہے ہوتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ کچھ اور نیت بھی ہوتی ہے ہم نے خالق و مخلوق کو ملا رکھا ہوتا ہے۔
ہم کچھ خالص مخلوق کے لیے کرتے، کچھ خالص اللہ کے لیے کرتے ہیں، کچھ اللہ و مخلوق دونوں کے لیے کرتے ہیں اس کو چیک کرنے کا ایک طریقہ ہے۔ اگر کوئی آپ کو اہمیت نہ دے تو آپ تنگی محسوس کرتے ہیں جس سے فوری پتہ چل جاتا ہے۔ یہ کام آپ نے اللہ تعالیٰ کے لیے نہیں کیا۔ اگر اللہ کے لیے کیا ہوتا تو تنگی محسوس نہ کرتے۔ یہ عمل بتارہا ہے کہ عمل خالصتاً لوجہ اللہ نہیں تھا۔ اس سے نکلیں کچھ لوگ نکل چکے ہوں گے۔ مخلوق کو خالق کے درمیان سے نکالنے کا طریقہ یہ ہے کہ نفس کے درمیان جنگ لڑو۔ عبادت اگر اخلاص سے خالی ہوجائے تو اس کا نام ریا ہے۔ ریاکار کے صرف کپڑے صاف ہوتے ہیں اس کا دل نجس ہوتا ہے، ریاکار اپنی نیت کو سمجھنے کو تیار نہیں۔ ریاکار اپنے ظاہر کو آباد کرتا ہے۔ اسے نہیں معلوم اس کا باطن ویران ہوچکا ہے جو ریا کا لباس ہم نے اوڑھ رکھا ہے۔ تہیہ کریں کہ اس لباس کو اتار دیں جب یہ اتر جائے گا تو اللہ رب العزت اپنی قدرت و نعمت کے لحاظ سے اخلاص کا نیا لباس عطا فرمائے گا۔ وہ لباس حقیقی اطاعت و زہد ورع کا ہوگا۔ اس لباس کا اترنا گویا نفس پرستی و دنیا پرستی کا لباس اتر ناہے۔
جب آخرت کا لباس پہنیں گے تو اللہ کے حضور جانے کے قابل ہوں گے جب اللہ کے حضور پیش ہونے کی تیاری کریں گے تو اللہ آپ کو وہ لباس دے گا۔ حسن و خوبصورتی بھی دے گا۔ وہ طاقت و قدرت اور نعمت بھی دے گا۔ ساری ہمتیں جمع کرکے آپ کو مضبوط و مستحکم کرے گا پھر سارا جہاں آپ کو نقصان پہنچانا چاہیے تو نہیں پہنچاسکے گا۔ نقصان اسی کا ہوتا ہے جو لوگوں سے فائدے کی امید رکھتا ہے جب لوگوں سے فائدے کی امید ختم ہوگئی تو آپ اللہ کے ہاتھوں میں چلے گے جب لوگوں کے تعلق سے فنا ہوتے ہیں تب اللہ تعالیٰ اپنے تعلق میں بقا عطا فرماتا ہے۔ یہ تعلق ہو تو آخرت میں جائے بغیر آپ کو رسم آخرت مل جاتا ہے۔
اولیاء اللہ رہتے دنیا میں تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے دنیاوی زندگی میں ان کو حسن آخرت عطا کردیا تھا۔ یہ حسن آخرت ہے کہ اگر شفاعت کریں گے تو ان کی شفاعت مانی جائے گی۔ ان کی تقریب ہوگی۔ ملائکہ گروہ درگروہ ان کو لے کر آئیں گے ان کو تختوں پر بٹھائیں گے۔ یہ عزت و شان و شوکت حسن آخرت ہے۔
اس لیے پوری زندگی اللہ کی اطاعت کرنی چاہیے ظاہر و باطن میں، معصیت نہیں کرنی چاہیے۔ اللہ کی موافقت کی راہ اختیار کرنی چاہیے۔ قرآن سمجھنا اور پڑھنا چاہیے۔ پھر قرآن سے ادب زندگی سیکھنا چاہیے۔
جو قرآنی ادب کو سیکھ لیتا ہے اللہ پاک اس کی حفاظت فرماتا ہے۔ سنت نبوی و سیرت طیبہ سیکھو۔ قرآنی آیات کی کیفیات آپ کی حالت بن جائے۔ سنت نبوی سے تفکر و تدبر سیکھو۔ اپنے معاملات آقا علیہ السلام کی مطابقت میں رکھیں۔ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے ماتحت رہیں۔ ابدال کو اس لیے ابدال کہتے ہیں کہ وہ اپنے ارادے کو اللہ کے ارادے سے بدل دیتا ہے۔ ایسا کرنے سے سچے طالبان حق بن جائیں گے۔ جب اللہ کو محبوب بنالیا جائے تو اس کے ہوتے ہوئے کسی کی طلب و خواہش نہیں رہتی۔ ہم ہر حرص کی طلب رکھتے ہیں، طالبان دنیا زیادہ ہوتے ہیں اور طالبان آخرت قلیل ہوتے ہیں اور مزید یہ کہ ان میں سے اللہ کے طالب ان سے بھی قلیل ہوتے ہیں۔
پہلے زمانے میں بھی ہوں گے اور آخری زمانے بھی ہوں گے۔ فرعون جو خدائی دعویٰ کرتا تھا۔ موسیٰ علیہ السلام کو ان کی طرف بھیجا تو فرمایا اس سے نرمی سے بات کرنا۔ شاید وہ میری طرف آجائے یا میرا خوف اس کو مل جائے جو اپنے آپ کو انا رب کم الاعلیٰ کہتا ہے۔ اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا۔ مگرجو ہر نماز میں سبحان ربی الاعلیٰ کہتے ہیں جو مولا کو اعلیٰ کہیں ان پر اللہ کی اپنی رحمت کا عالم کیا ہوگا۔ اس کو اپنے قریب لانے کے لیے اللہ تعالیٰ کتنا خیال رکھتا ہوگا۔ اس دن ہر ایک کا ٹائیٹل ہوگا سارے پردے اٹھ جائیں گے۔ یہ بھی دیکھا جائے گا جس کا کھانا حلال تھا۔ جس کا کھانا مشکوک تھا۔ ایک ایک چیز کا فرق کیا جائے گا۔ ملائکہ دیکھیں گے اس کی خواب گاہ دنیا تھی یا آخرت تھی۔ قرب الہٰی کا طالب تھا یا قرب دنیا کا طالب تھا۔ یہ کون شخص ہے اس کا دوست کون ہے۔خلوت میں اس کا ہم نشین کون ہے پہنچائیں جائیں گے۔ جھوٹا ہے یا سچا ہے پہچانا جائے گا۔ اس کا ساتھی شیطان ہے کہ رحمن ہے۔ اس کی خواہشات آخرت کے لیے تھی یا دنیا کے لیے تھی۔ اس کے دوست شیطان جن و انس ہیں۔ یا اولیاء اللہ ہیں اس کی صحبت کیا تھی؟ ہم نشین کون تھا۔ سب پہچانے جائیں گے۔ ان ساری چیزوں نے آخرت کے مقام کو متعین کرنا ہے۔ جب ساری چیزیں سمجھ میں آجائیں تو اپنے آپ کو بدل لینے میں دیر نہ کریں۔
رفاقت کیا ہے؟ اصل تو یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی رفاقت نصیب ہوجائے۔ منہاج القرآن کو اس نوکری کے لیے مخصوص کیاہے کہ رسول اللہ ﷺ کی رفاقت نصیب ہوجائے۔ قرآن مجید میں فرمایا ہے جو اللہ و رسول ﷺ کی اطاعت کرتے ہیں اللہ پاک انہیں نبیین صدیقین، شہداء صالحین کی رفاقت نصیب کرتا ہے۔ جن کو یہ معیت نصیب ہوجائے وہ کتنے اچھے رفیق ہیں۔ اس معیت کے قابل بنو ورنہ خالی فارم فل کرکے منہاج القرآن کے رفیق بن جانا یہ ٹائیٹل کسی کے کچھ کام نہیں آئے گا۔ کلمے سے بڑھ کر کسی کی ممبر شپ کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ آقا علیہ السلام کا کلمہ لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ ہے۔ کیا اس کلمے سے بڑھ کر بھی کوئی رفاقت کائنات میں ہے؟ باقی رفاقتیں تو چھوٹی رفاقتیں ہیں۔ اگر آپ خود نہ بدلے تو رفاقت فارم کام نہیں آئے گا۔ رفاقت کا مطلب ہے اپنی حقیقی رفاقت و صحبت کو بدل لیں۔ آج کا دن ہے زمین کے اوپر ہیں اچانک کل کا دن آئے گا۔ لوگ ڈھونڈیں گے آپ زمین پر نظر نہیں آئیں گے۔ تب زندگی بدلنے کے مواقع ختم ہوں گے۔
پتھر کی طرح نہ بنیں جتنا سنایا جائے پھر بھی نرم نہ ہوں۔ قرآن جتنا پڑھا جائے ایک لمحہ کے بعد بے اثر ہوجائے۔ ایسے بنیں کہ دائمی عبرت حاصل ہو۔ اپنے اعمال کو صالح کرنے والے بن جائیں، ایسے بن جائیں جہاں خیر کی بات ہو اور لے کر اٹھیں جو کچھ بھی کریں ہمیشہ آخرت کومقدم رکھیں۔ دنیا کو مقدم رکھنے والا شخص ہمیشہ خسارے میں رہتا ہے۔ دولت مندی یہ ہے کہ دولت مند بننے کی حوص نہ رہے۔ قلب کی بے نیازی تمام بیماریوں کا علاج کردیتی ہے۔ عرفاء کہتے ہیں: طالبان مولا کی بھی قسمیں ہیں ایک صرف اللہ کا طلبگار ہونا، اگر کوئی خواہش کرے کہ میں واصل باللہ بن جاؤں۔ یہ خواہش کرنا بھی غیر کی خواہش ہے۔ سوائے مولا کے کسی چیز کی حوص نہیں ہوتی۔ رفتہ رفتہ بڑھتے جاتے ہیں یہ اس کے لیے آسان ہوتا ہے جو اپنے دل میں اللہ کو ایک جانتا ہے۔ اللہ کی رضا بدن اور زبان سے نہیں ہوتی یہ قلب سے ہوتی ہے۔ زہد و تقویٰ بھی دل سے ہوتا ہے۔
ہماری ساری سوچیں ہمیں مخلوق کی طرف کھینچتی ہیں۔ ہماری فکر کا محور خلق ہے جو جتنے قدم مخلوق کی طرف چلے گا اتنے قدم دل اللہ سے دور ہوتا چلا جائے گا۔ اس لیے اچھی صحبت اختیار کرنی چاہیے۔ سب سے اچھی صحبت قرآن کی صحبت ہے۔ قرآن کو ترجمہ کے ساتھ پڑھیں۔ اگر قرآن کی صحبت میں جم جائیں تو وہ آپ اللہ کی بارگاہ میں لاکر کھڑا کردے گا۔ پھر سنت مبارکہ اور حدیث کی صحبت ہے۔ صحبت کا مطلب ہے جڑ جائیں۔ ہر عمل آقا علیہ السلام کی فکر کے مطابق ہو۔ آقا علیہ السلام کی سنت کی صحبت اختیار کریں وہ آپ کو آقا علیہ السلام کی صحبت میں لاکر کھڑا کردیتی ہے کیونکہ اللہ اور رسول اللہ ﷺ کی صحبت اپنے بندوں پر ہمیشہ قائم رہتی ہے۔