ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، بے روزگاری، کرپشن، عوام کے حقوق کی بازیابی اور قانون وآئین کی بالادستی کے لیے ماہ جون 2014 کو پاکستان آکر حکومت کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کیا تو حکومت بوکھلا اُٹھی اور اوچھے ہتھکنڈوں پر اُتر آئی اور اس تحریک کو کچلنے کی منصوبہ بندی شروع کر دی اور فیصلہ کیا کہ ادارہ منہاج القرآن اور ڈاکٹر طاہرالقادری کی رہائش گاہ پر لگے ہوئے بیرئیرز کو ہٹانے کے بہانے دھاوا بولا جائے گا اور جو بھی اس راہ میں رکاوٹ بنے گا اسکو ختم کردیا جائے گا۔ بیرئیرز جو کہ عدالت عالیہ لاہور کے حکم سے پولیس نے خود اس وقت کے SP ماڈل ٹاؤن ایاز سلیم کی موجودگی و نگرانی میں لگوائے تھے اور رٹ پٹیشن 22367/2010 کی سماعت کے دوران عدالت عالیہ کے حکم سے مورخہ 20/01/2011 کو ایاز سلیم سابق SP ماڈل ٹاؤن لاہور عدالت عالیہ میں حاضر ہوئے اور اپنا بیان قلمبند کروایا جس میں عدالت عالیہ کو تحریری یقین دہانی کروائی کہ انہوں نے ادارہ منہاج القرآن اور گردونواح کے مکینوں کی سیکیورٹی کے لئے 16 پولیس اہلکاران کو 24 گھنٹے متعین کردیا ہے اور متعلقہ سڑکوں پر جرسی بیرئیرز (Jersey Barriers) رکھوادیے ہیں۔
یہ بیرئیرز اس لیے لگے تھے کہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے سال 2010 میں پاکستان اور دنیا کے دیگر علاقوں میں ہونے والی دہشت گردی کے خلاف ایک عالمی اہمیت کا فتویٰ جاری کیا جو کہ 600 صفحات پر مشمتل دہشت گردی اور فتنہ خوارج کتاب کے نام سے تحر یر شدہ ہے جسے پوری دنیا میں بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی اور اس سے پاکستان اور دنیا بھر میں دہشت گرد مشتعل ہو کر بوکھلااُٹھےاور ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے جانی دشمن بن گئے۔ پاکستان اور دنیا بھر کے دہشت گروں نے ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو جان سے مار دینے کی دھمکیاں دینا شروع کردیں جس پر پاکستان کی مختلف ایجنسیوں نےڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو ان دہشت گردوں کے مذموم عزائم کے بارے میں تحریری طور پر آگاہ بھی کیا۔
ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی تحریک کو روکنے کے لیے جو منصوبہ بندی کی گئیں تھیں اس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے مورخہ 16 جون 2014 کو رانا ثناءاللہ وزیر قانون کی زیر صدارت اجلاس ہوا۔ فیصلہ کیا گیا کہ میاں نواز شریف، میاں شہباز شریف کے فیصلے کی تکمیل کے لیے ادارہ منہاج القرآن کے اردگرد رکاوٹوں کو ہٹانے کے بہانے دھاوا بولا جائے گااور جو بھی شخص اس میں رکاوٹ بنے گااُسے ختم کردیا جائے۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن پاکستان کی تاریخ کا ایک بھیانک کھیل ہے۔ جس میں گورنمنٹ نے طے شدہ منصوبہ کے تحت منہاج القرآن اور پاکستان عوامی تحریک کے معصوم نہتے اور بے گناہ کارکنان کے خون سے ہولی کھیلی۔ خونی اور دہشت گردی پر مبنی مناظر موقع پر موجود لوگوں کے علاوہ پوری دنیا نے میڈیا چینلز پر براہ راست دیکھے جس میں 14 افراد شہید ہوئےجس میں 2 خواتین بھی شامل تھیں اور 100 سے زائد افراد کو سیدھی گولیاں ماری گئیں اور ظلم وریاستی دہشت گردی کی ایک نئی تاریخ رقم کی گئی قطع نظر اس سے کہ حکومت اعتراف گناہ کے ساتھ مظلوموں کی اشک شوئی کے اقدامات کرتی لیکن پولیس کی مدعیت میں جھوٹی FIR No.510/14درج کرکے زخمی کارکنان اور مقتولین کے لواحقین کو گرفتار کرکے دنیا کی تاریخ میں ظلم وناانصافی کی نئی مثال قائم کردی۔ مقدمہ نمبر 510/14میں JIT تشکیل پائی جس میں دو ایجنسیوں (MI,ISI) کی نمائندگی بھی شامل تھی۔ جس میں دونوں ایجنسیوں (MI,ISI) نے کہا کہ اس FIR کو ختم ہونا چاہیے۔ لیکن اس کے باوجود اس مقدمہ کا چالان انسداددہشت گردی کورٹ لاہور میں پیش کیا گیا اور جنوری 2015سے اب تک PATکے بے گناہ افراد اس مقدمہ میں پیش ہو رہے ہیں جسمیں 500 سے زائدتاریخیں ہو چکی ہیں MI,ISIکےاس اختلافی نوٹ کی موجودگی میں مقدمہ نمبر 510/14 کا چالان انسداددہشت گردی عدالت میں پیش نہیں کیا جا سکتا تھا۔ لیکن اس کے باوجود انسداددہشت گردی عدالت لاہور میں چالان پیش کیاگیا۔
وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف نے اُسی دن پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ میں سانحہ ماڈل ٹاؤن کی انکوائری کے لیے جوڈیشل کمیشن بنا رہا ہوں میں یہ وعدہ کرتا ہوں کہ جب تک یہ کمیشن دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی نہ کردے میں چین سے نہیں بیٹھوں گا اوراس المناک واقعہ کی تحقیقات کی شکل میں جو بھی ذمہ دار ٹھہرائے گئے انکو قانون کے مطابق کڑی ترین سزا دی جائے گی عدالتی کمیشن اس لئے بنایا گیا ہے کہ اگر مجھے اسکا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ ایک سیکنڈ سے پہلے میں عوام کی عدالت میں حاضر ہوں گا اور جو بھی اس تحقیقاتی رپورٹ میں مجھے تجویز کیا گیا میں اسکومن وعن قبول کرونگا۔
وزیراعلیٰ نے ایک خط کے ذریعہ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کو کمیشن قائم کرنے کی درخواست کی جس پر چیف جسٹس لاہو ر ہائی کورٹ نے مسٹر جسٹس علی باقر نجفی جج لاہور ہائی کورٹ پر مشتمل یک رکنی انکوائری ٹربیونل قائم کیا، جسٹس علی باقر نجفی نے تحقیقات کے دوران انکوائری ٹربیونل آرڈیننس 1969کے سیکشن 11کے تحت Additional Power گورنمنٹ آف پنجاب سے بذریعہ لیٹر 9/TOI مورخہ 20-06-2014 کو مانگی لیکن گورنمنٹ آف پنجاب نے بذریعہ لیٹر نمبری Jud 11-III 9-53/2014مورخہ 27-06-2014 یک رکنی انکوائری ٹربیونل کو ایڈیشنل اختیارات دینے سے انکار کر دیا۔ اور جسٹس علی باقر نجفی کمیشن نے اپنی تحقیقات مکمل کر کے تحقیقاتی رپورٹ حکومت کو ارسال کی۔ جس میں حکومت پنجاب اور پنجاب پولیس کو اس قتل وغارت گری کا ذمہ دار قرار دیا گیا۔
سانحہ ماڈل ٹاؤن پاکستان کی تاریخ کا ایک بھیانک کھیل ہے۔ جس میں طے شدہ منصوبہ کے تحت نواز، شہباز حکومت نے منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹریٹ اور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی رہائش گاہ پر ریاستی دہشت گردی کی جس کی پاکستان کی سیاسی وسماجی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ مورخہ 17 جون 2023 کو شہداء سانحہ ماڈل ٹاؤن لاہور کی نویں برسی ہے۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے متاثرین اور شہداءکے لواحقین 9 سال کا عرصہ گزرجانے کے باوجودبھی انصاف سے محروم ہیں۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن استغاثہ کیس کاٹرائل انسداد دہشت گردی عدالت لاہور میں زیر سماعت ہے۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی غیر جانبدار تفتیش کیلئے اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے لارجربنچ نے مورخہ 5 دسمبر 2018 کو سپریم کورٹ اسلام آباد میں سماعت کی اور سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس کی ازسرنو تفتیش کیلئے نئی JIT بنانے کا فیصلہ ہوا اور مورخہ 3 جنوری 2019 کو پنجاب حکومت نے اے ڈی خواجہ کی سربراہی میں JIT نوٹیفکیشن جاری کردیا۔ جبکہ سپریم کورٹ کے فلور پر سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تفتیش کے لئے تشکیل پانے والی نئی JIT نے مورخہ 14 جنوری 2019 سے لیکر 20 مارچ 2019 تک سانحہ ماڈل ٹاؤن کے تمام زخمی افراد، چشم دید گواہان اور شہداء کےلواحقین سے بیانات قلمبند کرلیے تھے اور سانحہ ماڈل ٹاؤن کے متاثرین کی طرف سے بھی نئی JIT کے روبرو پہلی دفعہ تمام زبانی ودستاویزی ثبوت شہادتوں کی شکل میں پیش کردیے گئے ہیں۔ اور اسی طرح نئی JIT نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے تمام ملزمان بشمول سابق وزیراعظم میاں نوازشریف، موجودہ وزیراعظم میاں شہباز شریف اورموجودہ وفاقی وزیرداخلہ رانا ثناءاللہ، ڈاکٹر توقیر شاہPSOٹوسابق وزیراعلیٰ پنجاب، سابق آئی جی مشتاق سکھیرا سے مختلف پہلوؤں پر تفتیش مکمل کرلی تاکہ معلوم ہو سکے کہ یہ وقوعہ کیوں ہوا ہے ؟ اس کے پیچھے کیا سازش کارفرماتھی ؟ اس وقوعہ کے پیچھے کو ن کون سے سازشی عناصر موجود ہیں؟ اور یہ سازش کہاں سے چلی ؟ اور کس طرح اس سازش پر عملدرآمد ہوا؟ تو فوری طورپر کچھ قوتیں متحرک ہوگئیں اور انہوں نے 22اپریل 2019کو لاہور ہائی کورٹ کے ذریعہ JIT کی تشکیل کے نوٹیفکیشن کو معطل کروالیااورنئی JIT کو سانحہ ماڈل ٹاؤن کی مزید تفتیش سے روک دیاگیاتاکہ JIT ان تمام ملزمان سابق وزیراعظم نواز شریف، موجودہ وزیراعظم شہبازشریف، موجودہ وزیرداخلہ رانا ثناءاللہ، سابق PSOٹو وزیراعلیٰ پنجاب ڈاکٹر توقیرشاہ ودیگران جنہوں نے اس سانحہ کی منصوبہ بندی کی تھی۔ انکو گنہگارٹھہراکر انسداددہشت گردی عدالت میں چالان پیش نہ کردے اور ان منصوبہ سازملزمان اور سانحہ ماڈل ٹاؤن میں ملوث افرادکے ٹرائل کا آغاز نہ ہوجائے۔ یہاں تک کہ ایڈووکیٹ جنرل آفس کو بھی اس کیس کی فیکسیشن اور بینچ کی تشکیل کا علم نہ ہو سکا۔ جب ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو معلوم ہوا تو وہ فوری طورپر عدالت میں پہنچ گئے اور فل بنچ کے سامنے ساری صورتحال رکھی تو ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو لاہور ہائی کورٹ نے توہین عدالت کا نوٹس جاری کردیاگیا۔
JITکے نوٹیفکیشن کی معطلی کے خلاف فل بنچ کے فیصلہ کے عبوری حکم مورخہ 22 مارچ 2019 کے خلاف سپریم کورٹ اسلام آباد میں CPLAS دائر کی تھیں جس کی سماعت مورخہ 13 فروری 2022 کوسابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزاراحمد خاں کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی جس میں سپریم کورٹ نے لاہور ہائی کورٹ میں نیا بینچ تشکیل دے کر اور ترجیحاً تین ماہ کے اندر فیصلہ کرنے کی ڈائریکشن دی تھی لیکن افسوس صد افسوس کہ سپریم کورٹ کی 3 ماہ کی ڈائریکشن کے باوجود بھی لاہور ہائی کورٹ کا لارجربینچ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کی سربراہی میں سانحہ ماڈل ٹاؤن میں بننے والی ایک غیر جانبدار JIT کا فیصلہ نہ کرسکا۔ یہ پوری قوم کےلئے ایک لمحہ فکریہ بھی ہےجس ملک میں دن دیہاڑے 17 جون 2014 کو شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی رہائش گاہ اور ادارہ منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹریٹ پرنوازشہبازحکومت نے معصوم، نہتے اور بے گناہ کارکنان کے ساتھ ریاستی دہشت گردی کروائی اوردہشت گردی کے مناظر پوری دنیانے میڈیا چینلز کے ذریعے براہ راست دیکھے اورسانحہ ماڈل ٹاؤن کیس میں تمام شواہد ریکارڈ پر موجود ہونے کے باوجود اور سانحہ کو 9 سال سے زائد کا عرصہ بیت جانے کے باوجود بھی انصاف کے ادارے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے متاثرین کو انصاف نہ دلواسکے اور وہ اشرافیہ جس نے ریاستی دہشت گردی کروائی تھی آج پھر دوبارہ اقتدار پر براجمان ہیں۔
JIT کی تشکیل کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں جو رٹ دائر ہوئی تھیں جسکی وجہ سے JIT کا نوٹیفکیشن معطل ہے۔ وہ کیسز 4 سال سے زائد عرصہ گزرجانے کے باوجودبھی لاہور ہائی کورٹ کے لارجربینچ کے پاس زیر سماعت ہیں۔ لاہور ہائی کورٹ میں JIT کیس میں اس وقت تک 56 تاریخ پیشیاں ہو چکی ہیں جبکہ لاہور ہائی کورٹ کا بینچ 5 دفعہ تحلیل ہوچکا ہے۔ دسمبر 2022 میں دونوں سائیڈ سے Complete Arguments ہو گئے تھے۔ لیکن Complete Argumentsکے باوجود اس JIT کیس کا فیصلہ نہ ہو سکا۔ بعدازاں جسٹس سردار احمد نعیم لاہور ہائی کورٹ سے ریٹائرڈ ہو گئے۔ جسکی وجہ سے نیا بینچ تشکیل دیا گیا، اور جسٹس مرزا وقاص رؤف کو اس بینچ میں شامل کیا گیا۔ نئے جج کے آنے کی وجہ سے دوبارہ اس کیس میں آغاز سے بحث ہوئی، اب دوبارہ اس کیس میں دونوں سائیڈ سے بحث مکمل ہو چکی ہے لیکن فیصلہ کےلئے کوئی تاریخ پیشی مقرر نہ ہے۔ جن کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔ غیر جانبدارتفتیش سے ہی انصاف کا عمل ٹریک پر آئے گا۔ کسی بھی مقدمہ کے انصاف کےلئے شفاف ٹرائل کا ہونا ضرور ی ہے لیکن شفاف ٹرائل اس وقت تک نا ممکن ہے جب تک شفاف انوسٹی گیشن نہ ہو۔ لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ شفاف ٹرائل تو دورکی بات ابھی تک سانحہ ماڈل ٹاؤن کے متاثرین کو غیرجانبدار تفتیش کا حق ہی نہیں ملا ہے۔ جوکہ پوری قوم کے لئے ایک سوالیہ نشان بھی ہے اس وقت ملک میں دو قانون موجود ہیں اشرافیہ کےلئے الگ قانون اورعوام کے لئے الگ قانون، اشرافیہ میں سے کوئی جرم کرتا ہے تووہ اپنی مال ودولت اورطاقت کےبل بوتے پر ہرسطح پر معاملات کو Mange کرلیتا ہے اور ہمارے اس سسٹم میں بیٹھے ہوئے لوگ ہی ان کوتحفظ فراہم کرتے ہیں جبکہ عام آدمی جرم نہ بھی کرے تو اسکو جھوٹے مقدمے میں سزاہوجاتی ہے۔
جب تک کسی مقدمہ کا فیصلہ نہ ہو جائے اس وقت تک دوبارہ تفتیش ہو سکتی ہے اگر عدالت میں مقدمہ کا چالان اور فرد جرم بھی عائد ہو جائے تو بھی دوبارہ تفتیش سے روکا نہیں جا سکتا ہے۔ کوئی بھی قانون دوبارہ تفتیش سے نہیں روکتا۔ شفاف ٹرائل کے لئے شفاف تفتیش کا ہونا ضروری ہے۔
سیکشن 19 انسداددہشت گردی ایکٹ 1997کے تحت ایک سے زائد JIT بنانے میں کوئی قانونی قدغن موجود نہیں ہے بلکہ گورنمنٹ کے پاس اختیار ہے کہ مقدمہ اور حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے شفاف تفتیش کے لئے دوسری، تیسری، چوتھی JIT بھی بنا ئی جاسکتی ہے۔
کراچی 12 مئی واقعہ مقدمہ میں بھی ایک لمبا عرصہ گزرنے کے باوجود سند ھ ہائی کورٹ نے نئی JIT بنانے کا ازخود حکم دیا کیونکہ اس وقت کے حالات ایسے تھے کہ اس وقت شفاف تفتیش نہ ہو سکی تھی۔ اس واقعہ میں اس وقت کے بااثر افراد کے ملوث ہونے کی اطلاعات تھیں، اس وجہ سے شفاف تفتیش نہیں ہوئی تھی۔
سانحہ ماڈل ٹاؤن کا مقدمہ بھی بڑاحساس ہے۔ اس میں نواز، شہبازحکومت ملوث ہے۔ جس نے پہلی والی JIT جس میں تمام پولیس افسران، ان کے زیر اثر تھے جس کی وجہ سے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی شفاف تفتیش نہ ہونے دی گئی۔ بلکہ اس سانحہ میں کسی بھی زخمی، چشم دید گواہان اور شہداء کے لواحقین کے بیانات بھی قلمبند نہیں کئے گئے۔ جسکی وجہ سے نئی JIT تشکیل دینے کی قانونی ضرورت پیدا ہوئی۔ ٹرائل کورٹ ازخود فوجداری مقدمہ کی سماعت کے دوران شفاف ٹرائل کے لئے بقیہ شہادت برامدگی، فرانزک اور ڈیجیٹل وغیرہ کے تقاضوں کو پورا نہیں کرسکتی ہے بلکہ صرف اور صرف JIT ہی شفاف ٹرائل کے لئے ان تقاضوں کو پورا کرسکتی ہے۔ اس لئے نئی JIT کو شفاف تفتیش سے روکا نہیں جا سکتا ہے۔
سانحہ ماڈل ٹاؤن کے متاثرین 9سال سے انسداددہشت گردی عدالت سے لیکر سپریم کورٹ آف پاکستان تک حصول انصاف کےلئے مسلسل قانونی چارہ جوئی کررہے ہیں۔ لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ 9سال کاعرصہ گزرجانے کے باوجود بھی سانحہ ماڈل ٹاؤن کے متاثرین انصاف سے محروم ہیں۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن اچانک یا حادثاتی طور پر برپا نہیں ہوا تھا بلکہ نواز، شہباز حکومت کی ایک سوچی سمجھی منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے بیئرز کو ہٹانا تو ایک بہانا تھا اصل مقصد حکومت کے ماورائے آئین وقانون کی طرزحکمرانی کے خلاف شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی تحریک اور جدوجہد کو روکنا تھا۔ نواز، شہباز حکومت کا اصل ایجنڈا ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو اور انکی تحریک کو ختم کرنا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان ناپاک ارادوں سے محفوظ رکھااور الحمداللہ شیخ الاسلام کی آواز اور تحریک منہاج القرآن کا پیغام پوری دنیا کے کونےکونے میں اس وقت گونج رہا ہے۔ شیخ الاسلام نے ہمیشہ آئین وقانون کی بالادستی اور حقیقی جمہوریت کی بحالی کی جدوجہد کی ہے۔
سانحہ ماڈل ٹاؤن JITکی بحالی سانحہ کےانصاف کےلئے اشد ضروری ہے۔ کیونکہ اصل ملزمان نوازشریف، شہبازشریف، رانا ثناءاللہ، ڈاکٹر توقیرشاہ اور دیگر ملزمان جنہوں نے اس سانحہ کی منصوبہ بندی کی تھی۔ ان کو استغاثہ کیس میں ناکافی شہادت کی بنیاد پر انسداددہشت گردی عدالت اور لاہور ہائی کورٹ نے بحثیت ملزم طلب نہیں کیاتھا۔ کیونکہ استغاثہ کی دائر گی کے وقت جو شہادتیں اس وقت دستیاب تھیں وہ استغاثہ کیس میں دے دی گئیں تھیں۔ لیکن کچھ ایسی شہادتیں جن میں ان کا براہ راست ملوث ہوناپایاجاتا ہے۔ وہ تمام کی تمام شہادتیں نواز، شہباز حکومت جانے کے بعد اور جسٹس باقرنجفی کمیشن رپورٹ آنے کے بعد میسرآئی تھیں۔ وہ تمام کی تمام شہادتیں نئی JITکو فراہم کردی تھیں اس سے پہلے جتنی بھی انوسٹی گیشن ہوئی تھی وہ حقائق کے برعکس، جانبداراور یکطرفہ ہوئی تھیں۔ پہلی والی JITنے جتنی بھی انوسٹی گیشن کی تھی وہ صر ف اور صرف ملزمان کو بچانے اور اصل حقائق کو چھپانے کےلئے کی تھیں۔ تاکہ اصل حقائق منظر عام پر نہ آسکیں۔
پولیس نے مقدمہ نمبر510/14 (پولیس مدعی) میں پہلی والی JIT کے مطابق پولیس نے ریکارڈ میں تبدیلی اور اسلحہ کی درست تفصیلات نہ دی تھیں جبکہ پہلے والی JIT جس میں دوممبران جن کا تعلق MI اور ISI کے ساتھ تھا، کہ علاوہ تمام ممبران پولیس افسران تھے۔ JIT نے اس بات کو تسلیم کیا کہ جب پولیس سے آرمز اینڈ ایمونیشن کی تفصیلات مانگی گئی کہ کتنا اسلحہ ایشو کیا گیا؟ کتنا استعمال کیا گیا؟ او ر کتنا واپس جمع کروایا گیا؟ تو پولیس نے فہرستیں دینے سے انکار کردیا۔ جبکہ مذکورہ بالا دوممبران (MI,ISI) نے یہاں تک کہہ دیا کہ مقدمہ نمبر 510/14 جو ہے قابل منسوخی ہے۔
عبدالروف SI انچارج ایلیٹ فورس کوپہلے والی JITنے دوران تفتیش متعددبار طلب کیا۔ دوران تفتیش اس نے تسلیم کیا کہ ایلیٹ فورس کی جانب 469SMGکے اور 59 راونڈ G3 رائفل کے فائر کیے گئے۔ بعد میں اگلی پیشی پر اس نے بتایا کہ ایس پی عبدالرحیم شیرازی نے اسکو کہا تھا کہ ریکارڈ تبدیل کردیا جائے۔
پہلے والی JITکی جانب سے CCPO لاہور کو لیٹر نمبری 449/PSSB مورخہ 30/06/14 کو بھیجا گیاجس میں تمام افسران اور جوانوں کی پوسٹنگ اور ٹیلی فون نمبرز، ایشوکردہ ہتھیاراور انکے سیریل نمبرز اور استعمال ہونے والے ایمونیشن کی تفصیل مطابق روزنامچہ ہائے، ٹیرگیس گنز اور ان کا مصرف اور اپریشن کےدوران کتنے ٹیرگیس شیل استعمال ہوئے دیگر سامان کوئی بھی جو اس اپریشن کے دوران کم یا ناکارہ ہوا کی تفصیل JITکو بہم پہنچائی جائے جسکی مکمل تفصیل آج تک نہ پہنچائی گئی ہے۔
اس سانحہ کے منصوبہ سازوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے اور اصل حقائق کو منظر عام پر لانے کے لیے اور اصل ملزمان تک پہنچنے کے لیے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی ازسرنو انویسٹی گیشن ضروری تھی کیونکہ اس سے قبل JIT نےجوانویسٹی گیشن کی تھی وہ حقائق کے برعکس، جانبدار اور یکطرفہ کی تھی تاکہ اصل حقائق سامنے نہ آسکیں اور اصل ملزمان کو بچایا جا سکے۔
پہلی والی JITنے ملزمان سے ملکر ملی بھگت کے ساتھ غیر منصفانہ اور بے بنیاد رپورٹ تیارکروائی تھیں تاکہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے اصل ملزمان سابق وزیراعظم نوازشریف، موجودہ وزیراعظم میاں شہبازشریف، موجودہ وفاقی وزیرداخلہ رانا ثناء اللہ دیگر وزراء پولیس افسران جو بطورملزمان ایف آئی آر میں نامز دتھے۔ بددیانتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پہلی والی JITنے ان نامزد ملزمان کے خلاف کوئی کاروائی نہ کی بلکہ ان تمام ملزمان کو مقدمہ سےنکال دیاگیا۔ اور پاکستان عوامی تحریک کے 42کارکنان جن کو مورخہ 17 جون 2014 کو ہی مقدمہ 510/14 (پولیس مدعی ) میں گرفتار کیاگیا تھا۔ ان PAT کارکنان کو اپنے ہی مقدمہ نمبر 696/14 میں ملزم قراردے کر انسداد دہشت گردی عدالت میں چالان پیش کردیا گیا۔
بعدازاں ان 42 کارکنان کی اپنے ہی مقدمہ نمبر 696/14 میں ضمانتیں کروائی گئیں پاکستان عوامی تحریک کے کارکنان کاناحق چالان کرنے پر JIT کی مکمل بددیانتی سامنے آگئی۔ تو استغاثہ دائر کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا لہٰذا فوری طورپر انسداد دہشت گردی عدالت لاہور میں استغاثہ دائرکردیاگیا۔ استغاثہ کیس میں 56 زخمی وچشم دید گواہان کے بیانات مکمل ہونے کے بعد مورخہ 7فروری 2017کو انسداددہشت گردی عدالت لاہور نے سا نحہ ماڈل ٹاؤن کیس میں 241ملزمان، کانسٹیبل سے لیکر آئی جی پنجاب تک، DCOکیپٹن (ر) عثمان، TMO نشتر ٹاؤن علی عباس بخاری، ACماڈل ٹاؤن، طارق منظورچانڈیو، کو بطورملزمان طلب کرلیاتھا، لیکن 12ملزمان میاں نوازشریف، میاں شہبازشریف، رانا ثناء اللہ، ڈاکٹر توقیرشاہ ودیگران جنہوں نے اس سانحہ کی منصوبہ بندی کی تھی ان کو طلب نہ کیاتھا تو ان 12ملزمان کی حدتک لاہور ہائی کورٹ میں
Criminal Revision دائر کی تھی جو خارج ہو گئیں تھیں اس حکم کے خلاف سپریم کورٹ میں Crl.P.L.Aدائر کی ہوئی ہے جو کہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔
اسی طرح آئی جی مشتاق احمد سکھیرانے بھی ہائی کورٹ میں اپنی طلبی کو چیلنج کیاتھا وہ بھی لاہور ہائی کورٹ نے خارج کردی تھی۔ جسکی وجہ سے آئی جی مشتاق احمد سکھیراانسداددہشت گردی عدالت لاہور میں بطور ملزم پیش ہوگیا اور تمام ملزمان پر مورخہ 15اکتوبر2018کو دوبارہ فردجرم عائد ہوئی۔ جس کی وجہ سے استغاثہ کیس میں جتنابھی ٹرائل ہواتھا وہ DENOVO ہوگیا۔ ٹرائل DENOVOہونے کے بعد مستغیث کا بیان انسداددہشت گردی عدالت میں دوبارہ قلمبند ہوا ہےاور ملزمان کےوکلاء نے مستغیث پر دوبارہ جرح کرنی ہے لیکن جرح کرنے سے پہلے ملزمان کے وکیل نے سیکشن 23انسداددہشت گردی ایکٹ 1997کے تحت درخواست گزاری ہے کہ ان مقدمات میں 7ATAکا اطلاق نہیں ہوتاہے۔ اس لئے ان مقدمات میں 7ATAکو ختم کرکے ان کیسز کو سیشن کورٹ میں ٹرائل کے لئے بھیج دیاجائے۔
اسی طرح سابق DCOکیپٹن (ر) عثمان کے وکیل نے انسداددہشت گردی عدالت میں ضابطہ فوجداری کی دفعہ 265/Kکے تحت کیپٹن (ر) عثمان کی بریت کے لئے درخواست گزاری کہ کیپٹن (ر) عثمان، کے خلاف مقدمہ نہیں بنتاہے اس لئے اس کواس مقدمہ سے بری کردیاجائے۔
انسداددہشت گردی عدالت لاہور IIIنے کیپٹن(ر) عثمان، کی اس بریت کی درخواست کو مورخہ 8-4-22کو منظورکرتے ہوئے سانحہ ماڈل ٹاؤن استغاثہ کیس میں بری کردیاتھا۔ جس وجہ سے کیپٹن (ر) عثمان کی بریت کے خلاف لاہورہائی کورٹ میں اپیل دائر کردی ہے۔ جو کہ لاہور ہائی کورٹ کے ڈویثرن بنچ کے پاس زیر سماعت ہے۔
اسی طرح اب مورخہ 10-05-23کو انسداددہشت گردی عدالت نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے مرکزی ملزمان سابق آئی جی پنجاب مشتاق احمد سکھیرا، سابق ڈی آئی جی آپریشن رانا عبدالجبار، سابق ایس پی ماڈل ٹاؤن طارق عزیز، سابق TMO نشتر ٹاؤن لاہور علی عباس بخاری کو بھی استغاثہ کیس میں 265-K کے تحت بری کردیا ہے۔ اب ان ملزمان کی بریت کے خلاف بھی لاہور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کردی ہے۔
جسٹس باقر نجفی کمیشن رپورٹ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے متاثرین کو مل گئی تھی جس میں سانحہ ماڈل ٹاؤن میں قتل وغارت گری کرنے کا ذمہ دار 2014 کی پنجاب حکومت اور پنجاب پولیس کو ٹھہرایا ہوا ہے لیکن باقرنجفی کمیشن رپورٹ کے ساتھ منسلکہ دستاویزات جس میں ملزمان کے بیان حلفی، ٹیلی فون ڈیٹا ریکارڈ، حساس اداروں کی رپورٹس ودیگردستاویزات شامل ہیں وہ تمام دستاویزات جو جسٹس باقرنجفی کمیشن رپورٹ کے ساتھ منسلکہ تھیں افسو س صد افسوس کہ تمام دستاویزات سانحہ کے متاثرین کو آج تک فراہم نہ کی گئیں ہیں ان تمام منسلکہ دستاویزات کے حصو ل کے لئے 2018 سے لاہور ہائی کورٹ میں رٹ دائر ہوئی ہے جو کہ ابھی تک زیر سماعت ہے جسکا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔
سانحہ ماڈل ٹاؤن کے حصول انصاف کی جدوجہد کو 9سال کا عرصہ گزرجانے کے باوجود بھی قائد تحریک منہاج القرآن شیخ الاسلام ڈاکٹرمحمد طاہرالقادری کی ذاتی دلچسپی اور راہنمائی میں انسداددہشت گردی عدالت سے لیکر سپریم کورٹ تک مسلسل قانونی چارہ جوئی پوری طاقت، عزم، استقامت کے ساتھ جاری وساری ہے۔ انشاءاللہ تعالیٰ اُس وقت تک جاری رہے گی۔ جب تک سانحہ ماڈل ٹاؤن کے متاثرین، شہداء کے لواحقین کو انصاف نہیں مل جاتا اور اس سانحہ میں ملوث عناصر اپنے عبرت ناک انجام سے دوچارنہیں ہو جاتے۔