اللہ کے بعد شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء کی واحد امید شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اور تحریک منہاج القرآن کے لاکھوں جرت مند کارکنان ہیں جو سانحہ ماڈل ٹاؤن کے انصاف کے لئے شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔انصاف سے ملک اور معاشرے معتبر ہوتے ہیں اور جس معاشرے سے انصاف رخصت ہو جاتا ہے وہاں عذاب، آفات اور بلائیں آتی ہیں۔
اس ماہ ماہنامہ دختران اسلام میں 17 جون کے شہداء کے لواحقین کے جذبات اور آخری وقت میں اہل خانہ کے ساتھ گزرے لمحات قارئین تک پہنچانے کے لیے شائع کیے جارہے ہیں ۔
بسمہ امجد (شہیدہ تنزیلہ امجدکی بیٹی) کا اظہار خیال
ہمارے خاندان کی تحریک منہاج القرآن سے دیرینہ وابستگی ہے۔ میرے چچا اور ماموں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی فکر اور علم سے بہت متاثر ہیں یہی وجہ ہے کہ ہمارا زیادہ خاندان تحریک منہاج القرآن سے منسلک ہے۔
میرے والد، چچا اور ماموں نے جیسے ہی یہ خبر سنی کہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے گھر اور منہاج القرآن سیکرٹریٹ پر پولیس نے حملہ کیا ہے تو وہ فجر کے وقت ہی گھر سے روانہ ہوگئے تھے اس دن میں نے اپنی ماما کے چہرے پر پریشانی اور گہرے دکھ کے اثرات دیکھے اسی کیفیت انہوں نے ناشتہ بھی نہیں بنایا تھا۔
اس دن ماما اس قدر غم سے نڈھال تھیں کہ اپنے کپڑے بھی خود استری نہیں کرسکیں اس روز میں نے انہیں کپڑے پریس کرکے دیئے اور آنٹی نے انہیں شوز اور بیگ لاکر دیا پھر میں اور ماما تیار ہوکر نانو کے گھر آگئے۔ ماما نے جاتے ہوئے میرے بھائی علی، حسن اور بہن عائشہ کو تاکید کی کہ اکیڈمی ضرور جانا چھٹی نہ کرنا۔ ماما دروازے سے نکلتے ہوئے دوبارہ واپس آگئیں چھوٹے بہن بھائیوں کو ایک بار پھر پیار کیا ار گھر سے ہمیشہ کے لیے نکل گئیں۔ وہاں سے ہم نانو کے گھر گئے وہاں پھوپھو اور نانو تیار تھیں۔ ماما نے پانی پیا پھوپھو نے ناشتہ کے لیے کہا تو ماما نے جواباً منع کردیا۔ اس کے بعد ہم سب ماڈل ٹاؤن پہنچے۔ اس دن میری پھوپھو اور ماما بہت خوبصورت لگ رہی تھیں۔ میں نے ماما سے کہا کہ آپ ہر جگہ پرانا بیگ لے کر جاتی ہیں آج آپ نے نیا بیگ لیا ہے تو آنٹی نے کہا کہ کوئی بات نہیں پتہ نہیں آج ہمیں کتنی دیر ہوجائے۔
ماما بے شک شہادت کے ایک عظیم درجے پر فائز ہیں انہوں نے ہمت اور جواں مردی سے شہادت نوش کیا۔ مجھے یقین ہے کہ میری ماما اورپھوپھو ہمیں دیکھ رہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے بھی فرمایا ہے کہ شہید زندہ ہیں اور انہیں مردہ نہیں کہنا چاہئے اور مجھے اس بات پر فخر ہوتا ہے کہ میری والدہ شہیدہ انقلاب ہیں اور انہوں نے اس مصطفوی مشن کی خاطر جان قربان کی اور میرا یہ فخر ہمیشہ قائم رہے گا کہ میں تنزیلہ شہید کی بیٹی ہوں اور شازیہ شہید کی بھتیجی ہوں۔
شہر بانو (شہید عمر صدیق کی بہن) کا اظہار خیال
تحریک منہاج القرآن سے وابستگی بہت پرانی سے ہے۔ یہ تو علم نہیں کہ کب سے ہم اس تحریک کے ساتھ منسلک ہیں کیونکہ جب سے نے ہوش سنبھالا ہے ہم تحریک منہاج القرآن کے ساتھ منسلک ہیں۔ ہمارے والدین اور ہم بہن بھائی اس تحریک کے ساتھ بہت محبت کرتے ہیں۔ ہمارے والد محترم منہاج القرآن کے ایک کارکن بھی ہیں اور کارکن ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی ذمہ داریوں کو بھی احسن طریقے سے سرانجام دے رہے ہیں۔
بھائی کی شہادت سے پہلے کا دن بہت اچھا گزرا اس دن ہم سب بہن بھائی ایک دوسرے کے ساتھ ہنسی مذاق کررہے تھے۔ ہم لوگوں نے کبھی اتنی باتیں نہیں کی تھی جتنی اس دن کی تھی۔ سب بہت خوش تھے لیکن دوسری طرف دل میں عجیب سی اداسی بھی تھی۔ ہمارے وہم و گمان میں نہیں تھا کہ کل ہمارے بھائی ہمارے ساتھ نہیں ہوں گے۔ جس دن بھائی کی شہادت ہوئی تھی اسی رات ہمارے والد محترم مرکز میں تھے۔ والد محترم کے ساتھ بھائی بھی گئے تھے۔ صبح چھ بجے بھائی اور ابو جان آئے اور ناشتہ کیا پھر ابوجان کو کال آئی تو فوراً تیار ہونا شروع ہوگئے۔ بھائی نے ابو جی سے کہا: میں آپ کو اکیلے نہیں جانے دوں گا۔ میں بھی آپ کے ساتھ جائوں گا، امی جان نے روکنے کی بہت کوشش کی لیکن وہ نہیں رکے۔ جب ابو جان جانے لگے تو بھائی امی جان کے پاس آگئے اور ہم سب سے مل کر امی کے سامنے رک گئے اور بولے امی جان مجھے اجازت دیں۔ امی جان نے بھائی کے سر پر پیار کیا اور بھائی، ابو جی کے ساتھ چلے گئے۔ بعد میں ہمارے بڑے بھائی اور ماموں بھی چلے گئے۔ ابھی دو یا تین گھنٹے گزرے ہی تھے کہ فون آگیا کہ عمر بھائی کی شہادت ہوگئی ہے۔
عمر بھائی کی شخصیت بہت اچھی تھی ہر وقت وہ دوسروں کے کاموں میں مصروف رہتے تھے کبھی ابو جان کے ساتھ کبھی امی جان کے ساتھ کاموں میں ہاتھ بٹھاتے تھے اور ہمارے بھی سارے کام کرتے تھے۔ وہ اپنی تعلیم کے ساتھ ساتھ منہاج القرآن کی دیگر سرگرمیوں میں بھی ابوجان کے ساتھ جایا کرتے تھے ہر ایک سے پیار اور محبت کرتے تھے۔ ہر کوئی ان سے بہت خوش تھا وہ کسی سے بھی بدتمیزی نہیں کرتے تھے۔ کبھی بھی کسی کام کا انکار نہیں کرتے تھے۔ ان کو صرف ایک ہی فکر ہوتی تھی کہ انقلاب کیسے آئے گا جب بھائی کی شہادت ہوئی تو ابو جان نے کہا ’’عمر بیٹا تم مجھ سے سوال کیا کرتے تھے کہ انقلاب کیسے آئے گا تو آپ نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے ثابت کردیا اس طرح انقلاب آتا ہے۔ ہم سب کو فخر ہے کہ ہمارے بھائی نے اس عظیم مشنِ مصطفوی کے لیے شہادت دی۔
الحمداللہ جس طرح ہمارے قائد شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ایک جرأت مند اور باحوصلہ شخصیت ہیں اسی طرح ان کے کارکنان بھی پرعزم، پرجوش، حوصلہ اورصبرو ضبط والے ہیں۔ بہت سی فیملیز ایسی بھی ہیں کہ جن کے گھر کا واحد کفیل قید کر دیا گیا تھا مگر ان کے لبوں پر بھی کوئی حرف شکایت نہیں آیا۔