غریب و سادہ و رنگین ہے داستانِ حرم
نہایت اس کی حسین ابتدا ہے اسماعیل
عیدالاضحٰی کا تہوار ایک مبارک تاریخی پس منظر رکھتا ہے۔ جس کی تفصیل بقول حفیظ جالندھری کچھ یوں ہے:
بشارت خواب میں پائی کہ اٹھ ہمت کا ساماں کر
پئے خوشنودی مولیٰ اسی بیٹے کو قرباں کر
ایک رات حضرت ابراہیم خلیل اللہؑ نے خواب میں دیکھا کہ وہ اپنے عزیز از جان بیٹے کو راہ خدا میں قربان کررہے ہیں۔ حضرت ابراہیمؑ نے اپنے اس خواب کو اپنے بیٹے اسماعیلؑ سے بیان کیا اور کہا ’’بیٹا تیرا کیا خیال ہے؟‘‘ حضرت اسماعیلؑ نے عرض کیا: ’’ابا جان آپ کو جو حکم ملا ہے اس کی تعمیل کریں آپ ان شاء اللہ مجھے صابروں میں پائیں گے۔‘‘
بقول حضرت اقبالؒ
یہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتبہ کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیلؑ کو آدابِ فرزندی
حضرت ابراہیمؑ بیٹے کی اس اطاعت و فرمانبرداری پر از حد خوش ہوئے اور بیٹے کو ساتھ لے کر جنگل کی طرف چل پڑے جہاں پہنچ کر حضرت ابراہیمؑ نے اپنے پیارے بیٹے کو ذبح کرنے کے لیے زمین پر لٹادیا۔ حضرت اسماعیلؑ نے صبر و رضا کی منزل پر فائض ہوتے ہوئے عرض کیا: ’’ابا جان آپ میرے ہاتھ پاؤں رسی سے باندھ لیں اور اپنی آنکھوں پر بھی پٹی باندھ لیجئے۔ کہیں آپ کو رحم نہ آجائے۔‘‘
بقول حفیظ جالندھری:
غرض دنبہ ہوا قربان اسماعیل کے صدقے
ہوئی یہ سنت اس ایمان کی تکمیل کے صدقے
اللہ تعالیٰ نے اپنے کرم سے حضرت اسماعیلؑ کی جگہ ایک دنبہ کی قربانی کا فیصلہ فرمادیا اور حضرت ابراہیمؑ کی اطاعت و فرمانبرداری کو بھی قبول کرلیا۔ اور یہی وہ قربانی ہے جو بارگاہِ الہٰی میں ایسی مقبول ہوئی کہ بطو ر یادگار ہمیشہ کے لیے ملت ابراہیمی کا شعار قرار پائے اور آج بھی ذوالحجہ کی دسویں تاریخ کو تمام عالم اسلام اس ذبح عظیم کی یاد تازہ کرتا ہے۔
سرورِ کونین محمد مصطفیﷺکا ارشاد پاک ہے:
’’اللہ کے نزدیک قربانی کے دن قربانی کا خون بہانے سے زیادہ پسندیدہ کوئی عمل نہیں ہے۔ قربانی کے جانور کے ہر ہر بال کے بدلے میں ایک نیکی ملے گی۔‘‘
یہاں یہ امر خصوصاً قابلِ غور ہے کہ قربانی کی اصل روح تقویٰ ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’اللہ کو ان جانوروں کا گوشت اور خون ہرگز نہیں پہنچتا بلکہ اس کو تمہاری جانب سے تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔‘‘ (الحج)
جانور ذبح کرکے گوشت کھانا ہی اگر قربانی کا مفہوم مان لیا جائے تو اس سے بڑی غلطی اس ضمن میں اور کیا ہوگی؟ اسوہ ابراہیمی جس قربانی کا درس دیتا ہے وہ صرف جانور کی قربانی نہیں ہے یہ تو قربانی کی علامت ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’اور ہم نے ہر امت کے لیے ایک قربانی مقرر کردی ہے تاکہ وہ ان مویشی چوپایوں پر جو اللہ نے انہیں عنایت فرمائے ہیں (بوقتِ ذبح) اللہ کے نام کا ذکر کریں۔‘‘ (الحج: 34)
قربانی کے جانور کو ذبح کرکے ہم اللہ رب العزت کے حضور اپنا اخلاص ثواب کی امید اور صالح نیت کو پیش کرتے ہیں۔ گویا اسلامی تعلیمات کے مطابق قربانی کا مقصد صرف اللہ کی رضا کی طلب ہو، اس کا مقصد تفاخر، ریاکاری، شہرت کی خواہش یا محض عادت نہ ہو۔ اسی طرح دیگر تمام عبادات کے ساتھ اگر اخلاص اور تقویٰ مقرون نہ ہوں و وہ اس چھلکے کی مانند ہیں جس کے اندر مغز نہ ہو اور اس کی مثال اس جسم کی مانند ہے جس کے اندر روح نہ ہو۔ یہ امر لازم و ملزوم ہے کہ جو متقی ہوگا وہ مخلص بھی ہوگا۔ اور جو مخلص ہوگا وہ تقویٰ کا پابند ہوگا۔ ایسا ممکن نہیں کہ دونوں ایک دوسرے کے بغیر پائے جائیں۔ یہی قربانی کا اصل فلسفہ ہے۔ اور اگر قربانی کرنے پر یہ اصلی و حقیقی مقصد حاصل نہ ہورہا ہو تو سمجھ جانا چاہیے کہ قربانی کا یہ عمل رائیگاں ہے۔
یعنی اخلاص نیت کے بغیر کوئی بھی عمل اللہ تعالیٰ کے ہاں قبولیت کا درجہ نہیں پاسکتا۔ اس لیے ’’قربانی‘‘ کے عمل میں بھی خلوص نیت کا ہونا ضروری ہے۔ قرآنِ مجید فرقانِ حمید میں باری تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’اے نبیؐ! کہہ دیجئے، بے شک میری نماز اور میری قربانی اور میری زندگی اور میری موت اللہ کے لیے ہے جو جہانوں کا رب ہے۔‘‘ (الانعام: 162)
اسی طرح سیدنا ابو امامہ باہلیؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا:
بلاشبہ اللہ تعالیٰ صرف وہی عمل قبول کرتا ہے جو خالص اسی کے لیے ہو اور اس سے اللہ تعالیٰ کی رضا مقصود ہو۔‘‘ (صحیح النسائی: 3140)
’’قربانی‘‘ کا یہ عمل درحقیقت اس بات کا اظہار ہے کہ اللہ کی راہ میں قربانی دینے والا بندہ خدا اپنی جان، مال، تمام پیاروں اور تمام خواہشاتِ نفسانی پر محبتِ حقیقی کو ترجیح دیتا ہے۔ گویا قربانی کا مقصد اپنے اندر ’’تقویٰ‘‘ کی صفت پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے تمام اعمال میں خلوص نیت کو بنیاد بنانا ہے۔ یعنی نیک اعمال کو انجام دیتے وقت ہمارے دلوں میں کوئی ریاکاری کا جذبہ یا بناوٹ یا دکھاوا نہ ہو اور دورِ حاضر کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم ’’ریاکاری‘‘ میں اس بری طرح جکڑے ہوئے ہیں کہ اس ریاکاری کے رویے کو دور کرنے کو تیار نہیں۔
یہی وجہ ہے کہ آج کل ’’قربانی‘‘ جیسے اہم دینی فریضے اور ’’سعادت‘‘ کو ہم نے اسٹیٹس دکھانے کا ذریعہ بنالیا ہے۔ قربانی اور ایثار اور باہمی ہمدردی کا جذبہ تو کہیں ماضی میں ہی کھوگیا ہے۔ آج کے دور میں تو مہنگے سے مہنگا جانور محض اس لیے خریدا اور قربان کیا جاتا ہے کہ سوسائٹی معاشرہ میں ہماری تعریفیں ہوں۔ ہم اپنے دوست احباب اور رشتہ داروں میں افضل مرتبہ پر فائض اور امیر کبیر سمجھے جائیں اور یہ بات بھول جاتے ہیں کہ جس نے بھی اپنا نیک عمل لوگوں کے دکھانے کے لیے کیا اس کے نیک اعمال تباہ و برباد ہوجائیں گے۔ جیسا کہ نبی کریم محمد مصطفیﷺ نے فرمایا:
’’میں تم پر سب سے زیادہ جس چیز سے ڈرتا ہوں وہ ہے شرک اصغر! صحابہ کرامؓ نے عرض کیا کہ اے اللہ کے نبیؐ یہ شرک اصغر ہے کیا چیز؟ تو آپﷺ نے فرمایا کہ شرکِ اصغر ریاکاری اور دکھاوا ہے۔ (پھر آپﷺ نے فرمایا کہ سنو) کہ بروز قیامت رب العالمین یہ ارشاد فرمائے گا کہ اے لوگو دنیا کے اندر جن جن کو دکھانے کے لیے تم نیک اعمال انجام دیتے تھے آج ان کے پاس جاؤ اور جاکر دیکھو کہ کیا ان کے پاس تمہارے لیے کوئی اجرو ثواب اور بدلہ ہے۔ (مسند احمد: 23630، والسلسلۃ الصحیحۃ للالبانی: 951)
شریعت اسلامی کی رو سے قربانی کے گوشت کے تین برابر حصے کیے جاتے ہیں۔ ایک حصہ اپنے لیے، دوسرا حصہ رشتے داروں اور دوستوں کے لیے اور تیسرا حصہ مساکین کے لیے۔ اور قربانی سے جو سبق امت مسلمہ کے ہر فرد کو ملتا ہے وہ یہ ہے کہ ہم ہر طرح کے شرک و کفر سے دوری اختیار کرکے موحد بن جائیں۔ یہی وجہ ہے کہ قربانی کا جانور قربان کرتے ہوئے جو دعا پڑھی جاتی ہے اس میں یہ آیت بھی موجود ہے۔
’’قربانی‘‘ کا یہ عمل درحقیقت اس بات کا اظہار ہے کہ اللہ کی راہ میں قربانی دینے والا بندہ خدا اپنی جان، مال، تمام پیاروں اور تمام خواہشاتِ نفسانی پر محبتِ حقیقی کو ترجیح دیتا ہے۔ گویا قربانی کا مقصد اپنے اندر ’’تقویٰ‘‘ کی صفت پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے تمام اعمال میں خلوص نیت کو بنیاد بنانا ہے۔ یعنی نیک اعمال کو انجام دیتے وقت ہمارے دلوں میں کوئی ریاکاری کا جذبہ یا بناوٹ یا دکھاوا نہ ہو اور دورِ حاضر کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم ’’ریاکاری‘‘ میں اس بری طرح جکڑے ہوئے ہیں کہ اس ریاکاری کے رویے کو دور کرنے کو تیار نہیں۔
فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
’’آپ فرمادیجئے کہ یقیناً میری نماز اور میری ساری عبادتیں اورمیرا جینا اورمیرا مرنا یہ سب خالص اللہ ہی کے لیے ہے جو سارے جہان کا مالک ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں اور مجھ کو اسی کا حکم ہوا ہے اور میں سب ماننے والوں سے پہلا ہوں۔ (الانعام: 162، 163)
’’قربانی‘‘ سے ہمیں جو دوسرا سبق ملتا ہے وہ اتباعِ سنتِ رسولﷺ کا درس ہے اور نبی کریمﷺ نے امت مسلمہ کو جو تعلیم دی ہے اس کے مطابق عیدالاضحٰی کی نماز پڑھ لینے کے بعد ’’قربانی‘‘ کے جانور کو ذبح کرنے کی تلقین ہے۔ حضرت براہ بن عازبؓ بیان کرتے ہیں کہ:
میرے ماموں نے عیدالاضحٰی کی نماز پڑھنے سے پہلے ہی اپنے جانور کو ذبح کردیا تو آپﷺ نے فرمایا کہ ’’نماز سے پہلے تمہارا جانور ذبح کرنا یہ صرف گوشت ہے قربانی نہیں ہے۔ پھر آپﷺ نے ان سے فرمایا کہ سنو! ’’جس نے بقر عید کی نماز پڑھنے سے پہلے اپنے جانور کو ذبح کرلیا تو اس نے محض اپنے نفس کے لیے ہی ذبح کیا اور جس نے نماز کے بعد ذبح کیا تو اسی کی قربانی قابل قبول ہے اور ایسا کرنے والا ہی مسلمانوں کی سنت کو پائے گا۔ (صحیح بخاری: 5546، صحیح مسلم: 1961)
تو یہ امر واضح ہے کہ عیدالاضحیٰ کا بنیادی فلسفہ ہی قربانی و ایثار اور خلوص کے ساتھ راہ خدا میں متاعِ عزیز کو نچھاور کرنا ہے اور اگر عیدالاضحٰی سے قربانی کا تصور نکال دیا جائے تو پھر عیدالاضحیٰ کا مفہوم ختم ہوجاتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عید کی خوشیوں میں ہم ان گھرانوں کو ضرور یاد رکھیں کہ جو سفید پوشی کی چادر اوڑھے صبر اور رضا کی منزل پر فائض ہیں۔ اور وہ لوگ جو یتیم و مساکین سے ہمدردی ان کے سوال کیے بغیر ہی کردیتے ہیں، اللہ رب العزت کو پسند ہیں۔
اس موقع پر ہمیں چاہیے کہ ہم ان افراد کو ضرور یاد رکھیں جو سال بھر روکھی سوکھی کھاتے ہیں اور عیدالاضحیٰ کے موقع پر قربانی کا گوشت ان کے لیے نعمتِ خداوندی ثابت ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ رازق ہے اور اسے اپنے بندوں میں بھی وہ بندے پسند ہیں جو مخلوقِ خدا کو رزق پہنچانے کا شوق رکھتے ہیں۔
گویا عیدِ قربان منانے کا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کے اندر وہی روح، اسلام و ایمان کی وہی کیفیت اور خدا کے ساتھ محبت و وفاداری کی وہی شان پیدا ہو جس کا مظاہرہ حضرت ابراہیمؑ نے اپنی زندگی میں کیا ہے۔ سمجھا جائے تو ’’عیدالاضحیٰ‘‘ اک جانب اپنے تاریخی پس منظر کے سبب اسوہ ابراہیمی کی یادگار بھی ہے اور اللہ رب العزت کے دین کے مکمل ہونے کا جشن بھی۔ دوسری جانب اگر عصرِ حاضر میں نگاہ دوڑائیں تو احساس ہوتا ہے کہ امتِ مسلمہ خود اپنی ہی کوتاہیوں کے سبب مشکلات کا شکار ہے۔ جھوٹ، فریب، دکھاوا، خود غرضی جیسی منفی عادتیں اب ہماری پہچان بنتی جارہی ہیں۔