سعدیہ محمود

قبلہ اوّل مسجد اقصی، خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کے بعد مسلمانوں کا تیسرا مقدس ترین مقام ہے جو فلسطین کے دارالحکومت”القدس‘‘ جسے”بیت المقدس‘‘ بھی کہا جاتا ہے،کے مشرقی حصے میں واقع ہے۔ القدس کو یورپی زبانوں میں ”یروشلم“ کہتے ہیں۔ القدس پہاڑیوں پر آباد ہے اور انہی میں سے ایک پہاڑی کا نام ”کوہِ صیہون“ ہے جس پر ”مسجد اقصٰی“ اور ”گنبد الصخرہ“ واقع ہیں۔ یہ یروشلم کی سب سے بڑی مسجد ہے جس میں بیک وقت پانچ ہزار نمازی نماز ادا کر سکتے ہیں، جبکہ مسجد کا صحن ایک وسیع احاطے پر مشتمل ہے جو ہزاروں افراد کے اجتماع کی گنجائش رکھتا ہے۔

مسجد اقصی ایک ایسا مقدس مقام ہے جو بیک وقت مسلمانوں، یہودیوں اور عیسائیوں کے لئے بے پناہ اہمیت اور فضیلت کا حامل ہے، یہی وجہ ہے کہ یہ مقام تاریخ کے سبھی ادوار میں نمایاں اہمیت اور بہت سی جنگی مہمات کا مسبب و مرکز رہا ہے۔ اپنی اسی تاریخی اور مذہبی اہمیت کے پیشِ نظر شہر بیت المقدس مختلف ادوار میں مختلف اقوام کے زیر قبضہ رہا۔ تاہم مسجد اقصی کی تاریخ نہایت قدیم اور دلچسپ ہےاس کی تعمیر سے متعلق مختلف اقوال اور روایات مشہور ہیں۔

ایک روایت کے مطابق زمین پر سب سے پہلی مسجد، مسجد اقصی ہے لیکن قرآن و حدیث سے یہ بات درست ثابت نہیں ہوتی۔ جیساکہ قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:

اِنَّ اَوَّلَ بَیۡتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیۡ بِبَکَّۃَ مُبٰرَکًا وَّ هُدًی لِّلۡعٰلَمِیۡنَ.

بیشک سب سے پہلا گھر جو لوگوں (کی عبادت) کے لئے بنایا گیا وہی ہے جو مکہّ میں ہے، برکت والا ہے اور سارے جہان والوں کے لئے (مرکزِ) ہدایت ہے۔ اسی طرح بخاری شریف میں حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول سب سے پہلے کونسی مسجد بنی تو آپ ﷺ نے فرمایا: مسجد حرام، پھر کونسی تو فرمایا: مسجد اقصی۔ ’’أربعین سنۃ‘‘. ( بخاری، فی أحادیث الأنبیاء، حدیث: 3366)

مسجد اقصی کو عیسائیوں کے اس قبضہ سے سلطان صلاح الدین ایوبی نے آزاد کرایا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے قبلۂ اول کی آزادی کے لئے تقریبا 16 جنگیں لڑیں۔ اور بالآخر پیہم معرکہ آرائیوں کے بعد سن 1187ء میں سلطان صلاح الدین ایوبیؒ نے بیت المقدس کو صلیبیوں سے آزاد کروالیا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے مسجد کو دوبارہ اپنی پہلی حالت میں تعمیر کیا اور عیسائیوں کے تمام نشانات اور توسیع کا خاتمہ کیا۔ اس کے بعد مسجد طویل عرصہ مسلمانوں کے ماتحت رہی

اورایک روایت میں ہے کہ مسجد بیت الحرام کو ابن آدم کی پیدائش سے دو ہزار سال پہلے فرشتوں نے تعمیر کیا۔ اس قول کو مجاہدحضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ : بیت اللہ کو زمین سے دو ہزار سال قبل بنایا گیا، پھر وہیں سے زمین پھیلائی‘‘ ’’ثم دُحِیَتِ الأرضُ منه‘‘ (المستدرک : 2-85)

ان دونوں روایات کو حوالہ بناتے ہوئے امام قرطبی فرماتے ہیں کہ ان اقوال سے یہ بات ثابت ہوئی کہ سیدناابراہیم علیہ السلام بیت الحرام کے اور سیدناسلیمان علیہ السلام مسجدِ اقصیٰ کے مجدّد ہیں، نہ کہ مؤسس یعنی بنیاد رکھنے والے۔ (الانس الجلیل بتاریخ القدس والخلیل ص: 8-10)

مسجد اقصیٰ یروشلم کی سب سے بڑی مسجد ہے جس میں بیک وقت پانچ ہزار نمازی نماز ادا کر سکتے ہیں، جبکہ مسجد کا صحن ایک وسیع احاطے پر مشتمل ہے جو ہزاروں افراد کے اجتماع کی گنجائش رکھتا ہے

تاریخ میں مسجد اقصیٰ کی تعمیر کے ادوار کے بارے میں چار مختلف اقوال مقبول ہیں:

  • پہلا قول یہ ہے کہ سب سے پہلے فرشتوں نے تعمیر کی۔
  • دوسرا قول یہ ہے کہ سیدناآدم علیہ السلام نے سب سے پہلے تعمیرکی۔
  • تیسرا قول یہ ہے کہ سیدناسام بن نوح علیہ السلام سب سے پہلے تعمیر کرنے والے ہیں۔
  • اور چوتھا قول یہ ہے کہ سیدنا داؤد اور سلیمان علیہما السلام پہلے تعمیر کرنے والے ہیں۔

ان تمام روایات کو دلیل بنا کر علامہ احمد بن عبد الواحد المقدسی فرماتے ہیں کہ ان سب روایتوں سے یہ ترتیب اخذ کی جا سکتی ہے کہ مسجد اقصی کو سب سے پہلے فرشتوں نے، پھر سیدناآدم علیہ السلام نے، پھر سیدناسام بن نوح علیہ السلام نے اور پھر سیدناداؤد وسلیمان علیہما السلام نے بالترتیب تعمیر کیا ہو۔ ((الانس الجلیل بتاریخ القدس والخلیل ص:8-10) حضرت سلیمان علیہ سلام کی جنات کے ذریعے تعمیر شدہ عبادت گاہ کو ’’ہیکل سلیمان‘‘ یا ’’Solomon temple‘‘ کہا جاتا ہے جو آج بھی معروف ہے۔

سرزمین انبیاء، فلسطین میں واقع مسجد اقصی کے ساتھ انبیاء بنی اسرائیل کی خاص نسبت کی وجہ سے یہ مقام ہر دور میں اہمیت کا حامل رہا۔ اسی مذہبی لگاؤ اور مستقبل میں اس سے منسوب پیش گوئیوں کی وجہ سے یہ خطہ ہمیشہ سے تنازعات سے دو چار رہا ہے جس کی بنیادی وجہ مسجد اقصی کا قبضہ حاصل کرنا ہے۔ مسلمانوں کے ساتھ مسجد اقصی کی نسبت، تعلق اور اس کا تقدس اسی طرح ہے جیسے کہ مسجد حرام کا۔ جسکی وجہ یہ ہے کہ مسجد اقصی مسلمانوں کا قبلہ اوّل ہے اور ہجرت مدینہ کے بعد سولہ سترہ ماہ تک مسلمان اسی کی طرف رخ کر کے نماز ادا کرتے تھے تاہم آقا کریم ﷺ کی منشا پر اللہ رب العزت نے تحویل قبلہ کا حکم دیا اور مسجد حرام کو مسلمانوں کا قبلہ مقرر فرما دیا۔ اور سفر معراج میں آپ ﷺ نے اسی مقام پر تمام انبیاء کی امامت کروائی اور پھر یہاں سے عرش معلی کی طرف تشریف لے گئے۔

تاریخ اسلام میں مسجد اقصی کو سب سے پہلے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فتح کیا۔ بعثت محمدی ﷺ کے وقت یہ خطہ رومی سلطنت کی زیر قبضہ تھا جو کہ اس وقت کی طاقتور ترین سلطنت تھی تاہم آپ ﷺ نے مسجد اقصی کی فتح کے خوشخبری اسی وقت سنا دی تھی اور اس کو قرب قیامت کی ایک اہم نشانی بھی قرار دیا۔ آپ ﷺ نے اپنے زمانے میں رومی سلطنت کی فتح کے لئے ایک لشکر تشکیل فرمایا مگر اس لشکر کی روانگی سے قبل آپ ﷺ اس جہان فانی سے پردہ فرما گئے۔ اس سلسلے کوحضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جاری رکھا اور اس لشکر کو محاز پر روانہ فرمایا تاہم رومیوں کے خلاف یہ مہم طویل عرصہ جاری رہی حتی کہ 638ء حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی اور یروشلم مسلمانوں کے زیر قبضہ آگیا۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس موقع پر مسجد اقصی تشریف لائے اور صحابہ کرام کے ساتھ ملُکر مسجد کو صاف کیا اور اس کے احاطہ کے اندر جنوبی جانب نماز پڑھنے کی ایک جگہ مخصوص فرمائی۔ یہ جگہ مسجد اقصی کے احاطہ میں ایک اونچی چٹان نما جگہ جسے صخرہ کہا جاتا تھا، کی اگلی جانب بنائی گئ۔ بعد ازاں اسی جگہ پر لکڑی کی ایک مسجد تعمیر کی گئی۔ 688ء میں اموی خلیفہ عبد الملک بن مروان نے صخرہ کے اوپر ایک سنہری رنگ کا شان دار گنبد تعمیر کرایا جو 'قبۃ الصخرہ' (Dome of Rock) کے نام سے معروف ہے اور آج بھی مسجد اقصی کے احاطہ میں دیکھا جا سکتا ہے۔

مسجد اقصی عباسی دور تک مسلمانوں کے ماتحت رہی۔ مگر آپس کی خانہ جنگیوں اور سیاسی انتشار کی وجہ عباسی حکومت کمزور پڑنے لگی تو صلیبیوں نے ایک دفع پھر مسجد اقصی پر قبضہ حاصل کرنے لئے سازشیں شروع کر دی۔ اسی دوران فاطمی حکومت نے اپنے استحکام اور سلجوقیوں کے خاتمے کے لئے صلیبیوں سے مدد طلب کی اور اس کے عوض انھیں بہت سے مراعات فراہم کی جن میں ایک مسجد اقصی میں داخلے کی اجازت بھی شامل تھی۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی اور یروشلم مسلمانوں کے زیر قبضہ آگیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس موقع پر مسجد اقصی تشریف لائے اور صحابہ کرام کے ساتھ مل کر مسجد کو صاف کیا اور اس کے احاطہ کے اندر جنوبی جانب نماز پڑھنے کی ایک جگہ مخصوص فرمائی

مسلمانوں کی آپس کی خانہ جنگی اور کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے صلیبیوں نے فاطمی حکومت سے غداری کر دی اور بیت المقدس پر حملے کے لئے ایک بڑا لشکر تیار کیا جس نے ستر ہزار مسلمانوں کوشہید کیا اور بالآخر 1099ء میں دوبارہ بیت المقدس مسلمانوں سے چھین لیا۔ فتح کے بعد عیسائیوں نے مسجد اقصی میں بہت سے ردوبدل کئے۔ انہوں نے مسجد کے اندر کئی رہائشی کمرے بنا لیے جسے معبد سلیمان کا نام دے دیا۔ علاوہ ازیں مسجد کے اندر عبادت کے لئے گرجا بھی بنا لیا۔ نیز متعدد دیگر عمارتوں بھی بنائیں جو بطور جائے ضرورت اور اناج کی کوٹھیوں کے استعمال ہوتی تھیں۔

مسجد اقصی کو عیسائیوں کے اس قبضہ سے سلطان صلاح الدین ایوبی نے آزاد کرایا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے قبلۂ اول کی آزادی کے لئے تقریبا 16 جنگیں لڑیں۔ اور بالآخر پیہم معرکہ آرائیوں کے بعد سن 1187ء میں سلطان صلاح الدین ایوبیؒ نے بیت المقدس کو صلیبیوں سے آزاد کروالیا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے مسجد کو دوبارہ اپنی پہلی حالت میں تعمیر کیا اور عیسائیوں کے تمام نشانات اور توسیع کا خاتمہ کیا۔ اس کے بعد مسجد طویل عرصہ مسلمانوں کے ماتحت رہی۔ مگر دسمبر 1917 میں پہلی جنگ عظیم کے دوران انگریزوں نےفلسطین پر قبضہ کر کے یہاں یہودیوں کی آبادکاری کا اعلان کر دیا۔ یہود و انصاری کی ملی بھگت اور سازشوں سے نومبر 1947 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک فیصلہ صادر کیا جس نے ایک نئے عالمی تنازعےکو جنم دیا۔ جنرل اسمبلی نے فلسطین کو عربوں اور یہودیوں میں تقسیم کر دیا جس کا اصل مقصد ایک یہودی ریاست یعنی اسرائیل کا قیام عمل تھا۔ اسی فیصلہ کے تحت 1948 میں یہودیوں نے اسرائیل کے قیام کا اعلان کر دیا جس کے نتیجے میں عرب اور اسرائیل کے درمیان جنگ چھڑ گئی۔ اس جنگ کے نتیجے میں فلسطین کا 78 فیصد حصہ اسرائیل کے قبضے میں چلا گیا۔ تاہم مشرقی یروشلم جس میں بیت المقدس بھی شامل تھا اور غرب اردن کے علاقے اردن کے قبضے میں آ گئے۔ بعد ازاں 1967 میں ایک اور جنگ کے نتیجے میں اسرائیل نے بقیہ فلسطین پر بھی قبضہ کر لیا اور مسجد اقصی ایک دفعہ پھر یہودیوں کے زیر تسلط آگئی جو اب تک اُنہی کے زیر قبضہ ہے۔