سوال: انشورنش کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
جواب: انشورنس اور بیمہ کے تفصیلی احکامات درج ذیل ہیں:
بیمہ کا لغوی معنیٰ
بیمہ کے لئے انگریزی زبان میں Insurance (انشورنس) کا لفظ استعمال ہوتا ہے اور عربی زبان میں اس کو تامین کہا جاتا ہے۔ ان تینوں الفاظ یعنی بیمہ، انشورنس، تامین کے معنی ’’یقین دہانی‘‘ کے ہیں۔
اصطلاحی تعریف
اردو دائرہ معارف اسلامیہ کا مقالہ نگار لکھتا ہے ’’بیمہ فریقین کے درمیان ایک معاہدے کا نام ہے جس میں ایک فریق (بیمہ کمپنی) دوسرے فریق (بیمہ کرانے والا) کے نامعلوم نقصان کے واقع ہونے پر ایک مقررہ رقم ادا کرنے کا ذمہ لیتا ہے اور اس کے بدلے دوسرا فریق ایک مقررہ رقم اقساط (پریمیئم) کی شکل میں اس وقت تک ادا کرنے کا عہد کرتا ہے جب تک کہ وہ نامعلوم نقصان واقع نہ ہو جائے۔
(اردو دائرہ معارف اسلامیہ ، 14: 456 ، زیر اہتمام دانش گاہ پنجاب ، لاہور)
بیمہ کی ابتداء
بیمہ کی ابتداء 1400ء میں اٹلی کے تاجروں نے کی۔ سترہویں صدی عیسوی میں انگلستان میں بیماروں کی امداد کے لئے یہی طریقہ اختیار کیا گیا۔ اٹھارہویں صدی میں تاجروں نے اپنی انجمنیں قائم کیں اور تاجر برادری کا جو فرد کسی حادثہ کا شکار ہو جاتا اس کی مشترکہ فنڈ سے مدد کی جاتی۔ تاہم انگلستان سے متعلق قدیم ترین بحری انشورنس کی تاریخ 1547ء بتائی جاتی ہے۔
بیمہ کی اقسام
اس کی مندرجہ ذیل مشہور اقسام ہیں۔
زندگی کا بیمہ
املاک کا بیمہ
اعضاء کا بیمہ
ذمہ داریوں کا بیمہ (مثلاً بچوں کی تعلیم اور شادی وغیرہ)
قیمتی کاغذات اور اسناد کا بیمہ
بیمہ کا طریقہ کار
ایک شخص اپنی زندگی کا بیمہ کرانا چاہے تو اس کا طریق کار یہ ہے کہ بیمہ کمپنی کا ڈاکٹر اس کی حیات کا اندازہ کرتا ہے کہ یہ شخص اتنی مدت مثلاً بیس سال تک طبعی طور پر زندہ رہنے کے قابل ہے۔ اس کے مطمئن ہونے کے بعد بیمہ کمپنی اور بیمہ دار کے درمیان ایک معاہدہ طے پاتا ہے۔ بیمہ دار جتنی رقم کا بیمہ کرانا چاہتا ہے اسے سالانہ اقساط میں تقسیم کر کے بالاقساط بیمہ کمپنی کو ادا کرتا رہتا ہے۔ ایک مقررہ مدت کے بعد وہ رقم اسے یا اس کے لواحقین کو شرائط کے تحت واپس کر دی جاتی ہیں اور اصل رقم کے ساتھ مقررہ شرح فیصد کے حساب سے کچھ مزید رقم بھی دی جاتی ہے۔ اس رقم کا نام بونس (منافع) رکھا گیا ہے۔
بیمہ علماء کی نظر میں
بیمہ زندگی اصولی طور پر نہایت مفید سکیم ہے جس سے کوئی شہری اپنا اور اپنے بچوں کا معاشی مستقبل محفوظ کر سکتا ہے۔ بس اتنی حد تک درست ہے۔ اسی پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے عام علمائے کرام نے اسے جائز قرار دیا ہے حتی کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان حنفی قادریؒ نے بھی اسے جائز قرار دیا ہے۔
(امام احمد رضا خان ، احکام شریعت: 202 ، شبیر برادرز)
لہٰذا ہم بھی اسے جائز قرار دیتے ہیں۔
مجوزین بیمہ کے دلائل اور ان کا تنقیدی جائزہ:
مجوزین بیمہ‘ بیمہ کے حق میں مندرجہ ذیل دلائل دیتے ہیں۔
اس طرح انسان کی دولت بھی محفوظ رہتی ہے اور اس میں اضافہ بھی ہوتا ہے۔
دنیا حوادث کی آماجگاہ ہے۔ حوادث کی صورت میں نقصان کی تلافی ہو سکتی ہے۔
غریب آدمی کے لئے تمام حالات میں رقم پس انداز (جمع) کرنا مشکل ہوتا ہے۔ بیمہ پالیسی کی صورت میں تھوڑی تھوڑی جمع شدہ رقم یتیموں اور بیواؤں کا سہارا بنتی ہے اور مشکل وقت میں ان کے کام آتی ہے۔
یہ خادم انسانیت نظام ہے جس کا مقصد غریبوں اور محتاجوں کی اعانت ہے۔
شریعت اسلامیہ اجتماعی زندگی میں تعاون و تکافل پر بہت زور دیتی ہے لہٰذا بیمہ تعاون و تکافل کی ایک قانونی اور منظم شکل ہے۔
انسان کے مرنے کے بعد اس کے پسماندگان کی مالی امداد ہو جاتی ہے۔
حادثاتی صورت میں انسان کے سرمایہ کا تحفظ ہوتا ہے۔
بیمہ کے موجودہ نظام کے لئے قابل عمل اصلاحی ترامیم:
بیمہ کمپنی شرکت اور مضاربت کے اصول پر اپنا سرمایہ لگائے۔ جو شخص دو یا تین قسطیں جمع کروا کر باقی اقساط جمع نہ کرے اس کی رقم واپس کر دی جائے البتہ اس سے اخراجات وضع کر لئے جائیں اور بیمہ بولڈر ایک قسط ادا کرنے کے بعد کسی مرحلہ پر فوت ہو جائے تو معاہدہ کے مطابق کمپنی پوری رقم مرنے والے کے شرعی وارثوں کو ادا کرنے کی پابند ہو جیسا کہ آج کل ہے۔
بیمہ کرانے والوں کو بیمہ کمپنی حصہ دار قرار دے اور ان کے سرمایہ کو حصص قرار دے اور ان کے حصص کا جس قدر اوسط منافع بنتا ہے وہ ان کو دے دیا جائے۔ البتہ کمپنی اپنا کمیشن مقرر کر کے اس کو وضع کر سکتی ہے۔
بیمہ کمپنیوں کو حکومت اپنی تحویل میں لے لے۔
ضروری نوٹ:
بیمہ اور انشورنس جان و زندگی کا ہو یا جائیداد و کاروبار کا، چونکہ براہ راست اس میں سود، جوا وغیرہ نہیں اور بیمہ ہولڈر کمپنی سے کوئی ایسا معاہدہ نہیں کرتا جس میں کوئی غیر شرعی صورت پیدا ہو، پس ہمارے نزدیک یہ کاروبار اصلاً مفید اور شرعاً جائز ہے۔ رہ گیا یہ معاملہ کہ یہ کمپنیاں پریمیئر کی رقوم کو کہاں انوسٹ کرتی ہیں؟ تو ظاہر ہے کہ یہ انوسٹمنٹ زراعت، تجارت، صنعت وغیرہ جائز منصوبوں میں شرعی اصولوں کے مطابق بھی ہو سکتی ہے اور سود، جوا اور فحاشی کے شعبوں میں بھی، جو حرام ہے۔ اب جائز و ناجائز کا فرق کرنا متعلقہ کمپنیوں پر ہے۔ بیمہ ہولڈرز براہ راست کسی ناجائز کام میں ملوث نہیں۔ اللہ تعالی سودی نظام کو کلیتہً ختم کرنے اور اسلامی نظام معاش اپنانے کی منزل ہمارے لئے آسان فرمائے پس ہماری قطعی رائے یہی ہے کہ بیمہ و انشورنس کی سکیم نہایت مفید اور شرعاً جائز ہے۔
حالت اضطرار میں لائف انشورنس جائز ہے:
لائف انشورنس یا زندگی کا بیمہ وغیرہ کے نام سے جتنے ادارے قائم ہیں ان کے متعلق چند گزارشات پیش ہیں۔ ہماری بینکنگ کا تقریباً تمام کاروبار سود پر چلتا ہے۔ سرکاری، نیم سرکاری یا نجی کمپنیاں، ادارے یا افراد لوگوں سے سرمایہ جمع کرتے ہیں۔ ترغیب دینے کے لئے ان کو انعام، بونس اور حادثات کی صورت میں بڑی بڑی رقوم کی ادائیگی کے وعدے، لوگوں سے سرمایہ جمع کر کے یہ بڑے تاجروں یا کارخانہ داروں کو کاروبار کے لئے زیادہ شرح سود پر وہی رقم قرض دیتے ہیں۔ وہاں سے جو سود ان کو ملتا ہے اس میں سے اپنے اخراجات بھی پورے کرتے ہیں اور باقی رقم سے کھاتے داروں کو بونس وغیرہ کے نام پر رقم ادا کر دیتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ تمام کاروبار سود کے اصول پر قائم ہے اس لئے اصلاً حرام ہے۔
کفالت عامہ اسلامی حکومت کے فرائض میں شامل ہے یعنی اسلامی حکومت کا فرض اولین ہے کہ اپنے باشندوں کی ضروریات زندگی، رہائش، خوراک، تعلیم، علاج، لباس وغیرہ پوری کرے خواہ روزگار مہیار کر کے خواہ ملازمت کی صورت میں خواہ وظیفہ دے کر جیسا کہ مغربی ممالک میں اور بعض سوشلسٹ ممالک میں یہ اصول مسلم ہے لیکن افسوس کہ اصول دینے والے اسلام کے نام لیوا یہ ذمہ داری پورے کرنے سے ناکام رہے ہیں اور مسلمان کہلانے والے حکمران اس اصول سے انکاری ہیں لہٰذا ہر آدمی سوچتا ہے کہ اولاً میں سود پر مبنی اس تمام نظام معیشت سے منہ موڑ لوں؟ اور اس کے نتیجے میں خود بھی تنگدست رہوں اور مرنے کے بعد پسماندگان کو بھی در در کی ٹھوکریں کھانے کے لئے چھوڑ جاؤں بصورت دیگر لائف انشورنس والوں کی بات مان لوں اور سودی نظام معیشت سے منسلک ہو کر جیسے تیسے ہو اپنے بچوں کے مستقبل کو محفوظ کر لوں۔ موت کا وقت مقرر ہے مگر ہمیں اس کا علم نہیں۔ یہی سوچ کر ہر انسان اپنے عیال کے لئے تحفظ کا فیصلہ کرتا ہے۔
اگر انشورنس یا دوسرے ادارے عوام سے لیا ہوا سرمایہ نفع و نقصان کی شراکت کے اسلامی اصولوں پر صنعت، تجارت اور زراعت وغیرہ کے شعبوں میں لگائیں تو اس سے منافع بھی سود کے مقابلہ میں زیادہ ہو اور رزق حلال بھی میسر ہو لیکن افسوس کہ سامراج کے ایجنٹ ہمارے حکمران خدا و رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کھلا اعلان جنگ کر کے اس سرمایہ کوسود پر لیتے اور سود پر چلاتے ہیں اور مسلمان عوام کو حرام کھلانے پر تلے بیٹھے ہیں چونکہ انشورنس ہولڈر اپنی رقم سود پر نہیں دیتے لہذا ان کے حق میں ہر طرح سے انشورنس، بیمہ وغیرہ جائز ہے۔ رہی یہ بات کہ کمپنیاں ان رقوم کو آگے سود پر چڑھاتی ہیں،اس میں دونوں امکان ہیں اولاً یہ کہ صنعت و تجارت، زراعت و دفاع پر نفع و نقصان کی شراکت کے شرعی اصولوں پر رقوم دیں یہ بلاشبہ صحیح و درست ہے یا ضرورت مندوں کو قرض حسنہ کے طور پر دیں یہ بہت اچھی اسلامی سکیم ہے مگر کمپنیاں اس پر عمل نہیں کریں گی کہ ان کے اخراجات پورے نہیں ہو سکتے۔ پس وہ مضاربہ و مشارکہ کے اصولوں کے مطابق یہ نظام کامیابی سے چلا سکتی ہیں۔ پبلک کے لئے بیمہ و انشورنس بہرحال شرعاً درست ہے۔ اگر اس کے خلاف ہماری کوئی تحریر ہو تو اس کو منسوخ سمجھا جائے۔ ہم اس سے رجوع کرتے ہیں۔ دوسری صورت یہ کہ کمپنیاں ان رقوم کو زیادہ شرح سود پر بڑے تاجروں، صنعت کاروں یا زمینداروں میں تقسیم کرتی ہیں یہ بیشک حرام ہے مگر بیمہ ہولڈرز نے تو اپنی رقوم سود پر نہیں دیں پس ان کے لئے بیمہ ہر طرح سے جائز ہے۔
المختصر آپ، اپنی، گاڑی، مکان، دوکان، فصل، کاروبار وغیرہ سب کی انشورنس کروا سکتے ہیں جائز ہے۔
لائف انشورنس کمپنی میں ملازمت کرنا:
لائف انشورنس کے جو ادارے کام کر رہے ہیں ان میں ہر عہدہ پر ملازمت کرنا جائز ہے کوئی ممانعت نہیں ہے۔ سوال: ایزی پیسہ سے ملنے والے کیش بیک کی شرعی حیثیت دلائل سے واضح کیجئے۔
کیش بیک کی دو صورتیں ہوسکتی ہیں: اگر ایزی پیسہ ایپ کے ذریعہ سے یوٹیلٹی بلز جمع کرانے، دوسرے اکاؤنٹس میں پیسے منتقل کرنے یا خرید و فروخت کرنے کی صورت میں ادا کی گئی رقم کا کچھ حصہ واپس کر دیا جائے تو یہ عمل جائز ہے۔ اس طرح واپس آئی ہوئی رقوم قبول اور استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
کیش بیک کی دوسری صورت یہ ہے کہ ایزی پیسہ کمپنی اپنے صارفین پر شرط عائد کرے کہ ایک متعین رقم معینہ مدت تک کیلئے اکاؤنٹ میں جمع کریں گے اور اس مدت کے عوض کمپنی صارفین کو کچھ رقم دے گی، یہ صورت ناجائز ہے۔ اس طرح کی شرائط کے تحت ملنے والی رقم ہو یا کوئی اور منفعت ہو، سود ہی کی شکل اور حرام ہے۔ فقہائے کرام قاعدہ کے طور پر ایک روایت نقل کرتے ہیں جس میں بیان ہے کہ
كُلُّ قَرْضٍ جَرَّ مَنْفَعَةً، فَهُوَ رِبًا.
’’ہر قرض جو منفعت کھینچے، وہ سود ہے۔‘‘
(ابن أبي شيبة، المصنف، 4: 327، الرقم: 20690، الرياض: مكتبة الرشد)
سوال: سود کی مزید تعریفات جاننے کیلئے ’سود کی جامع تعریف کیا ہے؟ قومی بچت/نیشنل سیونگ سکیم میں سرمایہ کاری کا کیا حکم ہے؟
جواب: روایتی بینکوں کی طرح قومی بچت سرٹیفکیٹ (National Savings Certificates) بھی ابتداً مخصوص نفع کی پیشکش کے ساتھ رقوم جمع کرتے تھے اور کھاتے داروں میں مخصوص مدت کیلئے رقم جمع کروانے پر طے شدہ نفع دے رہے تھے، مگر حالیہ کچھ عرصہ میں قومی بچت کے ادارے نے شریعت سے مطابقت رکھنے والی بھی کچھ اسکیمز متعارف کروائی ہیں، جن میں سے ایک سروا اسلامک ٹرم اکاؤنٹ (SITA) ہے اور دوسری سروا اسلامک سیونگ اکاؤنٹ (SISA) ہے۔ ان سکیمز کے بارے میں ابھی زیادہ معلومات نہیں دی گئیں مگر اندازہ ہے کہ ان کے کام کرنے کا طریقہ کار اُسی طرح کا ہوگا جیسے روایتی بینکوں میں نفع و نقصان شراکتی کھاتے (PLSA) کام کرتے ہیں، یعنی ادارے کو ہونے والے منافع میں سے کھاتے داروں کے نفع کی شرح طے کی جائے گی جس میں کمی و پیشی کا امکان ہوگا۔
اس لیے یہ اصول ذہن نشین کرلیں کہ کسی بھی فرد، ادارے یا بینک کو معینہ مدت کے لیے رقم دے کر اس پہ متعین (specified) اضافہ وصول کرنا شریعتِ اسلامی کی رو سے ناجائز ہے، قومی بچت سکیم یا کسی بھی سرکاری و غیرسرکاری ادارے کے ساتھ ایسا معاملہ کرنا سود ہے، جس کی مذمت قرآن و حدیث میں جابجا کی گئی ہے۔ مثلاً آپ کسی فرد، ادارے یا بینک میں ایک لاکھ (1,00000) روپے اس شرط کے ساتھ جمع کروائیں کہ وہ آپ کو ایک ماہ بعد ایک لاکھ پانچ ہزار (1,05,000) روپے دے گا یا ہر ماہ پانچ ہزار (5,000) روپے دیتا رہے لیکن اصل رقم بھی باقی رہے گی۔ اس طرح رقم پر اضافہ لینا جائز نہیں ہے۔
جائز صورت یہ ہے کہ آپ ایک لاکھ (1,00000) روپے نفع و نقصان کی شراکت کے ساتھ جمع کروائیں۔ اس صورت میں منافع زیادہ ہو تو فریقین کو فائدہ ہوتا ہے اور نقصان ہوجائے تو پھر بھی فریقین ہی برداشت کرتے ہیں یعنی کسی ایک فریق کا معاشی استحصال نہیں ہوتا۔ اسی کو مضاربہ کہتے ہیں۔ قومی بچت سکیم میں سرمایہ کاری پر ملنے والی اضافی رقم اگر پہلے سے طے شدہ تناسب پر مل رہی ہے اور اصل رقم بھی باقی ہے تو یہ جائز نہیں۔
جہاں تک تقویٰ و احتیاط کا تقاضا ہے اس میں تو سائل سرمایہ کیلئے کسی قابل بھروسہ اور لائق اعتماد شخص کو کاروبار کے لیے دے دیں تاکہ خرچ چلتا رہے، یا جائز شیئرز خرید لیں، یا کرنسی وغیرہ جیسی کسی جائز مد میں سرمایہ کاری کرلیں، یا کوئی چھوٹا موٹا ایسا کام شروع کرلیں جس میں زیادہ بھاگ دوڑ اورمحنت کی ضرورت نہ پڑتی ہو۔ ایسا نہ ہو کہ زندگی بھر جائز ملازمت کی اور حلال کما کھا کر آخر میں اپنی جمع پونجی کسی مشکوک یا سودی مد میں رکھ کر خدا کے حضور پیش ہو جائیں۔