سیدنا حضرت امیر حمزہؓ

رابعہ فاطمہ

رسول خدا احمدِ مجتبیٰ محمد مصطفیٰ ﷺ کے تمام صحابہ و اہل بیت باکمال تھے ہی لیکن کچھ خاص الخاص بھی تھے۔ جن میں سے ایک آقا کریم ﷺ کے محبوب ترین چچا حضرت حمزہ ابن عبدالمطلبؓ بھی ہیں جن کے اسلام کے حوالے سے بہت سے کارنامے ہیں۔ جن کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ ان سے بہت خاص محبت فرماتے تھے۔

اگر کسی اللہ کے ولی کے محاسن بیان کرنے ہوں تو بے شمار کتابیں بھر جائیں اور یہ تو پھر عم رسول ﷺ ہیں اور اس کے ساتھ صحابی رسول بھی ہیں۔ کہاں وہ اور کہاں ہم سے کہ ان کی منقبت کا حق ادا کرسکیں۔ اس لیے ان کے مختصراً حالات کا تذکرہ کرکے اپنی آخرت کا کچھ سامان کرلیتے ہیں۔

اسم گرامی

آپ مبارک اسم ’’حمزہ ‘‘ رضی اللہ عنہ ہے۔

کنیت

آپ کی کنیت ’’ابویعلی‘‘ اور ’’ابو عمارہ‘‘ ہے۔

لقب

آپ کے کئی ایک القابات ہیں لیکن زیادہ مشہور ’’سید الشہداء‘‘ اور دوسرا ’’اسد اللہ و اسد الرسول اللہ‘‘ ہیں۔

سلسلہ نسب اور رسول اللہ ﷺ سے تعلق

آپ کا سلسلہ نسب اس طرح ہے؛ حمزہ ابن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی۔ آقا علیہ السلام سے آپ کے کئی رشتے تھے مثلاً سب سے پہلا آپؓ آقا کریم علیہ الصلوۃ والسلام کے سگے چچا تھے۔ دوسرا رشتہ آپؓ آقا علیہ الصلوۃ والسلام کے رضاعی بھائی بھی تھے کہ آپ دونوں نے ابولہب کی آزاد کردہ لونڈی حضرت ثویبہؓ کا دودھ پیا تھا۔

تیسرا تعلق رسول اللہ ﷺ سے آپؐ کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ بنت وھب کی نسبت سے تھا کہ حضرت امیر حمزہؓ کی والدہ ہالہ بنت وھیب حضرت آمنہ کی چچا زاد بہن تھیں۔ اس نسبت سے حضرت حمزہ رسول اللہ ﷺ کے خالہ زاد بھائی بھی ہوئے۔ یوں تین تین نسبتوں سے رشتہ تھا۔ سبحان اللہ کہاں ایک غلامی کا رشتہ سعادت کی بات اور کہاں تین تین نسبتوں کو یکجا پانا اس سے بڑھ کر کیا خوش نصیبی ہوگی بھلا!

سن ولادت و رضاعت

آپؓ کے سن ولادت میں اختلاف ہے۔ بعض سیرت نگار آپؓ کو رسول اللہ ﷺ سے عمر میں دو سال بڑا بتاتے ہیں اور بعض چار سال لیکن طبقات ابن سعد میں آپ کو چار سال بڑا بتایا گیا ہے۔ اس حساب سے آپ کی ولادت 567ء بنتی ہے چونکہ رسول اللہ ﷺ کی ولادت باسعادت 571ء پر سب کا اتفاق ہے۔ امیر حمزہ کی ولادت مکہ مکرمہ میں ہوئی۔ آپ کی رضاعت قبیلہ بنی بکر میں ہوئی۔

حلیہ مبارک

حضرت حمزہؓ بہت خوبصورت اور حسین و جمیل تھے خوبصورت پیشانی، درمیانہ قد، سرخ و سفید رنگ اور چھریرا بدن تھا۔ آپ کی آواز گرجدار و بارعب تھی۔ دشمن اسلام آپ سے ہمیشہ خوفزدہ رہتا تھا۔

مشاغل

آپؓ کو بچپن سے ہی تیر اندازی، نیزہ بازی، پہلوانی اور شکار کا شوق تھا۔ جب آپ نے اسلام قبول کیا تب بھی آپ شکار سے ہی لوٹے تھے۔ اہل عرب آپ کی بہادری اور جرات مندی کی مثالیں دیا کرتے تھے۔ وہ آپ کی دلیری و شجاعت سے متاثر ہوتے تھے۔

رسول خدا احمدِ مجتبیٰ محمد مصطفیٰ ﷺ کے تمام صحابہ و اہل بیت باکمال تھے ہی لیکن کچھ خاص الخاص بھی تھے۔ جن میں سے ایک آقا کریم ﷺ کے محبوب ترین چچا حضرت حمزہ ابن عبدالمطلبؓ بھی ہیں جن کے اسلام کے حوالے سے بہت سے کارنامے ہیں۔ جن کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ ان سے بہت خاص محبت فرماتے تھے

قبولِ اسلام

ویسے تو تمام صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کو رسول اللہ ﷺ سے عشق تھا اور ان کا ہر صحابی جانثاری سے سرشار تھا لیکن حضرت امیر حمزہؓ کو رسول اللہ ﷺ سے والہانہ عشق تھا اور یہ عشق اسلام قبول کرنے سے پہلے بھی موجود تھا کیونکہ آپؓ کو آقاؑ سے ادبی مناسبت بھی تھی۔ جیسے روحوں کو آپس میں ہوتی ہے۔ سیدالشہداء کی روح رسول خدا کی روح مبارکہ سے بھی ایک ایسی ہی گہری مناسبت تھی۔ قبول اسلام ابھی کیا نہیں کہ ایک دن شکار سے لوٹے تو ابن جدعان کی لونڈی نے آپؓ کو بتایا کہ ابوجہل لعین نے رسول خدا سے بدتمیزی کی اور ساتھ آپ ﷺ کو زخمی بھی کردیا۔ آپؓ نے یہ بات سنی تو فوراً بھتیجے کی محبت نے جوش مارا اور سیدھے ابوجہل کے سر پر جاکر اس زور سے کمان ماری کے اس کا سر پھٹ گیا اور خون کا فوارا پھوٹ پڑا۔ آپؓ نے گرجدار آواز میں فرمایا:

اتشتمه و انا علی دینه.

اے ابوجہل! تیری یہ مجال کہ تو میرے بھتیجے کو گالیاں نکالے حالانکہ میں نے اس کا دین قبول کرلیا ہے۔ اگر تجھ میں اتنی ہمت ہے تو آ اور مجھے روک کر دکھا۔

وہاں پر بنو مخزوم کے لوگ آگے بڑھنے لگے تو ابوجہل مکار نے سوچا کہ ان لومڑیوں سے اس دلیر و شجاعت والے عم رسول سے مقابلہ نہ ہوپائے گا تو کہنے لگا کہ نہیں چھوڑ دو میں نے واقعی آج اس کے بھتیجے کے ساتھ دشنام طرازی کی ہے۔

آپ نے بری مجلس میں قبول اسلام کا اعلان کردیا جب گھر پہنچے تو پریشان ہوگئے پھر درِ رسول ﷺ پر حاضر ہوئے اور عرض کی یہ دلی تنگی دور فرمادیں۔ اپنے دین کی تعلیمات مجھے بتائیں تاکہ میں فیصلہ کرسکوں تو رسول اللہ ﷺ نے جب محبت کے پھول نچھاور فرمائے تو فوراً اسلام قبول کرلیا تاکہ کہیں دیر نہ ہوجائے۔

ان کی طبیعت میں شروع سے بے فکرہ پن تھا بس اپنے مشاغل میں مشغول رہتے حالانکہ انہیں معلوم تھا کہ ایسا کوئی دعویٰ محمد مصطفی ﷺ نے فرمایا ہے۔ لیکن آپ نے زیادہ توجہ نہ دی بس دل ان سے شروع ہی سے جوڑا ہوا تھا کیونکہ روحِ رسول ﷺ سے نسبت تھی محبت تھی، والہانہ عشق تھا کہ آپ نے حضرت عمر فاروقؓ سے چند دن پہلے اسلام قبول کیا تھا۔

آپ کے قبول اسلام سے کفر پر ہیبت و دبدبہ طاری ہوگیا۔ قبول اسلام پر لشکر خداوندی کے طور پر اشعار بھی کہے جن میں سے ایک یہ ہے:

حمدت الله حین ھدی فوادی
الی الاسلام والدین الحنیف

میں اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کرتا ہوں جب اس نے میرے دل کو ہدایت دی۔ اسلام قبول کرنے کے لیے جو کہ دین حنیف ہے۔

آپؓ نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ شعب ابی طالب میں تین سال محصوری بھی برداشت کی۔ پھر جب اذنِ ہجرت ملا تو مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت فرمائی مواخات کے لیے رسول اللہ ﷺ نے آپ کو اپنے جان نثار اور آزاد کردہ غلام حضرت زید بن حارثہؓ کا بھائی بنایا۔ آپ جب بھی مدینہ منورہ سے باہر جاتے تو حضرت زیدؓ کو وصیت کرکے جاتے۔

غزوات و سرایا میں شرکت

سیدنا امیر حمزہؓ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ لشکر اسلام کے سب سے پہلے امیر لشکر بھی ہیں۔ ہجرت کے چھ سات ماہ کے بعد رسول اللہ ﷺ نے قریش مکہ کے تجارتی قافلے پر چھاپہ مارنے کے لیے یہ لشکر روانہ کیا تھا۔ اس لشکر کی قیادت حضرت امیر حمزہؓ نے کی تھی۔ یہ لشکر کفارمکہ سے ٹکرایا ضرور تھا لیکن جنگ نہیں ہوئی تھی۔ قبیلہ جہنیہ کے سردار نے بیچ بچاؤ کروایا تھا۔

اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے سال کے بعد یعنی صفر کے مہینے میں ایک لشکر کی قیادت کی جس کا مقصد قریش مکہ کے تجارتی قافلے پر چھاپہ مارنا ہی تھا۔ اس لشکر کا علم حضرت حمزہ کے سپرد تھا اس لشکر کا بھی کفار مکہ سے سامنا نہیں ہوا تھا۔ اس غزوہ کا نام غزوہ ابواء اور غزوہ ودان دو نام ہیں۔

آقا کریم ﷺ کو معلوم ہوا کہ کفار مکہ کا ایک بہت بڑا تجارتی قافلہ شام جارہا ہے۔ آپ نے ڈیڑھ سو مہاجرین کے ساتھ چھاپہ مارنا تھا کیونکہ کفار مکہ مدینہ طیبہ پر حملے کی تیاری کررہے تھے۔ اس کے لیے انہیں سرمایہ درکار تھا اس لشکر کے علمبردار بھی حضرت حمزہ تھے اس غزوہ کا نام ذی العشیرہ تھا۔

غزوہ بدر جسے ’’یوم الفرقان‘‘ بھی کہا جاتا ہے میں حضرت حمزہؓ نے ایسے دادِ شجاعت وصول کی کہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں اسداللہ واسدالرسول اللہ کا لقب عطا فرمایا۔

کفارمکہ نے خود اعتراف کیا کہ اس جنگ میں حضرت حمزہؓ نے سب سے زیادہ نقصان پہنچایا۔ اسی شجاعت و بہادری کو دیکھتے ہوئے امام احمد رضاؒ لکھتے ہیں:

ان کے آگے وہ حمزہ کی جانبازیاں
شیر غران سطوت پہ لاکھوں سلام

آپ جس طرف بھی جاتے کفار کے ٹکڑئے ٹکڑے کردیتے۔ آپ دونوں ہاتھوں سے تلوار چلاتے تھے۔ اس غزوہ کا پہلا مقتول اسود مخزومی تھا جو کہ سیدنا حمزہؓ کے ہاتھوں واصل جہنم ہوا۔ غزوہ بنو قینقاع ہجرت کے 20 ماہ بعد ماہ شوال میں پیش آیا یہ یہودیوں کے ساتھ پہلا معرکہ تھا۔ اس لشکر کے علمبردار بھی سیدنا امیر حمزہؓ تھے۔

غزوہ احد میں شہادت

ہجرت کے تیسرے سال شوال میں کفارمکہ نے بھرپور تیاری کے ساتھ مدینہ منورہ پر چڑھائی کردی وہ غزوہ بدر میں شکست کا بدلہ لینا چاہتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے بھی اپنا لشکر تیار کیا اور دفاع کے لیے میدان میں اترے۔ اس جنگ میں حضرت حمزہؓ نے بھی شجاعت اور جراتمندی سے کفار کا مقابلہ کیا۔

جنگ بدر میں جن قریش مکہ کو حضرت حمزہؓ نے قتل کیا تھا ان کے گھروں کی عورتوں کو وہ انتقام کی آگ میں جل رہی تھیں ان میں سے ایک ابوسفیان کی بیوی ہندہ بھی تھی جس کے باپ اور جبیر بن مطعم کے چچا بھی قتل ہوئے تھے۔ جنہیں حضرت حمزہؓ نے واصل جہنم کیا تھا۔ وہ اس چیز کا بدلہ چاہتے تھے اس بنا پر ہندہ اور جبیر بن مطعم نے وحشی کو دولت اور آزادی کا لالچ دے کر قتل پر آمادہ کروالیا جس وقت حضرت حمزہؓ کی تلوار سے سباع بن عبدالعزی کا سر کاٹا اس وقت وحشی نے چھپ کر زہر میں بجھے ہوئے نیزے سے آپ پر پیچھے سے وار کیا جس کی وجہ سے آپ کی شہادت ہوگئی۔ ہندہ کو پتہ چلا تو اس نے آپ کا جگر نکال کر چبایا لیکن نگل نہ سکی پھر آپ کے جسم مبارک کی بے حرمتی کی۔ آپ کے اعضاء کو کاٹ کر گلے کا ہار بناکر پہنا جب رسول اللہ ﷺ کو آپ کی شہادت کا پتہ چلا آپ بے حد رنجیدہ ہوئے۔ آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے یہاں تک کہ ہچکی بندھ گئی۔

آپ ﷺ کو جس قدر دکھ اور تکلیف ہوئی اس سے حضرت حمزہؓ سے رسول اللہ ﷺ کی صحبت واضح ہوجاتی ہے۔ آپ ﷺ نے پہلے اکیلے حضرت حمزہ کی نمازجنازہ پڑھائی پھر ہر صحابی کے ساتھ بار بار نماز جنازہ پڑھاتے رہے۔ یوں ستر مرتبہ نماز جنازہ پڑھائی گئی۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

سیدالشهداء حمزه بن عبدالمطلب.

یعنی حمزہ شہیدوں کے سردار ہیں۔

رسول اللہ ﷺ خود بھی آپ کی قبر پر تشریف لے جاتے اور سیدہ کائنات حضرت فاطمۃ الزہراہؓ بھی اکثر تشریف لاتیں فاتحہ کے لیے اور قبر مبارکہ کی مٹی درست فرماتیں۔ فتح مکہ کے بعد جب حضرت وحشی نے اسلام قبول کرلیا تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں قبول کرلیا لیکن فرمایا میرے سامنے نہ آیا کرو یعنی آپ کو اپنے پیارے چچا جان یاد آتے۔ حضرت عمر فاروقؓ فرماتے ہیں کہ وحشی پر اس قدر شراب کی حد لگائی جاتی رہی کہ انہیں دیوان سے بھی نکال دیا گیا۔ حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے قاتل حمزہ پر عذاب ہے کہ چین سے نہ بیٹھے بعد میں حضرت وحشیؓ نے مسلمہ کذاب کو قتل کیا تو فرمانے لگے کہ حالت کفر میں سب سے بہتر کو شہید کیا ہے اور حالت اسلام میں بدترین کو قتل کیا ہے۔