سید طاہر علاؤ الدین قادری گیلانی تحریک منہاج القرآن کے روحانی سرپرست اعلیٰ اور شیخ عبد القادر جیلانی کی اولاد سے ہیں۔ آپ کی ولادت باسعادت 11 جولائی 1933ء بمطابق 18 ربیع الاول 1352ھ کو عراق کے دارالحکومت اور انوار و تجلیات غوثِ صمدانی کے مرکز بغداد، حرم دیوان خانہ قادریہ میں ہوئی۔ حضور پیر سیدنا طاہر علاؤالدین حسنی اور حسینی سید تھے۔ آپ کا سلسلہ نسب 16 واسطوں کے بعد حضور سیدنا غوث اعظمؓ سے اور 28 واسطوں کے بعد حضور اکرم ﷺ سے جاملتا ہے جبکہ آپ کا سلسلہ طریقت 19 واسطوں کے بعد سیدنا غوث الاعظمؓ تک اور 35 واسطوں کے بعد سید دو عالم حضور نبی اکرم ﷺ سے جاملتا ہے۔
کسی سے بھی بات کرتے تو اس کی عزتِ نفس مجروح نہ ہونے دیتے۔ ہمیشہ آپ کہ کر مخاطب کرتے کبھی تو اور تم کے الفاظ استعمال نہیں کیا۔ آپ کے دل میں دین اسلام، شریعت محمدی اور ناموسِ رسالت کی بے پناہ غیرت اور حمیت موجود تھی۔ اطاعت، حق، تقویٰ، پرہیزگاری، پابندئ شریعت، اتباعِ سنت اور حق پر ثابت قدمی کے کوہ گراں تھے۔ آپ کی پوری زندگی سنت رسول ﷺ کی متابعت میں تھی۔ آپ کی پوری حیات طیبہ حق پر استقامت کی آئینہ دار تھی
آپ نے ابتدائی دینی تعلیم مسجد سلطان میں اور مدرسہ دربار غوثیہ میں تفسیر، حدیث اور فقہ کی تعلیم کے علاوہ دیگر علوم و فنون میں کمال درجہ کی مہارت حاصل کی۔ روحانی تربیت و فیض کے باب میں سیدنا طاہر علاؤالدین الگیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا پورا خاندان اور اس کے نامور مشائخ و نقباء شہرہ آفاق حیثیت کے حامل تھے اس لئے کہ فیضان کا اصل مرکز اور سرچشمہ ان کے جد امجد حضور غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ کی ذات گرامی تھا لیکن آپ رحمۃ اللہ علیہ نے سب سے پہلے کسب فیض اپنے والد ماجد حضرت سیدنا شیخ محمود حسام الدین الگیلانی رحمۃ اللہ علیہ سے کیااور انہی کے دستِ حق پرست پر بیعت کی۔ وہ نقیب الاشراف اور خاندان گیلانیہ کی سب سے عظیم اور ممتاز شخصیت تھے۔ وہ دربار غوثیہ کے متولی، نقیب الاشراف اور اپنے عہد میں خاندان گیلانیہ کی سب سے عظیم شخصیت تھے۔ انہیں ان کے والد بزرگوار قطب الاقطاب حضرت سیدنا شیخ عبدالرحمن النقیبؒ نے اپنی زندگی میں ہی نقیب الاشراف کی اہم ذمہ داری سے سرفراز کردیا تھا۔ یہی وہ ہستی ہے جسے حضور سیدنا غوث الاعظمؓ نے روحانی طور پر براہ راست اپنی خلافت سے نوازا تھا اور اس عہد کے بیشتر اولیاء کرام نے اس امر کی تصدیق کی تھی۔ پورا عالمِ اسلام آپؓ کی علمی و روحانی اور سیاسی بصیرت کا معترف تھا۔ چنانچہ انہوں نے اپنے فرزند ارجمند کی خصوصی تربیت کی اور خرقہ خلافت عطا فرمایا۔ اپنے والد گرامی کے علاوہ بھی آپؓ نے بغداد شریف کے کئی مشائخ سے اکتسابِ فیض کیا۔ حضور قدوۃ الاولیاء رحمۃ اللہ علیہ نہایت پاک سیرت، اتباع شریعت، طریقت و معرفت اور حسن خلق میں اپنی نظیر آپ رحمۃ اللہ علیہ تھے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کی ایک نگاہ فیض اثر نے لاکھوں کی تقدیریں بدل کے رکھ دیں۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کے فیوض و برکات نے جہان موتی کو زندہ کردیا۔
حضور قدوۃ الاولیاء مسلمانان پاک و ہند بالخصوص اور مسلمانان عالم کی روحانی تربیت اور سلسلہ قادریہ کی ترویج و اشاعت کے لئے سیدنا غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ کے ایما پر پاکستان تشریف لائے اور غوث صمدانی نے کشور ولایت سپرد کرتے ہوئے آپ کو حضور داتا گنج بخش علی الہجویری رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں لاہور بھیجا اور آپ مزار کے اس مقام پر چند دنوں کے لئے چلہ کش ہوئے جہاں حضرت خواجہ اجمیر رحمۃ اللہ علیہ ولایت ہند سوپنے جانے سے قبل چلہ کش ہوئے تھے۔ احاطہ مزار میں چند دن فروکش ہونے کے بعد آپ رحمۃ اللہ علیہ کی تقرری کا حکم نامہ جاری ہوا اور آپ رحمۃ اللہ علیہ کو کوئٹہ (بلوچستان) کو اپنا روحانی مستقر بنانے کا اشارہ ملا اور یہیں آپ رحمۃ اللہ علیہ نے مستقل سکونت اختیار فرمائی۔ 1967ء میں آپ کی شادی خان آف قلات میر احمد یار خان کی صاحبزادی سے ہوئی۔ آپ کے تین بیٹے سیدنا محمود محی الدین الگیلانی، سیدنا عبد القادر جمال الگیلانی، سیدنا ضیاء الدین الگیلانی ہیں۔
حضور سیدنا غوث الاعظمؓ کے روحانی حکم پر حضور قدوۃ الاولیاء 1956ء میں پاکستان تشریف لائے۔ و اقعہ یہ ہے کہ آپ کو حضور غوث صمدانیؓ نے پاکستان کی اقلیمِ ولایت سپرد کرنے کے لیے لاہور میں حضور سیدنا داتا گنج بخش علی ہجویریؓ کی خدمت میں بھیجا۔ آپ بغداد شریف سے سیدھا لاہور تشریف لائے اور چند دنوں کے لیے حضور داتا گنج بخشؓ کے مزار اقدس پر چلہ کش ہوگئے۔ یہ وہی مقام ہے جہاں حضرت خواجہ اجمیرؒ ولایتِ ہند کی تاجداری کی سپردگی کے لیے چلہ کش ہوئے تھے اور ہر زمانہ میں اکابر و اصاغر سب اولیاء کرام حاضری دیتے رہے۔ حضور قدوۃ الاولیاء کی جوانی کا زمانہ تھا۔ آپ احاطہ مزار میں چند دن خیمہ زن رہے۔ بالآخر یہاں سے تقرری کا حکم نامہ جاری ہوا اور کوئٹہ (صوبہ بلوچستان) میں سکونت اختیار کرنے کا اشارہ ملا۔ آپؓ نے کوئٹہ میں سکونت اختیار فرمائی جو بعد میں مستقل قیام میں بدل گئی۔
آپ علم کا سمندر تھے۔ علم کے بڑے قدردان تھے چونکہ آپ خود صاحب علم تھے تو علماء کی تکریم فرماتے۔ بڑے بڑے اکابر علماءآپ کی خدمت میں آتے، قدم بوسی کرتے
جس طرح اللہ رب العزت انبیاء و رسل کو علم و معرفت کے سمندروں سے نوازتا رہا ہے اسی طرح وہ اپنے اولیاء کو خصوصی علوم سے بھی نوازتا ہے۔ جسے علم لدنی کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ اسی علم کی جھلک اولیاء و صالحین کی بصیرت و فراست میں نظر آتی ہے۔ علم شریعت ولایت کا خاصہ ہوتا ہے اس کے بغیر ولایت ادھوری رہتی ہے۔ اللہ رب العزت نے سیدنا طاہر علاؤالدینؒ کو بھی اسی علم و معرفت کے خزانے سے نواز رکھا تھا۔ آپؒ مسائل پر ائمہ اربعہ کی آراء سے پوری طرح آگاہ تھے۔ اس کے علاوہ دیگر امہات کتب مثلاً تفاسیر، احادیث اور عقائد پر بھی آپ کی گہری نظر تھی۔ اسی باب میں مرید بامراد حضور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری ایک واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ
’’ایک مرتبہ حضور پیر صاحب کی بارگاہ میں حاضر تھا، اس دن کاتب موجود نہیں تھا، آپ کا چونکہ معمول تھا کہ ہر روز کی ڈاک دیکھتے اور وضاحت طلب امور کا جواب بھی دیتے۔ یہاں ایک بات یاد رہے کہ آپ خود لکھنے کی بجائے ہمیشہ املاء کرواتے تھے۔ اس دن آپ نے مجھے حکم دیا۔ ڈاک میں ایک عقیدت مند نے ’’قصیدہ روحی‘‘ کے بارے میں پوچھا تھا کہ یہ حضور غوث الاعظم کی طرف منسوب کیا جاتا ہے کیا واقعی یہ آپؓ کا اپنا کلام ہے یا کسی اور کا؟ آپ نے یہ سوال سن کر مجھ سے فرمایا: ’’پروفیسر صاحب! آپ کیا بولتا ہے‘‘؟ میں نے ادباً اپنی رائے محفوظ رکھی اور عرض کیا: حضور جو آپ حکم فرمائیں گے، میری بھی وہی رائے ہوگی۔ آپ نے حسبِ معمول سرجھکا کر تھوڑا توقف فرمایا پھر فرمانے لگے: ’’لکھ دو قصیدہ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ کا ہی ہے۔ ‘‘ ساتھ ہی آپ نے غوث الاعظمؓ کی مشہور سوانح حیات ’’بہجۃ الاسرار‘‘ کے حواشی اور تین چار کتب کے حوالے بھی لکھوادیئے۔ پھر اسی پر اکتفا نہیں فرمایا بلکہ اندر جاکر وہ کتب بھی لے آئے اور مجھے دکھا بھی دیں۔ میں آپ کے اس استحضار پر حیران رہ گیا۔‘‘
اسی طرح بے شمار مواقع پر جب بھی فقہی، کلامی یا دیگر ادق علمی مسائل پر آپؒ سے رجوع کیا جاتا، آپ اپنا مختصر، واضح اور دو ٹوک موقف سامنے رکھ دیتے۔ اس کے بعد ائمہ اربعہ کی آراء محدثین اور مفسرین کا نقطہ نظر اور دیگر ضروری تفاصیل پر گفتگو فرماتے۔ یوں لگتا جیسے آپ کے سامنے امہات الکتب کھلتی جاتی ہیں اور آپ وہاں سے دیکھ دیکھ کر اپنے موقف میں دلائل دیتے جارہے ہیں۔ دراصل اولیاء اللہ کی اکثریت کو اللہ تعالیٰ ایسے لدنی اور وہبی علوم عطا فرماتا ہے کہ ان کے سامنے علومِ ظاہری کے مجتہد اور فقیہانِ عصر تاب نہیں لاسکتے۔ عرفاء کاملین کے سامنے کتابی علوم ہاتھ باندھے کھڑے ہوتے ہیں۔ ولی وہ ہوتا ہے جس کے اوصاف و اخلاق حسین ہوتے ہیں۔
کثیر السکوت
آپ سنت رسول ﷺ پر عمل پیرا ہوتے ہوئے کثیر السکوت تھے۔ مجالس میں بیٹھتے تو زیادہ چپ رہتے اور کم بولتے۔ کثیرسکوت اور قلیل کلام آپ کی ذات میں بدرجہ اتم موجود تھا۔ لوگوں سےبات پوچھتے اور ان کو سنتے۔ آپ فقیر بھی تھے اور سلطان بھی۔
حاضرین و سامعین کے حسبِ حال کلام فرماتے
حاضرین و سامعین کے حسبِ حال، حسبِ ضرورت اور حسبِ طلب کلام فرماتے۔ اگر علماء حاضر ہوتے تو علمی کلام فرماتے۔ ان کی تشنگی کو پورا فرماتے۔ اگر فقراء، ریاضت کرنے والے یا مریدین حاضر ہوتے تو انہیں ان کے مطابق ریاضت کی تلقین فرماتے۔ اگر طالبِ علم حاضر ہوتے تو انہیں ان کی تعلیمی زندگی کے متعلق رہنمائی فرماتے۔ اگر طبیب اور حکماء حاضر ہوتے تو طب اور حکمت کے باب میں کلام فرماتے۔ اگر کوئی سمندروں کا ماہر حاضر ہوتا تو سمندروں کے متعلق کلام فرماتے۔ علمِ جغرافیہ کا ماہر حاضر ہوتا تو علمِ جغرافیہ سےمتعلق کلام فرماتے۔ اسی طرح علمِ نجوم، سیاست، بین الاقوامی امور اور دیگر علوم کا بھی یہی حال تھا۔
صداقت، راست گوئی
حق گوئی آپ کی فطرت ثانیہ تھی۔ آپ سراپا صداقت تھے۔ اگر کوئی شخص آپ کی مجلس میں غلط بیانی کرتا تو بہت غضب ناک ہوتے۔ اس قدر غضب ناک ہوتے جس کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ جھوٹ، کذب کو بالکل برداشت نہ فرماتے۔ گول مول بات بھی نہیں کرتے۔ سچ اورحق بات کھول کر بیان فرما دیتے تھے۔ اور کوئی شخص اس سے مختلف عمل کرتے تو گوارا نہ فرماتے۔
ایفائے عہد
پابندئ وقت کو بھی ایفائے عہد میں شامل فرماتے۔ جو وعدہ کرتے پورا کرتے۔ کبھی زندگی میں وعدہ خلافی نہیں کی۔ کئی بار ایسا ہوا کہ وعدہ کر لیا اور اس کے ایفاء میں تکلیف بھی در پیش ہوئی مگر وعدہ نبھایا۔
آپ کا کوئی دسترخوان بھی انواع و اقسام کے پھلوں کے بغیر نہ ہوتا۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ حضور غوث اعظم نے فرمایا ہے کہ مہمانوں کو وسعت کے ساتھ کھانا کھلانا ہماری عبادت ہے
مہمان نوازی، سخاوت اور دسترخوان کی کشادگی
آپ کا دسترخوان بادشاہ و سلاطین اور حکمرانوں سے بھی زیادہ کشادہ ہوتا۔ ہر کھانے پر بہت سے لوگ مدعو ہوتے۔ امراء و سلاطین بھی ایسا دسترخوان رکھتے تھے۔ آپ کے دسترخوان پر ایسے ایسے کھانے موجود ہوتے جو عام طور پر لوگوں نے اس کا نام بھی نہ سنا ہوتا۔ جو پکا کبھی کم نہیں ہوا بر کت ہی برکت ہوتی۔ حضور شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری ایک واقعہ نقل فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک شخص نے حضور قدوۃ الاولیاء سیدنا طاہر علاؤ الدین سے عرض کیا کہ حضور آپ نے کبھی کیویار(سمندری غذا ہے اور مچھلی، urchin، scallop کے انڈے کا نام ہے. یہ ایک نازک سمجھا جاتا ہے اور گہری بھری ہوئی یا grilling کے بعد کھایا جاتا ہے. روئی ڈش کو اومیگا 3 فیٹی ایسڈ کا ایک امیر ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ مہنگی ترین سمندری ڈشز میں سے ایک ہے)تناول فرمایا ہے ؟ آپ نے فرمایا کیا آپ کھانا چاہتے ہیں ؟ اپنے خادم کو آواز دی اور کیویار کا بڑا مرتبان میز پر رکھوا دیا۔ اور بعد ازاں مجلس کے بعد پورا ساتھ مرتبان دے کر روانہ کیا۔ یہ آپ کی سخاوت تھی کہ مہنگی سے مہنگی چیز بھی عطا کرنے پر آپ کا دل تنگ نہ ہوتا۔ آپ کا کوئی دسترخوان بھی انواع و اقسام کے پھلوں کے بغیر نہ ہوتا۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ حضور غوث اعظم نے فرمایا ہے کہ مہمانوں کو وسعت کے ساتھ کھانا کھلانا ہماری عبادت ہے۔
علم اور علماء کی قدر فرماتے
آپ علم کا سمندر تھے۔ علم کے بڑے قدردان تھے چونکہ آپ خود صاحب علم تھے تو علماء کی تکریم فرماتے۔ بڑے بڑے اکابر علماءآپ کی خدمت میں آتے، قدم بوسی کرتے۔
امراء و حکام کے دروازے پر کبھی نہ جاتے
آپ کبھی سائل نہ بنے، ہمیشہ عطا کرنے والے رہتے۔ امراءو حکام آپ کے دروازے پر سائل بن کر آتے تھے۔ امراء کی مجلسوں اور دعوتوں میں آنا جانا آپ کے معمولات میں شامل نہ تھا۔
اگر ہماری شخصیت میں ا ان کی سیرت مبارکہ کا پرتو آجائے اور ان کے اخلاق حسنہ کی جھلک آجائے تو اس سے بڑا فیض اور کوئی نہیں۔ ہمیں فیض اس شے میں مانگنا چاہیے جس نے انہیں بلند کیا
خوش اخلاقی اور حقوق العباد کی ادائیگی
آپ کا چہرہ کشادہ تھا۔ اکثر مسکراہٹ اور جمال آپ کے چہرے پر رہتا۔ آپ کے اخلاق میں بہت فراخی تھی۔ مرید سے ہم کلام ہوتے تو ایسا لگتا جیسے شفقتِ پدری بول رہی ہے۔ کسی سے بھی بات کرتے تو اس کی عزتِ نفس مجروح نہ ہونے دیتے۔ ہمیشہ آپ کہ کر مخاطب کرتے کبھی تو اور تم کے الفاظ استعمال نہیں کیا۔
آپ کے دل میں دین اسلام، شریعت محمدی اور ناموسِ رسالت کی بے پناہ غیرت اور حمیت موجود تھی۔ اطاعت، حق، تقویٰ، پرہیزگاری، پابندئ شریعت، اتباعِ سنت اور حق پر ثابت قدمی کے کوہ گراں تھے۔ آپ کی پوری زندگی سنت رسول ﷺ کی متابعت میں تھی۔ آپ کی پوری حیات طیبہ حق پر استقامت کی آئینہ دار تھی۔
ہم حضور قدوۃ الولیاء کی ذاتِ گرامی سے فیض کے طلبگار ہوتے ہیں تو اگر ہماری شخصیت میں ا ان کی سیرت مبارکہ کا پرتو آجائے اور ان کے اخلاق حسنہ کی جھلک آجائے تو اس سے بڑا فیض اور کوئی نہیں۔ ہمیں فیض اس شے میں مانگنا چاہیے جس نے انہیں بلند کیا۔ قدوۃ الاولیاء سیدنا طاہر علاؤالدین الگیلانیؒ کا پورا خاندان اور گھرانہ مشائخ ونقباء پر مشتمل تھا اسی عالی قدر خاندان سے فیض کی کرنیں عالم عرب سے نکل کر مشرق بعید، یورپ، افریقہ اور امریکہ تک پھیلیں۔ جہاں سے اب بھی دنیا بھر کے طالبانِ حق فیضان سمیٹتے ہیں اور قیامت تک اس مرکزِ انوار کی خیرات بٹتی رہے گی۔ آپ کا وصال 7 جون 1991ء کو جرمنی میں ہوا۔ آپ کا مزار منہاج یونیورسٹی اور جامع المنہاج کے قریب بغداد ٹاؤن ٹاؤن شپ لاہور میں واقع ہے۔